شیخ صدوق

ویکی شیعہ سے
(محمد بن بابویہ سے رجوع مکرر)
شیخ صدوق
شیخ صدوق کا مقبرہ
ناممحمد بن علی ابن بابویہ قمی
کنیتابوجعفر
لقبشیخ صدوق
تاریخ ولادتتقریبا سنہ 305 ہجری
شہرشہر ری، ایران
محل تحصیلشہر قم و شہر ری
وفات/شہادتسنہ 381 ہجری
مدفنشہر ری
تالیفاتمن لایحضرہ الفقیہ، معانی الاخبار، عیون الاخبار، الخصال، علل الشرائع، صفات الشیعۃ، ثواب الاعمال، کمال الدین و تمام النعمۃ (کتاب)، المقنع فی الفقہ،...

محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی (305۔381 ھ)، شیخ صدوق کے نام سے معروف چوتھی صدی ہجری کے شیعہ علماء میں سے تھے۔ آپ کا شمار شہر مقدس قم کے مایہ ناز محدثوں میں ہوتا ہے اور تقریبا 300 سے زائد علمی آثار کی آپ کی طرف نسبت دی جاتی ہے جن میں سے اکثر آج ہمارے اختیار میں نہیں ہیں۔ کتاب من لایحضرہ الفقیہ شیعوں کی معتبر ترین کتب اربعہ میں سے ایک ہے جو آپ کے دست مبارک سے لکھی گئی ہے۔ ان کے دیگر علمی آثار میں معانی الاخبار، عیون الاخبار، الخصال، علل الشرائع و صفات الشیعہ کا نام نمایاں طور پر لیا جا سکتا ہے۔

ان کے مشہور ترین شاگردوں میں سید مرتضی، شیخ مفید اور تلعکبری شامل ہیں۔ شیخ صدوق ایران کے ایک تاریخی شہر، شہر ری جو تہران کا جڑواں شہر ہے، میں مدفون ہیں۔

حسب و نسب

شیخ صدوق کے والد گرامی علی بن حسین اپنے زمانے کے مشایخ، ثقہ (مورد اعتماد)، فقیہ اور شہر مقدس قم کے مراجع میں سے تھے۔ باوجود اس کے کہ آپ کے زمانے میں مایہ ناز علماء اور محدثین کی کثیر تعداد شہر قم میں موجود تھے لیکن آپ کو ان سب میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ اتنے علمی مقام اور جہان تشیع کے مرجع تقلید ہونے کی باوجود آپ قم میں ایک چھوٹے سے دکان پر نہایت سادگی، پاکدامنی اور قناعت کی زندگی گزارتے تھے۔ آپ نے علم کے مختلف شعبوں میں کتابیں اور مقالہ جات تحریر فرمایا ہے جنہیں شیخ طوسی اور نجاشی نے ذکر کیا ہے۔ ابن ندیم اپنی کتاب الفہرست میں کہتا ہے: "کسی کتاب کی جلد پر میں نے دیکھا کہ ان کے بیٹے اپنے قلم سے لکھا تھا کہ میرے والد گرامی کی کتابیں جو 200 عدد ہیں اور میری اپنی کتابیں جو 18 عدد ہیں، کو میں نے فلان ابن فلان کو پڑھنے کی اجازت دی ہے"۔ [1]

ولادت

شیخ صدوق کی دقیق تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے لیکن جو چیز آپ کی کتاب کمال الدین و تمام النعمہ اور شیخ طوسی کی کتاب غیبت اور نجاشی کی الفہرست سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ امام زمانہ(عج) کے دوسرے نائب خاص محمد بن عثمان عَمْری کی رحلت اور امام کے تیسرے نائب خاص حسین بن روح کے نیابت کے ابتدائی سالوں میں متولد ہوئے ہیں۔

خود شیخ صدوق ابوجعفر محمد بن علی بن اسود سے نقل کرتے ہیں کہ ان کے والد گرامی علی بن حسین بن موسی بن بابویہ (جنہیں صدوق اول بھی کہا جاتا ہے) محمد بن عثمان عَمْری (دوسرا نائب خاص امام زمانہ) کی رحلت کے بعد ابوجعفر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ حسین بن روح نوبختی (تیسرا نائب خاص امام زمانہ) سے کہہ دیں کہ امام زمانہ(عج) سے دعا کی درخواست کریں کہ خدا مجھے کوئی بیٹا عطا کرے۔ ابوجعفر کہتا ہے کہ میں نے ان کی درخواست حسین بن روح تک پہنچائی۔ تین دن کے بعد حسین بن روح نے مجھ سے کہا کہ امام زمانہ(عج) نے علی بن حسن (شیخ صدوق کے والد گرامی) کیلئے دعا کیا ہے اور انشاء اللہ خدا ان کو ایک بیٹا عنایت کرے گا۔ او خدا اس بیٹے کے ذریعے ان کو دنیا اور آخرت میں نفع حاصل ہو گا۔[2].

ایران کے شہر ری میں قبرستان ابن بابویہ میں شیخ صدوق کا مقبرہ

شیخ طوسی نے اس داستان کو مزید تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے:

میں نے قم کے بعض مشایخ سے سنا کہ شیخ صدوق کے والد گرامی کیلئے ان کی پہلی بیوی جو اس بزرگ کی چچا زاد بہن لگتی تھی، سے کوئی بچہ نہیں ہوا تھا اسلئے انہوں نے ابوالقاسم حسین بن روح کیلئے ایک عریضہ لکھا جس میں امام زمانہ سے ان کیلئے بیٹے کی دعا کی درخواست کی گئی تھی۔ امام(عج) کی طرف سے جواب آیا کہ اس بیوی سے آپ کو کوئی بچہ نہیں ہو گا اور عنقریب ایک دیلمی کنیز آپ کی ملکیت میں آئیگی جس سے آپ کو ایک بیٹا عطا کرے گا جو اپنے زمانے میں بلند پائے کا فقیہ ہوگا۔ [3]

یوں واضح ہوتا ہے کہ شیخ صدوق کی ولادت سنہ 305ہجری قمری کے بعد امام زمانہ کے دعا کی بدولت ہوئی ہے اور اسی وجہ سے وہ اور انکے بھائی حسین اس بات پر فخر کرتے تھے۔[4]

زندگی

شیخ صدوق نے قم میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ 20 سال زندگی کی اور اپنے والد اور دیگر علماء سے اس عرصے میں کسب فیض کیا اس کے بعد شہر ری کے مکینوں کی درخواست پر وہاں چلے گئے۔ شہر ری میں باوجود اس کے کہ وہ جوانی کی عمر میں تھے لیکن ان کی چرچے چاروں طرف پھیلنے لگے۔ وہاں پر کچھ مدت رہنے کے بعد وہاں کے والی کی اجازت سے امام رضا(ع) کی زیارت کی غرض سے مشہد مقدس کی طرف سفر پر نکل پڑے اور وہاں سے واپسی پر نیشاپور میں ساکن ہوئے اور وہاں کے بزرگوں نے ان سے کسب فیض کرنا شروع کیا۔ یوں انہوں نے قم سے جانے کے بعد شہر ری، استرآباد، جرجان، نیشابور، مشہد، مروروذ، سرخس، ایلاق، سمرقند، فرغانہ، بلخ، ماوراء النہر، ہمدان، بغداد، کوفہ، فید، مکہ اور مدینہ کی طرف مسافرت کی۔ [5]

شیخ صدوق کی ضریح

وفات

شیخ صدوق سنہ 381 ہجری قمری کو 70 سال کی عمر میں شهر ری میں وفات پائی اور وہیں پر دفن ہوئے۔ ان کی قبر آج شہر ری میں موجود قبرستان ابن بابویہ نامی قبرستان میں موجود ہے جہاں زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔ سنہ 1238 ہجری شمسی کو سیلاب کی وجہ سے ان کی قبر میں شگاف پڑگیا تھا اور کئی صدیاں گذرنے کے بعد بھی انکی لاش صحیح و سالم دیکھ کر لوگوں کی حیرت کا باعث بن گئی اس کے بعد فتح علی شاہ قاجار کے زمانے میں ان کے قبر کی تعمیر و توسیع ہوئی۔[6]

علمی کارنامے

علم رجال کے ماہرین کی ان کے بارے میں سفارش

شیخ طوسی فرماتے ہیں: "محمد بن علی بن حسین، حافظ احادیث، فقہ اور رجال سے آگاہ اور حدیث شناس تھے۔ حفظ اور کثرت علم میں قمی علماء میں ان کی مثال نہیں ملتی ہے"۔

نجاشی ان کے بارے میں کہتے ہیں:

ہمارے شیخ اور فقیہ جب بغداد میں آئے تو باوجود اس کے کہ وہ کم سن تھے لیکن اس وقت کے علماء اور فقہاء ان سے حدیث سنتے تھے۔ [7]

آپ کے اساتید

شیخ صدوق نے مختلف شہروں کے مختلف حفاظ اور بزرگان سے کسب فیض کیا یہاں تک کہ ان کی تعداد 260 تک پہنچتی ہیں۔[8] ان کے بعض اساتید کے نام درج ذیل ہیں:

  1. علی بن ابراہیم قمی[9]
  2. ابو الحسن احمد بن محمد بن عیسی بن احمد بن عیسی بن علی بن حسین بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب(ع) [10]
  3. اپنے والد گرامی علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی[11]
  4. ابن ولید قمی، قم والوں کے فقیہ اور مرجع.[12]
  5. محمد بن موسی بن متوکل[13]

ان کے شاگرد

شیخ صدوق چونکہ جوانی کی عمر سے ہی احادیث کی نشر و اشاعت میں مشغول تھے اسلئے ان سے احادیث نقل کرنے والے راویوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے لیکن بعد کتابوں جیسے تاریخ ری اثر شیخ منتجب الدین، رجال الشیعہ اثر ابن بطریق و شیوخ الشیعہ تالیف علی بن حکم، کے محو ہونے کی وجہ سے بعض راویوں کے اسماء مکمل طور پر ہمارے اختیار میں نہیں ہیں جن تعداد سے ہم آج آشنا ہیں انکی تعداد 27 نفر تک پہنچتی ہیں: [14]

  1. ابو العباس احمد بن علی بن محمد بن عباس بن نوح
  2. ابو الحسن احمد بن محمد بن تربک الرہاوی
  3. ابو محمد احمد بن محمد معمری
  4. جعفر بن احمد بن علی ابو محمد قمی
  5. جعفر بن احمد مریسی
  6. ابو الحسن جعفر بن حسن بن حسکہ قمی
  7. ابو محمد حسن بن احمد بن محمد بن ہیثم عجلی رازی
  8. حسن بن حسین علی بن بابویہ
  9. حسن بن عنبس بن مسعود بن سالم بن محمد بن شریک ابو محمد مرافقی
  10. ابو علی حسن بن محمد بن حسن شیبانی قمی، تاریخ قم کے مصنف.
  11. ابو عبداللہ حسین بن عبیداللہ بن ابراہیم غضائری
  12. ابو عبداللہ حسین بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی، ان کے بھائی.
  13. عبد الصمد بن محمد تمیمی
  14. علی بن احمد بن عباس نجاشی، احمد بن علی نجاشی کے والد.
  15. سید ابو البرکات علی بن حسین جوزی حلی حسینی
  16. سید مرتضی علم الہدی ذوالمجدین
  17. ابو القاسم علی بن حسین بن موسی
  18. ابو القاسم علی بن محمد بن علی خزاز
  19. ابو القاسم علی بن محمد مقری
  20. محمد بن احمد بن عباس بن فاخر دوریستی
  21. ابوبکر محمد بن احمد بن علی
  22. ابو الحسن محمد بن احمد بن علی بن حسن بن شاذان قمی
  23. محمد بن جعفر بن محمد قصار رازی
  24. ابو جعفر محمد بن حسن بن اسحاق بن حسن بن حسین بن اسحاق بن موسی بن جعفر(ع)
  25. ابو زکریا محمد بن سلیمان الحمرانی
  26. محمد بن طلحہ بن محمد نعالی بغدادی، خطیب بغدادی کے استاد ہیں۔
  27. ابو عبداللہ محمد بن محمد بن نعمان، شیخ مفید
  28. ابو محمد ہارون بن موسی تلعکبری

علمی آثار

تفصیلی مضمون : شیخ صدوق کے علمی آثار

شیخ صدوق کی تألیفات کے مجموعہ کی تعداد 300 عدد تک پہنچتی ہیں۔ شیخ طوسی نے الفہرست نامی کتاب میں ۴۰ عدد کتابوں کا نام لیتے ہیں جن میں سے ایک من لایحضرہ الفقیہ[15] جو کتب اربعہ میں سے ہے۔ نجاشی (متوفی سنہ ۴۵۰ ہجری) اپنی فہرست میں 200 کتابوں کا نام لیتے ہیں جو علم کے مختلف شعبوں میں تحریر کی گئی تھی اور سب کے سب ابتدائے تالیف سے اب تک علماء و فقہاء کا مورد استفادہ واقع ہوتے رہے ہیں البتہ ان کے بہت سے آثار ہم تک نہیں پہنچے ہیں۔[16] جو کچھ نجاشی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے وہ یوں ہے:[17]

حوالہ جات

  1. غفاری، علی اکبر، مقدمہ "من لایحضرہ الفقیہ" در: الشیخ الصدوق، ۱۴۰۴ه‍.ق.، ص۹.
  2. کمال الدین، ص۲۷۶؛ و مثلہ قال الطوسی فی کتابہ الغیبۃ، ص۲۰۹؛ بہ نقل الربانی الشیرازی، عبدالرحیم، مقدمہ «‌معانی الاخبار‌» در: الشیخ الصدوق، ۱۳۶۱ه‍.ش.، ص۷۳.
  3. الغیبۃ، ص۲۰۱؛ بہ نقل الربانی الشیرازی، عبدالرحیم، مقدمہ «‌معانی الاخبار‌» در: الشیخ الصدوق، ۱۳۶۱ه‍.ش.، ص۷۳.
  4. الربانی الشیرازی، عبدالرحیم، مقدمہ «‌معانی الاخبار‌» در: الشیخ الصدوق، ۱۳۶۱ه‍.ش.، ص۷۴.
  5. غفاری، علی اکبر، مقدمہ "من لایحضرہ الفقیہ" در: الشیخ الصدوق، ۱۴۰۴ه‍.ق.، ص۹-۸.
  6. الربانی الشیرازی، عبدالرحیم، مقدمه «‌معانی الاخبار‌» در: الشیخ الصدوق، ۱۳۶۱ه‍.ش.، ص۷۴.
  7. غفاری، علی اکبر، مقدمہ "من لایحضرہ الفقیہ" در: الشیخ الصدوق، ۱۴۰۴ه‍.ق.، ص۸.
  8. غفاری، علی اکبر، مقدمہ «‌من لایحضرہ الفقیہ» در: الشیخ الصدوق، ۱۴۰۴ه‍.ق.، ص۸.
  9. الربانی الشیرازی، عبدالرحیم، مقدمہ «‌معانی الاخبار‌» در: الشیخ الصدوق، ۱۳۶۱ه‍.ش.، ص۴۰.
  10. الربانی الشیرازی، عبدالرحیم، مقدمہ «‌معانی الاخبار‌» در: الشیخ الصدوق، ۱۳۶۱ه‍.ش.، ص۴۲.
  11. الربانی الشیرازی، عبدالرحیم، مقدمہ «‌معانی الاخبار‌» در: الشیخ الصدوق، ۱۳۶۱ه‍.ش.، ص۵۶.
  12. الربانی الشیرازی، عبدالرحیم، مقدمہ «‌معانی الاخبار‌» در: الشیخ الصدوق، ۱۳۶۱ه‍.ش.، ص۶۲.
  13. الربانی الشیرازی، عبدالرحیم، مقدمہ «‌معانی الاخبار‌» در: الشیخ الصدوق، ۱۳۶۱ه‍.ش.، ص۶۶.
  14. الربانی الشیرازی، عبدالرحیم، مقدمہ «‌معانی الاخبار‌» در: الشیخ الصدوق، ۱۳۶۱ه‍.ش.، صص۶۹-۷۲.
  15. الطوسی، الفہرست، ص۲۳۸.
  16. الربانی الشیرازی، عبدالرحیم، مقدمہ «‌معانی الاخبار‌» در: الشیخ الصدوق، ۱۳۶۱ه‍.ش.، ص۷۲.
  17. نجاشی، ۱۳۶۵، ص۳۸۹-۳۹۲.

مآخذ

  • الشیخ الصدوق، من لایحضرہ الفقیہ، التحقیق: علی اکبر غفاری، قم: جامعۃ المدرسین، الطبعة الثانیۃ، ۱۴۰۴ق.
  • شیخ صدوق، معانی الاخبار، التصحیح: علی اکبر الغفاری، قم، انتشارات اسلامی، ۱۳۶۱ش.
  • الطوسی، محمد بن الحسن، الفہرست، محقق: جواد القیومی، بی جا: مؤسسۃ نشر الفقاہۃ، ۱۴۱۷ق.
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی‏، قم: مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۳۶۵ش.