لکھنو کے امام باڑوں کی فہرست

ویکی شیعہ سے
امام باڑہ شاہ نجف لکھنو، جو 1816ء میں بنا

لکھنو کے امام باڑوں کی فہرست میں وہ مذہبی مقامات شامل ہیں جنہیں لکھنو کے شیعوں نے امام حسینؑ کی مجالس برپا کرنے کی غرض سے امام باڑہ کے نام پر بنایا ہے۔

آصف الدولہ نے جب اودھ سلطنت کو فیض آباد سے لکھنو منتقل کیا تو اس کے بعد اودھ شیعہ نواب اور دوسرے لوگوں نے عزاداری کو فروغ دینے کے لئے لکھنؤ میں امام باڑے بنانے میں زیادہ دلچسپی ظاہر کی۔[1] امام باڑوں کی کثرت کی وجہ سے لکھنو کو انڈیا میں عزاداری کا مرکز اور امام باڑوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ لکھنؤ کے بعض اہم قدیمی امام باڑوں کی فہرست درج ذیل ہے۔

اہم امام باڑے

  1. آصفی امام باڑہ: اس امام باڑے کو بڑا امام باڑہ بھی کہا جاتا ہے۔ آصفی امام باڑہ ہندوستان کے شہر لکھنؤ میں دریائے گومتی کے جنوبی کنارے واقع ہے۔[2] جسے 1784ء میں اودھ سلطنت کے نواب آصف الدولہ نے بنایا۔ یہ امام باڑہ ہندوستان کے سیاحتی مراکز میں شمار ہوتا ہے۔ اور لکھنو کی اہم دس تاریخی عمارتوں میں سے ایک ہے۔[3]
  2. حسین آباد امام باڑہ یہ امام باڑہ چھوٹا امام باڑہ بھی کہلاتا ہے اسے سلسلہ اودھ کے تیسرے نواب، محمد علی شاہ نے سنہ 1837ء کو تعمیر کروایا۔[4] اس کی طرز تعمیر ہندی-ایرانی ہے۔ حسین آباد میں واقع ہونے کی وجہ سے اسے حسین آباد امام باڑہ کہا جاتا ہے۔[5]
آصفی امام باڑہ
  1. امام باڑہ شاہ نجف: شاہ نجف امام باڑہ لکھنو کے مرکز میں واقع ہے اس امام باڑے کو نواب غازی الدین حیدر نے 1816ء میں بنوایا ہے۔ اس کو نجف میں روضہ امام علیؑ کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔
  2. امام باڑہ سبطین آباد: امام باڑہ سبطین کی بنیاد اودھ بادشاہ امجد علی نے رکھی اور اس کے بیٹے واجد علی شاہ نے 1847ء میں پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ 13 مارچ 1858ء کو برطانوی فوج کے سکھوں نے اسے اپنے تصرف میں لے آیا۔[6] اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج نے اس امام باڑے کو اپنی چھاؤنی اور اسپتال بنا لیا[7] حتی کہ 1858 سے 1860 تک امام باڑے کو گرجا گھر کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔ خوبصورت شیشئہ آلات سے سجا سنورا امام باڑہ سبطین آباد غدر کی تباہیوں کو جھیل نہیں سکا اور اس کے بعد سے اس پر قبضوں کی بھرمار شروع ہو گئی۔[8]
حسین آباد امام باڑہ لکھنو
  1. امام باڑہ غفران مآب: غفران مآب امام باڑہ سید دلدار علی غفران مآب کے نام سے منسوب ہے جسے انہوں نے 1790 کی دہائی میں بنایا ہے۔ اسی نام سے ایک اور امام باڑہ نصیر آباد میں غفران مآب کے آبائی گاوں میں بھی موجود ہے
  2. امام باڑہ آغا باقر صاحب: آغا باقر امام باڑہ اودھ سلطنت کے نواب شجاع الدولہ کے دور میں بنایا گیا
  3. امام باڑہ قصر جنت: قصر جنت کو چہل ممبری امام باڑہ یا حکیم سید یوسف حسین امام باڑہ بھی کہا جاتا ہے۔ جس میں موجود بڑے ممبر پر 39 اور چھوٹے چھوٹے ممبر رکھے ہوئے ہیں۔
  4. امام باڑہ ناظم صاحب
  5. امام باڑہ آغا باقر خان
  6. امام باڑہ مغل صاحب: مغل امام باڑہ میں ہندوستان کا سب سے اونچا ممبر رکھا گیا ہے۔
  7. امام باڑہ کیوان جان
  8. امام باڑہ نواب سالار جنگ: کالا امام باڑہ یا نواب سالار جنگ امام باڑہ پر تیرہ معصومین کے نام سے 13 گنبد بنے ہوئے ہیں۔
  9. امام باڑہ میر زین العابدین خان: یہ امام باڑہ نواب آصف الدولہ کے دور میں میر زین العابدین خان نے بنوایا تھا آج کل اس کے تین بڑے ہال میں سے صرف ایک باقی ہے جسے کسی پرائیوٹ ادارے نے بنوایا ہے۔[9]
  10. امام باڑہ راجہ جھاؤ لعل
  11. امام باڑہ میر صاحب
  12. امام باڑہ کاظمین
  13. امام باڑہ جنت نشین،
  14. امام باڑہ قاسم علی خان،
  15. امام باڑہ ملکہ زمانیہ
  16. امام باڑہ ولایتی محل
  17. حسینہ تقی صاحب
  18. امام باڑہ میر باقر سوداگر
  19. امام باڑہ ناظم صاحب
  20. امام باڑہ افضل محل
  21. امام باڑہ ملکہ آفاق اور اسی طرح کوئی چالیس عزا خانے تاریخی ہیں جن میں سے متعدد آج بھی محرم کے ایام میں سوز، نوحے، مرثیے اور ماتم کی صداؤں سے گونجتے ہیں۔[10]

ان میں سے اکثر امام باڑے ہندوستان کے آثار قدیمہ میں شمار ہوتے ہیں لیکن حکومت کی بے توجہی کے سبب ان کی عمارتیں بوسیدہ ہوتی جا رہی ہیں۔[11]

حوالہ جات

مآخذ