مندرجات کا رخ کریں

یوتھناسیا

ویکی شیعہ سے

یوتھناسیا، یا راحت موت، یا آسان موت یا ہمدردی میں قتل (انگریزی: "Euthanasia")، ایک قسم کی موت یا خود کشی ہے جو کسی شخص کو لاعلاج بیماری لاحق ہونے کی وجہ سے جان بوجھ کر قتل کرنا ہے۔ یوتھناسیا عام طور پر کسی مُہلک مادے کے استعمال یا ضروری دیکھ بھال کو روکنے سے واقع ہوتی ہے۔ اس کا شمار ابھرتے ہوئے جدید فقہی مسائل میں ہوتا ہے۔ فقہاء کے نزدیک لاعلاج بیماری لاحق ہونے کے باوجود بھی خودکشی حرام ہے۔ طبیب یا کسی دوسرے شخص کے ذریعے کی جانے والی یوتھناسیا کو مستقیم یوتھناسیا کہا جاتا ہے، جو دو اقسام میں تقسیم ہوتا ہے: فعال (کسی دوسرے شخص کے ذریعہ مہلک مادے کا استعمال) یا منفعل (مریض کا اپنے علاج سے دستبرداری)۔

اگر بیمار کی اجازت کے ساتھ کوئی یوتھناسیا کا مرتکب ہوجائے تو اس پر قصاص یا دیہ واجب ہونے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض معاصر شیعہ فقہاء سے کئے جانے والے استفتاءات کے مطابق، فعال یوتھناسیا حرام ہے اور اس کو انجام دینے سے، مقتول کے ورثاء کے لیے قصاص یا دیت کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ منفعل یوتھناسیا، یعنی لاعلاج مریض کے علاج کو روکنا بھی حرام ہے، لیکن قصاص یا دیت لازم ہونے میں فقہا کے مابین اختلاف نظر ہے۔

مفہوم شناسی اور اہمیت

یوتھناسیا ("Euthanasia") کا مطلب کسی لاعلاج بیماری کی وجہ سے کسی شخص کا خودکشی کرنا یا اس کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے جان بوجھ کر کسی مہلک مادے کے استعمال سے یا ضروری دیکھ بھال کو روک کر اسے قتل کرنا ہے۔[1] قدیم (شیخ طوسی اور اس سے پہلے کے دور کی) شیعہ فقہی کتابوں میں اگرچہ اپنے آپ کو قتل کرنا یا کسی شخص کو اس کی رضامندی کے ساتھ قتل کرنا حرام ہونے کے بارے میں بحث ہوئی ہے؛ لیکن یوتھناسیا کے احکام کے بارے میں کوئی بحث نہیں ہوئی ہے۔[2] اس لحاظ سے یہ مسئلہ ابھرتا ہوا فقہی مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔[3] یوتھناسیا کے بارے میں فقہی بحث دماغی موت کے موضوع سے ہٹ کر ایک الگ بحث ہے؛ اس لئے ایک دماغی طور پر مردہ یا کوما میں گیا ہوا بیمار سے علاج کے آلات منقطع کرنے کو ممکن ہے کوئی فقیہ جائز سمجھے، لیکن وہی فقیہ منفعل یوتھناسیا، یعنی بیمار کی ہمدردی میں اس سے علاج روکنے کو حرام سمجھے۔[4]

یوتھناسیا کی اقسام

یوتھناسیا کو دو طریقوں سے انجام دیا جاتا ہے: براہ راست یا مستقیم (جس میں بیمار فی الفور مر جاتا ہے) اور غیر مستقیم یا بالواسطہ (جس میں بیمار آہستہ آہستہ موت کی طرف جاتا ہے)۔ غیر مستقیم یوتھناسیا میں، موت مریض کے ہاتھ میں چھوڑ دی جاتی ہے کہ وہ ایسی دوائیں لے کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرتا ہے جو اس کی موت کا باعث بنتی ہیں۔[5] مستقیم اور بلاواسطہ یوتھناسیا میں مریض کے علاوہ کوئی اور شخص مریض کی زندگی کا خاتمہ کرتا ہے۔[6] براہ راست اور مستقیم یوتھناسیا، جس میں صرف علاج روکنا ہو تو اسے منفعل اور غیر فعال یوتھناسیا کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ دوا کے انجیکشن لگا کر مریض کی موت کا سبب بنیں تو اسے فعال یوتھناسیا کہا جاتا ہے۔[7]

یوتھناسیا کا حکم تکلیفی

یوتھناسیا کے اقسام کو مدنظر رکھتے ہوئے فعال، غیر فعال اور غیر مستقیم یوتھناسیا کے احکام کے بارے میں شیعہ فقہا کے آراء مختلف ہیں۔ حسین علی منتظری اور محمد فاضل لنکرانی جیسے فقہا کے مطابق، غیر مستقیم یوتھناسیا خود کشی شمار ہوتی ہے اور حرام ہے۔[8]

فعال یوتھناسیا حرام ہونے کے لیے فقہاء نے قتل نفس حرام ہونے پر دلالت کرنے والی آیات اور احادیث کے اطلاق اور بےگناہ انسان کو نجات دینا واجب ہونے پر دلالت کرنے والی ادلہ سے استناد کیا ہے۔ یہ دلائل غیر فعال یوتھناسیا کی ممانعت میں بھی کارآمد ہیں:[9] تاہم ان تمام صورتوں میں، فقہاء کے مطابق، مریض کی اجازت اور رضامندی اس کے حرام ہونے کے حکم میں تبدیلی کا باعث نہیں بن سکتی ہے۔[10]

  • فعال یوتھناسیا کا حکم: بعض معاصر شیعہ فقہاء سے کئے جانے والے استفتاءات کے مطابق فعال یوتھناسیا (ڈاکٹر مریض کو ہمدردی میں قتل کرے) کو قتل اور حرام سمجھا گیا ہے اور ان کے نزدیک کسی بےگناہ جان کو موت سے بچانا واجب ہے۔[11]
  • غیر فعال (منفعل) یوتھناسیا کا حکم: بہت سے فقہاء نے غیر فعال یوتھناسیا (کسی ایسے مریض کے علاج سے اجتناب کرنا جو اپنی بیماری کی وجہ سے تکلیف میں ہو) کو حرام قرار دیا ہے۔[12] اس رائے کے برعکس مرزا جواد تبریزی جیسے فقہاء نے ان حالات میں علاج جاری رکھنے کو واجب نہیں سمجھا ہے۔[13] نیز آیت اللہ خامنہ ای اور سید ابو القاسم خویی نے ایسے مرنے والے مریض کی حفاظت کو واجب نہیں سمجھا ہے جس کے علاج کی کوئی امید نہ ہو اور اس لیے ان کی رائے کے مطابق ایسے مریض کے علاج کو روکنا حرام نہیں ہے۔[14]

یوتھناسیا کا وضعی حکم

یوتھناسیا کا وضعی حکم، قصاص یا دیت کا ذمہ دار ہونا ہے جو اس کے مرتکب ہونے والے پر عائد ہوسکتے ہیں۔ اس بارے میں فقہا کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔

منفعل یوتھناسیا

علامہ حلی اور صاحب جواہر کی نظر میں جو شخص کسی دوسرے شخص کو ہلاک ہوتے ہوئے دیکھے اور اسے بچانے کی طاقت رکھتے ہوئے نجات نہ دے تو اگرچہ اس شخص نے گناہ کیا ہے لیکن اس پر قصاص یا دیت واجب نہیں ہے۔[15] اس قول کے مطابق اگر کوئی ڈاکٹر کسی مریض کا علاج نہ کرے اور علاج میں کوتاہی کے نتیجے میں مریض کی موت واقع ہو جائے تو اگرچہ ڈاکٹر نے گناہ کیا ہے، لیکن وہ ضامن نہیں ہے اور میت کے وارث کو قصاص یا دیت کا حق نہیں ہے۔[16]

فعال یوتھناسیا

اگر کوئی ڈاکٹر یا کوئی اور شخص کسی لاعلاج بیمار کو، جو اس بیماری کی وجہ سے تکلیف میں ہے، اس کی اجازت کے بغیر اور جان بوجھ کر قتل کرے، اگرچہ ہمدردی اور رحم کی نیت سے ہی کیوں نہ ہو، ایسے قتل میں قتل عمد کے تمام عناصر موجود ہیں اور اس نے عمداً قتل کیا ہے، اسی لئے مقتول کے ورثا کے لئے قصاص اور دیہ کا حق ثابت ہے۔[17]

غیر مستقیم یوتھناسیا

یوتھناسیا اگر وہ مریض کی اجازت سے انجام دیا ہو تو اس صورت میں اس کے وضعی حکم کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلافِ نظر پایا جاتا ہے۔

  1. قصاص اور دیت کا حق ساقط ہونا: سید عبد الاعلی سبزواری اور امام خمینی جیسے فقہا کے مطابق چونکہ مقتول نے اپنے قتل کی اجازت اور رضایت دی ہے اس لئے اس نے خود ہی قصاص اور دیت کا حق ختم کیا ہے۔[18] اسی طرح سید محمد صادق روحانی کے مطابق، انسان اپنی جان، اعضاء اور اعمال کا خود مالک ہے، لہذا اپنی ہلاکت اور قتل کی اجازت و رضامندی سے انتقام اور دیت کا حق ختم ہوجاتا ہے۔[19]
  2. قصاص اور دیت کا حق ساقط نہ ہونا: سید ابو القاسم خویی، مرزا جواد تبریزی اور جعفر سبحانی جیسے فقہا کا خیال ہے کہ اگر مقتول اپنے قتل کی رضامندی اور اجازت دے دے تب بھی قصاص اور دیت کا حق ختم نہیں ہوتا ہے؛[20] کیونکہ اموال میں جو چیز عام ہے اس کے برعکس، ایک شخص کو اپنی جان پر اختیار نہیں ہے، اس لیے وہ خود کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دے سکتا ہے تاکہ ضمان ختم ہوجائے۔[21]

حوالہ جات

  1. یزدانی فر، اتانازی از منظر فقہ و حقوق، 1393ش، ص28.
  2. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ق، ج4، ص180.
  3. خدایار، سعدی، «استناد بہ قاعدہ اذن برای مشروعیت اتانازی داوطلبانہ فعال»، ص36.
  4. ملاحظہ کریں: مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ق، ج1، ص479-480؛ خویی تبریزی، احکام جامع مسائل پزشکی، ص280؛ خویی، فقہ الاعذار الشرعیۃ و المسائل الطبیۃ، ص198.
  5. قاسمی، دانشنامہ فقہ پزشکی، 1395ش، ج3، ص323.
  6. صادقی، «بررسی فقہی و حقوقی اتانازی، ص103.
  7. قاسمی، دانشنامہ فقہ پزشکی، 1395ش، ج3، ص323.
  8. منتظری، احکام پزشکی، ص123؛ قاسمی، دانشنامہ فقہ پزشکی، ج3، ص303.
  9. مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ق، ج1، ص479؛ مرتضوی، قتل از روی ترحم (اتانازی) در آینہ فقہ، ص92.
  10. فاضل لنکرانی، احکام بیماران و پزشکان، ص152؛ مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ق، ج1، ص479.
  11. منتظری، احکام پزشکی، ص122؛ فاضل لنکرانی، احکام ببیماران و پزشکان، ص152؛ مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ق، ج1، ص479؛ مکارم شیرازی، احکام پزشکی، ص116؛ خویی و تبریزی، احکام جامع مسایل پزشکی، ص280-281، صافی گلپایگانی، استفتائات پزشکی، ص100؛ علوی گرگانی، استفتائات پزشکی، ص40؛ قاسمی، دانشنامہ فقہ پزشکی، ج3، ص305.
  12. صافی گلپایگانی، استفتائات پزشکی، ص100؛ مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ق، ج1، ص479؛ منتظری، احکام پزشکی، ص122.
  13. خویی و تبریزی، احکام جامع مسایل پزشکی، ص281.
  14. «احکام اتانازی (قتل از روی ترحم)»، پایگاہ اطلاع رسانی دفتر مقام معظم رہبری؛ خویی، فقہ الاعذار الشرعیۃ و المسائل الطبیۃ، ص198.
  15. علامہ حلی، تحریر الاحکام، ج5، ص551؛ نجفی، جواہر الکلام، ج43، ص153.
  16. انصاری قمی، «قتل از روی ترحم»، ص141.
  17. صافی گلپایگانی، استفتائات پزشکی، ص100؛ انصاری قمی، «قتل از روی ترحم»، ص138.
  18. سبزواری، مہذب الاحکام، ج28، ص199؛ خمینی، تحریر الوسیلہ، ج2، ص489.
  19. روحانی، فقہ الصادق، ج26، ص34.
  20. خویی، مبانی تکملۃ المنہاج، ج42، ص18؛ تبریزی، تنقیح مبانی الاحکام، ص47-48؛ سبحانی، احكام القصاص في الشريعۃ الاسلاميۃ الغرّاء، ص93.
  21. خویی، مبانی تکملۃ المنہاج، ج42، ص18؛ تبریزی، تنقیح مبانی الاحکام، ص47-48؛ سبحانی، احكام القصاص في الشريعۃ الاسلاميۃ الغراء، ص93.

مآخذ

  • انصاری، محمدرضا، «قتل از روی ترحم»، در مجلہ فقہ اہل بیت(ع)، ش43، پاییز 1384ہجری شمسی۔
  • «احکام اتانازی (قتل از روی ترحم)»، پایگاہ اطلاع رسانی دفتر مقام معظم رہبری، تاریخ بازدید: 30 مہر 1401ہجری شمسی۔
  • تبریزی، میرزا جواد، تنقیح مبانی الاحکام (قصاص شرایع الاسلام)، قم، دار الصدیقۃ الشہیدۃ، چاپ سوم، 1429ھ۔
  • خدایار، حسین، سعدی، حسینعلی، «استناد بہ قاعدہ اذن برای مشروعیت اتانازی داوطلبانہ فعال»، فقہ پزشکی، شمارہ 5-6، 1390ہجری شمسی۔
  • خویی، سید ابو القاسم؛ تبریزی، میرزا جواد، احکام جامع مسایل پزشکی، قم، دار الصدیقۃ الشہیدۃ، چاپ اول، 1432ھ۔
  • خویی، سید ابو القاسم، فقہ الاعذار الشرعیۃ و المسائل الطبیۃ، قم، دار الصدیقۃ الشہیدۃ، 1422ھ۔
  • خویی، سید ابو القاسم، مبانی تکملۃ المنہاج، قم، مؤسسۃ إحیاء آثار الإمام الخوئی، بی تا.
  • خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلہ، تہران، مرکز تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1434ھ۔
  • روحانی، سید محمد صادق، فقہ الصادق، قم، انتشارات الاجتہاد، بی تا.
  • سبحانی، جعفر، احكام القصاص في الشريعۃ الاسلاميۃ الغراء، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، بی تا.
  • سبزواری، سید عبد الاعلی، مہذب الاحکام، قم، دار التفسیر، بی تا.
  • صادقی، محمد ہادی، «بررسی فقہی و حقوقی اتانازی»، مطالعات حقوقی»، شمارہ 2، شہریور 1394ہجری شمسی۔
  • صافی گلپایگانی، لطف اللہ، استفتائات پزشکی، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیت اللہ صافی گلپایگانی، 1395ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 142ھ۔
  • علوی گرگانی، سید محمد علی، استفتائات پزشکی، قم، فقیہ اہل بیت(ع)، 1396ہجری شمسی۔
  • فاضل لنکرانی، محمد، احکام بیماران و پزشکان، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، چاپ اول، 1427ھ۔
  • قاسمی، محمد علی، دانشنامہ فقہ پزشکی، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، 1395ہجری شمسی۔
  • مرتضوی، سید محسن، قتل از روی ترحم (اتانازی) در آینہ فقہ، قم، مؤسسہ امام خمینی، 1395ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، احکام پزشکی، قم، مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، 1429ھ۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، قم، مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ دوم، 1427ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • منتظری، حسین علی، احکام پزشکی، تہران، نشر سایہ، 1381ہجری شمسی۔
  • یزدانی فر، صالحہ، اتانازی از منظر فقہ و حقوق، قم، دفتر نشر معارف، 1393ہجری شمسی۔