"توحید صدوق" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>Merajmahdi |
imported>Merajmahdi |
||
سطر 18: | سطر 18: | ||
===علمائے شیعہ کے نزدیک کتاب کا مقام=== | ===علمائے شیعہ کے نزدیک کتاب کا مقام=== | ||
[[علامه مجلسی]] نے اپنی کتاب، [[بحار الانوار]] (توحید اورعدل سے متعلق جلدوں میں ) اس کتاب کی روایات سے بہت استفادہ کیا ہے۔ شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعه <ref> میں اس کتاب کی روایات کو نقل کیا ہے مثال کے طور پہ دیکھیں: وسائل الشیعه، ج ۱، ص ۲۰، ج ۳، ص ۱۰۱، ج ۷، ص ۱۴۰.</ref> اور اسی طرح محدث نوری نے، مستدرک الوسائل<ref>مستدرک الوسائل، ج ۵، ص ۲۶۴.</ref> میں اس کتاب سے روایات نقل کی ہیں۔ | [[علامه مجلسی]] نے اپنی کتاب، [[بحار الانوار]] (توحید اورعدل سے متعلق جلدوں میں ) اس کتاب کی روایات سے بہت استفادہ کیا ہے۔ شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعه <ref> میں اس کتاب کی روایات کو نقل کیا ہے مثال کے طور پہ دیکھیں: وسائل الشیعه، ج ۱، ص ۲۰، ج ۳، ص ۱۰۱، ج ۷، ص ۱۴۰.</ref> اور اسی طرح محدث نوری نے، مستدرک الوسائل<ref>مستدرک الوسائل، ج ۵، ص ۲۶۴.</ref> میں اس کتاب سے روایات نقل کی ہیں۔ | ||
گزارشی از محتوای کتاب | گزارشی از محتوای کتاب |
نسخہ بمطابق 15:24، 3 دسمبر 2020ء
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم [[صارف:imported>Merajmahdi|imported>Merajmahdi]] ([[Special:Contributions/imported>Merajmahdi|حصہ]] · [[Special:Log/imported>Merajmahdi|شراکت]]) نے 4 سال قبل کی۔ |
کتاب التوحید ، روائی کتاب ہے کہ جو شیعہ عقاید کے بارے میں عربی زبان میں لکھی گئی، اس کے مولف چوتھی صدی ہجری قمری کے مشہور شیعہ محدّث شیخ صدوق ہیں۔ کتاب کا اصلی موضوع، شیعہ نقطہ نظر سے توحید کی شناخت ہے جس میں متعلقہ بحث و موضوعات جیسے صفات ثبوتیہ اور سلبیہ، ذاتی و فعلی اور ان کی ذات الھی سے نسبت اور حدوث و قدم اور جبر و تفویض بیان ہوئے ہیں۔
مولف کی نظر میں کتاب کی تالیف کا مقصد، شیعہ عقاید کے بارے میں مخالفین کی بے بنیاد تہمتوں کا جواب دینا تھا۔ کتاب التوحید، احادیث کی معتبر کتب میں شمار ہوتی ہے اورعلمائے شیعہ کی توجہ کا مرکز رہی ہے اور [ان کے بعد علماء کے ] آثار میں اسی کتاب کی روایات سے استناد کیا جاتا ہے۔
کتاب کے مولف
تفصیلی مضمون: شیخ صدوق
اس کتاب کے مولف محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی شیخ صدوق کے نام سے مشھور ہیں وہ چوتھی صدی ھجری کے بزرگ شیعہ علماء میں سے ہیں۔[1] ان کی تاریخ ولادت کے بارے میں دقیق طور پر معلومات دستیاب نھیں ہیں لیکن اندازہ کے مطابق (سنہ ۳۰۵ ھ) کے بعد ہوِئی ہے ۔ شیخ صدوق کی قبر، شھر رے میں ہے۔ ان کو شھر قم کے مکتب حدیثی کے محدثین اور فقہاء میں شمار کیا گیا یے اور تقریبا تین سوعلمی آثار اور تالیفات ان کی طرف منسوب ہیں جن میں کے بہت سے آثار آج موجود نہیں ہیں اس کتاب کے علاوہ، کتاب من لا یحضرہ الفقیہ جوکتب اربعہ شیعہ میں شمار ہوتی ہے،اورمعانی الاخبار، عیون الاخبار، الخصال، علل الشرائع اور صفات الشیعة ان کے آ ثار میں سے ہیں۔
ان کے بعض مشھور شاگردوں میں حسب ذیل افراد ہیں: سید مرتضی، شیخ مفید و تلعکبری.
تالیف کامقصد
ابن بابویہ [2] نے اپنی اس تالیف کا مقصد، مخالفین کی طرف سے اہل تشیع پر، تشبیہ اور جبر سے متعلق،کیے گئے اعتراضات کا جواب ذکر کیاہے۔ غالیوں، نے جبر و تشبیہ سے متعلق حدیثیں جعل کرکے ان کو شیعوں کی طرف منسوب کردیا. [3] یہ تہمت اور نسبت، زیادہ تر اس زمانے کے معتزلی فرقہ کے لوگ لگا یا کرتے تھے جیسا کہ خیاط نامی مولف نے اپنی کتاب «انتصار»،[4] میں بارہا اس بات کو ذ کر کیا ہے.[5]کبھی کبھی بعض علم کلام کی شیعہ ماہر شخصیتیں، قم کے مکتب حدیث کے گروہ کی رد وتنقید میں یہ اعتراضات بیان کرتی تھیں۔[6] چوتھی ھجری کے اوایل میں، ابوالحسن اشعری نے تجسیم (خدا کے جسم ہونے کا عقیدہ) اور تشبیہ (مخلوقات سے خدا کی تشبیہ دینا) کی نسبت شیعوں کی طرف دی ہے [7] اور یہاں تک کہ اہل سنت کے روایت پسند اور حدیث پسند گروہ بھی با وجود اس کے کہ خود بھی اسی تہمت اور نسبت کے دائرہ میں آتے تھے اہل تشیع کو صفات خدا کے اثبات میں زیادتی کرنے والوں اور تشبیہ دینے والوں کے عنوان سے پہچانتے تھے۔[8].
کتاب التوحید کی اہمیت
تالیف کا سبب
اسلام کی ابتدائ صد یوں میں، عقائد سے متعلق «کتاب التوحید» کے عنوان سے کتابیں لکھی جاتی تھیں کہ جو مختلف مسلک و مذہب کے اعتقادی مسائل کو بیان کرتی تھیں۔[9] چوتھی صدی میں، معتزلہ کے کمزور ہونے اور فرقہ اشاعرہ کی پیدا ئش کے ساتھ ساتھ، حدیث پسند گروہ، عقائد سے متعلق بحث و درس کا ذمہ دار بن گیا تھا اور اس گروہ کے عقائد کے موضوع پرمختلف کتب کے درمیان، امکان ہے کہ ابن خزیمہ کی کتاب "التوحید" اور کافی کی کتاب التوحید، شیخ صدوق کے زیادہ پیش نظر تھیں۔
علمائے شیعہ کے نزدیک کتاب کا مقام
علامه مجلسی نے اپنی کتاب، بحار الانوار (توحید اورعدل سے متعلق جلدوں میں ) اس کتاب کی روایات سے بہت استفادہ کیا ہے۔ شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعه [10] اور اسی طرح محدث نوری نے، مستدرک الوسائل[11] میں اس کتاب سے روایات نقل کی ہیں۔
گزارشی از محتوای کتاب
کتاب التوحید که صدوق در آن، با تکیه بر اخبار، در مقام تبیین مفاهیم و اثبات دعاوی کلامی برآمده، در واقع یک نظام کلامی مدونِ مبتنی بر متون احادیث با کمترین تصرف ممکن ارائه میدهد. البته صدوق در این کتاب از میان جوانب و مسائل گوناگون خداشناسی و توحید، بیشتر بر بحث اسماء و صفات تأکید کرده که گویای خصلت مدافعهگرایانه و سلبی و جدلی آن در برابر دیدگاههای مخالف موجود در آن دوره یا رد برخی شبهات در باره شیعه است. طرف مقابل در این مباحث، در درجه اول مشبِّهه و مجسِّمهاند، هر چند این لزوماً به معنای همراهی با معتزله نیست.
موضوع این کتاب توحید به معنای عام آن است و از این رو علاوه بر بیان وحدانیت ذات الهی و بیان صفات الهی و حدوث و قدم، به مباحث قضا و قدر و جبر و تفویض و مسائل و عناوین مرتبط با جبر و اختیار نیز میپردازد. به نظر میرسد شیخ صدوق در به کارگیری این معنای اصطلاحیِ توحید که شامل مباحث بسیار گستره خداشناسی میشود از «کتاب التوحید» کلینی در کافی[۱۲] الگو گرفته است . حال آنکه ابن خزیمه (متوفی ۳۱۱)، مؤلف کتاب التوحید که معاصر کلینی است ، مباحث قضا و قدر و جبر و اختیار را در «کتاب القدر» خود[۱۳] آورده است.
حوالہ جات
- ↑ صدوق، ۱۳۶۱ش ، ص ۸؛ صدوق، ۱۳۶۲ش، ج ۲، ص ۵۹۴؛ صدوق، ۱۴۱۴، ص ۲۲؛ نجاشی ، ص ۳۸۹
- ↑ ۱۳۵۷ ش، ص ۱۷ـ ۱۸
- ↑ صدوق، ۱۳۵۷ش، ص ۳۶۴،امام رضا (ع)سے ایک حدیث کے ذیل میں
- ↑ خیاط، الانتصار، ص ۱۳، ۱۰۴ـ ۱۰۵
- ↑ اس کے علاوہ مزید معلومات کے لیے رجوع کریںابن ندیم، ص ۲۰۸
- ↑ نمونہ کے طور پر رجوع کریں: علم الهدی، ج ۳، ص ۳۱۰
- ↑ اس سلسلے میں رجوع کریں صفحہ نمبر ۳۱ سے ۳۵ تک
- ↑ ابن خزیمه، ج ۱، ص ۲۱
- ↑ نمونہ کے طور پر دیکھیں: ابن ندیم، ص ۲۳۳،۲۳۴؛ص ۲۰۲ـ ۲۰۳، ۲۰۶ـ ۲۰۸، ۲۱۴-۲۱۵؛نجاشی، ص ۲۶۱،۳۳۴، ۴۳۳
- ↑ میں اس کتاب کی روایات کو نقل کیا ہے مثال کے طور پہ دیکھیں: وسائل الشیعه، ج ۱، ص ۲۰، ج ۳، ص ۱۰۱، ج ۷، ص ۱۴۰.
- ↑ مستدرک الوسائل، ج ۵، ص ۲۶۴.