اَیامِ تَشْریقْ قمری سال کے آخری مہینہ ذی الحجہ کے گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں دن کو کہا جاتا ہے. خانہ خدا کے حج کرنے والے حاجی قربانی اور رمی جمرات جیسے حج کے بعض اہم مناسک اور اعمال انہی ایام میں انجام دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے اسلامی تہذیب میں ان دنوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ بعض منابع میں ان ایام کو اسلامی عیدوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔

وجہ تسمیہ

لغوی اور دینی متون میں ایام تشریق کو اس نام سے موسوم کرنے کی وجہ یوں بیان کی گئی ہے کہ قربانی کے گوشت کو ضرورت مندوں اور فقراء کو دینے کے لیے دھوپ میں رکھ کر خشک کیا جاتا تھا، تاکہ اسے ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ اس عمل کے لیے تیز روشنی اور گرمائش کی ضرورت ہوتی تھی۔[1] بعض دیگر منابع کے مطابق طلوع آفتاب کے وقت قربانی کا آغاز ہوتا تھا اور دوران جاہلیت، عرب حج کے مناسک ادا کرتے ہوئے منیٰ میں واقع "ثبیر" نامی چوٹی سے یوں مخاطب ہوتے تھے: «اَشرِق ثبیر؛ اے ثبیر! سورج کے نور سے روشن ہوجا تاکہ ہم قربانی کا آغاز کریں.» اور طلوع آفتاب کے وقت قربانی کرتے تھے۔[2]

اس بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ «ایام تشریق»، دوران جاہلیت کا باقی ماندہ ایک نام ہے۔ صدر اسلام اور اس کے بعد والی صدیوں میں ان تین دنوں کے اپنے مخصوص نام ہوا کرتے تھے۔[3]

امام صادق(ع) سے منقول روایت کے مطابق مشرکین، مناسک حج کے اختتام پر منیٰ میں جمع ہوتے تھے اور اپنے آباء و اجداد کو یاد کرتے ہوئے ان پر فخر و مباہات کرتے تھے۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو یہ حکم ہوا کہ اس دوران وہ ذکر خدا کیا کریں۔[4]

مقام و مرتبہ

 
ایام تشریق کا منظر

قرآن میں ایام تشریق نام کی کوئی تعبیر استعمال نہیں ہوئی ہے لیکن صدر اسلام ہی سے قرآن میں مستعمل تعبیر «ایام معدودات»[5] سے ایام تشریق مراد لی جاتی رہی ہے۔[6] بعض احادیث کی رو سے قرآنی تعبیر «ایام معلومات» [7] ایام تشریق کی طرف اشارہ ہے۔[8] بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مناسک حج کے ان ایام میں قرار پانے کی وجہ یہ ہے کہ خلقت زمین کے آغاز میں فرشتوں نے انہیں ایام میں خانہ خدا کی زیارت اور اس کا طواف کیا ہے اسی طرح گذشتہ تمام انبیاء نے حج کے اعمال انہی ایام میں سرانجام دئے ہیں۔[9]

اعمال

قربانی

سرزمین منیٰ کے واجب اعمال اور مناسک حج میں سے ایک قربانی کرنا ہے جسے حاجی حضرات منیٰ میں پہنچنے کے بعد انجام دیتے ہیں۔[10]

  • فقہ اہل سنت

اہل سنت کے متقدم فقہاء میں سے بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ قربانی صرف عید قربان یعنی دسویں ذی الحجہ کو کرنا ضروری ہے؛ لیکن مذاہب اہل سنت کے ائمہ جیسے ابو حنیفہ، مالک، احمد بن حنبل وغیرہ نے عید قربان کے دن کے علاوہ ایام تشریق کے پہلے دو دن یعنی گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کو بھی قربانی کرنے کو جائز سمجھا ہے اور تیرہ ذی الحجہ کو قربانی کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔[11] اس سلسلے میں شافعی اور اہل شام کے فقیہ اوزاعی کا نظریہ یہ ہے کہ قربانی کرنا عید قربان کے دن سے لیکر تیرہ ذی الحجہ کے دن ڈھلنے تک جائز ہے۔[12]

  • فقہ امامیہ

اس مسئلے میں شیعہ فقہاء کے مابین دو قسم کے نظریے پایے جاتے ہیں۔ شیعہ فقہاء کا رائج اور مشہور نظریہ یہ ہے کہ سرزمین منیٰ پر عید قربان کے دن سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن تک قربانی کرنا جائز ہے؛ لیکن منیٰ کے علاوہ دوسری جگہوں پر صرف عید کے دن اور ایام تشریق کے پہلے دو دن (11 اور 12 ذی الحجہ)میں قربانی کرنا جائز ہے.[13] بعض دوسرے شیعہ فقہاء کہتے ہیں کہ ذی الحجہ کے پورے مہینے میں قربانی کرنا جائز ہے اگرچہ احوط[14] یہ ہے کہ روز عید، قربانی کی جائے اور عید کے دن قربانی کا عمل انجام نہ دینے کی صورت میں بہتر اور احتیاط کے نزدیک عمل یہ ہے کہ اسے ایام تشریق میں انجام دیا جائے۔ [15]

بعض دوسرے اعمال

 
رمی جمرات کی ایک قدیمی تصویر

ایام تشریق کے دوران حج کے واجب اعمال میں سے ایک رمی جمرات (شیطان کو کنکریاں مارنا) اور منیٰ کے مقام پر تین دن آدھی رات تک بیتوتہ(رات گزارنا) کرنا ہے۔ روایات اور [[فقہ|فقہی] کتب میں موجود احکام کے مطابق ایام تشریق میں ہر نماز کے بعد تکبیر کہنا ان ایام کے خاص آداب میں شمار ہوتا ہے۔ تکبیر کہنے کی کیفیت اور وقت کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔

بعض فقہاء کے مطابق تکبیر کہنے کا وقت عید قربان کے دن نماز ظہر سے لیکر ایام تشریق کے آخری دن کے طلوع آفتاب تک ہے اور بعض دیگر فقہاء نے کہا ہے کہ عید قربان کے دن نماز ظہر سے لیکر 14 ذی الحجہ کے طلوع آفتاب تک تکبیر کہنے کا وقت ہے۔ بعض دیگر فقہاء نے ایام تشریق کے دوسرے روز تک تکبیر کا وقت قرار دیا ہے۔[16]

اہم واقعات

تاریخی اعتبار سے ان ایام میں چند اہم واقعات رونما ہوئے ہیں.

  • ایام تشریق کے دوران رونما ہونے والے واقعات میں سے ایک اہم واقعہ سنہ 9 ہجری قمری کو پیغمبر خداؐ کے حکم پر حضرت علیؑ کا حاجیوں کے لیے سورہ توبہ کی قرائت کرنا ہے۔
  • سنہ 13 بعثت کو ایام تشریق کے دوسرے دن پیغمبر خداؐ اور انصار کے ایک گروہ کے درمیان عقبہ دوم کا معاہدہ منعقد ہوا۔ جس سے آپؐ کی مدینہ کی جانب ہجرت کا میدان فراہم ہوا۔[17]

محرمات

ان ایام میں کچھ اعمال کا انجام دینا حرام ہے۔ ان میں سے ایک یہ کہ جو حاجی ان ایام میں منیٰ میں ہوگا ان کے لیے روزہ رکھنا حرام ہے؛ یہ حرمت صرف حاجیوں کے لیے ہے، البتہ فقہاء کی اکثریت نے ایسی کوئی قید ذکر نہیں کی ہے۔ [18]

اہل سنت کی فقہی کتابوں میں بھی ان ایام میں روزہ رکھنے کو ایک ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے جسے بعض نے حرمت سے تعبیر کی ہے اور بعض دیگر نے کراہت مراد لی ہے۔ شافعی مذہب کا سابقہ حکم اور اہل سنت کے بعض فقہائے عراق کا نظریہ یہ ہے کہ جو شخص حج تمتع انجام دیتا ہے اگر وہ یوم عرفہ سے پہلے تین دن روزے نہیں رکھ پائے ہوں تو وہ ایام تشریق میں روزہ رکھ سکتا ہے۔[19] ان دنوں میں روزہ رکھنے سے ممانعت کی وجہ روایات میں اللّہ کی نعمتوں کے دسترخوان پر حاجیوں کا مہمان ہونا قرار دیا ہے۔[20]

حوالہ جات

  1. نک: ابن ابی شیبه، ج4، ص551
  2. ابن سکیت، ص92؛ ابن اثیر، ج2، ص464
  3. نک: آوردی، ج4، ص194؛ شوکانی، ج5، ص82
  4. کلینی، ج4، ص516؛ قاضی نعمان، ج1، ص340
  5. سورہ بقرہ، آیہ203
  6. نک: بخاری، ج 1، ص32۹؛ طبری، ج 4، ص208-215؛ طوسی، تہذیب...، ج 5، ص447، 487
  7. سوره حج، آیہ2
  8. ابن بابویہ، معانی...، ص2۹7؛ طوسی، التبیان، ج 7، ص310
  9. ابن بابویه، علل، ج1، ص274، عیون...، ج1، ص127
  10. محقق حلی، ج 1، ص258-265
  11. نک: قفال، ج3، ص320؛ جصاص، ج5، ص68؛ مرغینانی، ج4، ص73؛ ابن عبدالبر، ج 12، ص130؛ ابن قدامہ، ج3، ص454
  12. شافعی، ج2، ص222
  13. محقق حلی، ج 1، ص264؛ شہید ثانی، ج 2، ص235؛ صاحب جواہر، ج 1۹، ص223
  14. لفظ احوط ایک فقہی اصطلاح ہے جس کے معنی ہیں کسی عمل کا احتیاط کے مطابق ہونا۔ یہ اصطلاح اگر فتویٰ کے بعد(جیسا کہ اس مسئلے میں ذکر ہوا) ذکر ہوجائے تو اس کے معنی احتیاط مستحب کے ہیں، یعنی یہ ایک مستحب عمل ہے۔ لیکن اگر اس قسم کی اصطلاح مستقل طور پر ذکر ہو اور اس اصطلاح سے پہلے اس کے برخلاف کوئی فتویٰ ذکر نہ ہو تو اس صورت میں اس پر عمل کرنا ضروری ہے البتہ مقلد اس مسئلے میں کسی دوسرے مجتہد کی تقلید پر عمل کرسکتا ہے۔ [1]
  15. نک: خمینی، ج1، ص447؛ خویی، ج5، ص205؛ قس: خوانساری، ج2، ص454
  16. مالک، ج1، ص171-172؛ سرخسی، ج2، ص43-44؛ ابن بابویہ، الہدایۃ، ص209-210؛ ابن قدامہ، ج2، ص254-256؛ طوسی، الخلاف، ج1، ص667
  17. طوسی، التبیان، ج 5ص169؛ فخرالدین، ج 5ص524؛ مجلسی، ج 21ص273؛ احمد بن حنبل، ج 3ص415؛ ابن ابی عاصم، ج 1ص131؛ کلینی، ج 1ص439؛ ابن بابویه، الخصال، ص486؛ ابن شهر آشوب، ج 1ص156؛ ابن طاووس، ج 2ص39؛ شیخ بهایی، ص30؛ ان دنوں کی فضیلت اور آداب سے متعلق روایات کی تفصیل جاننے کے لیے ملاحظہ کریں: ابن بابویه، من لایحضر...، ج 2ص214؛
  18. مفید، ص366؛ طوسی، المبسوط، ج 1، ص370؛ محقق حلی، ج 1، ص209، 261-262؛ شهید ثانی، ج 2، ص109
  19. سرخسی، ج 3، ص63؛ مرغینانی، ج 1، ص155؛ ابواسحاق، ص68
  20. کلینی، ج 4، ص224؛ ابن بابویه، علل...، ج2، ص443

مآخذ

  • قرآن کریم.
  • ابن ابی شیبه، عبداللٰه، المصنف، به کوشش سعید لحام، بیروت، 1409ھ.
  • ابن ابی عاصم، احمد، الآحاد و المثانی، به کوشش باسم فیصل جوابره، ریاض،1411ھ/1991ء.
  • ابن اثیر، مبارک، النهایة، به کوشش طاهر احمد زاوی و محمود محمد طناحی، قاهره، 1383ھ/1963ء.
  • ابن بابویه، محمد، الخصال، به کوشش علی‌اکبر غفاری، قم، 1403ھ.
  • همو، علل الشرایع، نجف، 1386ھ/1966ء؛ همو، عیون اخبار الرضا(ع)، به کوشش حسین اعلمی، بیروت، 1404ھ.
  • همو، معانی الاخبار، به کوشش علی‌اکبر غفاری، قم، 1361ہجری شمسی.
  • همو، من لایحضره الفقیه، به کوشش علی‌اکبر غفاری، قم، 1404ھ.
  • همو، الهدایة، قم، 1418ھ.
  • ابن سکیت، یعقوب، اصلاح المنطق، به کوشش احمد محمد شاکر و عبدالسلام محمد هارون، قاهره، 1949ء.
  • ابن شهرآشوب، محمد، مناقب آل ابی‌طالب، نجف، 1376ھ.
  • ابن طاووس، علی، اقبال‌الاعمال، به کوشش جواد قیومی، قم، 1415ھ.
  • ابن عبدالبر، یوسف، التمهید، به کوشش مصطفی بن احمد علوی و محمد عبدالکبیر بکری، رباط، 1387ھ.
  • ابن قدامه، عبدالله، المغنی، بیروت، دارالکتاب العربی؛
  • ابن منظور، لسان؛ ابواسحاق شیرازی، ابراهیم، التنبیه، به کوشش عمادالدین احمد حیدر، بیروت، 1403ھ.
  • ابوداوود سجستانی، سلیمان، السنن، به کوشش محمد محیی‌الدین عبدالحمید، قاهره، 1369ھ.
  • احمد بن حنبل، المسند، قاهره، 1313ھ.
  • بخاری، محمد، الصحیح، به کوشش مصطفی دیب البغا، بیروت، 1407ھ/1987ء.
  • ترمذی، محمد، السنن، به کوشش احمد محمد شاکر و دیگران، قاهره،1357ھ/1938ء.
  • جصاص، احمد، احکام القرآن، به کوشش محمد صدیق قمحاوی، بیروت، 1405ھ/1985ء.
  • خمینی، روح الله، تحریر الوسیلة، نجف، 1390ھ.
  • خوانساری، احمد، جامع المدارک، به کوشش علی‌اکبر غفاری، تهران، 1355ہجری شمسی.
  • خویی، ابوالقاسم، الحج، به تقریر رضا خلخالی، قم، 1407ھ.
  • دارمی، عبدالله، السنن، به کوشش فواز احمد زمرلی و خالد سبع علمی، بیروت،1407ھ.
  • رافعی، عبدالکریم، فتح العزیز، بیروت، دارالفکر.
  • سرخسی، محمد، المبسوط، قاهره، مطبعة الاستقامه.
  • شافعی، محمد، الام، بیروت، دارالمعرفة.
  • شوکانی، محمد، نیل‌الاوطار، بیروت، 1973ء.
  • شهید ثانی، زین‌الدین، الروضة البهیة، به کوشش محمد کلانتر، بیروت، دارالتعارف.
  • شیخ بهایی، محمد، توضیح‌المقاصد، قم، 1406ھ.
  • صاحب جواهر، محمدحسن، جواهر الکلام، به کوشش محمود قوچانی، تهران، 1394ھ.
  • طبری، تفسیر، به کوشش محمود محمد شاکر و احمد محمد شاکر، قاهره، دارالمعارف.
  • طوسی، محمد، التبیان، به کوشش قصیر عاملی، نجف، 1383ھ/1964ء.
  • همو، تهذیب الاحکام، به کوشش حسن موسوی خرسان، نجف، 1379ھ.
  • همو، الخلاف، به کوشش محمدمهدی نجف و دیگران، قم، 1417ھ/1996ء.
  • همو، المبسوط، به کوشش محمد تقی کشفی، تهران،1387ھ.
  • غزالی، محمد، الوسیط، به کوشش احمد محمود ابراهیم و محمد محمد تامر، قاهره، 1417ھ.
  • فخرالدین رازی، التفسیر الکبیر، قاهره، المطبعة البهیه.
  • قاضی نعمان، دعائم‌الاسلام، به کوشش آصف فیضی، قاهره، 1389ھ/ 1969ء.
  • قفال چاچی، محمد، حلیة العلماء، به کوشش یاسین احمد ابراهیم درادکه، عمان، 1988ء.
  • کاسانی، ابوبکر، بدائع الصنائع، قاهره، 1406ھ/ 1986ء.
  • کلینی، محمد، الکافی، به کوشش علی‌اکبر غفاری، تهران، 1363ہجری شمسی.
  • مالک بن انس، الموطأ، به کوشش محمد فؤاد عبدالباقی، قاهره، 1370ھ/1951ء.
  • آوردی، علی، الحاوی الکبیر، به کوشش علی محمد معوض و عادل احمد عبدالموجود، بیروت، 1414ھ.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، 1403ھ/ 1983ء.
  • محقق حلی، جعفر، شرائع الاسلام، به کوشش عبدالحسین محمدعلی، نجف، 1389ھ/1969ء.
  • مرغینانی، برهان‌الدین، «الهدایة»، همراه فتح القدیر، قاهره، 1319ھ.
  • مفید، محمد، المقنعة، قم، 1410ھ؛ نووی، یحیی، المجموع، به کوشش محمود مطرحی، بیروت، 1417ھ/1996ء.