احسن الکبار فی معرفۃ الائمۃ الاطہار (کتاب)

ویکی شیعہ سے
احسن الکبار فی معرفۃ الائمۃ الاطہار
مرکز احیاء میراث اسلامی کی جانب سے مہیا کتاب کے سروق کی تصویر
مرکز احیاء میراث اسلامی کی جانب سے مہیا کتاب کے سروق کی تصویر
مشخصات
مصنفسید محمد بن ابی‌ زید ورامینی
سنہ تصنیفسنہ 739ھ تا 743ھ
موضوعاثبات نبوت، امامت اور ائمہ معصومینؑ کے استنادات
طرز تحریرکلامی
زبانفارسی
مذہبشیعہ


اَحسَنُ الکِبار فی مَعرِفَۃِ الاَئِمَّۃِ الاَطہار فارسی زبان میں لکھی گئی ایک کتاب ہے جس میں اثبات امامتِ حضرت علیؑ، ائمہ معصومینؑ کے معجزات و کرامات اور ائمہ معصومینؑ کے شیعوں کے مخالفین سے کیے گئے مناظرات بیان کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کو سید محمد بن ابی زید ورامینی نے بعض محبان اہل بیتؑ، منجملہ نصرت‌ الدین اسماعیل رازی کی تشویق و ترغیب پر تحریر کیا ہے۔ قدیم شیعہ علماء کی آراء کا تذکرہ، آسان فہم اور ضعیف روایات ذکر کرنے سے اجتناب، اس کتاب کی امتیازی خصوصیات میں سے ہیں۔ احسن الکبار کی موجودہ دَور کے طرز و شکل میں طباعت نہیں ہوئی ہے اور اس کے کچھ نسخے مختلف کتب خانوں میں محفوظ کیے گئے ہیں۔

مولف

کتاب "احسن الکبار فی معرفۃ الائمۃ الاطہار" کے مصنف سید محمد بن ابی زید بن عرب شاہ حسینی علوی ورامینی ہیں۔ ان کا شمار 8ویں صدی ہجری کے علما اور مورخین میں ہوتا ہے۔[1] وہ علامہ حلی (متوفیٰ: 726ھ]]) کے ہم عصر، شیعہ مجتہد اور متکلم تھے۔[2] سید محمد ورامینی نے اس کتاب کی نگارش سنہ 739ھ کو شروع کی اور 743ھ کو اختتام پذیر کیا۔[3]

نگارش کتاب کا محرک اور اس کی خصوصیات

سید محمد ورامینی نے اپنی اس کتاب کو نصرت‌ الدین اسماعیل رازی (ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے عالم دین) اور دوسرے بعض محبان اہل بیتؑ کی ترغیب پر فارسی زبان میں تحریر کیا۔[4]

بعض محققین نے کتاب احسن الکبار کی مندرجہ ذیل خصوصیات بیان کی ہیں:

  • چند علمائے شیعہ اور محبان اہل بیتؑ کی سفارش پر اس کی تحریر کی گئی ہے؛
  • قدیم علما کے نظریات کو اس میں بیان کیا گیا ہے؛
  • فارسی اور عام فہم زبان استعمال کی گئی ہے؛
  • کتاب کے تمام ابواب (78باب) میں مطالب کو تفصیل اور پوری توجہ سے بیان کیا ہے؛
  • معتبر منابع حدیثی سے صرف صحیح روایات کو بیان کیا گیا ہے؛
  • مطالب بیان کرنے میں تقیہ سے پرہیز کرتے ہوئے اصل شیعہ نظریات کو بیان کیا گیا ہے؛
  • مصنف کی نظر میں جو احادیث ضعیف تھیں ان کو بیان کرنے سے اجتناب کیا ہے۔[5]

وہ نسخہ جس میں شاہ طہماسب اول کے حکم سے اصل کتاب کا خلاصہ کیا گیا ہے اس میں 17 واقعات و حوادث کی نقاشی کی گئی ہے جن میں واقعہ غدیر خم، جنگ جمل اور صلح امام حسنؑ وغیرہ شامل ہیں۔[6]

مندرجات

شیعہ مجتہد اور کتاب شناس آقا بزرگ تہرانی (متوفیٰ: 1389ھ) کے مطابق کتاب احسن الکبار 78 ابواب پر مشتمل ہے جن میں درج ذیل موضوعات بیان کیے گئے ہیں: اثبات و دلائل امامت ائمہ معصومینؑ، فضائل اہل بیتؑ، مناظرے، معجزات، امام زادگان کی تاریخ، ان کی کیفیت شہادت اور وفات وغیرہ۔[7]

ایران کے کتابخانہ مجلس شورای اسلامی میں موجود خطی نسخے کی تصویر

کتاب کے پہلےاور دوسرے باب میں نبوت و امامت کے بارے میں کلامی بحث کی گئی ہے۔ باب نمبر 3 سے 13 تک میں فضائل امام علیؑ، آپؑ کی دوسروں پر افضلیت و برتری اور خلفائے ثلاثہ کے ساتھ امام علیؑ کا رابطہ جیسے مسائل زیر بحث لائے گئے ہیں۔ اس کتاب کے چند ابواب میں خلفا کے مطاعن کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ دیگر چند ابواب میں پیغمبر اسلامؐ کے معجزات اور آپؐ کے مشرکین کے ساتھ کیے گئے مناظرے بیان ہوئے ہیں۔ مصنف نے اپنی کتاب میں ہر امام کے معجزات اور امامت کے استنادات کو بیان کرنے کے لیے ایک ایک باب مختص کر دیا ہے۔ نیز چند ابواب میں ولایت و امامت سے متعلق اعتراضات کے جوابات دیے گئے ہیں۔[8]

خطی نسخہ جات

کتاب احسن الکبار کی آج کل کی کتابوں کی مانند طباعت نہیں ہوئی ہے؛ لیکن اس کے چند خطی نسخے درج ذیل کتابخانوں میں موجود ہیں:

  • قومی کتابخانہ ملی ملک، تہران؛ نسخہ نمبر 4159، کاتب: خضر شاہ کاتب (نستعلیق) 5 رمضان سنہ948ھ، اس میں کل 572 ورق اور ہر ورق میں 19 سطریں ہیں؛
  • کتابخانہ سلطنتی (کاخ نیاروان)؛ نسخہ نمبر 768، کاتب: غیاث‌ الدین بن علاء الدین (نستعلیق خوب) سنہ 974ھ، کل صفحات: 1495 ہر صفحے میں 17 سطریں؛
  • کتابخانہ آیت‌ اللہ مرعشی نجفی؛ نسخہ نمبر 4819، کاتب: محمد جعفر بن علی کمرہ‌ای (نستعلیق) 2 صفر سنہ 1019ھ، کل ورق 493 اورہر ورق میں 19 سطریں؛
  • کتابخانہ مدرسہ فیضیہ، نسخہ نمبر 1509، کاتب: (نام موجود نہیں)، (نستعلیق و نسخ) 11 صدی ہجری، اس نسخے میں کتاب کا ابتدائی اور آخری حصہ موجود نہیں ہیں؛
  • کتابخانہ مرکز احیای میراث اسلامی؛ نمبر 2653، کاتب: محمد نصیر بن آقا محمد (نستعلیق و نسخ) 10 ربیع الاول سنہ 1103ھ، کل ورق 305 اور ہر ورق میں 33 سطریں۔[9]
  • [[کتابخانہ مجلس شورای اسلامی؛ نمبر 90735، کاتب: محمد بن زید ورامینی، (نستعلیق)، بی‌ تا، 243 ورق اور 486 صفحے۔

حوالہ جات

  1. آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ، 1403ھ، ج1، ص288۔
  2. حیدری یساولی، «احسن الکبار فی معرفۃ الائمۃ الاطہار(متنی از نیمہ نخست قرن ہشتم ہجری با نگاہی بہ نسخ خطی موجود از آن در کتابخانہ محدث ارموی)»، ص29۔
  3. حیدری یساولی، «احسن الکبار فی معرفہ الائمہ الاطہار(متنی از نیمہ نخست قرن ہشتم ہجری با نگاہی بہ نسخ خطی موجود از آن در کتابخانہ محدث ارموی)»، ص29۔
  4. حیدری یساولی، «احسن الکبار فی معرفہ الائمہ الاطہار(متنی از نیمہ نخست قرن ہشتم ہجری با نگاہی بہ نسخ خطی موجود از آن در کتابخانہ محدث ارموی)»، ص29۔
  5. حیدری یساولی، «احسن الکبار فی معرفہ الائمہ الاطہار(متنی از نیمہ نخست قرن ہشتم ہجری با نگاہی بہ نسخ خطی موجود از آن در کتابخانہ محدث ارموی)»، ص28 و 29۔
  6. شایستہ‌ فر، «بررسی موضوعی نسخہ‌ی خطی احسن الکبار شاہکار نگارگری مذہبی دورہ صفویہ»، ص14۔
  7. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج1، ص288۔
  8. ورامینی، احسن الکبار فی معرفۃ الائمۃ الاطہار، نسخہ خطی 4819، ص1و2۔
  9. حیدری یساولی، «احسن الکبار فی معرفہ الائمہ الاطہار(متنی از نیمہ نخست قرن ہشتم ہجری با نگاہی بہ نسخ خطی موجود از آن در کتابخانہ محدث ارموی)»، ص32۔

مآخذ

  • آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ، تصحیح: احمد حسینی، بیروت،‌ دار الأضواء، چاپ سوم، 1403ھ۔
  • حیدری یساولی، علی، «احسن الکبار فی معرفہ الائمہ الاطہار (متنی از نیمہ نخست قرن ہشتم ہجری با نگاہی بہ نسخ خطی موجود در کتابخانہ محدث ارموی»، در مجلہ کتاب ماہ کلیات، شمارہ119، 1386ہجری شمسی۔
  • شایستہ‌ فر، مہناز، «بررسی موضوعی نسخہ‌ی خطی احسن الکبار شاہکار نگارگری مذہبی دورہ صفویہ»، در مجلہ کتاب ماہ ہنر، شمارہ138، 1388ہجری شمسی۔
  • ورامینی، محمد، احسن الکبار فی معرفہ الائمہ الاطہار، نسخہ خطی، شمارہ 4819 کتابخانہ آیت‌ اللہ مرعشی نجفی، نوشتہ محمد جعفر بن علی کمرہ‌ای (نستعلیق) در دوم صفر سال 1019ق در 493 برگ و ہر برگہ 19 سطر۔