فرقہ ناجیہ

ویکی شیعہ سے
(نجات یافتہ فرقہ سے رجوع مکرر)

فِرقہ ناجیہ یا نجات یافتہ گروہ، حدیث افتراق کی ایک تعبیر ہے جسے شیعہ امامیہ سے تفسیر کی گئی ہے۔ پیغمبر اکرمؐ سے منسوب ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ کے بعد اسلام مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گا اور ان میں سے صرف ایک فرقہ نجات یافتہ ہو گا۔ پیغمبر اکرمؐ اور امام علیؑ سے منقول ہے کہ فرقہ ناجیہ صرف شیعیانِ علیؑ ہیں۔ فرقہ ناجیہ کی حقیقت اور اس کے مصداق کے بارے میں کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔

فرقہ ناجیہ کی اہمیت

فرقہ ناجیہ کے معنی قیامت کے دن نجات یافتہ گروہ کے ہیں اور یہ تعبیر پیغمبر اسلامؐ سے منسوب حدیث افتراق میں آئی ہے۔ اس حدیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے پیشنگوئی فرمائی ہے کہ امت محمدی 73 فرقوں میں تقسیم ہو گی جبکہ ان میں سے صرف ایک فرقہ نجات پائے گا۔[1] اسلامی فرقوں میں سے ہر ایک اپنے آپ کو اس کا مصداق ٹھرانے کے لئے اپنی طرف سے مختلف معیاریں تلاش کرنے کی کوشش کی ہیں۔[2]

حدیث افتراق کا اعتبار

حدیث افتراق کے اعتبار کے بارے میں مختلف مباحث بیان ہوئے ہیں۔ اہل سنت عالم دین ابن حزم اندلسی (متوفی 456ھ) اس حدیث کو غیر صحیح اور استدلال کے لئے معتبر نہیں سمجھتے ہیں[3] اور زیدی علام ابن وزیر (متوفی 840ھ) نے بھی اس حدیث کے آخری پیرائے (سب جہنمی ہیں سوائے ایک فرقے کے) کو جعلی سمجھتے ہیں۔[4] البتہ بعض شیعہ [5] اور اہل سنت[6] کی احادیث کی بعض کتابوں اور بعض ملل و نحل لکھنے والے علما[7] نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اسے مانا ہے اور یہاں تک کہا ہے کہ حدیث افتراق صرف مشہور ہی نہیں بلکہ حدیثِ مستفیض[8] بلکہ اس سے بالاتر متواتر[9] یا تواتر کے نزدیک[10] ہے۔

کہا گیا ہے کہ اس حدیث کا خبر واحد ہونے کی وجہ سے عقائد کے اثبات اور فرقہ ناجیہ کے تعیین کے لئے اس پر اعتماد نہیں کر سکتے ہیں۔[11]لیکن آیت اللہ سبحان کا کہنا ہے کہ اس حدیث کا مستفیض ہونا اور متعدد شیعہ اور سنی کتابوں میں نقل ہونا اس کے سند کے ضعف کو جبران کرتا ہے اور ان مصادر میں مختلف اسناد سے نقل کرنا اس پر اطمینان اور اعتماد کا باعث بنتا ہے۔[12]

فرقہ ناجیہ کون؟

فرقہ ناجیہ کے مصداق کی تعیین کے حوالے سے مختلف مذاہب کے علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ عموما ہر ایک نے اپنے آپ کو فرقہ ناجیہ اور باقی 72 فرقوں کو ہلا ک شدہ جانا ہے:[13] شیعہ عالم دین جمال الدین رازی نے اپنی کتاب تبصرۃ العوام فی معرفۃ مقالات الانام میں،[14] اسماعیلیہ مذہب کے عالم دین جعفر بن منصور الیمن نے اپنی کتاب سرائر و اسرار النطقاء میں[15] اور اہل سنت عالم دین شہرستانی نے اپنی کتاب الملل و النحل میں[16] اپنے اپنے مذہب کو فرقہ ناجیہ کا مصداق قرار دیا ہے۔

فرقہ ناجیہ کے مصداق کی تعیین میں چہ بسا حدیث افتراق سے استناد کیا گیا ہے[17] اور ہر فرقے نے اسی طریقے کو اپنایا ہے جس سے ان کی اپنی تائید ہوتی ہو۔[18] علی آقانوری کی تحقیق کے مطابق اس حدیث کی سند میں فرقہ ناجیہ کی تعیین کے لئے 15 مختلف تعبیریں بیان ہوئی ہیں[19] ان میں سے 8 تعبیروں میں امام علیؑ کی ولایت اور اہل بیتؑ کی پیروی یا شیعیان امام علیؑ کو اس کا معیار قرار دیا گیا ہے۔[20] اگرچہ ان کے مطابق اس حدیث کے بعض سندوں میں قرقہ ناجیہ کی تعیین کا کوئی معیار بیان نہیں ہوا ہے۔[21]

شیعہ علما کا نقطہ نظر

چوتھی صدی ہجری کے مشہور شیعہ محدث شیخ صدوق اپنی کتاب کمال الدین و تمام النعمہ میں نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ اور ائمہ معصومینؑ نیز ان کے بعد ان کے پیروکاروں) کو فرقہ ناجیہ قرار دیا ہے۔[22] اسی طرح علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں امام علیؑ سے نقل کی ہیں آپ نے فرمایا: میرے شیعہ نجات یافتہ ہیں۔[23] علامہ حلی بھی احادیث سے استناد کرتے ہوئے شیعہ ائمہ اور ان کے پیروکاروں کو فرقہ ناجیہ کا مصداق قرار دیتے ہیں۔[24] اس کے بعد علامہ حلی نے شیعہ مذہب کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے مختلف احادیث ذکر کی ہیں۔[25] اسی طرح حدیث سفینہ ان لوگوں کے دلائل میں سے ہیں جو اہل بیتؑ کی پیرکاروں کو فرقہ ناجیہ کا مصداق قرار دیتے ہیں، کیونکہ اس حدیث میں آیا ہے کہ جو بھی اہل بیت کا ماننے والا ہو گا وہ نجات پائے گا۔[حوالہ درکار]


ان تمام باتوں کے باوجود اہل سنت بعض احادیث سے استناد کرتے ہوئے فرقہ ناجیہ کے مصداق کو ایک جماعت[26] یا اکثریت[27] یا خلفائے راشدین کے ماننے والوں[28] قرار دیتے ہیں۔ حدیث افتراق کے اسناد میں سے بعض کے مطابق تمامی اسلامی فرقے سوائے زندیقوں کے سب اہل نجات ہیں۔[29]

کتابیات

کتاب الفرقۃ الناجیۃ بقلم ابراہیم بن سلیمان قطیفی

فرقہ ناجیہ کے بارے میں مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی نے کتاب الذریعہ میں ان میں سے شیعہ کے بعض آثار کا نام لیا ہے۔[30]

  • الفرقۃ الناجیۃ، تالیف شیخ ابراہیم بن سلیمان القطیفی سنہ 945ھ۔
  • رسالۃ أصولیۃ فی إثبات مذہب الفرقۃ الناجیۃ من بین الفرق الإسلامیۃ، تالیف شیخ جعفر کاشف الغطاء۔
  • إثبات الفرقۃ الناجیۃ، تالیف محمدحسن شریعتمدار استر آبادی۔ مصنف نے اس کتاب میں کوشش کی ہے کہ فرقہ ناجیہ کو معین کرے اور ساتھ ساتھ دیگر 72 فرقوں کو بھی مشخص کرے۔
  • إثبات الفرقۃ الناجیۃ وأنہم الشیعۃ الإمامیۃ، تالیف سید حسین بن علی بن أبی طالب الحسینی الہمدانی۔
  • إثبات الفرقۃ الناجیۃ، تالیف خواجہ نصیرالدین طوسی۔
  • الصوارم الماضیۃ فی الفرقۃ الناجیۃ، تالیف سید محمدمہدی حسینی قزوینی حلی۔ «فرقہ ناجیہ» کے بارے میں اس کتاب کو سب سے بہترین اور مفید قرار دی گئی ہے۔[31]

حوالہ جات

  1. ابن حنبل، مسند، 1419ھ، ج3، ص145؛ ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، دار الفکر، ج2، ص364؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج28، ص4؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج1، ص281؛ ترمذی، سنن الترمذی، 1403ھ، ج5، ص26؛ ہیثمی، مجمع الزوائد، 1406ھ، ج1، ص260؛ طبرانی، المعجم الکبیر، 1404ھ، ج17، ص13؛ دانی، السنن الواردۃ، 1416ھ، ج3، ص624۔
  2. آقانوری، «حدیث افتراق امت۔۔۔»، ص133۔
  3. ابن حزم، الفِصَل، 1405ھ، ج3، ص292.
  4. ابن وزیر، العواصم و القواصم، 1415ھ، ج3، ص170-172.
  5. ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، الخصال، 1362شمسی، ج1، ص584-585؛ علامہ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج28، ص13
  6. ملاحظہ کریں: ابن حنبل، مسند، 1414ھ، ج3، ص569؛ ابن ابی عاصم، السنۃ، 1419ھ، ج1، ص75-80؛ طبرانی، المعجم الکبیر، مطبعۃ الامۃ، ج18، ص51.
  7. ملاحظہ کریں: بغدادی، الفرق بین الفرق، 1408ھ، ص5-8؛ سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، مؤسسۃ النشر الإسلامی، ج1، ص25-26.
  8. سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، مؤسسۃ النشر الإسلامی، ج1، ص23؛ مظفر، دلائل الصدھ، 1422ھ، ج5، ص289.
  9. ابن طاووس، الطرائف، 1420ھ، ج1، ص287 و ج2، ص74 و ص259؛ مناوی، فیض القدیر، 1391ھ، ج2، ص20.
  10. الآمدی، الإحکام فی أصول الاحکام، دارالکتب العلمیۃ، ج1، ص219.
  11. آقانوری، «حدیث افتراق امت…»، ص136.
  12. سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج1، ص25.
  13. بغدادی، الفرق بین الفرق، 1408ھ، ص11-21؛ اسفراینی، التبصیر فی الدین، 1408ھ، ص23-25؛ ملطی شافعی، التنبیہ و الردّ، 1413ھ، ص12۔
  14. رازی، تبصرۃ العوام، 1364شمسی، ص194-199۔
  15. الیمن، سرائر و اسرارالنطقاء، 1404ھ، ص243۔
  16. شہرستانی، الملل و النحل، 1364شمسی، ج1، ص19-20۔
  17. آقانوری، «حدیث افتراق امت۔۔۔»، ص133۔
  18. آقانوری، «حدیث افتراق امت۔۔۔»، ص133۔
  19. آقانوری، «حدیث افتراق امت۔۔۔»، ص134۔
  20. آقانوری، «حدیث افتراق امت۔۔۔»، ص134۔
  21. آقانوری، «حدیث افتراق امت۔۔۔»، ص131۔
  22. شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، موسسۃ النشر الاسلامی، ص257۔
  23. علامہ مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج28، ص11۔
  24. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: علامہ حلی، منہاج الکرامہ، 1379شمسی، ص50۔
  25. حلی، منہاج الکرامہ، 1379شمسی، ص35-111۔
  26. ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، 1430ھ، ج5، ص128-130۔
  27. الآمدی، الإحکام فی أصول الأحکام، دار الکتب العلمیۃ، ج1، ص219۔
  28. ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، 1430ھ، ج1، ص28-29۔
  29. دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 1406ھ، ج2، ص63۔
  30. آقابزرگ طہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج1، ص98-99۔
  31. آقابزرگ طہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج1، ص98-99.

مآخذ

  • آقابزرگ طہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الاضواء، 1403ھ۔
  • آقانوری، علی، «حدیث افتراق امت؛ نقل ہا و پیامدہا»، در مجلہ ہفت آسمان، شمارہ 18، تابستان 1382ہجری شمسی۔
  • ابن ابی عاصم، احمد بن عمرو، السنۃ، ریاض، چاپ باسم بن فیصل جوابرہ، 1419ھ/1998ء۔
  • ابن حزم، ابومحمد، الفِصَل فی الملل و الأہواء و النحل، بیروت، چاپ محمدابراہیم نصر و عبدالرحمان عمیرہ، 1405ھ/1985ء۔
  • ابن حنبل، احمد، مسند، تحقیق ابوالمعاطی نوری، چاپ عالم الکتب، بیروت، 1419ھ۔
  • ابن طاووس، سید علی، الطرائف فی معرفۃ مذاہب الطوائف، بیروت، چاپ علی عاشور، 1420ھ/1999ء۔
  • ابن ماجہ، محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، دارالفکر، [بی تا].
  • ابن وزیر، محمد بن ابراہیم، العواصم و القواصم فی الذَّبِّ عن سنۃ ابی القاسم، بیروت، چاپ شعیب ارنؤوط، 1415ھ/1994ء۔
  • اسفراینی، شہفور بن طاہر، التبصیر فی الدین و تمییز الفرقۃ الناجیۃ عن الفرق الہالکین، تحقیق محمد زاہد کوثری، بیروت، 1408ھ/1988ء۔
  • الآمدی، علی بن محمد، الإحکام فی أصول الأحکام، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، [بی تا].
  • امین، محسن‏، أعیان الشیعۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات‏، 1403ھ۔
  • بغدادی، عبدالقاہر، الفرق بین الفرق و بیان الفرقۃ الناجیۃ منہم، بیروت، دار الجیل-دار الآفاق، 1408ھ۔
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، بیروت، دار الفکر، 1403ھ۔
  • جعفر بن منصورالیمن، سرائر و اسرار النطقاء، تحقیق مصطفی غالب، بیروت، 1404ھ۔
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1411ھ۔
  • حسینی میلانی، علی، تشیید المراجعات و تفنید المکابرات، قم، الحقایق، 1385ہجری شمسی۔
  • حکیم، حسن عیسی‏، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف‏، قم، المکتبۃ الحیدریۃ، 1427ھ۔
  • دانی، عثمان بن سعید، السنن الواردۃ فی الفتن و غوائلہا و الساعۃ و اشراطہا، تحقیق ضاءاللہ بن محمد ادریس مبارکفوری، ریاض، دار العاصمۃ، 1416ھ۔
  • دیلمی، شیرویۃ بن شہردار، الفردوس بمأثور الخطاب، تحقیق سعید بن بسیونی زغلول، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1406ھ/1986م.
  • رازی، جمال الدین، تبصرۃ العوام فی معرفۃ مقالات الانام، تحقیق عباس اقبال آشتیانی، تہران، اساطیر، 1364ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، بحوث فی الملل والنحل، قم، مؤسسہ الإمام الصادق(ع)، 1427ھ۔
  • شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، قم، الشریف الرضی، 1364ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، کتاب الخصال، قم، چاپ علی اکبر غفاری، 1362ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، تصحیح علی اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، چاپ دوم، 1395ھ۔
  • صدر، حسن‏، تکملۃ أمل الآمل‏، بہ تحقیق حسینعلی محفوظ و دیگران، بیروت، دار المؤرخ العربی‏، 1429ھ۔‏
  • طبرانی، ابوالقاسم، المعجم الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1404ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1403ھ۔
  • محدث نوری، حسین، خاتمۃ مستدرك الوسائل، بہ تحقیق ؤسسۃ آل البيت(ع) لإحياء التراث، قم، ستارہ، بی تا.
  • مظفر، محمد حسن، دلائل الصدق لنہج الحق، بہ تحقیق مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لاحیاء التراث، قم، موسسۃ آل البیت (علیہم السلام) لإحیاء التراث، 1422ھ۔
  • ملطی شافعی، محمد بن احمد، التنبیہ والرد علی اہل الأہواء و البدع، قاہرہ، مکتبۃ مدبولی، 1413ھ۔
  • مناوی، محمد عبدالرئوف، فیض القدیر: شرح الجامع الصغیر، بیروت، 1391ھ/1972ء۔
  • ہیثمی، علی بن ابی بکر، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، بیروت، دار المعارف، 1406ھ۔