"توحید صدوق" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>Merajmahdi |
imported>Merajmahdi |
||
سطر 10: | سطر 10: | ||
== تالیف کامقصد== | == تالیف کامقصد== | ||
[[شیخ صدوق|ابن بابویہ]] <ref>۱۳۵۷ ش، ص ۱۷ـ ۱۸</ref> نے اپنی اس تالیف کا مقصد، مخالفین کی طرف سے اہل تشیع پر، [[تشبیہ]] اور [[جبر]] سے متعلق،کیے گئے اعتراضات کا جواب ذکر کیاہے۔ | [[شیخ صدوق|ابن بابویہ]] <ref>۱۳۵۷ ش، ص ۱۷ـ ۱۸</ref> نے اپنی اس تالیف کا مقصد، مخالفین کی طرف سے اہل تشیع پر، [[تشبیہ]] اور [[جبر]] سے متعلق،کیے گئے اعتراضات کا جواب ذکر کیاہے۔ | ||
[[غالیوں]]، نے جبر و تشبیہ سے متعلق حدیثیں جعل کرکے ان کو شیعوں کی طرف منسوب کردیا. <ref>صدوق، ۱۳۵۷ش، ص ۳۶۴،امام رضا (ع)سے ایک حدیث کے ذیل میں </ref> یہ تہمت اور نسبت، زیادہ تر اس زمانے کے [[معتزلی]] فرقہ کے لوگ لگا یا کرتے تھے جیسا کہ خیاط نامی مولف نے اپنی کتاب «انتصار»،<ref>خیاط، الانتصار، ص ۱۳، ۱۰۴ـ ۱۰۵</ref> میں بارہا اس بات کو ذ کر کیا ہے.<ref> اس کے علاوہ مزید معلومات کے لیے رجوع کریںابن ندیم، ص ۲۰۸</ref>کبھی کبھی بعض علم کلام کی [[شیعہ]] ماہر | [[غالیوں]]، نے جبر و تشبیہ سے متعلق حدیثیں جعل کرکے ان کو شیعوں کی طرف منسوب کردیا. <ref>صدوق، ۱۳۵۷ش، ص ۳۶۴،امام رضا (ع)سے ایک حدیث کے ذیل میں </ref> یہ تہمت اور نسبت، زیادہ تر اس زمانے کے [[معتزلی]] فرقہ کے لوگ لگا یا کرتے تھے جیسا کہ خیاط نامی مولف نے اپنی کتاب «انتصار»،<ref>خیاط، الانتصار، ص ۱۳، ۱۰۴ـ ۱۰۵</ref> میں بارہا اس بات کو ذ کر کیا ہے.<ref> اس کے علاوہ مزید معلومات کے لیے رجوع کریںابن ندیم، ص ۲۰۸</ref>کبھی کبھی بعض علم کلام کی [[شیعہ]] ماہر شخصیتیں [[قم]] کے مکتب حدیث کے گروہ کی رد وتنقید میں یہ اعتراضات بیان کرتی تھیں۔<ref>نمونہ کے طور پر رجوع کریں: علم الهدی، ج ۳، ص ۳۱۰</ref> [[چوتھی ھجری]] کے اوایل میں، [[ابوالحسن اشعری]] نے [[تجسیم]] (خدا کے جسم ہونے کا عقیدہ) اور [[تشبیہ]] (مخلوقات سے خدا کی تشبیہ دینا) کی نسبت شیعوں کی طرف دی ہے <ref> اس سلسلے میں رجوع کریں صفحہ نمبر ۳۱ سے ۳۵ تک</ref> اور یہاں تک کہ [[اہل سنت ]] کے روایت پسند اور حدیث پسند گروہ بھی با وجود اس کے کہ خود بھی اسی تہمت اور نسبت کے دائرہ میں آتے تھے اہل تشیع کو صفات خدا کے اثبات میں زیادتی کرنے والوں اور تشبیہ دینے والوں کے عنوان سے پہچانتے تھے۔<ref>ابن خزیمه، ج ۱، ص ۲۱</ref>. | ||
== کتاب التوحید کی اہمیت == | == کتاب التوحید کی اہمیت == |
نسخہ بمطابق 15:02، 3 دسمبر 2020ء
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم [[صارف:imported>Merajmahdi|imported>Merajmahdi]] ([[Special:Contributions/imported>Merajmahdi|حصہ]] · [[Special:Log/imported>Merajmahdi|شراکت]]) نے 4 سال قبل کی۔ |
کتاب التوحید ، روائی کتاب ہے کہ جو شیعہ عقاید کے بارے میں عربی زبان میں لکھی گئی، اس کے مولف چوتھی صدی ہجری قمری کے مشہور شیعہ محدّث شیخ صدوق ہیں۔ کتاب کا اصلی موضوع، شیعہ نقطہ نظر سے توحید کی شناخت ہے جس میں متعلقہ بحث و موضوعات جیسے صفات ثبوتیہ اور سلبیہ، ذاتی و فعلی اور ان کی ذات الھی سے نسبت اور حدوث و قدم اور جبر و تفویض بیان ہوئے ہیں۔
مولف کی نظر میں کتاب کی تالیف کا مقصد، شیعہ عقاید کے بارے میں مخالفین کی بے بنیاد تہمتوں کا جواب دینا تھا۔ کتاب التوحید، احادیث کی معتبر کتب میں شمار ہوتی ہے اورعلمائے شیعہ کی توجہ کا مرکز رہی ہے اور [ان کے بعد علماء کے ] آثار میں اسی کتاب کی روایات سے استناد کیا جاتا ہے۔
کتاب کے مولف
تفصیلی مضمون: شیخ صدوق
اس کتاب کے مولف محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی شیخ صدوق کے نام سے مشھور ہیں وہ چوتھی صدی ھجری کے بزرگ شیعہ علماء میں سے ہیں۔[1] ان کی تاریخ ولادت کے بارے میں دقیق طور پر معلومات دستیاب نھیں ہیں لیکن اندازہ کے مطابق (سنہ ۳۰۵ ھ) کے بعد ہوِئی ہے ۔ شیخ صدوق کی قبر، شھر رے میں ہے۔ ان کو شھر قم کے مکتب حدیثی کے محدثین اور فقہاء میں شمار کیا گیا یے اور تقریبا تین سوعلمی آثار اور تالیفات ان کی طرف منسوب ہیں جن میں کے بہت سے آثار آج موجود نہیں ہیں اس کتاب کے علاوہ، کتاب من لا یحضرہ الفقیہ جوکتب اربعہ شیعہ میں شمار ہوتی ہے،اورمعانی الاخبار، عیون الاخبار، الخصال، علل الشرائع اور صفات الشیعة ان کے آ ثار میں سے ہیں۔
ان کے بعض مشھور شاگردوں میں حسب ذیل افراد ہیں: سید مرتضی، شیخ مفید و تلعکبری.
تالیف کامقصد
ابن بابویہ [2] نے اپنی اس تالیف کا مقصد، مخالفین کی طرف سے اہل تشیع پر، تشبیہ اور جبر سے متعلق،کیے گئے اعتراضات کا جواب ذکر کیاہے۔ غالیوں، نے جبر و تشبیہ سے متعلق حدیثیں جعل کرکے ان کو شیعوں کی طرف منسوب کردیا. [3] یہ تہمت اور نسبت، زیادہ تر اس زمانے کے معتزلی فرقہ کے لوگ لگا یا کرتے تھے جیسا کہ خیاط نامی مولف نے اپنی کتاب «انتصار»،[4] میں بارہا اس بات کو ذ کر کیا ہے.[5]کبھی کبھی بعض علم کلام کی شیعہ ماہر شخصیتیں قم کے مکتب حدیث کے گروہ کی رد وتنقید میں یہ اعتراضات بیان کرتی تھیں۔[6] چوتھی ھجری کے اوایل میں، ابوالحسن اشعری نے تجسیم (خدا کے جسم ہونے کا عقیدہ) اور تشبیہ (مخلوقات سے خدا کی تشبیہ دینا) کی نسبت شیعوں کی طرف دی ہے [7] اور یہاں تک کہ اہل سنت کے روایت پسند اور حدیث پسند گروہ بھی با وجود اس کے کہ خود بھی اسی تہمت اور نسبت کے دائرہ میں آتے تھے اہل تشیع کو صفات خدا کے اثبات میں زیادتی کرنے والوں اور تشبیہ دینے والوں کے عنوان سے پہچانتے تھے۔[8].
کتاب التوحید کی اہمیت
تالیف کا سبب
اسلام کی ابتدائ صد یوں میں، عقائد سے متعلق «کتاب التوحید» کے عنوان سے کتابیں لکھی جاتی تھیں کہ جو مختلف مسلک و مذہب کے اعتقادی مسائل کو بیان کرتی تھیں۔[9] چوتھی صدی میں، معتزلہ کے کمزور ہونے اور فرقہ اشاعرہ کی پیدا ئش کے ساتھ ساتھ، حدیث پسند گروہ، عقائد سے متعلق بحث و درس کا ذمہ دار بن گیا تھا اور اس گروہ کے عقائد کے موضوع پرمختلف کتب کے درمیان، امکان ہے کہ ابن خزیمہ کی کتاب "التوحید" اور کافی کی کتاب التوحید، شیخ صدوق کے زیادہ پیش نظر تھیں۔
علمائے شیعہ کے نزدیک کتاب کا مقام
علامه مجلسی نے اپنی کتاب، بحار الانوار (توحید اورعدل سے متعلق جلدوں میں ) اس کتاب کی روایات سے بہت استفادہ کیا ہے۔ شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعه [10] اور اسی طرح محدث نوری نے بھی، مستدرک الوسائل[11] میں اس کتاب سے روایات نقل کی ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ صدوق، ۱۳۶۱ش ، ص ۸؛ صدوق، ۱۳۶۲ش، ج ۲، ص ۵۹۴؛ صدوق، ۱۴۱۴، ص ۲۲؛ نجاشی ، ص ۳۸۹
- ↑ ۱۳۵۷ ش، ص ۱۷ـ ۱۸
- ↑ صدوق، ۱۳۵۷ش، ص ۳۶۴،امام رضا (ع)سے ایک حدیث کے ذیل میں
- ↑ خیاط، الانتصار، ص ۱۳، ۱۰۴ـ ۱۰۵
- ↑ اس کے علاوہ مزید معلومات کے لیے رجوع کریںابن ندیم، ص ۲۰۸
- ↑ نمونہ کے طور پر رجوع کریں: علم الهدی، ج ۳، ص ۳۱۰
- ↑ اس سلسلے میں رجوع کریں صفحہ نمبر ۳۱ سے ۳۵ تک
- ↑ ابن خزیمه، ج ۱، ص ۲۱
- ↑ نمونہ کے طور پر دیکھیں: ابن ندیم، ص ۲۳۳،۲۳۴؛ص ۲۰۲ـ ۲۰۳، ۲۰۶ـ ۲۰۸، ۲۱۴-۲۱۵؛نجاشی، ص ۲۶۱،۳۳۴، ۴۳۳
- ↑ میں اس کتاب کی روایات کو نقل کیا ہے مثال کے طور پہ دیکھیں: وسائل الشیعه، ج ۱، ص ۲۰، ج ۳، ص ۱۰۱، ج ۷، ص ۱۴۰.
- ↑ مستدرک الوسائل، ج ۵، ص ۲۶۴.