ویکی شیعہ:ہفتہ وار منتخب مقالے/2019/31
عدالت صحابہ، اہل سنت کی اکثریت کا نظریہ ہے جس کے تحت وہ پیغمبر اکرمؐ کے تمام اصحاب کو عادل اور اہل بہشت سمجھتے ہیں۔ اسی بنا پر وہ اصحاب کے اوپر تنقید اور اعتراض کو جائز نہیں سمجھتے اور ان کی احادیث کو بغیر کسی جرح و تعدیل کے قبول کرتے ہیں۔ شیعہ اور اہل سنت کے بعض علماء اصحاب رسول خداؐ کو بھی باقی مسلمانوں کی طرح قرار دیتے ہوئے اس نظریے کو رد کرتے ہیں۔
عدالت صحابہ کے نظریے کے حامی حضرات اپنے مدعا پر قرآن کی آیات اور پیغمبر اکرمؐ کی احادیث سے استدلال کرتے ہیں، من جملہ ان دلائل میں سے ایک آيت رضوان ہے جس میں صحابہ پر خدا کے راضی ہونے کی بات آئی ہے۔ ان کے مقابلے میں اس نظریے کے مخالفین مذکورہ آیت کو صرف ان بعض اصحاب کے ساتھ مختص قرار دیتے ہیں جو بیعت رضوان میں حاضر تھے اور اس کے بعد بھی اپنے عہد و پیمان پر باقی رہے ہوں۔ اسی طرح اس نظریے کے مخالفین کے مطابق یہ نظریہ قرآن کریم کی ان متعدد آیات کے ساتھ بھی سازگار نہیں ہے جن میں صحابہ کے درمیان منافقین کی موجودگی سے متعلق گفتگو ہوئی ہے۔ اسی طرح اس نظریے کے رد میں بعض صحابہ کے مرتد ہونے، شراب پینے، حضرت علیؑ کو لعن طعن کرنے، مسلمانوں کو قتل کرنے اور ان پر لشکرکشی کرنے جیسے اعمال کو بھی پیش کیا جاتا ہے۔
بعض شیعہ محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ عدالت صحابہ کا نظریہ بعض سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے مطرح کئے گئے تھے سر فہرست ان میں خلفائے ثلاثہ کی خلافت اور معاویۃ بن ابی سفیان کی سلطنت کو مشروعیت بخشنا شامل ہے۔
اجتہاد صحابہ، اختلاف بین مسلمین، قرآن و سنت کو سمجھنے میں صحابہ کی متابعت، صحابہ کے قول اور سیرت کو حجت سمجھنا اور ان سے نقل شدہ احادیث کو جرح و تعدیل کے معیارات پر پرکھے بغیر قبول کرنا اس نظریے کے لوازمات میں سے ہیں۔