"استخارہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 12: | سطر 12: | ||
استخارہ لغت میں طلب خیر،<ref>ابناثیر، النہایۃ، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، ج۲، ص۹۱، ذیل واژہ «خیر»۔</ref> دو کاموں میں سے بہترین کے انتخاب کی درخواست<ref>ابنفارس، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۲۳۲، ذیل واژہ «خیر»۔</ref> اور دعا<ref>ابنادریس، السرائر، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۱۴۔</ref> کے معنی میں آیا ہے؛ لیکن موجودہ دور میں کسی ایسے کام کے انتخاب کو خدا پر چھوڑنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جس کے متعلق انسان تردد کا شکار ہو اور دوسروں کے ساتھ مشورت کے ذریعے اس کام میں موجود خیر و شر کی تشخیص ممکن نہ ہو۔<ref>ضميرى و حسينىزادہ، «استخارہ»۔</ref> | استخارہ لغت میں طلب خیر،<ref>ابناثیر، النہایۃ، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، ج۲، ص۹۱، ذیل واژہ «خیر»۔</ref> دو کاموں میں سے بہترین کے انتخاب کی درخواست<ref>ابنفارس، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۲۳۲، ذیل واژہ «خیر»۔</ref> اور دعا<ref>ابنادریس، السرائر، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۱۴۔</ref> کے معنی میں آیا ہے؛ لیکن موجودہ دور میں کسی ایسے کام کے انتخاب کو خدا پر چھوڑنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جس کے متعلق انسان تردد کا شکار ہو اور دوسروں کے ساتھ مشورت کے ذریعے اس کام میں موجود خیر و شر کی تشخیص ممکن نہ ہو۔<ref>ضميرى و حسينىزادہ، «استخارہ»۔</ref> | ||
==استخارہ کے طریقے== | ==استخارہ کے طریقے== | ||
حدیثی منابع میں استخارہ کے مختلف طریقے بیان ہوئے ہیں جن میں نماز، دعا، قرآن اور تسبیح کے ذریعے استخارہ کرنا نیز استخارہ ذاتالرِّقاع (کاغذ کے استخارہ کرنا) کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان طریقوں میں سے ہر ایک میں مختلف صورتوں میں استخارہ انجام دیا جاتا ہے۔ کتاب [[مفاتیح الجنان|مفاتیحالجنان]] میں [[شیخ عباس قمی]] نے استخارہ کے بعض طریقوں کو ذکر کئے ہیں۔<ref>رجوع کریں: قمی، مفاتیحالجنان، ۱۳۷۶ش، ص۸۴۲تا۸۵۱، حاشیہ کتاب۔</ref> | |||
نماز کے ذریعے استخارہ کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے دو رکعت نماز ادا کی جائے پھر نماز کے بعد [[سجدہ|سجدے]] میں جا کر 100 دفعہ کہے : "{{حدیث|اَستخیر اللّٰه فی جمیع اُموری خيرة فی عافی" (میں تمام امور میں خدا سے طلب خیر کرتا ہوں)۔ اس کے بعد خدا اس کے دل میں جو بھی خطور کرے اسی کو انجام دے گا۔<ref>ابنادریس، السرائر، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۱۴۔</ref> | |||
<!-- | |||
برپایہ روایتی کہ از [[امام صادق(ع)]] نقل شدہ یکی از روشہای استخارہ با قرآن این است: اگر انسان مردد بود بین اینکہ کاری را انجام دہد یا آن را رہا کند، وقتی برای نماز آمادہ شد، قرآن را بگشاید و بہ نخستین چیزی کہ در آن دید، عمل کند۔<ref>طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۳۱۰۔</ref> | برپایہ روایتی کہ از [[امام صادق(ع)]] نقل شدہ یکی از روشہای استخارہ با قرآن این است: اگر انسان مردد بود بین اینکہ کاری را انجام دہد یا آن را رہا کند، وقتی برای نماز آمادہ شد، قرآن را بگشاید و بہ نخستین چیزی کہ در آن دید، عمل کند۔<ref>طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۳۱۰۔</ref> | ||
سطر 66: | سطر 66: | ||
{{پایان}} | {{پایان}} | ||
--> | --> | ||
== حوالہ جات == | == حوالہ جات == | ||
{{حوالہ جات2}} | {{حوالہ جات2}} |
نسخہ بمطابق 20:46، 5 نومبر 2019ء
اِسْتِخارہ، طلب خیر اور شک و تردید کے موقع پر اپنے امور کے انتخاب کو خدا پر چھوڑنے کو کہا جاتا ہے۔ استخارہ مختلف طریقوں سے انجام پاتا ہے؛ من جملہ ان میں نماز اور دعا کے ذریعے استخارہ کرنا، قرآن کے ذریعے استخاره کرنا، استخارہ ذاتالرِّقاع (کاغذ کے ذریعے استخارہ کرنا) اور تسبیح کے ذریعے استخارہ کرنا شامل ہیں۔
علماء استخارے کی مشروعیت کو ثابت کرنے کے لئے مختلف احادیث سے استناد کرتے ہیں۔ شیخ عباس قمی نے استخارہ کے بعض طریقوں کو مفاتیح الجنان میں ذکر کئے ہیں۔ استخارہ کے بعض آداب یہ ہیں: قرآن کی بعض آیتوں یا سورتوں کی تلاوت کرنا، پیغمبر اکرمؐ اور آپ کی آل پر صلوات بھیجنا نیز بعض مخصوص اذکار کا پڑھنا۔
علامہ مجلسی کے مطابق اصل یہ ہے کہ ہر شخص خود اپنے لئے استخارہ کرے؛ لیکن بعض علماء اس کام کے لئے دوسرے کی طرف بھی رجوع کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں اور موجودہ دور میں استخارہ کے لئے لوگ علماء کی طرف مراجعہ کرتے ہیں۔
بعض مشہور استخارے نقل ہوئے ہیں؛ من جملہ ان میں عبدالکریم حائری مؤسس حوزہ علمیہ قم کی جانیت بں قم میں اقامت کے لئے استخارہ اور محمدعلی شاہ قاجار کی طرف سے مجلس شورای ملی میں شامل ہونے کے لئے استخارہ۔
بعض کتابیں جو مستقل طور پر استخارہ کے بارے میں لکھی گئی ہیں درج ذیل ہیں: فَتحُالاَبواب، تحریر سید بن طاووس، اِرشاد المُستَبصِر فی الاِستخارات، تألیف سید عبداللہ شُبَّر اور الاِثارۃ عن معانی الاِستخارہ، تحریر فیض کاشانی۔
مفہوم شناسی
استخارہ لغت میں طلب خیر،[1] دو کاموں میں سے بہترین کے انتخاب کی درخواست[2] اور دعا[3] کے معنی میں آیا ہے؛ لیکن موجودہ دور میں کسی ایسے کام کے انتخاب کو خدا پر چھوڑنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جس کے متعلق انسان تردد کا شکار ہو اور دوسروں کے ساتھ مشورت کے ذریعے اس کام میں موجود خیر و شر کی تشخیص ممکن نہ ہو۔[4]
استخارہ کے طریقے
حدیثی منابع میں استخارہ کے مختلف طریقے بیان ہوئے ہیں جن میں نماز، دعا، قرآن اور تسبیح کے ذریعے استخارہ کرنا نیز استخارہ ذاتالرِّقاع (کاغذ کے استخارہ کرنا) کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان طریقوں میں سے ہر ایک میں مختلف صورتوں میں استخارہ انجام دیا جاتا ہے۔ کتاب مفاتیحالجنان میں شیخ عباس قمی نے استخارہ کے بعض طریقوں کو ذکر کئے ہیں۔[5]
نماز کے ذریعے استخارہ کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے دو رکعت نماز ادا کی جائے پھر نماز کے بعد سجدے میں جا کر 100 دفعہ کہے : "{{حدیث|اَستخیر اللّٰه فی جمیع اُموری خيرة فی عافی" (میں تمام امور میں خدا سے طلب خیر کرتا ہوں)۔ اس کے بعد خدا اس کے دل میں جو بھی خطور کرے اسی کو انجام دے گا۔[6]
حوالہ جات
مآخذ
- ابناثیر، مبارک بن محمد، النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر، قم، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، بیتا۔
- ابنادریس حلی، محمد بن منصور، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۰ق۔
- ابنحبیب، محمد بن حبیب، المحبر، تحقیق ایلزہ لیختن شتیتر، بیروت، دار الآفاق الجدیدہ، بیتا۔
- اسفندیاری، آمنہ، «استخارہ اینترنتی صحیح است؟!!»، تبیان، تاریخ درج مطلب: ۱۳ تیر ۱۳۹۱ش، تاریخ مشاہدہ: ۳۰ تیر ۱۳۹۸ش۔
- ابنفارس، احمد بن فارس، معجم مقائیس اللغۃ، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، ۱۴۰۴ق۔
- توکلی، احمد، ورقی از تاریخ مشروطہ: چند استخارہ از محمدعلیشاہ با جوابہای آنہا، در مجلہ یادگار، شمارہ ۴۸ و ۴۹، فروردین و اردیبہشت ۱۳۲۸ش۔
- تیموری، ابراہیم، «ناصرالدین شاہ و استخارہ برای قبول حاکمیت ایران بر ہرات»، در مجلہ بخارا، شمارہ ۱۰۰، خرداد و تیر ۱۳۹۳ش۔
- جصاص، احمد بن علی، احکامالقرآن، تحقیق محمد صادق قمحاوی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۵ق۔
- «دعانویسی و استخارہ»، دفتر حفظ و نشر آیتاللہ العظمی خامنہای، تاریخ مشاہدہ: ۳۰ تیر ۱۳۹۸ش۔
- شبیری زنجانی، سید موسی، جرعہای از دریا: مقالات و مباحث شخصیتشناسی و کتابشناسی، قم، انتشارات مؤسسہ کتابشناسی شیعہ، ۱۳۹۳ش۔
- شہید اول، محمد بن مکی، ذکریالشیعہ فی احکام الشریعہ، قم، مؤسسہ آلالبیت علیہمالسلام، ۱۴۱۹ق۔
- ضميرى و حسينىزادہ، «استخارہ»، در دایرۃ المعارف بزرگ قرآن، تاریخ مشاہدہ: ۳۰ تیر ۱۳۹۸ش۔
- طریقہدار، ابوالفضل، کندوکاوی دربارہ استخارہ و تفأل، قم، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، ۱۳۷۷ش۔
- طوسی، محمد بن حسن، تہذیبالاحکام، تصحیح حسن موسوی خرسان، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق۔
- فیض کاشانی، تقویمالمحسنین، در کتاب توضیحالمقاصد بہ ضمیمۃ تقویمالمحسنین، نوشتہ شیخ بہایی، بیجا، بینا، ۱۳۱۵ق۔
- قمی، شیخ عباس، مفاتیحالجنان، تصحیح حسین استادولی، قم، صدیق، چاپ اول، ۱۳۷۶ش
- نجفی، محمدحسن، جواہرالکلام فی شرح شرائعالاسلام، تحقیق عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ق۔
- عباسیمقدم، مصطفی، «بررسی مبانی و ماہیت استخارہ»، در مجلہ مطالعات تاریخی قرآن و حدیث، شمارہ ۴۲، بہار و تابستان ۱۳۸۷ش۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق۔