"اشعریہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>Noorkhan کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Noorkhan کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 145: | سطر 145: | ||
===عضد الدین ایجی=== | ===عضد الدین ایجی=== | ||
[[عضد الدین ایجی|عبدالرحمٰن بن احمد ایجی]] شیرازی مُلَقَّب بہ قاضی عضدالدین، سنہ 689 ہجری کو [[شیراز]] کے نواحی علاقے "ایج"، میں پیدا ہوئے اور سنہ 756 میں انتقال کرگئے۔ | [[قاضی عضد الدین ایجی|عبدالرحمٰن بن احمد ایجی]] شیرازی مُلَقَّب بہ قاضی عضدالدین، سنہ 689 ہجری کو [[شیراز]] کے نواحی علاقے "ایج"، میں پیدا ہوئے اور سنہ 756 میں انتقال کرگئے۔ | ||
ایجی بھی [[فخر رازی]] کی طرح فلسفیانہ روش رکھتے تھے لیکن وہ فخر رازی کی نسبت اشعری مذہب کے زیادہ پابند ہیں اور [[فلسفہ|فلسفے]] کو [[کلام]] پر غالب نہیں سمجھتے۔ ایجی نے اشعری کلام کو آخری شکل دی اور ان کے بعد اشعری تفکر زوال پذیر ہوا اور شرح نگاری اور حاشیہ نگاری کا دور شروع ہوا۔ ایجی کی مشہور ترین تالیف "''المواقف''" ہے۔<ref>احمد محمودصبحی، فی علم الکلام، ج2، ص357۔</ref> مواقف، اگرچہ ایک کلامی (اور اعتقادی) کتاب ہے مگر یہ مختلف النوع فلسفی اور منطقی مباحث پر بھی مشتمل ہے۔ اس کتاب پر بکثرت شروح لکھی گئی ہیں جن میں سب سے مشہور کتاب [[شریف جرجانی|سید شریف جرجانی]] کی کتاب ''شرح المواقف'' ہے۔ | ایجی بھی [[فخر رازی]] کی طرح فلسفیانہ روش رکھتے تھے لیکن وہ فخر رازی کی نسبت اشعری مذہب کے زیادہ پابند ہیں اور [[فلسفہ|فلسفے]] کو [[کلام]] پر غالب نہیں سمجھتے۔ ایجی نے اشعری کلام کو آخری شکل دی اور ان کے بعد اشعری تفکر زوال پذیر ہوا اور شرح نگاری اور حاشیہ نگاری کا دور شروع ہوا۔ ایجی کی مشہور ترین تالیف "''المواقف''" ہے۔<ref>احمد محمودصبحی، فی علم الکلام، ج2، ص357۔</ref> مواقف، اگرچہ ایک کلامی (اور اعتقادی) کتاب ہے مگر یہ مختلف النوع فلسفی اور منطقی مباحث پر بھی مشتمل ہے۔ اس کتاب پر بکثرت شروح لکھی گئی ہیں جن میں سب سے مشہور کتاب [[شریف جرجانی|سید شریف جرجانی]] کی کتاب ''شرح المواقف'' ہے۔ | ||
==پاورقی حاشیے== | ==پاورقی حاشیے== |
نسخہ بمطابق 23:09، 15 اکتوبر 2014ء
اشعریہ
اَشعریہ یا اشعریت، [Ash'arite = الأشعرية] اہل سنت کی کلامی جماعتوں میں سے ہے جو ابوالحسن علی بن اسمٰعیل اشعری (260-324ہجری قمری) کی پیرو کی بنا پر اشعریہ کہلاتی ہے۔ ابوالحسن اشعری ابتداء میں خود معتزلی تھے لیکن آخر کار معتزلیوں کی انتہاپسندانہ عقلیت پسندی نیز اہل حدیث کی انتہاپسندانہ عقل گریزی (اور عقل کی نفی) کے درمیان ایک اعتدال پسندانہ راستہ نکالنے کے لئے کا عزم کیا۔ ابوالحسن اشعری کے کام کا نتیجہ اہل حدیث کی آراء کو قبول کرنے اور ساتھ ہی ان کی ایک عقلی تشریح کی صورت میں برآمد ہوا اگرچہ وہ اہل حدیث کے بنیادی مشکلات ـ منجملہ "جبریت" ـ کا ازالہ نہ کرسکے۔
موجودہ زمانے میں اہل سنت کی اکثریت ـ کلامی مسائل میں ـ اشعری مکتب کے پیروکار ہیں۔ نامی گرامی اشعری علماء میں قاضی ابوبکر باقلانی، عبدالقاہر بغدادی، امام الحرمین جوینی، ابوحامد غزالی، فخر رازی، عضد الدین ایجی اور سعد الدین تفتازانی شامل ہیں اور ان کی اہم ترین کتابوں میں جوینی کی الشامل فی اصول الدین سید شریف جرجانی کی شرح المواقف، تفتازانی کی شرح المقاصد اور شرح العقائد النسفیہ اور فخرالدین رازی کی تفسیر کبیر شامل ہیں۔
اعتقادی اصول
اشعریوں کے اہم ترین عقائد حسب ذیل ہیں:
- اللہ کی ذات اور صفات کے درمیان عدم وحدت؛
- قضا و قدر کی عمومیت اور تمام امور بشمول انسانی افعال، کا اس کے دائر میں شامل ہونا؛
- انسان اپنے عمل کا خالق نہیں بلکہ اس کا اکتساب کرتا ہے؛
- افعال کا حسن و قبح (=اچھائی اور برائی) ان کی ذاتی نہیں بلکہ شرعی ہے؛
- خداوند متعال کو روز قیامت سر کی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے؛
- کلام خدا قدیم ہے؛
- خدا کی تمام خبری اوصاف درست ہیں بغیر اس کے کہ خدا کو مخلوقات سے تشبیہ دی جائے یا ان اوصاف کی کیفیت کا تعین کیا جائے۔
اہل سنت میں اشاعرہ کی منزلت
اہل سنت کو اعتقادی مسائل کے حوالے سے درج ذیل فرقوں میں بانٹا جاتا ہے:
- اشاعرہ، جو اہل سنت کی اکثریت کو تشکیل دیتے ہیں اور ابوالحسن علی بن اسمعیل اشعری کے پیروکار ہیں؛
- اہل حدیث، جو احمد بن حنبل (متوفٰی 241 ہجری) کے پیروکار ہیں؛
- معتزلہ، جو واصل بن عطاء (متوفٰی 131 ہجری) کے پیروکار ہیں؛
- ماتریدیہ، جو ابو منصور ماتریدی سمرقندی (متوفٰی 333 ہجری) کے پیروکار ہیں۔
قابل وضاحت ہے کہ اہل سنت کے فقہی مذاہب چار ہیں:
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ان چار فقہی مذاہب کے پیروکاروں میں کوئی بھی شخص کلامی اور اعتقادی لحاظ سے کسی بھی کلامی مذہب کا پیروکار ہوسکتا ہے۔
اشاعرہ کی فکری خصوصیات ـ جو انہیں اہل سنت کے دوسری کلامی جماعتوں سے الگ کردیتے ہیں ـ حسب ذیل ہیں:
- اللہ کی صفات زائد ہیں اس کی ذات کی نسبت؛
- انسان اپنے اختیاری افعال کی تخلیق میں کردار ادا نہیں کرتا اور صرف ان کا اکتساب کرتا ہے؛
- اچھے افعال کی اچھائی اور برے افعال کی برائی کا ان افعال کی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ان کی اچھائی اور برائی شرعی ہے؛ (یعنی کوئی فعل اپنی ذات میں اچھا ہے نہ ہی برا اور شریعت ان کی اچھائی یا برائی کا تعین کرتی ہے؛
- خداوند متعال کو قیامت کے دن آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے؛
- فاسق شخص مؤمن (مسلمان) ہے؛
- بغیر توبہ کے، گنہگار شخصیت کی مغفرت میں کوئی حرج نہیں ہے، (یعنی اگر خدا ایک گنہگار شخص کو بلا وجہ بخش دے تو اس میں کوئي عیب نہیں ہے) جس طرح کہ نیک خصال اور مؤمن شخص کو عذاب اور سزا سے دوچار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ (یعنی اگر خدا مؤمن کو عذاب میں مبتلا کرے تو یہ درست ہے!)؛
- عالم زمانی (اور وقتی) لحاظ سے حادث ہے؛
- کلام خدا قدیم ہے لیکن درحقیقت نفسی کلام ہے جو قدیم ہے نہ کہ لفظی کلام؛
- اللہ کے افعال کسی غرض و غایت کے لئے نہیں ہیں!؛
- کسی پر اگر ایسا عمل واجب کیا جائے جو اس کے بس سے خارج ہو تو اس میں کوئی عیب نہیں ہے؛ یعنی اصطلاحا "تکلیف ما لا یُطاق" جائز ہے؛
- خدا کے لئے جھوٹ بولنا یا وعدہ خلافی کرنا جائز نہیں ہے؛
- خدا کے خبری اوصاف قابل قبول ہیں (یعنی ہاتھ پاؤں اور چہرے وغیرہ کا مالک ہونا درست ہے) بغیر اس کے کہ اس کو مخلوقات سے تشبیہ دی جاسکے یا اس کے ان اوصاف کی کیفیت کا تعین کیا جاسکے۔
اشعریت کے فروغ کا تاریخی سفر
ابوالحسن اشعری کا مذہب وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیوں سے دوچار ہوا۔ ان کی آراء کو ابتداء میں علمائے اہل سنت کی طرف سے پذیرائی نہیں ملی لیکن ان کی مخالفتیں بےسود رہیں اور اشعری مکتب رفتہ رفتہ اہل سنت کے فکری حدود پر مسلط ہوا۔ ابوبکر باقلانی (متوفٰی 403 ہجری) پہلے شخص ہیں جو ابوالحسن اشعری کے بعد اٹھے۔ انھوں نے اشعری کی آراء و نظریات کو ـ جو اجمال کے ساتھ ان کی دو کتابوں "الابانہ" اور "اللمع" میں مندرج ہیں ـ مزید شرح و توضیح کے ساتھ بیان کیا اور انہیں ایک کلامی مکتب کی صورت میں منضبط کیا۔
لیکن اشعری مذہب کے فروغ میں سب سے بڑا کردار امام الحرمین جوینی (متوفٰی 478 ہجری) نے ادا کیا۔ خواجہ نظام الملک نے سنہ 459 میں بغداد کے مدرسۂ نظامیہ کی بنیاد رکھی تو جوینی کو تدریس کی دعوت دی۔ جوینی نے مجموعی طور پر 30 برس اشعری مکتب کی ترویج میں گذار دیئے [اور نظامیہ میں تدریس بھی ان تیس برسوں میں شامل ہے] اور چونکہ وہ [سرکاری طور پر] شیخ الاسلام اور امام مکہ و مدینہ بھی تھے چنانچہ ان کے نظریات کو پورے عالم اسلام میں احترام کے ساتھ پذیرائی ملی۔ جوینی کی کاوشوں کے واسطے سے مکتب اشعری کو وسیع سطح پر فروغ ملا حتی کہ سنی مکتب کے کلام کو استحکام ملا۔
جوینی نے اشعری کے افکار کو زیادہ عقلی اور استدلالی رنگ میں رنگ دیا اور فخر رازی (متوفٰی 696 ہجری) کے ظہور کے ساتھ اس مکتب کو فلسفی رنگ ڈھنگ ملا۔ فخر رازی نے مکتب اشعری کا دفاع و تحفظ کیا اور اس کو استحکام بخشا؛ ابن سینا کی فلسفی آراء کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے اصولوں میں تشکیک کردی۔ دوسری طرف سے امام محمد غزالی ـ جو جوینی کے شاگر تھے ـ ایک روحانی تحول و تبدیلی کے بموجب تصوف کی طرف مائل ہوئے اور اشعری کی آراء کی عرفانی تفسیر پیش کی۔ انھوں نے اپنی اہم کتاب "احیاء العلوم" کے ذریعے تصوف اور تسنن کے درمیان مستحکم رشتہ استوار کیا جبکہ یہ دونوں اس زمانے تک بیگانہ اور متضاد تھے۔ اشاعرہ کے درمیان مولانا روم (متوفٰی 672 ہجری) جیسی شخصیات کے ظہور کو غزالی کے تفکرات کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔[1]
سُبکی اپنی کتاب طبقات الشافعیہ[2] میں اشعری کے شاگردوں اور پیروکاروں کو پانچ طبقات میں تقسیم کرتے ہیں:
پہلا طبقہ (بلاواسطہ شاگرد):1۔ ابن مجاہد بصری، 2۔ ابوالحسن باہلی، 3۔ ابوالحسین بندار، 4۔ ابوبکر قفال شاشی۔
دوسرا طبقہ: 1۔ قاضی ابوبکر باقلانی، 2۔ ابواسحق اسفرائنی۔
تیسرا طبقہ: ابو محمد جوینی (ابوالمعالی جوینی کے والد)۔
چوتھا طبقہ چہارم: 1۔ امام الحرمین جوینی، 2۔ ابوالقاسم قشیری نیشابوری (جو مشہور صوفی تھے)۔
پانچواں طبقہ: 1۔ ابوحامد غزالی، 2۔ ابونصر بن ابی القاسم قشیری (تصوف میں مشہور رسالے کے مؤلف)۔
ابن عساکر چھٹے اور ساتویں طبقے میں فخر رازی اور کئی دیگر افراد کا ذکر کرتے ہیں جن کے نام سبکی کی فہرست میں مندرج نہیں ہوئے ہیں۔[3]
مذہب اشعری کے اکابرین
ابوالحسن اشعری، بحیثیت بانی
ابوالحسن اشعری معروف صحابی! ابو موسی اشعری کی نسل سے، اور مذہب اشعری کے بانی و مؤسس تھے جو سنہ 269 ہجری کو بصرہ میں پیدا ہوئے اور سنہ 324 ہجری میں بغداد میں انتقال کرگئے۔
وہ قبل ازاں بزرگ معتزلی عالم ابو علی جبائی کے درس میں حاضر ہوتے تھے؛ ایک دن انھوں نے اپنے استاد سے کچھ مسائل پوچھے جن پر استاد نے انہیں پاگل کہہ کر ٹال دیا۔ اشعری نے اپنے استاد کو جواب دینے میں بےبس پایا تو مکتب معتزلہ سے جدا ہوئے۔
ابن خلدون کے قول کے مطابق معتزلہ کے ساتھ خلق قرآن کے موضوع پر اختلاف ان کی جدائی کے اسباب میں سے ایک تھا۔[4] اشعری کے پیروکار اور حامی کہتے ہیں کہ انھوں نے خواب میں پیغمبر خدا(ص) کا دیدار کیا اور آپ(ص) نے انہیں نئی روش پر گامزن ہونے کی ہدایت کی چنانچہ وہ معتزلہ سے روگردان ہوئے۔[5]۔[6]
اشعری نے ایسے حالات میں اپنے مکتب کی بنیاد رکھی جب معتزلی مکتب جمود کا شکار ہوچکا تھا اور عباسی خلفاء نے انہیں مار بھگایا تھا؛ نیز معاشرے میں ان کو کوئی وسیع عوامی حمایت حاصل نہ تھی اور عوام انہیں بدگمانی کی نظر سے دیکھتے تھے کیونکہ ان کے افکار میں قرآن و حدیث سے بيگانگی اور فلسفۂ یونان کے نظری اور مکمل طور پر ذہنی مفاہیم بطور اتم دکھائی دیتے تھے۔[7]
اشعری فقہ میں (شافعی مذہب کے امام) محمد بن ادریس شافعی کے پیروکار ہیں۔[8] اشعری نے اس پس منظر کو مد نظر رکھ کر، جب فقہاء، محدثین، حشویہ اور حنابلہ کو دیکھا جو نصوص کے ظواہر پر رک کر جمود کا شکار ہوئے تھے اور متکلمین اور معتزلہ کو دیکھا جو عقل کے استعمال اور نصوص و منقولات سے بےاعتنائی میں زیادہ روی کرکے دوسری انتہا پر جمود میں مبتلا ہوچکے تھے؛ اور جب ان دو انتہاؤں پر موجود اصحاب حدیث و اصحاب اعتزال کے درمیان شدید ترین دشمنیوں کا مشاہدہ کیا؛ تو انہیں ان دو روشوں کو اکٹھا کرکے ایک درمیانہ راستہ نکالنے کی فکر لاحق ہوئی۔
اشعری کی اہم کتب:
- مقالات الاسلامیین: یہ کتاب اشعری کی اہم کتب میں سے ہے اور ملل و نحل کا ماخذ سمجھی جاتی ہے۔
- استحسان الخوض فی علم الکلام: یہ کتاب ان ظاہر پرستوں کے رد میں لکھی گئی ہے جو علم کلام اور عقلی استدلال کو حرام سمجھتے تھے۔
- الابانۃ عن اصول الدیانۃ: اس کتاب میں اشعری نقلی روش استعمال کرتے ہوئے اہل حدیث کے عقائد و آراء کی تائید کرتے ہیں؛ یہ کتاب بظاہر اشعری نے معتزلہ سے روگردانی کے آغاز میں لکھی ہے۔
- اللمع فی الرد علی اهل الزیغ والبدع: اس کتاب میں اشعری عقلی استدلال کی روش سے اپنے عقائد کے اثبات کی کوشش کرتے ہیں اور اہل حدیث کے عقائد و آراء کی طرف توجہ نہیں دیتے؛ یہ کتاب کافی شافی تدبر کے ساتھ لکھی گئی ہے اور کافی حد تک عمق اور گہرائی سے بہرہ ور ہے اور اشعری کی زندگی کے آخری برسوں میں تالیف ہوئی ہے۔
قاضی ابوبکر باقلانی
ابوبکر محمد بن طیب باقلانی بصرہ میں پیدا ہوئے اور سنہ 493ہجری میں بغداد میں وفات پاگئے۔[9] باقلانی فقہ میں مذہب مالکی کے پیرو تھے[10] اور انھوں نے علم کلام کا زیادہ تر حصہ اشعری کے دو شاگردوں مجاہد اور باہلی سے حاصل کیا۔[11]
باقلانی کا اہم کام یہ تھا کہ انھوں نے مذہب اشعری کے دلائل کو منطقی تشریح کے ساتھ بیان کیا۔ باقلانی نے عقل پر زیادہ سے زيادہ اعتماد کرکے اشعری روش کو معتزلی روش سے قریب تر کردیا۔ باقلانی کا خیال تھا کہ تمام تر اعتقادی مسائل کی گنجائش عقل میں موجود ہے اور فلسفی براہین اور منطقی قضایا دین میں داخل ہیں اور ایمانی عقائد کا اثبات عقلی دلیلوں سے ممکن ہے۔[12]
عبدالقاہر بغدادی
ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر بغدادی نے نیشابور میں ابو اسحق اسفرائنی سے علم حاصل کیا اور سنہ 479 ہجری میں اسفرائن میں انتقال کرگئے۔[13] بغدادی نے اشعری کی آراء و نظریات کو منظم کیا اور ان ہی تشریح کرکے انہیں جمہورِ اہل سنت کے عقیدے عنوان سے متعارف کرانے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنی کتاب "الفَرقُ بَینَ الفِرَقِ" میں لکھا کہ مذہب اہل سنت والجماعت ـ یعنی وہی اشعری مذہب ـ درحقیقت صحابہ اور تابعین کا مذہب ہے۔ ان کے خیال میں صحابہ میں اہل سنت کے پہلے متکلم امام علی بن ابی طالب(ع) ہیں؛ کیونکہ آنجناب نے "وعد و وعید" کے سلسلے میں خوارج کے ساتھ اور "مشیت و استطاعت" کے موضوع پر قدریہ کے ساتھ مناظرے کئے۔[14]
بغدادی کی اہم ترین تالیفات میں (1)۔ "الفَرقُ بَینَ الفِرَقِ" (2)۔ اصول الدین۔
امام الحرمین جوینی
ابو المعالی عبدالملک بن عبدالله جوینی سنہ 419ہجری کو نیشابور کے نواح میں جوین کے مقام پر پیدا ہوئے۔[15] جوینی "امام الحرمین" کے عنوان سے مشہور ہیں؛ کیونکہ خراسان میں موجود اختلافات کے نتیجے میں وہاں سے ہجرت کرکے حجاز چلے گئے اور سنہ 447 سے 451 ہجری تک مکہ اور مدینہ میں مقیم رہے۔ وہ نظام الملک کے بر سر اقتدار آنے کے بعد خراسان پلٹ کر آئے اور آخر عمر تک نیشابور کے مدرسۂ نظامیہ میں تدریس میں مصروف رہے نیز اوقاف کے سرپرست مقرر کئے گئے اور شافعیہ کی زعامت سنبھالی۔ وہ سنہ 487ہجری میں نیشابور میں ہی انتقال کرگئے۔[16]
جوینی کو اشاعرہ کے بزرگوں کے افکار کے شارح کے طور پر جانا سکتا ہے۔ ان کی اہم ترین کتب کے نام درج ذیل ہیں:
- نہایۃ المطالب فی درایۃ المذاہب (یہ ان کی اہم ترین فقہی کتاب ہے اور فقہ شافعی کے درسی متون سے ماخوذ ہے)۔
- الشامل فی اصول الدین (یہ ان کی اہم ترین کلامی کاوش ہے اور اس کی تالیفات میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔
- الارشاد الی قواطع الادلۃ فی اصول الاعتقاد۔
ابوحامد غزالی
محمد بن محمد بن احمد طوسی المعروف بہ ابو حامد غزالی سنہ 459 ہجری میں طوس میں پیدا ہوئے۔ وہ نیشابور میں امام الحرمین جوینی کے شاگرد تھے۔ سنل 484 ہجری میں نظامیۂ بغداد میں داخل ہوئے اور سنہ 488 ہجری تک وہاں تدریس میں مصروف رہے۔ انھوں نے غیر متوقعہ طور پر نظامیہ کو ترک کیا اور شام، حجاز اور بیت المقدس کا سفر کیا۔[17] لیکن سنہ 499 ہجری میں خراسان پلٹ کر آئے اور نظامیۂ نیشابور میں تدریس میں مصروف ہوئے۔ غزالی سنہ 695 ہجری میں طوس کے مقام پر انتقال کرگئے۔
غزالی نے ایک دس سال کا عرصہ روحانی بحران اور شک و تردد میں بسر کیا اور آخر کار تصوف کی طرف مائل ہوئے اور معتقد ہوئے کہ بہترین راستہ صوفیوں کا راستہ ہے۔ انھوں نے بعدازاں کتاب "احیاء علوم الدین" تالیف کی۔ غزالی عالم اسلام اور اسلامی تمدن و تہذیب کی مؤثر اور نمایاں شخصیات میں سے ایک ہیں۔
کہا گیا ہے کہ غزالی کی تالیفات و تصنیفات کی تعداد 50 تک پہنچتی ہیں جن میں سے اہم کتب درج ذیل ہیں:
- احیاء علوم الدین (یہ ان کی مشہورترین اور اہم ترین کتاب ہے)؛
- مقاصد الفلاسفہ؛
- تہافت الفلاسفہ؛
- المنقذ من الضلال؛
- کیمیای سعادت؛
- فضائح الباطنیه؛
- قواعد العقائد۔
فخر رازی
ابو عبداللہ محمد بن عمر المعروف بہ فخر رازی سنہ 543 ہجری میں ہرات میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے فقہ شافعی اپنے والد اور کمال الدین سمنانی سے اور فلسفہ، کلام اور اصول فقہ کو [[شہاب الدین سہروردی|شیخ اشراق کے استاد) مجدالدین جیلی سے سیکھ لیا۔
فخر رازی نے بہت سے شہروں کا سفر اختیار کیا؛ جدل اور مناظروں میں مصروف رہتے تھے اور انھوں نے مختلف فرقوں کے علماء سے مناظرے اور مباحثے کئے اور مناظرات میں ان کی شبہہ اندازی اس قدر شدید تھی کہ امام المشککین کے لقب سے مشہور ہوئے ہیں۔ وہ سنہ 696 ہجری میں ہرات میں انتقال کرگئے۔ وہ ابوالحسن اشعری کے برعکس عقل کو نقل پر ترجیح دیتے تھے اور جب عقل اور نقل میں تضاد و تعارض واقع ہوتا وہ عقل کو مقدم رکھتے تھے۔[18]
فخر رازی کے اہم آّثار درج ذیل ہیں:
- تفسیر الکبیر (یا مفاتیح الغیب؛ جو فخر رازی کی اہم ترین تالیف ہے)؛
- الاربعین فی اصول الدین؛
- المطالب العالیہ؛
- معالم اصول الدین؛
- الحکمۃ المشرقیۃ؛
- المباحث المشرقیہ۔
عضد الدین ایجی
عبدالرحمٰن بن احمد ایجی شیرازی مُلَقَّب بہ قاضی عضدالدین، سنہ 689 ہجری کو شیراز کے نواحی علاقے "ایج"، میں پیدا ہوئے اور سنہ 756 میں انتقال کرگئے۔
ایجی بھی فخر رازی کی طرح فلسفیانہ روش رکھتے تھے لیکن وہ فخر رازی کی نسبت اشعری مذہب کے زیادہ پابند ہیں اور فلسفے کو کلام پر غالب نہیں سمجھتے۔ ایجی نے اشعری کلام کو آخری شکل دی اور ان کے بعد اشعری تفکر زوال پذیر ہوا اور شرح نگاری اور حاشیہ نگاری کا دور شروع ہوا۔ ایجی کی مشہور ترین تالیف "المواقف" ہے۔[19] مواقف، اگرچہ ایک کلامی (اور اعتقادی) کتاب ہے مگر یہ مختلف النوع فلسفی اور منطقی مباحث پر بھی مشتمل ہے۔ اس کتاب پر بکثرت شروح لکھی گئی ہیں جن میں سب سے مشہور کتاب سید شریف جرجانی کی کتاب شرح المواقف ہے۔
پاورقی حاشیے
- ↑ برنجکار، رضا، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، اشاعره۔
- ↑ سبکی، طبقات الشافعیه، ج2، ص255۔
- ↑ ابن عساکر، تبیین کذب المفتری، ص258۔
- ↑ ابن خلدون؛ مقدمه، ج2، ص946
- ↑ ابن عساکر، وہی ماخذ، ص38و42و43۔
- ↑ عبدالوهاب سبکی، طبقات الشافعیه، ج2، ص245۔
- ↑ ولوی، تاریخ علم کلام و مذاهب اسلامی، ص459
- ↑ جلال محمد موسی، نشأة الاشعریه و تطورها، ص186۔
- ↑ ابن عساکر، تبیین کذب المفتری، ص221۔
- ↑ عبدالرحمن بدوی، تاریخ اندیشههای کلامی در اسلام، ج1، ص621۔
- ↑ ابن عساکر، تبیین کذب المفتری، ص217۔
- ↑ جلال محمد موسی، نشأة الاشعریة و تطورها، ص329۔
- ↑ سبکی، طبقات الشافعیه، ج3، ص238۔
- ↑ احمد محمود صبحی، فی علم الکلام، ج2، ص722۔
- ↑ جلال محمد موسی، نشأة الاشعریة وتطورها، ص371۔
- ↑ عبدالرحمن بدوی، تاریخ اندیشههای کلامی در اسلام، ج1، ص733۔
- ↑ عبدالحسین زرین کوب، فرار از مدرسه، ص245-248 (اس کتاب کا موضوع ابو حامد غزالی کی زندگی اور افکار، ہیں)؛
- ↑ رجوع کریں: اصغر دادبه، فخر رازی، ص232۔
- ↑ احمد محمودصبحی، فی علم الکلام، ج2، ص357۔