ایران کا اسرائیل پر حملہ

ویکی شیعہ سے
(آپریشن وعدہ صادق سے رجوع مکرر)
ایران کا اسرائیل پر حملہ
مسجد اقصیٰ میں قبۃ الصخرہ کے اوپر ایرانی ڈرون طیاروں کی تصویر
مسجد اقصیٰ میں قبۃ الصخرہ کے اوپر ایرانی ڈرون طیاروں کی تصویر
تاریخ14 اپریل سنہ 2024ء
مقاممقبوضہ فلسطین
علل و اسبابدمشق میں ایرانی سفارت خانے پر اسرائیلی حملے کا جواب
فریق 1جمہوری اسلامی ایران
فریق 2اسرائیل
فوج 1سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی و مقاومتی بلاک
فوج 2اسرائیلی فوج، امریکہ اور اردن
نقصان 1اسرائیل کی طرف سے ڈرونز اور میزائلوں کو روکنے کی لاگت کے 10 فیصد کے برابر
نقصان 2اسرائیلی ایئر بیس کو 1.08 سے 1.35 بلین ڈالر کا نقصان (ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کو روکنے کی لاگت)


ایران کا اسرائیل پر حملہ یا وعده صادق (سچا وعدہ) آپریشن جمہوری اسلامی ایران کی جانب سے دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر صیہونی حکومت کے حملے کے جواب میں ایک فوجی آپریش ہے جو 14 اپریل 2024ء کو انجام پایا۔ یہ آپریشن ایران اور اسرائیل کے درمیان پہلا براہ راست تصادم ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کا سب سے بڑا ڈرون حملہ اور ایران کی تاریخ کا سب سے بڑا میزائل حملہ ہے۔ "وعدہ صادق آپریشن" میں ایران کی جانب سے 300 سے زائد ڈرون اور میزائل فلسطینی مقبوضہ علاقوں کی طرف داغے گئے اور متعدد میزائلوں نے اسرائیل کے دفاعی نظام سے عبور کرتے ہوئے اسرائیلی فوجی اہداف کو نشانہ بنایا جن میں ناواٹیم ایئربیس بھی شامل ہے۔

مذہبی و سیاسی مختلف شخصیات نے ایران کی جانب سے کیے اس حملے کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کیے اور اس کی حمایت کی۔ شیعہ مراجع تقلید میں سے آیت اللہ مکارم شیرازی اور حسین نوری ہمدانی نے اس حملے کی مکمل حمایت کی؛ لیکن امریکہ اور کچھ یورپی ممالک نے اس کی مذمت کی۔

اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کی بنیاد پر ایران کے اس فوجی حملے کو جمہوری اسلامی ایران کا جائز حق قرار دیا۔ خطے اور دنیا میں ایران کو میزائل اور ڈرون حملہ کرنے کی طاقت کا حامل سمجھنا اور ایران کا کسی بھی خطرے کا جواب دینے کی صلاحیت کا ظاہر ہونا اس آپریشن کے اثرات اور نتائج میں شامل ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے بعض دفاعی ماہرین نے اسرائیل کے جدید فضائی دفاعی نظام کے باوجود مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کی رسائی کو ایران کی دفاعی صلاحیت اور صیہونی حکومت کی ناکامی کا مظہر قرار دیا ہے۔

وعدہ صادق آپریش کی تفصیل

"یا رسول الله" رمزیہ نعرے کے ساتھ 13 اپریل 2024ء کی رات کے آخری پہر میں ایران کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کے اندر درجنوں ڈرون طیاروں اور میزائلوں سے حملے کے ساتھ باقاعدہ طور پر آپریشن عمل میں لایا گیا۔[1] ایران اور اسرائیل کے مابین یہ پہلا براہ راست تصادم شمار ہوتا ہے۔[2]

اسرائیلی فوجی حکام کے مطابق وعدہ صادق آپریشن میں 185 ڈرون، 110 زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل اور 36 کروز میزائل اسرائیل کی جانب فائر کیے گئے، جن میں سے زیادہ تر ایران اور کچھ عراق اور یمن کی سرزمین سے فائر کیے گئے۔[3] ایران کی جانب سے ڈرونز اور میزائیلوں کی شکل میں صیہونیوں پر جوابی حملے کا اصلی ہدف صیہونی نوواٹیم ایئر بیس تھا۔[4]

یورونیوز کے مطابق اس آپریشن میں، جس میں یمن کے حوثی، عراق کی ملیشیا اور لبنان کی حزب اللہ نے ایران کا ساتھ دیا اور مدد کی؛ مقبوضہ علاقوں کے شمالی، جنوبی اور مشرقی علاقوں اور گولان کی پہاڑیوں کے زیر قبضہ حصے کو بھی نشانہ بنایا گیا۔[5]

عالمی طور پر ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر کیے جانے والے مختلف تبصروں میں "وعدہ صادق آپریشن" کو دنیا کا سب سے بڑا ڈرونز حملہ، تاریخ ایران کا سب سے بڑا میزائیل حملہ[6] اور اپنی نوعیت میں ایک بے سابقہ حملہ[7] قرار دیا جارہا ہے۔

کیا ایرانی ڈرونز طیارے نشانے پر لگے؟

خبر رساں ذرائع کے مطابق بعض ممالک جیسے امریکہ، برطانیہ[8] اور اُردن[9] نے متعدد ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کو روکنے میں اسرائیل کی مدد کی؛ تاہم موصولہ اطلاعات کے مطابق ایران کی جانب سے فائر کیے گئے متعدد میزائل اور ڈرونز نے مقبوضہ فلسطین کے مختلف علاقوں میں موجود اسرائیل کے رامون اور نوآٹیم ائیربیس کو نشانہ بنایا ہے۔[10] ایرانی حکام کے مطابق مذکوہ فوجی آپریشن میں استعمال کیے گئے ڈرونز نے 100 فیصد اپنے اہداف حاصل کر لیے کیونکہ ڈرونز طیاروں کو مطلوبہ اہداف کی تباہی کے لیے اڑائے نہیں گئے تھے بلکہ ان کو صرف اسرائیل کے دفاعی نظام کو مشغول کرنے کے لیے اڑایا گیا تھا تاکہ ان کے دفاعی نظام کو مفلوج کرنے کے ذریعے داغے گئے میزائل اپنے اہداف کو نشانہ بنا سکیں۔[11]

ایران نے اسرائیل پر کیوں حملہ کیا؟

یکم اپریل کو اسرائیل نے دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر حملہ کیا جس کے جواب میں ایران اسرائیل پر حملہ کیا۔

ایران کی جانب سے اسرائیل کے خلاف فوجی کاروائی یکم اپریل 2024ء کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کے جواب میں کی گئی،[12] ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف نے واضح طور پر کہا کہ اس آپریشن کی وجہ اسرائیل کی جانب سے ایران کی ریڈ لائن کو عبور کرنا اور دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر ان کا حملہ تھی۔[13] یاد رہے کہ دو ہفتہ قبل یعنی یکم اپریل 2024ء کو شام کے دارالحکومت دمشق میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتخانے سے متصل قونصل خانے کی عمارت کو اسرائیل نے چند میزائلوں کے ذریعے فضائی حملے کا نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں سپاه پاسداران انقلاب اسلامی قدس فورس کے بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی سمیت 7 فوجی افسر شہید ہوئے تھے۔[14] اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کی بنیاد پر ایران کی اس فوجی کاروائی کو اپنا حق [یادداشت 1] اور جائز دفاع قرار دیا۔[15] کہا جاتا ہے کہ ایران کا اسرائیل پر حملہ سفارتی طور پر اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملے کی مذمت کرنے سے ناامید ہونے اور آیندہ اس نوعیت کے حملوں کے اعادہ کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔[16]

فوجی آپریشن کا نام "وعده صادق" رکھنے کی وجہ

سپاه پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی جانب سے جاری کردہ ایک بیانیے میں اسرائیل کے خلاف اس فوجی آپریش کو "وعده صادق (سچا وعدہ) آپریشن" نام دیا گیا ہے۔ اس بیانیے میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ آپریشن اسرائیل کو دی جانے والی ایک چھوٹی سزا ہے جو ایران کی قومی سلامتی کونسل کی منظوری اور مسلح افواج کے جنرل اسٹاف کی نگرانی میں انجام پایا ہے۔ [17] اس بیانیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ "وعدہ صادق آپریشن" اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج اور وزارت دفاع کی مکمل ہماہنگی کے ساتھ انجام پایا ہے۔[18] اس حملے سے قبل ایران کے سپریم لیڈر آیت‌ اللہ خامنہ ای نے اسرائیلی رژیم کو سزا دینے[19] اور ان پر پچھتا دینے والے جوابی حملے کرنے کا[20] کا وعدہ کیا تھا۔ رہبر معظم کی آفیشل ویبسائٹ (khamenei.ir) پر شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق؛ آیت اللہ خامنہ ای نے وعدہ صادق آپریشن کے آغاز سے قبل ایک اجلاس میں ایک شعر پڑھا:

تو را است معجزه در کف زِ ساحران مهراس عصا بیفکن و از بیم اژدها مگریز

ترجمہ: تیرے ہاتھ میں معجزہ الہی ہے لہذا جادوگروں سے مت ڈرنا، عصا کو ان کے سامنے پھینک دو اور اژدھا کا خوف مت کرو۔

یہ شعر اس کلام کا مطلع ہے جسے انہوں نے حضرت موسیٰ کے جادوگروں سے مقابلے کے بارے میں لکھا تھا۔[21] اس شعر کو سورہ طہ کی آیت 68 اور 69، اسی طرح سورہ قصص کی آیت 31 کی طرف اشارہ (تلمیح، شعری اصطلاح) سمجھتے ہیں۔ یہ آیات موسیٰ کا فرعونوں کے ساتھ جہاد اور ایک خدائی معجزہ سے ان پر قابو پانے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔[22]

رد عمل

وعدہ صادق آپریشن کی حمایت میں ایران کے شہر ہمدان میں لوگ جمع ہیں(15 اپریل 2024ء)[23]

اس آپریشن کے بعد ایران کے دار الخلافہ تہران، اصفہان اور کرمان[24] اسی طرح لبنان[25] اور عراق[26]میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور خوشی منائی۔ ایران کے اس اقدام کی حمایت میں 14 اپریل کو ایران کے مختلف شہروں[27] اور دیگر ممالک[28] میں بھی لوگ اس حملے کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر "ظالم کو سزا دو" اور "یوم الانتقام" جیسے مضامین پر مشتمل ہیش ٹیگ کا ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔[حوالہ درکار]


متعدد سیاسی اور مذہبی شخصیات نے ایران کے اسرائیل پر حملے پر مثبت رد عمل ظاہر کیا؛ شیعہ مرجع تقلید آیت‌ الله مکارم شیرازی نے اس حملے کو عالم اسلام کے لیے خوشی اور ان کی سرافرازی کا باعث قرار دیا۔[29] اسی طرح آیت‌ الله نوری ہمدانی نے بھی اپنے ایک بیانیے میں وعدہ صادق آپریشن کو بر محل قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کا اعلان کیا۔[30] اہل بیت عالمی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل رضا رمضانی نے بھی اس آپریشن پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے صیہونی حکومت کی ایک بڑی شکست قرار دیا۔[31] علاوہ ازیں "ایکس سوشل نیٹ ورک" پر سلطنت عمان کے مفتی اعظم احمد بن حمد الخلیلی سے منسوب پیج پر ایران کے اس اقدام کو واقعی خوش آئند قرار دیا گیا ہے۔[32]

امریکہ اور بعض یورپی ممالک؛ جیسے برطانیہ اور جرمنی نے اسرائیل کی حمایت میں "وعدہ صادق آپریشن" کی مذمت کی ہے۔[33] اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، روس، چین اور بعض عرب ممالک نے بھی ایران اور اسرائیل سے تحمل سے کام لینے کا مطالبہ کیا۔[34]

نتائج

ایران کا خطے اور دنیا میں میزائل اور ڈرون طاقت کا حامل ہونا اور کسی بھی خطرے کا جواب دینے کی ایران کی صلاحیت کو اس آپریشن کے اثرات اور نتائج کے طور بیان کیا جارہا ہے۔[35] ایرانی دفاعیہ کے بعض ماہرین نے اسرائیل کے آئرن ڈوم، نئے امریکی اسرائیلی فضائی دفاعی نظام ڈیوڈ سلینگ اور پیگن 3 جیسے دفاعی مضبوط نظام کے باوجود فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کی رسائی کو عسکری اور فوجی نقطہ نگاہ سے ایران کی صلاحیت کا مظہر قرار دیتے ہوئے اسے صیہونی حکومت کی ناکامی اور فاش شکست قرار دیا ہے۔[36] نیز ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس حملے نے گویا صیہونیوں کے ریڈ زون کو پاؤں تلے روند دیا ہے۔[37] ایرانی بحریہ فوج کے پہلے کمانڈر حسین علائی نے ایران کا اسرائیل پر حملے کے سلسلے میں انہیں باقاعدہ طور پر سرکاری اعلان کی خبر دینے اور انہیں غافل گیر کیے بغیر حملہ کرنے کو ایران کی مزاحمتی طاقت کے بحال ہونے کی علامت قرار دیا ہے۔[38]

ایران کے اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملے کے بعد، بعض اسرائیلی حکام نے ایران کو سخت اور پچھتا دینے والا جواب دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ وعدہ اسرائیل کے سب سے بڑے حامی اور اتحادی امریکہ کے ہاں مورد حمایت واقع نہیں ہوا۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو سے فون پر بات کرتے ہوئے انہیں ایران کو حملے کا جواب دینے کے سلسلے میں خبردار کیا اور باور کرایا کہ اگر اسرائیل نے جواب دیا تو انہیں امریکا سے حمایت کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔[39] برطانوی اخبار "گارڈین" نے اسرائیل کے موجودہ اور سابق وزیر دفاع سے منسوب کرتے ہوئے رپورٹ دی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران کو براہ راست جوابی حملہ یقینی نہیں ہے اور نیتن یاہو نے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی باضابطہ فیصلہ نہیں کیا ہے۔[40] اسرائیل کے انسٹیٹیوٹ آف نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز کے محقق راز زیمیت کی اس اخبار کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کو ایران کے جواب دینے کے حوالے سے تین مسائل کا سامنا ہے: اسرائیل کی طرف سے کسی بھی ردعمل پر ایران کا سخت ردعمل، امریکی حمایت کا فقدان اور غزہ کے ساتھ جنگ میں اسرائیل کی شمولیت۔[41]

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے نمائندے نے ایران پر مزید پابندیاں لگانے اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔[42] بعض اخباری ذرائع کے مطابق امریکہ کی جانب سے ایران پر کچھ نئی پابندیاں لگایے جانے کا عزم کیا جارہا ہے۔[43]

الجزیرہ نیوز نے صیہونی حکومت کے اخبار یدیعوت اخرونوت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نے ایران کی جانب سے کیے گئے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے 1.08 سے 1.35 بلین ڈالر خرچ کیے ہیں اور ایران نے اس رقم کا تقریباً 10 فیصد خرچ کیا ہے۔[44] TRT خبر رساں ایجنسی (ترکی کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی سرکاری ویب سائٹ) کے مطابق 1.35 بلین ڈالر کا اعداد و شمار صرف ڈرونز کا مقابلہ کرنے کی لاگت ہے۔ اس میں درجنوں طیاروں کی پرواز کے اخراجات اور ایرانی میزائیلوں کا نشانہ بننے کے بعد آئے ہوئے نقصانات شامل نہیں ہیں۔[45] انگریزی اخبار گارڈین کی طرف سے شائع ہونے والے تجزیے کے مطابق اردن کو ایرانی ڈرونز کو روکنے میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کی وجہ سے مشکل صورتحال کا سامنا ہے اور اس سے ملک کے اندر اور خطے میں عوامی سطح پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئ ہے۔[46]

اسرائیل کا ایران پر حملہ

19 اپریل 2024ء کو اسرائیلی فضائیہ نے ایران میں دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔ بعض ذرائع ابلاغ نے ایران کے شہر اصفہان کے قریب کچھ دھماکوں کی آوازیں سنائی دینے کی خبریں دیں۔ خبر رساں ذرائع نے ایرانی حکام کے حوالے سے بتایا کہ یہ دھماکہ کچھ چھوٹے جہازوں کی تباہی کے باعث ہوا جنہیں ایرانی فضائی دفاعی فورسز نے مار گرایا تھا۔

متعلقہ مضمون

حوالہ جات

  1. «ده‌ها فروند پهپاد و موشک به سمت سرزمین‌های اشغالی شلیک شد»، خبرگزاری ایرنا۔
  2. «رویارویی مستقیم نظامی با اسرائیل چه تاثیری بر زندگی شهروندان عادی ایران می‌گذارد؟»، یورونیوز؛ Motamedi, "‘True Promise’: Why and how did Iran launch a historic attack on Israel?», Al Jazeera Media Network۔
  3. «نیویورک تایمز: اسرائیل در حمله ایران، با تسلیحاتی بسیار پیچیده و پیشرفته روبرو شد»،‌ خبرگزاری ایسنا۔
  4. «اولین تصاویر ماهواره از خسارت به پایگاه نواتیم در پاسخ ایران»، خبرگزاری ایسنا۔
  5. «پاسخ احتمالی تل‌آویو به تهران: آیا نیروی هوایی اسرائیل می‌تواند ایران را زمین‌گیر کند؟»، یورونیوز۔
  6. Motamedi, "‘True Promise’: Why and how did Iran launch a historic attack on Israel?», Al Jazeera Media Network۔
  7. «پاسخ احتمالی تل‌آویو به تهران: آیا نیروی هوایی اسرائیل می‌تواند ایران را زمین‌گیر کند؟»، یورونیوز۔
  8. «القوات الأمریکیة والبریطانیة اعترضت أکثر من 100 مسیرة إیرانیة قبل وصولها إلی إسرائیل»، arabic.rt۔
  9. «الأردن: اعترضنا أجساما طائرة دخلت مجالنا الجوي»، الجزیره۔
  10. «ای. بی. سی نیوز: 9 موشک ایران به 2 پایگاه اسرائیل اصابت کرد.»، خبرگزاری ایرنا۔
  11. موشک هایپرسونیک ایران به اهداف اسرائیلی اصابت کرد /سفیر سوئیس به جای وزارتخارجه به سپاه احضار شد /موشک‌های بالستیک ظرف 15 دقیقه به اسرائیل رسیدند»، خبرآنلاین۔
  12. «حمله گسترده موشکی و پهپادی ایران به اسرائیل آغاز شد»، خبرگزاری تسنیم۔
  13. «سرلشکر باقری: گنبد آهنین نتوانست مقابله قابل‌توجهی با عملیات ما داشته باشد»، شبکه العالم۔
  14. «حمله اسرائیل به کنسولگری ایران در سوریه و شهادت 7 عضو ارشد سپاه (+فیلم و عکس)»، عصر ایران۔
  15. «نمایندگی ایران با هشدار به اسرائیل: اقدام نظامی بر اساس بند 51 منشور سازمان ملل بود»، خبرگزاری ایرنا۔
  16. «حسین علایی:120 جنگنده پیشرفته برای مقابله با ایران به پرواز درآمدند اما...»، خبرگزاری خبرآنلاین۔
  17. «ده‌ها فروند پهپاد و موشک به سمت سرزمین‌های اشغالی شلیک شد»، خبرگزاری ایرنا۔
  18. «ده‌ها فروند پهپاد و موشک به سمت سرزمین‌های اشغالی شلیک شد»، خبرگزاری ایرنا۔
  19. «خطبه‌های نماز عید فطر»، سایت دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت‌الله العظمی خامنه‌ای۔
  20. «پیام در پی شهادت سرلشکر پاسدار محمدرضا زاهدی و همرزمانش»، سایت دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت‌الله العظمی خامنه‌ای۔
  21. «سروده‌ی حضرت آیت‌الله خامنه‌ای که یک بیت از آن را در آستانه عملیات وعده صادق در جلسه‌ای خواندند»، پایگاه دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت‌الله العظمی خامنه‌ای.
  22. «یادداشت تحلیلی درباره معجزه عصای حضرت موسی(ع)»، پایگاه دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت‌الله العظمی خامنه‌ای.
  23. «تصاویر / جشن مردمی همدان در پی عملیات وعده صادق»، خبرگزاری حوزه۔
  24. «حشود إيرانية تحتفي بالهجوم على إسرائيل»، الجزیره۔
  25. «لبنانی‌ها، عملیات ایران علیه رژیم صهیونیستی را جشن گرفتند»، مشرق‌نیوز۔
  26. «شادی مردم عراق در خیابان های بغداد از حملات موشکی و پهپادی ایران به اسراییل»، آپارات۔
  27. ملاحظہ کیجیے: «اجتماع حوزویان در حمایت از عملیات «وعده صادق»»، خبرگزاری حوزه؛ «تجمع دانشگاهیان در حمایت از پاسخ مقتدرانه سپاه به رژیم صهیونیستی»، خبرگزاری فارس۔
  28. ملاحظہ کیجیے: «حامیان عملیات «وعده صادق» در پاکستان به خیابان‌ آمدند»، خبرگزاری ایرنا۔
  29. «پیام حضرت آیت الله العظمی مکارم‌شیرازی(مدّظلّه العالی)»، بلیغ‌نیوز۔
  30. «پیام مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی نوری همدانی «مد ظله العالی» در حمایت از پاسخ کوبنده جمهوری اسلامی ایران و گروه های مقاومت به تجاوزات رژیم صهیونیستی»، پایگاه اطلاع‌ رسانی دفتر حضرت آیت‌الله نوری همدانی۔
  31. «آیت‌الله رمضانی: رژیم صهیونیستی غده سرطانی و تهدیدی برای دنیای بشری است/ اسرائیل اگر اشتباهی کند، پاسخ ایران سنگین‌تر خواهد بود»، خبرگزاری ابنا۔
  32. «المفتي العام لسلطنة عمان: الرد الإيراني على الكيان الصهيوني أمر يسر الخاطر حقا + صورة التغريدة»، وکالة أبنا العالمية۔
  33. «جنگ ایران و اسرائیل در نشست شورای امنیت»، یورونیوز؛ «حمله ایران به اسرائیل؛ واکنش کشورهای جهان چه بود؟»، بی‌بی‌سی فارسی۔
  34. «جنگ ایران و اسرائیل در نشست شورای امنیت»، یورونیوز؛ «حمله ایران به اسرائیل؛ واکنش کشورهای جهان چه بود؟»، بی‌بی‌سی فارسی۔
  35. «معادلات منطقه پس از وعده صادق»، روزنامه دنیای اقتصاد۔
  36. «معادلات منطقه پس از وعده صادق»، روزنامه دنیای اقتصاد۔
  37. «معادلات منطقه پس از وعده صادق»، روزنامه دنیای اقتصاد۔
  38. «حسین علایی: 120 جنگنده پیشرفته برای مقابله با ایران به پرواز درآمدند اما...»، خبرگزاری خبرآنلاین۔
  39. «پاسخ احتمالی تل‌آویو به تهران: آیا نیروی هوایی اسرائیل می‌تواند ایران را زمین‌گیر کند؟»، یورونیوز۔
  40. «How will Israel respond to Iran’s attack and could it cope with a war?», The Guardian.
  41. «How will Israel respond to Iran’s attack and could it cope with a war?», The Guardian.
  42. «جنگ ایران و اسرائیل در نشست شورای امنیت»، یورونیوز۔
  43. Shalal and Lawder, «US to hit Iran with new sanctions in "coming days", Yellen says», Reuters۔
  44. «إسرائيل أنفقت 1.5 مليار دولار في ليلة واحدة لصد الهجوم الإيراني»، الجزیره۔
  45. «آسیب اقتصادی حمله پهبادی ایران به اسرائیل، 1.35 میلیارد دلار برآورد شد»، وبگاه TRT۔
  46. «Jordan faces difficult balancing act amid row over role in downing Iranian drones»،The Guardian.

یادداشت

  1. اقوام متحدہ کے رکن کے خلاف مسلح حملے کی صورت میں، جب تک سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری کارروائی کرتی ہے، اس چارٹر کی کوئی بھی شق انفرادی یا اجتماعی خود مختاری کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔۔۔(منشور ملل متحد و اساسنامه دیوان بین‌المللی دادگستری، ص39، ماده 51.)

مآخذ