ابو القاسم رضوی

ویکی شیعہ سے
ابو القاسم رضوی
فائل:ابو القاسم رضوی.JPG
کوائف
تاریخ ولادت1249 ہجری - فرخ آباد ہندوستان
تاریخ وفاتمحرم 1324 ہجری - لاہور
علمی معلومات
تالیفاتلوامع التنزیل سواطع التاویل
خدمات


سید ابو القاسم رضوی (1249-1324ھ) برصغیر پاک و ہند کے شیعہ علماء میں سے تھے۔ آپ 1249 ھ کو ہندوستان کے شہر فرخ آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ نے لکھنؤ کے جید علماء سے علوم دین کو حاصل کیا۔ ایران کے مشہور مراجع تقلید نے آپ کیلئے اجتہاد کے اجازے تحریر کیے۔ آپ نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ پاکستان کے معروف شہر لاہور میں بسر کیا۔

آپ علوم آل محمدؐ کی نشر و اشاعت کے لیے دونوں ذرائع خطابت و تحریر کو استعمال کرتے تھے جبکہ مذہب آل محمدؐ کی نشر و اشاعت اور مذہب حقہ کے دفاع کی غرض سے اردو، فارسی اور عربی میں تقریبا 48 کے قریب تالیفات اور تصنیفات چھوڑیں۔ جن میں سے 29 تالیفات چاپ ہوئیں اور باقی چاپ نہیں ہو سکیں۔ ان تمام تصانیف میں سے معروف تالیف قرآن پاک کی ایک تفصیلی تفسیر ہے جسے آپ نے لوامع التنزیل سواطع التاویل کے نام سے لکھنا شروع کیا اور بارہ جلدوں کو آپ نے اپنی زندگی میں مکمل کیا جن میں سے چھ جلدیں آپ کی زندگی میں چھپ چکی تھیں۔ باقی جلدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اپنے بیٹے کو وصیت فرمائی۔ اسی تالیف کی وجہ سے آپ دنیائے تشیع کی ایک علمی شخصیت مانے جاتے ہیں۔

14 محرم الحرام 1324 ھ کو پاکستان کے شہر لاہور میں آپ کا انتقال ہوا اور آپ کو آپ کی وصیت کے مطابق اسی شہر میں بھاٹی گیٹ کے باہر کربلا گامے شاہ میں دفن کیا گیا۔

نسب

آپ کا نسب آپ کے فرزند سید علی حائری رضوی نے مرحوم کی تصنیف سیادۃ السادہ سے یوں نقل کیا ہے: سيد أبو القاسم بن الحسين بن النقى بن أبى الحسن بن الحاج سيد محمد (جو کشمیر کے گاؤں أحمد پوره میں مدفون ہیں) بن السيد حسين القمى بن السيد محمد بن السيد احمد بن السيد منهاج بن السيد جلال بن السيد قاسم بن السيد على بن السيد حبيب بن السيد حسين بن أبى عبدالله السيد احمد نقيب القم بن أبى على السيد محمد الاعرج بن أبى المکارم السيد احمد بن أبى جعفر السيد موسى المبرقع بن الإمام الهمام أبى جعفر محمد التقى عليه السلام بن الإمام على الرّضا عليه السلام بن الإمام موسى الکاظم عليه السلام بن الإمام جعفر الصادق عليه السلام بن الإمام محمد باقر عليه السلام بن الإمام زين العابدين عليه السلام بن الإمام أبى عبد الله الحسين عليه السلام بن الإمام أمير المومنين على ابن أبي طالب عليه السلام وأمهم البتول فاطمه سيدة نسآء العالمين بنت محمد المصطفى رسول ربّ العالمين خاتم النبيين بن عبد الله بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد المناف.[1]

ابو القاسم رضوی کے دادا سید حسین رضوی ایران کے شہر قم سے کشمیر میں تشریف لائے اور یہیں مقیم ہوئے جبکہ آپ کے والد سید حسین اون کی تجارت کی غرض سے ہر سال لکھنؤ جاتے اور بادشاہ سے ملاقات کرتے تھے۔

نام

بعض محققین[2] کا کہنا ہے کہ ابو القاسم کی تالیفات کے بعض پرانے خطی نسخے مثلا حق الیقین[3] یا مودۃ القربیٰ وغیرہ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا اصل نام ابو القاسم نہیں تھا بلکہ قاسم تھا بعد میں ابو القاسم معروف ہو گیا۔ اس نام کے معروف ہونے کی وجہ معلوم نہیں ہے۔

پیدائش اور تعلیمی مراحل

ابو القاسم رضوی 1249 ھ میں ہندوستان کے شہر فرخ آباد میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی علوم دینی کی تعلیم کا شوق آپ پر غالب تھا۔ سن بڑھنے کے ساتھ ساتھ عقل اور علوم دین سے لگاؤ بڑھتا گیا۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ ابو القاسم رضوی تجارت میں نام کمائیں لیکن آپ نے اس کی طرف بالکل توجہ نہیں کی بلکہ تمام تر توجہ علوم دین کی طرف رہی۔

ابتدائی دینی تعلیم کے مراحل طے کرنے کے بعد اصول فقہ، اصول عقائد، علم تفسیر، علم حدیث اور دوسرے علوم کے حصول کیلئے لکھنؤ میں فخر مجتہدین آیت اللہ سلطان العلماء آقا سید محمد کے پاس علم دین حاصل کرنے میں مشغول ہوگئے جو حاکم وقت واجد علی شاه کی جانب سے مفتی کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ سلطان العلماء کے پاس تعلیمی مراحل کے تمام ہونے کے بعد آپ فاضل ابو القاسم کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ سلطان العلماء اور سید العلماء سید تقی صاحب سے امامت کا اجازہ حاصل کیا۔

لاہور میں آمد

اپنے بھائی سید احمد اور سید محمد، اہل خانہ، والدین اور دیگر نزدیکی رشتے داروں کے ہمراہ عتبات عالیات کی زیارت کی نیت سے جاتے ہوئے لاہور پہنچے۔ لاہور کے اس وقت کے نواب علی رضا خان قزلباش نے جیسے ہی آپ کے علم و فضل اور کمال کا سنا تو لاہور کے اہالیان کی ہدایت اور تعلیم کیلئے آپ سے یہیں رہنے کی درخواست کی۔ آپ نے وہاں چند دن قیام کیا تو اسی دوران نواب نوازش علی خان نے اپنے بھائی نواب ناصر علی خان قزلباش کے ہمراہ حج، مدینہ اور آئمہ طاہرین کی زیارات کا ارادہ کیا تو وہ حسب وعدہ علامہ کو مناسک حج کی تعلیم کی غرض سے اپنے ہمراہ لے گئے۔

حج اور زیارات مقدسہ کا سفر

حج کی ادائیگی کے بعد یہ کارواں آئمہ طاہرین کے مقامات مقدسہ کی زیارات کیلئے عراق کی طرف روانہ ہوا۔ علامہ اور مفسر قرآن یہاں عراق میں اس زمانے کے مذہب تشیع کے رئیس اور نائب امام زمان شیخ مرتضی انصاری کے درس میں شریک ہوئے۔ شیخ مرتضی انصاری اور آیت اللہ علامہ اردکانی نے ان کیلئے اجازۂ اجتہاد لکھا۔ عراق کی زیارات مقدسہ کرنے کے بعد آپ نوابوں کے ہمراہ مشہد مقدس میں حرم حضرت امام علی بن موسی رضا ؑ کی زیارت کیلئے ایران تشریف لائے۔ ایران میں مشہد، اصفہان، طہران، شیراز، قم، کرمان وغیره کے علماء سے ملاقاتیں کیں اور مشہور مراجع تقلید نے آپ کے لئے اجازۂ اجتہاد لکھے۔ اس کے بعد پاکستان کے شہر لاہور واپس تشریف لے آئے۔

لاہور میں تبلیغ دین

نواب قزلباش طبیعت کے لحاظ سے ایک پاک و پاکیزہ شخصیت کے مالک تھے اور لاہور کے جاہل اور باغی معاشرے کے لوگوں میں شریعت محمدی کے احکامات اور مذہب آل محمد ؐ کی نشر و اشاعت کی ترویج ان کی زندگی مقصد تھا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے انہوں نے علامہ کو اپنے شہر واپس جانے سے روک لیا نیز آپ کے اہل خانہ سمیت تمام افراد کے اخراجات اپنے ذمے لئے۔ لاہور کا شہر عرصۂ دراز سے جہالت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن نواب صاحب اور علامہ صاحب کی کوششوں کی بدولت دار الشریعہ و العلم معروف ہو گیا۔

اہم دینی خدمات

زیارات مقدسہ سے واپس آنے کے بعد ابو القاسم نے تبلیغ دین کے بہت سے امور انجام دئے لیکن ان میں سے بعض کا ذکر کیا جانا ضروری ہے:

مدرسہ امامیہ کا قیام

سب سے پہلے آپ نے اس شہر میں ایک مدرسہ امامیہ کے نام سے دینی مدرسے کو قائم کیا جس کے طلاب، اساتذہ، کتب کی فراہمی اور دیگر تمام اخراجات کی فراہمی نواب صاحب نے اپنے ذمے لی تھی نیز لاہور کے علاوہ دوسرے شہروں کے طلاب کی اعلی رہائش اور طعام کا انتظام بھی اسی مدرسے میں کیا گیا۔ مدرسے کی بڑی کلاسوں کے طلباء آپ کے درس میں شریک ہوتے تھے۔ اس مدرسے میں فقہ، حدیث، تفسیر اور ... سے بہرہ مند ہونے والے بہت سے طلباء آج [4] پنجاب کے مختلف شہروں میں دین کی تبلیغ میں مشغول ہیں۔

لاہور میں جامع مسجد کی تعمیر

ابو القاسم رضوی نے جامع مسجد کی تعمیر کی جانب نواب صاحب کی توجہ مبذول کروائی اور ان کے ایما پر یہاں ایک جامعہ مسجد تعمیر ہوئی۔ جس میں آپ کی اقتدا میں نماز یومیہ کے علاوہ نماز جمعہ اور نماز عیدین کا اجتماع بھی ہوتا نیز دیگر مذہبی مناسبت مثلا رمضان میں افطاری اور دیگر مذہبی ایام میں آپ کے کہنے پر طعام کا سلسلہ سارا سال جاری رہتا اور اس کے تمام اخراجات بھی نواب ہی برداشت کرتے تھے۔ یہ سلسلہ آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے۔

نواب ناصر علی خان نے لاہور کی جامعہ مسجد جامعہ امامیہ لاہور کی تاریخ بنا درج ذیل شعر میں یوں بیان کی ہے:

چو نواب حاجی نوازش علیخانبنا کرد مسجد ز الطاف یزدان
پی سال تاریخ او گفت ناصرکہ بانی مسجد نوازش علیخان

امام بارگاہوں کی تعمیر اور عزاداری کا انعقاد

علامہ صاحب کے کہنے پر نواب صاحب نے بہت سے امام بارگاہ تعمیر کروائے کہ جن میں تمام معصومین (علیہم السلام )کی ولادت اور شہادت کی مناسبت سے مجالس اور محافل منعقد ہوتیں اور ان میں وعظ و نصیحت کی جاتی۔ خاص طور پر محرم الحرام کے عشرہ میں خود ابو القاسم رضوی خطاب فرماتے تھے۔ عام طور پر تین چار گھنٹے تک علامہ شریعت مبین کے حلال و حرام کے احکام اور فضائل معصومین (علیہم السلام) بیان فرماتے تھے۔

چونکہ عام طور پر علامہ صاحب کا بیان قرآنی حقائق اور فریقین کی احادیث پر مشتمل لیکن تعصب سے خالی ہوتا تھا اس لئے ہر ملت و مذہب کے لوگ بڑے شوق سے ان کی تقاریر کو سنتے تھے اور یوں تقریبا پچاس سال کے عرصے میں پچاس ہزار (50,000) کے قریب لوگوں نے مذہب شیعہ کو قبول کیا۔

تصنیفات

ان تمام مصروفیات کے باوجود آپ ہمیشہ تحریر و تالیف میں مشغول رہے اور اپنے بعد 48 کے قریب علمی تالیفات کا ذخیرہ چھوڑا جن میں سے 29 کے قریب تالیفات آپ کی زندگی میں ہی چھپ گئیں تھیں۔ آپ کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تصنیفات کی فہرست درج ذیل اسماء پر مشتمل ہے:

مطبوعہ تالیفات

فارسی تالیفات

  1. ازالہ الغین [5]
  2. معارف ملت ناجیہ و ناریہ(فارسی)؛
  3. ناصر العترة الطاہره (فارسی)؛
  4. برہان المتعہ (فارسی)[6]؛
  5. کتاب البشری، شرح مودة القربی ہمدانی در دو جلد (فارسی)[7]؛
  6. حقائق لدنی، شرح خصائص امام نسائی (فارسی)؛
  7. سیادة الساده (علم نسب) (فارسی)؛
  8. تجرید المعبود در شبہہ یہود (فارسی)؛
  9. ابطال تناسخ(فارسی)[8]؛
  10. جواب لا جواب، اثبات تعزیہ داری (فارسی)؛
  11. خیر خیر پوری در اجوبہ سنیان (فارسی)؛
  12. رسالہ نفی الجبر (فارسی)؛
  13. رسالہ نفی رویت الله (فارسی)؛
  14. اجوبہ زاہره جواب سنیان (فارسی)[9]؛
  15. جواب العین در وجہ کسوفین (فارسی)؛
  16. انوار خمس در فقہ (فارسی)[10]؛
  17. ہدایت الغالیہ، جواب غالیہ (فارسی)؛
  18. برہان البیان، تحقیق آیہ استخلاف (فارسی)؛
  19. جواب بالصواب در طعام اہل کتاب (عربی)؛
  20. ہدایت الاطفال در علم عقاید درسی (فارسی)؛
  21. تکلیف المکلفین، حصّہ اول در عقاید (فارسی)؛
  22. تکلیف المکلفین، حصہ دوم در فروع دین؛
  23. ارض العتاق در اباحہ زمین کربلا (فارسی)[11]؛
  24. حکمت الایلام در اسباب ابتلا (فارسی)؛
  25. رسالہ ابراز در اعجاز علی وقت خلافت (فارسی)؛
  26. رسالہ تعبد ما لا بد وجہ سجده کردن بہ طرف کعبہ (فارسی)؛
  27. رسالہ غروب الشمس (فارسی)
  28. اظہار الحقیقہ(مطبوعہ ہونے اور زبان کا علم نہیں ہے۔) [12]

عربی تصنیفات

  1. حجج العروج (عربی)[13]؛
  2. شق القمر (عربی)[14]؛

اردو تصنیفات

  1. ارکان خمسہ در فقہ (اردو)؛
  2. برہان البیان (اردو)[15]

غیر مطبوعہ تصنیفات

فارسی تالیفات

آپ کی غیر مطبوعہ کتابوں کی فہرست :

  1. تذکره ملاء الاعلی در کلام (فارسی)؛
  1. زبدة العقاید (فارسی)[16]؛
  1. صیانۃ الانسان، اجوبۃ اسئلۃ نصاریٰ (فارسی)؛
  2. رسالہ خمس سادات؛
  3. رسالہ حرمت نوروز (فارسی)؛
  4. تخریج الآیات (فارسی)؛
  5. جُنّہ واقیہ در عقاید، جلد اول؛
  6. جنہ باقیہ در فروع دین، جلد دوم.

عربی تصنیفات

  1. خلاصۃ الاصول (عربی)[17]؛
  2. تعلیقۃ بر شرح شیخ مقداد بر فصول طوسی؛
  3. تعلیقۃ بر شرح تجرید علامہ (عربی)؛
  4. تعلیقۃ بر تہذیب الاصول علامہ (عربی)؛
  5. تعلیقۃ بر شرح باب حادی عشر (عربی)؛
  6. تعلیقۃ بر شرح میر عبد الوہاب (عربی)؛
  7. شرح تبصره فقہ علامہ (عربی)؛
  8. رسالہ ابانہ در مصاہره صحابہ (عربی)[18]؛
  9. براہین اللعنۃ (عربی)؛
  10. تعلیقۃ بر شرح مبادی الاصول علامہ
  11. الاصابہ[19]۔
  12. الایقان[20]

لوامع التنزیل سواطع التاویل

لوامع التنزیل و سواطع التاویل

مضمون اصلی: لوامع التنزیل و سواطع التاویل

علامہ ابو القاسم رضوی کی معروف ترین تالیف تفسیر لوامع التنزیل سواطع التاویل ہے۔ یہ عقلیہ و نقلیہ علوم کے ساتھ اصولی اور فرعی مسائل کا ایک جامع ترین مجموعہ ہے۔ اس تفسیر میں قرآت، اشتقاق، لغت، شان نزول، تفسیر، تنزیل و تاویل، ترتیل، ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ، خاص و عام، مقید و مفصل، رجال و درایت، روایت، اصول فقہ، فقہ، حکمت اور فلسفہ، کلام اور اقوال مفسرین مذکور ہیں نیز مخالفین کے شکوک و شبہات کو واضح دلائل و براہین کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اس تفسیر کو اگر موجود رائج سائز میں چھاپا جائے تو بحار الانوار کی جلدوں کی تعداد کے لگ بھگ اسکی جلدوں کی تعداد پہنچ جائے گی۔

گذشتہ تیرہ صدیوں سے لے کر آج تک اس جیسی علوم اور فنون کے لحاظ سے جامع ترین اور کامل ترین تفسیر نہیں لکھی گئی۔ حق تو یہ ہے کہ اس تفسیر کے ہوتے ہوئے دوسری تفاسیر اور حدیث کی کتابوں کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے۔ عراق، قسطنطنیہ، مصر اور حجاز کے مشہور مجتہدین، ایران اور ہندوستان کے مشہور علماء، اپنے زمانے کے شیعہ اور سنی مذہب کے برجستہ ترین علماء نے اس تفسیر پر بے نظیر تقریظیں لکھی ہیں۔ یہ تقریظیں دو جلدوں میں چھپ چکی ہیں۔ انشاء اللہ باقی تقریظیں جلد ہی تیسری جلد کی صورت میں چھپے گی۔ مگر نہایت افسوس ہے کہ مفسر اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ وہ تیس پاروں میں سے صرف بارہ پاروں کی تفسیر بارہ جلدوں میں ہی تکمیل کر سکے باقی جلدوں کی اجل نے فرصت نہیں دی اور انہوں نے 14 محرم سنہ 1324 ہجری کو حق کی آواز پر لبیک کہا۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ[21]

خصوصیات

آپ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے ان میں سے نہایت اہم اور قابل ذکر خصوصیات:

  • شرعی احکام کی بجا آوری میں اولاد، بھائی، امراء یا شہزادوں میں سے کسی کی رعایت نہیں کرتے تھے۔ عام محفل میں وعظ و نصیحت کرتے تو کبھی کسی کے عیب سے چشم پوشی نہیں کرتے تھے بلکہ وعظ و نصیحت کے دوران اس شخص کا نام لے کر اسے تنبیہ کرتے۔
  • کبھی کسی کے بارے میں کینہ اور غصہ دل میں نہیں رکھتے تھے بلکہ فورا اس کی تقصیر سے در گزر فرماتے۔
  • عراق کے سفر کے دوران شیخ مرتضی انصاری (1214۔1281 ء) سے علمی مباحثوں کی وجہ سے آپ کو فاضل ہندی کہا جانے لگا۔

وصیت نامہ

وفات سے ایک مہینہ پہلے ہی آپ نے تصنیف و تالیف کا کام چھوڑ دیا اور اکثر فرماتے کہ موت کی علامات اور آثار ہوگئے ہیں آخرت کے سفر کا انتظام کرنا چاہئے۔ چنانچہ 1323 ھ کے ذی الحجہ کے آخری ایام میں مجھے (فرزند سید علی حائری) وصیتیں کیں ان میں سے بعض یہ ہیں :

  • موت بر حق ہے لہذا ہمیشہ عاقبت خیر کی دعا کرنی چاہئے ۔
  • صلۂ رحمی ایک ضروری چیز ہے لہذا ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہئے کیونکہ اس میں دین اور دنیا دونوں کی خیر کثیر پائی جاتی ہے۔
  • آئمہ طاہرین علیہم السلام کا مذہب بر حق ہے پس اپنے آپ، اولاد اور دوسروں کو اس کی تلقین کرتے رہنا چاہئے۔
  • زہد اور تقوے کو اختیار کرو کیونکہإِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقين[22]
  • ہمیشہ تزکیہ نفس، پاکیزگی قلب، لقمہ حلال کی پابندی، اور حرام سے اجتناب کرو چونکہ نفس کی خباثتیں اور حرام کا لقمہ انسان میں شقاوت کا باعث بنتا ہے۔
  • دین کو ہمیشہ دنیا پر مقدم رکھنا چاہئے کیونکہ اسی میں اصلاحِ دنیا اور فلاحِ آخرت صرف اسی میں ہی قابل تصور ہے۔
  • جاہل عوام الناس کی طرح میری میت پر گریہ کرنے کی بجائے تسبیح، تحلیل، حمد پروردگار اور محمد اور آل محمد پر درود بھیجنا چاہئے۔
  • حضرت امام حسین علیہ السلام کی ضریح سے مس کیا ہوا کفن اور رسول اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روضۂ مبارک سے مس کی ہوئی یمنی چادر مجھے پہنائی جاوے اور مجھے نتھی شاہ کی امام بارگاہ میں دفن کریں۔
  • تین غسل دینے کے بعد کر پانی میں میرے جسد کو پاک کیا جائے۔
  • کتاب خانے کو ضائع نہیں ہونے دینا۔
  • تفسیر کی بارہ جلدوں میں چھپ جانے والی چھ جلدیں ان کے اہل کو دی جائیں اور باقی جلدوں کی طباعت کی کوشش کریں۔ لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا۔
  • تفسیر کی باقی اٹھارہ جلدوں کی تصنیف و تالیف میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کرو کیونکہ دین اور دنیا کی مصروفیات میں سے سب سے اچھی مصروفیت ہے کہ جو رب جلیل اور جمیل کے ثواب کا موجب اور قیامت تک کیلئے ہر گمراہ کیلئے ہدایت کا باعث ہے۔

یہ علامہ کی وہ مختصر وصیتیں جو انہوں نے اپنی وفات سے ایک مہینہ پہلے مجھے فرمائیں۔

وفات سے پہلے

فائل:سنگ مزار-ابوالقاسم حائری.JPG

پیش گوئی

1323 ہجری کی سات محرم الحرام کو آپ کی ظاہری صحت تو بالکل ٹھیک تھی لیکن اس کے باوجود مؤمنین کی ایک جماعت کی موجودگی میں اپنے دوسرے بیٹے سے کہا: ان دنوں میں میری خیریت سے بے خبر رہنا خطا ہے۔ پوچھا گیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میں خیال نہیں کرتا کہ میں ایک ہفتہ سے زیادہ زندہ رہوں گا۔ اس پیش گوئی کو صالحین کی کرامات میں سے شمار کرنا چاہئے کیونکہ اس کے بعد چودہ محرم الحرام تک ہی زندہ رہے۔ اس ہفتے میں آپ کی صحت مکمل طور پر ٹھیک رہی اور آپ معمول کے مطابق اپنے گھر کی مجالس میں شرکت فرماتے تھے اور تیرہ محرم الحرام کو نواب صاحب کی مبارک حویلی میں ہونے والی مجلس عزا میں شریک ہوئے تھے۔

سچا خواب

چودہ محرم کی رات میں نے خواب میں دیکھا: گویا نواب ناصر علی خان کربلا سے پالکی میں آئے ہیں اور علامہ پالکی میں لیٹے ہوئے ہیں۔ پھر میں بیدار ہو گیا پریشان ہوا کہ اسی اثنا میں مجھے خبر پہنچی کہ آپ کی طبیعت خراب ہو گئی ہے تیمار داری کیلئے حاضر ہوا تو معلوم ہوا کہ اچانک درد سر میں مبتلا ہوئے اور دو گھنٹے بعد سرسام کا مرض ظاہر ہو گیا۔

احتضار

رات کے آٹھ بجے سے علامہ کے احتضار کا وقت شروع ہو چکا تھا۔ حاضرین درود و استغفار میں مشغول تھے کہ درج ذیل کرامت ظاہر ہوئی:

روایت میں آیا ہے کہ امیر المؤمنین ؑ نے حارث ہمدانی سے کہا: اے حارث ہمدانی! جو شخص بھی فوت ہوتا ہے وہ مجھے دیکھتا ہے۔ غالبا یہی امیر المؤنین کے تشریف لانے کا وقت تھا۔ اس وقت مؤمنین اور مخلصین میں نواب محمد علی خان بھی موجود تھے کہ جب علامہ نے آخری سانس لینا چاہا تو علامہ نے اپنے سر کو کمر تک تکیے سے تعظیم کی خاطر بلند کیا۔ وہاں موجود اکثر حاضرین سمجھے کہ آپ شاید اٹھنے کا ارادہ رکھتے ہیں لہذا وہ سب اٹھ کر کھڑے ہوئے لیکن اسی وقت سب نے دیکھا کہ اسی بلند ہونے کی حالت میں اس نفس مطمئنہ کا سانس قطع ہو گیا اور پھر آپ نے دوبارہ سانس نہیں لیا۔

تجہیز و تکفین

علامہ کی وفات کی وجہ سے تمام اسلامی مدارس میں چھٹی کا اعلان کیا گیا اور تمام مسلمانوں نے بازار اور دوکانیں بند رکھیں۔ دفتروں کے ملازمین نے چھٹی لے لی تا کہ آپ کے جنازے میں شرکت کر سکیں۔ پس ہفتے کے دن ظہر کے بعد آپ کے جنازے کو اٹھایا گیا اور متعدد سیاہ پرچم جنازے سے آگے موجود تھے۔ اکثر لوگوں نے سیاہ لباس پہنا ہوا تھا اور سب لوگ تسبیح، تحلیل، استغفار اور درود پڑھنے میں مشغول تھے۔ آپ کے جنازے کو آپ کی وصیت کے مطابق لاہور میں بیرون بھاٹی گیٹ امام بارگاہ گامے شاہ لے جایا گیا اور نماز جنازہ پڑھے جانے کے بعد گامے شاہ کے شرقی حصے میں دفنایا گیا۔ نواب محمد علی خان اور ان کے خاندان کے تمام افراد علامہ کے مریض ہونے سے لے کر مجلس فاتحہ خوانی تک موجود رہے۔[23]

بیرونی روابط

مذکورہ مضمون کا اکثر حصہ جناب آیت اللہ ابو القاسم رضوی (مرحوم) کے فرزند آیت اللہ سید علی حائری (مرحوم) کی کتاب سوانح قاسمی سے لیا گیا۔ جسے انہوں نے اپنے والد مرحوم کی وفات کے بعد لکھا۔

حوالہ جات

  1. سیادۃ السادۃ میں اسی طرح منقول ہے ۔
  2. سید محسن حسینی کشمیری (مؤلفِ دانشنامۂ کشمیر)
  3. ر ک: سید ابو القاسم رضوی، حق الیقین کا آخر دیکھیں، مخطوط۔
  4. یعنی علامہ ابو القاسم رضوی کے فرزند حجۃ الاسلام سید علی حائری کے زمانے میں
  5. الذریعہ ج1 ص529 ش2584۔
  6. الذریعہ ج3 ص101 ش324۔
  7. الذریعہ ج3 ص118 ش402۔
  8. الذریعہ ج1 ص67 ش327۔
  9. الذریعہ ج1ص276 ش1452۔
  10. الذریعہ ج2 ص426 ش1678
  11. الذریعہ ج1 ص524 ش2553۔
  12. الذریعہ ج2 ص220 ش863۔
  13. الذریعہ ج 6 ص 264 ش1446
  14. معجم المؤلفین ج8 ص98 ش
  15. الذریعہ ج3 ص94 ش299۔
  16. الذریعہ ج12 ص 30 ش159۔
  17. الذریعہ ج7 ص212 ش1034
  18. الذریعہ ،ج1 ص56 ش283۔
  19. الذریعہ ج2 ص112 ش445۔
  20. الذریعہ ج2 ص508 ش1992
  21. بقرہ:156۔
  22. مائدہ :27۔
  23. مذکورہ مضمون جناب آیت اللہ ابو القاسم رضوی (مرحوم) کے فرزند آیت اللہ سید علی حائری (مرحوم) کی کتاب سوانح قاسمی سے لیا گیا۔ جسے انہوں نے اپنے والد مرحوم کی وفات کے بعد لکھا۔

مآخذ

  • بزرگ تہرانی وفات: 1389، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، چاپ: الثالثہ، سال چاپ: 1403-1983 ء، ناشر: دار الأضواء بيروت، لبنان (سافٹ وئر مکتبۂ اہل البیت)
  • سید محسن امین عاملی، اعیان الشیعہ، وفات: 1371، تحقيق: تحقيق و تخريج: حسن الأمين، ناشر: دار التعارف للمطبوعات بيروت، لبنان (سافٹ وئر مکتبۂ اہل البیت)۔
  • عمر کحالہ، معجم المؤلفین، ناشر: مكتبہ المثنى بيروت، لبنان و دار إحياء التراث العربي بيروت، لبنان(سافٹ وئر مکتبۂ اہل البیت)۔
  • سید علی حائری، سوانح قاسمی، مرکز احیاء آثار برصغیر، مآب قم۔