مندرجات کا رخ کریں

انبوہ تباہی ہتھیار

ویکی شیعہ سے

انبوہ تباہی ہتھیار، سے مراد ایسے ہتھیار ہیں جن کا استعمال عام شہریوں کی ہلاکت اور ماحولیات کی ناقابل تلافی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ شیعہ فقہا کے مطابق ان ہتھیاروں کا ابتدائی استعمال، یعنی اس سے پہلے کہ دشمن ان کا استعمال کرے، حرام ہے؛ لیکن اضطراری حالات میں، یعنی جب دشمن پر فتح ان کے استعمال پر موقوف ہو، ان کے استعمال کے بارے میں مختلف آراء موجود ہیں۔ کچھ فقہا کے نزدیک ان کا استعمال اس صورت میں جائز ہے جبکہ دوسرے فقہاء نے اس عمل کو اس مورد میں بھی حرام قرار دیا ہے۔

نئے اقسام کے اجتماعی تباہی کے ہتھیار، جیسے کہ جوہری اور کیمیائی ہتھیار، کے بارے میں فقہا نے فتوے دیے ہیں۔ ایران کے رہبرِ اعلیٰ اور شیعہ مرجع تقلید، سید علی خامنہ ای، نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال کی حرمت کا فتویٰ دیتے ہوئے ان ہتھیاروں کو انسانیت کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور ان کی تیاری اور ذخیرہ کو حرام قرار دیا ہے۔

تعریف اور اہمیت

انبوہ تباہی ہتھیار ایسے ہتھیار ہیں جن کا استعمال اگرچہ عسکری مقاصد کے لیے ہوں لیکن عام شہریوں کی ہلاکت اور ماحولیات کی ناقابل تلافی تباہی کا باعث بنتا ہے۔[1]

اسلام کے ابتدائی دور اور نبی اکرمؐ کے زمانے میں بھی ایسے ہتھیاروں کا مسئلہ موجود تھا جن کے استعمال سے بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور مسلمان قیدیوں کی ہلاکت کا امکان ہو سکتا تھا۔ یہ مسئلہ شیعہ روایات میں بھی زیرِ بحث رہا ہے۔ حوزہ علمیہ قم میں فقہ اور اصول فقہ میں درس خارج کے استاد ابوالقاسم علی دوست، بیان کرتے ہیں کہ شیعہ فقہا کم از کم دس صدیوں سے اس مسئلے پر بحث کر رہے ہیں۔[2]

چودھویں اور پندرہویں صدی ہجری شمسی میں اجتماعی تباہی کے ہتھیاروں، جیسے کہ جوہری اور کیمیائی ہتھیاروں، کی نئی مثالیں سامنے آئیں[3] جن کے اثرات ماضی میں موجود نہیں تھے۔ اسی وجہ سے ان مسائل کو جدید فقہی مسائل میں شمار کیا جاتا ہے۔[4]

شرعی حکم

شیعہ فقہاء نے انبوہ تباہی ہتھیاروں کے مسئلے کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا ہے:

حوالہ جات

  1. رستمی نجف‌آبادی، فرہادیان، «جرم بودن اقدام علیه بشریت به‌وسیله سلاح‌های هسته‌ای از نگاه فقه با رویکرد فتوای مقام معظم رهبری»، ص103؛ عبدی و دیگران، «بررسی تحلیلی مفهوم سلاح‌های کشتار جمعی و تطبیق آن بر دیدگاه اسلامی با تأکید بر آرای مقام معظم رهبری»، ص720۔
  2. «بررسی تحریم سلاح کشتار جمعی در تاریخ تشیع»، پایگاه اطلاع‌رسانی آیت الله علیدوست۔
  3. عبدی و دیگران، «بررسی تحلیلی مفهوم سلاح‌های کشتار جمعی و تطبیق آن بر دیدگاه اسلامی با تأکید بر آرای مقام معظم رهبری»،ص717؛ ربانی و دیگران، بررسی ادله جواز یا حرمت تولید و انباشت سلاح‌های کشتار جمعی، ص90۔
  4. باقرزاده مشکی‌باف، «عناصر تعیین کننده در حل مسائل مستحدثه»، ص50۔
  5. رستمی و دیگران، «جرم بودن اقدام علیه بشریت به‌وسیله سلاح‌های هسته‌ای از نگاه فقه»، ص110۔
  6. «بررسی تحریم سلاح کشتار جمعی در تاریخ تشیع»، پایگاه اطلاع‌رسانی آیت الله علیدوست۔
  7. عبدی و دیگران، «بررسی تحلیلی مفهوم سلاح‌های کشتار جمعی و تطبیق آن بر دیدگاه اسلامی با تأکید بر آرای مقام معظم رهبری»،ص717؛ ربانی و دیگران، بررسی ادله جواز یا حرمت تولید و انباشت سلاح‌های کشتار جمعی، ص90۔
  8. «پیام به نخستین کنفرانس بین‌المللی خلع سلاح هسته‌ای و عدم اشاعه»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای۔
  9. «تحریم سلاح کشتار جمعی در تاریخ تشیع»، خبرگزاری ایسنا۔
  10. مکارم شیرازی، «مبانی تحریم سلاح‌های کشتار جمعی از منظر معظم له»، بلیغ نیوز۔
  11. محقق حلّی، شرائع‌الاسلام، 1418ھ، ج1، ص283؛ طوسی، المبسوط، ج2، ص11؛ شهید ثانی، مسالک‌الافهام، 1413ھ، ج3، ص25۔
  12. آقاضیاء عراقی، شرح تبصرۃ المتعلمین، 1414ھ، ج4، ص404۔

مآخذ