بِیعَت النساء، خواتین کے رسول خداؐ کی بیعت کرنے کو کہا جاتا ہے۔ سورہ ممتحنہ کی آیت نمبر 12 کے تحت یہ بیعت، شرک، چوری، زنا، بچوں کے قتل، پیغمبر اکرمؐ کی نافرمانی اور دوسروں کے بچوں کو اپنے شوہر کی طرف نسبت دینے سے اجتناب کرنے کے بارے میں تھا۔ اس بیعت کی کیفیت کے بارے میں مشہور قول یہ ہے کہ پیغمبر خداؐ نے اپنا ہاتھ پہلے پانی کے طشت میں رکھا اور بیعت کے شرائط کو بیان کیا اور پھر خواتین نے اپنے ہاتھوں کو طشت میں رکھ کر ان شرائط کو قبول کیا۔ یہ بیعت فتح مکہ کے بعد واقع ہوئی، اگر چہ بعض کا کہنا ہے کہ بیعت عقبہ اول ہی کا دوسرا نام بیعت النساء ہے اور یہ پیغمبر اکرمؐ کی مکی زندگی کے آخری ایام میں واقع ہوئی ہے۔
بیعت کی قدمت
بیعت عہد و پیمان اور کسی کی حکومت اور ریاست کو ماننا یا کسی سے وفاداری اور فرمانبرداری کا اعلان کرنے کو کہا جاتا ہے۔[1] اور اسلام سے پہلے کے عرب رسومات میں سے اہم رسم تھی جسے اسلام نے بھی تائید کی۔ دور جاہلیت میں عورتوں کے لیے بیعت اور دیگر اہم امور میں کوئی کردار نہیں تھا۔
تاریخی منابع کے مطابق بیعت عقبہ دوم (۱۳ بعثت) میں خواتین شامل تھیں۔[2]اور اس دور کی مکی خواتین کی بیعت کی حکایت ہوئی ہے۔[3]رسول خدا کی مدینہ سے ہجرت کے بعد خواتین کبھی گروہ کی شکل میں[4] اور کبھی انفرادی[5] شکل میں آپؐ کی بیعت کرنے آتی تھی، اور کبھی کسی جگہ جمع ہوتی تھیں اور آنحضرت کسی صحابی کو ان سے بیعت لینے کے لیے بھیجتے تھے۔[6]اور کبھی اہم واقعات میں مردوں کے ساتھ بیعت بیعت کرتی تھیں۔ بیعت رضوان میں بعض مسلمان خواتین جیسے؛ ام سلمہ، ام عمارہ، ام منیع، اور ام عامر اشہلیہ شریک تھیں۔[7]
بیعت نساء کے شرائط
مشہور نقل کے مطابق فتح مکہ کے بعد جب آنحضرتؐ نے کوہ صفا پر مردوں سے جب بیعت لی تو خواتین نے بھی بیعت کرنے کا عزم ظاہر کیا تو اس موقعے پر سورہ ممتحنہ کی بارہویں آیت نازل ہوئی اور بیعت کی کیفیت کے بارے میں توضیح دی۔: یا أَیهَا النَّبِی إِذا جاءَكَ الْمُؤْمِناتُ یبایعْنَكَ عَلیٰ أَنْ لایشْرِکْنَ بِاللهِ شَیئاً وَ لایسْرِقْنَ وَ لایزْنینَ وَ لایقْتُلْنَ أَوْلادَهُنَّ وَ لایأْتینَ بِبُهْتانٍ یفْتَرینَهُ بَینَ أَیدیهِنَّ وَ أَرْجُلِهِنَّ وَ لایعْصینَكَ فی مَعْرُوفٍ فَبایعْهُنَّ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللهَ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحیمٌ (ترجمہ: پیغمبر اگر ایمان لانے والی عورتیں آپ کے پاس اس امر پر بیعت کرنے کے لئے آئیں کہ کسی کو خدا کا شریک نہیں بنائیں گی اور چوری نہیں کریں گی - زنا نہیں کریں گی - اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھ پاؤں کے سامنے سے کوئی بہتان (لڑکا) لے کر نہیں آئیں گی اور کسی نیکی میں آپ کی مخالفت نہیں کریں گی تو آپ ان سے بیعت کا معاملہ کرلیں اور ان کے حق میں استغفار کریں کہ خدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے)[؟–۱۲]۔[8]
مذکورہ آیت کی روشنی میں بیعت النساء کا مفہوم: شرک، چوری، زنا، فرزند کشی اور دوسروں کے بچوں کو اپنے شوہروں سے نسبت دینے سے اجتناب اور کسی بھی کام میں پیغمبر اکرم کی نافرمانی نہ کرنا تھا۔
آیت کا آخری حصہ (وَ لایعْصینَكَ فی مَعْرُوفٍ) کا ایک کلی مفہوم ہے جس کے بارے میں مختلف نظریات پیش ہوئے ہیں۔ بعض اسے ایک عام مفہوم سمجھ رہے ہیں جو پیغمبر اکرمؐ کے فرامین کی اطاعت کی تاکید کرتا ہے۔[9] بعض نے اسے عورتوں کا نامحرم مردوں کے ساتھ خلوت کرنے کی منع سے تفسیر کیا ہے۔[10] بعض نے اس آیت کی تفسیر میں عصر جاہلیت کی عورتوں کی عزا کے رسومات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ عصر جاہلیت میں خواتین ایک خاص گریہ و زاری سے عزا کی مجالس ک گرم کرتی تھیں اور غم کے اظہار کے لیے اپنا چہرے کو خراشتی تھی اور گریباں چاک کرتی تھیں۔ ان کاموں سے مردوں کی دشمنیاں پھر سے جنم لینے اور غصہ بڑھ جاتا تھا۔ بعض کا عقیدہ ہے کہ آیت کا آخری حصہ عورتوں کے اس کام کو ناپسند قرار دیتے ہوئے اسے منع کرتا ہے۔[11]
بیعت میں شریک افراد
اس بیعت میں مکہ کی مومن عورتیں بیعت کرنے آنحضرت کی خدمت میں پہنچیں اور اسی طرح بعض ازواج رسول، فاطمہؑ، فاطمہ بنت اسد (مادر امام علی) اور ام ہانی، ابوطالب کی بیٹی شریک تھیں۔[12] ابن ابی الحدید کہتا ہے: «فاطمہ بنت اسد آںحضرتؐ کی بیعت کرنے والی سب سے پہلی خاتون تھی۔»[13] اس بیعت کے اہم نکات میں سے ایک ابوسفیان کی بیوی ہند کا مخفی طور پر بیعت کرنا ہے۔ وہ رسول اللہ کے ساتھ اس کی دشمنی اور حمزہ سیدالشہداء کے بدن کو ٹکڑے کرنے کے انتقام سے خوف زدہ تھی اسی لیے عورتوں کے ہمراہ ناشناس طور پر آکر بیعت کی؛ اور جب آنحضرتؐ کی طرف سے بیعت کی شرائط بیان ہوئیں تو لب اعتراض کھول دی اور اسے خواتین کے خلاف زیادتی قرار دیا اور بیعت کے بعض شرائط پر اعتراض کرتے ہوئے خود کی معرفی کی۔ لیکن رسول اللہ نے اسے بخش دیا اور سزا دینے سے اجتناب کیا۔[14]
خواتین کی بیعت کا طریقہ
اکثر مورخوں کا کہنا ہے کہ بیعت کے وقت آنحضرتؐ نے ایک برتن میں پانی رکھا اور اپنے ہاتھ کو اس پانی میں رکھ دیا اور پھر بیعت نساء کے متن کو پڑھا اور عورتوں کو بھی اپنا ہاتھ پانی میں رکھنے کا حکم دیا اور اس طرح سے عورتوں نے آپؐ کی بیعت کی۔[15]
عورتوں کی رسول اللہ سے بیعت کرنے کے دوسرے طریقے بھی بیان ہوئے ہیں۔[نوٹ 1]
بیعت کا وقت
رسول اللہ کے دور میں خواتین کی سب سے اہم اور مشہور بیعت، بیعت النساء تھی جو فتح مکہ (۸ھ۔) کے بعد مکہ میں واقع ہوئی البتہ بعض نے بیعت عقبہ اول کو بیعت النساء کا نام دیا ہے؛ لیکن یہ نظریہ چند وجوہات کی بنا پر صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ
- سورہ ممتحنہ کی بارہویں آیت بیعت النساء کے مفادنامے کو جو بیان کرتی ہے وہ فتح مکہ کے بعد عورتوں کا آنحضرتؐ کی بیعت کرنے کے دوران نازل ہوئی ہے۔[16]
- بعض کتابوں میں تصریح ہوئی ہے کہ بیعت النساء فتح مکہ کے بعد ہوئی ہے۔[17]
- ابن ہشام، سلمی بنت قیس کی حالات زندگی کے بارے میں کہتا ہے: انہوں نے رسول اللہ کے ہمراہ دو قبلوں کی طرف نماز پڑھی اور بیعت النساء میں شریک ہوئی ہے۔[18] جبکہ عقبہ اول میں کوئی بھی خاتون نہیں تھی اور صرف 12 مرد اس میں شامل تھے۔[19] اس لئے ابن ہشام کی بات بیعت عقبہ کے بارے میں نہیں ہوسکتی ہے۔
- بیعت النساء فتح مکہ کے بعد مردوں کی بیعت سے الگ بیعت ہوئی ہے جس میں شریک سب عورتیں تھیں۔[20] رسول خدا نے کعبہ کو بتوں سے پاک کرتے ہوئے پہلے مردوں سے اور پھر عورتوں سے بیعت مانگی۔ آنحضرت کوہ صفا پر تھے اور عورتوں نے وہاں جاکر آپؐ کی بیعت کی۔[21]
- بیعت عقبہ کو بیعت النساء نام دینے کی وجوہات
جن لوگوں نے بیعت عقبہ اول کو بیعت النساء نام دیا ہے اس کی علت کے بارے میں چند احتمال ذکر کرتے ہیں:
- اس لئے بیعت النساء نام رکھا گیا، بیعت کرنے والوں میں عفراء بنت عبید بن ثعلبہ شامل تھی اور وہ آنحضرت کی بیعت کرنے والی سب سے پہلی خاتون ہیں۔[22] یہ احتمال صحیح نہیں ہے کہ بیعت کرنے والوں میں کوئی خاتون شامل نہیں تھی۔
- چونکہ اس کا مفہوم یہ تھا کہ رسو اللہ کو اپنے گھر کے افراد میں سے ایک سمجھا جائے تو اس لئے اسے بیعت النساء نام دیا گیا۔
- چونکہ طے یہ ہوا تھا کہ مسلمان اور کافروں کے درمیان کوئی جنگ واقع نہ ہو، اور جنگ مردوں کے کاموں میں سے ایک ہے لہذا اسے بیعت النّساء کہا گیا۔[23]
حوالہ جات
- ↑ لسان العرب، ج۸، ص۲۶، «بیع»
- ↑ السیرة النبویہ، ج۱، ص۴۴۱؛ الطبقات، ج۸، ص۳۰۳
- ↑ الطبقات، ج۸، ص۱۸۳؛ الاستیعاب، ج۴، ص۱۸۰۰؛ اسد الغابہ، ج۶، ص۴۸؛ المنتظم، ج۵، ص۱۸۰
- ↑ الطبقات، ج۸، ص۸؛ تاریخ دمشق، ج۶۹، ص۴۹
- ↑ تاریخ دمشق، ج۶۹، ص۵۰
- ↑ الطبقات، ج۸، ص۴؛ الدر المنثَور، ج۶، ص۲۰۹؛ مسند احمد، ج۶، ص۴۰۹
- ↑ المغازی، ج۲، ص۵۷۴؛ امتاع الاسماع، ج۱، ص۲۷۶
- ↑ تفسیر قمی، ج۲، ص۳۶۴؛ مجمع البیان، ج۹، ص۴۱۳-۴۱۴
- ↑ الکشاف، ج۴، ص۵۱۹؛ مجمع البیان، ج۹، ص۴۱۴؛ الاصفی، ج۲، ص۱۲۹۵
- ↑ جامع البیان، ج۲۸، ص۵۴؛ الطبقات، ج۸، ص۸؛ البحر المحیط، ج۱۰، ص۱۶۰
- ↑ جامع البیان، ج۲۸، ص۵۲؛ التبیان، ج۹، ص۵۸۸؛ تفسیر قرطبی، ج۱۹، ص۷۳
- ↑ المغازی، ج۲، ص۸۵۰
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۱، ص۱۴.
- ↑ تاریخ طبری، ج۳، ص۶۱-۶۲؛ جامع البیان، ج۲۸، ص۵۱؛ البدایة و النہایہ، ج۴، ص۳۱۹
- ↑ تاریخ طبری، ج۳، ص۶۲؛ جامع البیان، ج۲۸، ص۵۱؛ تفسیر قمی، ج۲، ص۳۶۴؛ المغازی، ج۲، ص۸۵۱؛ روض الجنان، ج۱۹، ص۱۶۹
- ↑ تفسیر قمی، ج۲، ص۳۶۴؛ مجمع البیان، ج۹، ص۴۱۳-۴۱۴
- ↑ تفسیر ثعالبی، ج۵، ص۴۲۲
- ↑ السیرة النبویہ، ج۲، ص۲۴۴
- ↑ الطبقات، ج۱، ص۱۷۰؛ الکامل، ج۲، ص۹۶
- ↑ الطبقات، ج۱، ص۱۷۰؛ الکامل، ج۲، ص۹۶
- ↑ مجمع البیان، ج۹، ص۴۱۳
- ↑ تاریخ الاسلام، حسن ابراہیم حسن، ج۱، ص۹۵
- ↑ عبدالرحمان بن عبداللہ سہیلی، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، چاپ عبدالرحمان وکیل، قاہرہ ۱۳۸۹ق/۱۹۶۹م.، ج۴، ص۷۰
نوٹ
- ↑ * آنحضرت نے اپنے ہاتھ پر کپڑا لپیٹا اور خواتین سے بیعت لی۔الطبقات، ج۸، ص۳؛ تفسیر ابن ابی حاتم، ج۱۰، ص۳۳۵۱
- خواتین کی بیعت لسانی تھی۔مسند احمد، ج۶، ص۳۵۷؛ صحیح البخاری، ج۶، ص۶۱
- خواتین اور رسول خدا کے درمیان ایک کپڑا بھیلایا گیا جس کے ایک سرے کو آپؐ نے پکڑا اور دوسرے کو عورتوں نے، اور یوں بیعت کی۔ روض الجنان، ج۱۹، ص۱۶۹
- عورتوں سے بیعت رسول اللہ کی طرف سے کسی اور نے لیا۔تفسیر ماوردی، ج۵، ص۵۲۴؛ الدر المنثَور، ج۶، ص۲۰۹
مآخذ
- ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۱، تحقیق : محمد أبو الفضل إبراہیم، دار إحیاء الکتب العربیہ - عیسی البابی الحلبی وشرکاہ، ۱۳۷۸- ۱۹۵۹ع
- الاستیعاب:ابن عبد البر (م.۴۶۳ق.)، بہ کوشش البجاوی، بیروت،دار الجیل، ۱۴۱۲ق
- اسد الغابہ: ابن اثیر (م.۶۳۰ق.)، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۹ق
- الاصابہ: ابن حجر العسقلانی (م.۸۵۲ق.)، بہ کوشش علی معوض و عادل عبد الموجود، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق
- الاصفی: الفیض الکاشانی (م.۱۰۹۱ق.)، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، ۱۴۱۸ق
- امتاع الاسماع: المقریزی (م.۸۴۵ق.)، بہ کوشش محمد عبد الحمید، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۲۰ق
- انساب الاشراف: البلاذری (م.۲۷۹ق.)، بہ کوشش زکار و زرکلی، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۷ق
- البحر المحیط: ابو حیان الاندلسی (م.۷۵۴ق.)، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۲ق
- البدایۃ و النہایہ: ابن کثیر (م.۷۷۴ق.)، بیروت، مکتبۃ المعارف
- تاریخ طبری (تاریخ الامم و الملوک): الطبری (م.۳۱۰ق.)، بہ کوشش محمد ابو الفضل، بیروت، دار احیاء التراث العربی
- تاریخ مدینۃ دمشق: ابن عساکر (م.۵۷۱ق.)، بہ کوشش علی شیری، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ق
- تفسیر ابن ابی حاتم (تفسیر القرآن العظیم): ابن ابی حاتم (م.۳۲۷ق.)، بہ کوشش اسعد محمد، بیروت، المکتبہ العصریہ، ۱۴۱۹ق
- تفسیر ثعالبی (الجواہر الحسان): الثعالبی (م.۸۷۵ق.)، بہ کوشش عبد الفتاح و دیگران، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۱۸ق
- تفسیر قرطبی (الجامع لاحکام القرآن): القرطبی (م.۶۷۱ق.)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۵ق
- تفسیر القمی: القمی (م.۳۰۷ق.)، بہ کوشش الجزائری، قم، دار الکتاب، ۱۴۰۴ق
- تفسیر ماوردی (النکت و العیون): الماوردی (م.۴۵۰ق.)، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۲ق
- جامع البیان: الطبری (م.۳۱۰ق.)، بیروت، دار المعرفہ، ۱۴۱۲ق
- الدر المنثَور: السیوطی (م.۹۱۱ق.)، بیروت، دار المعرفہ، ۱۳۶۵ق
- روض الجنان: ابوالفتوح رازی (م.۵۵۴ق.)، بہ کوشش یاحقی و ناصح، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۳۷۵ش
- السیرۃ النبویہ: ابن ہشام (م.۲۱۳/۲۱۸ق.)، بہ کوشش السقاء و دیگران، بیروت، دار المعرفہ
- صحیح البخاری: البخاری (م.۲۵۶ق.)، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۱ق
- الطبقات الکبری: ابن سعد (م.۲۳۰ق.)، بہ کوشش محمد عبد القادر، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۸ق
- الکامل فی التاریخ: ابن اثیر (م.۶۳۰ق.)، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۵ق
- الکشاف: الزمخشری (م.۵۳۸ق.)، قم، بلاغت، ۱۴۱۵ق
- لسان العرب: ابن منظور (م.۷۱۱ق.)، قم، ادب الحوزہ، ۱۴۰۵ق
- مجمع البیان: الطبرسی (م.۵۴۸ق.)، بیروت، دار المعرفہ، ۱۴۰۶ق
- مسند احمد: احمد بن حنبل (م.۲۴۱ق.)، بیروت، دار صادر
- المغازی: الواقدی (م.۲۰۷ق.)، بہ کوشش مارسدن جونس، بیروت، اعلمی، ۱۴۰۹ق
- المنتظم: ابن جوزی (م.۵۹۷ق.)، بہ کوشش محمد عبد القادر و دیگران، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۲ق.
- تاریخ الاسلام السیاسی والدینی والثقافی والاجتماعی: حسن ابراہیم حسن،، ج۱، قاہرہ ۱۹۶۴ع، چاپ افست بیروت، بی تا.
- الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: عبدالرحمان بن عبداللہ سہیلی،، چاپ عبد الرحمان وکیل، قاہرہ ۱۳۸۹ق/۱۹۶۹ع