"قیام یمانی" کے نسخوں کے درمیان فرق
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 30: | سطر 30: | ||
* '''فتوحات'''؛ اہل سنت کے بعض مآخذ میں ذکر ہوا ہے کہ یمانی [[قسطنطنیه]] اور [[روم]] کو فتح کرے گا<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۹۱.</ref> اور ان کے پرچم کا رنگ سفید ہوگا۔<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۱۹۹.</ref> لیکن شیعہ منابع میں ان علاقوں کی فتح امام زمانہؑ سے منسوب کیا گیا ہے۔<ref>رجوع کریں: نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۳۱۹.</ref> | * '''فتوحات'''؛ اہل سنت کے بعض مآخذ میں ذکر ہوا ہے کہ یمانی [[قسطنطنیه]] اور [[روم]] کو فتح کرے گا<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۹۱.</ref> اور ان کے پرچم کا رنگ سفید ہوگا۔<ref> ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۱۹۹.</ref> لیکن شیعہ منابع میں ان علاقوں کی فتح امام زمانہؑ سے منسوب کیا گیا ہے۔<ref>رجوع کریں: نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۳۱۹.</ref> | ||
== | ==یمانی ہونے کے دعویدار== | ||
بعض روایات کے مطابق امام صادقؑ کے دور سے شیعہ، یمانی کا انتظار کر رہے تھے؛ آپؑ نے طالب حق کو یمانی ہونے{{یادداشت|طالب حق لقب عبدالله بن یحیی کندی از بزرگان خوارج بود که در سال ۱۲۹ق علیه امویان در یمن خروج کرد.(خلیفة بن خیاط، تاریخ خلیفه، ۱۴۱۵ق، ص۲۵۰.)}} کو اس لئے رد کیا کہ یمانی علیؑ کا محب ہے اور طالب حق علی سے بیزار ہے۔<ref>طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ق، ص۶۶۱.</ref> پہلی صدی ہجری سے ہی بعض لوگوں نے خود کو یمانی سے معرفی کیا ہے ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں: | بعض روایات کے مطابق امام صادقؑ کے دور سے شیعہ، یمانی کا انتظار کر رہے تھے؛ آپؑ نے طالب حق کو یمانی ہونے{{یادداشت|طالب حق لقب عبدالله بن یحیی کندی از بزرگان خوارج بود که در سال ۱۲۹ق علیه امویان در یمن خروج کرد.(خلیفة بن خیاط، تاریخ خلیفه، ۱۴۱۵ق، ص۲۵۰.)}} کو اس لئے رد کیا کہ یمانی علیؑ کا محب ہے اور طالب حق علی سے بیزار ہے۔<ref>طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ق، ص۶۶۱.</ref> پہلی صدی ہجری سے ہی بعض لوگوں نے خود کو یمانی سے معرفی کیا ہے ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں: | ||
* [[عبدالرحمن بن محمد بن اشعث]] (م [[سنہ 85 ہجری قمری|85ھ]])؛ اس نے [[عبدالملک بن مروان]] کے دور میں عراق کے حاکم [[حجاج بن یوسف ثقفی]]، کے خلاف بغاوت کیا اور خود کو قحطانی کا نام دیا جس کا یمن والوں کو انتظار تھا۔<ref> مسعودی، التنبیه و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۷۲؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج۲، ص۱۸۴.</ref> ابن اشعث امویوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد سیستان چلا گیا اور وہیں پر وفات پاگیا۔<ref> مسعودی، التنبیه و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۷۳.</ref> | * [[عبدالرحمن بن محمد بن اشعث]] (م [[سنہ 85 ہجری قمری|85ھ]])؛ اس نے [[عبدالملک بن مروان]] کے دور میں عراق کے حاکم [[حجاج بن یوسف ثقفی]]، کے خلاف بغاوت کیا اور خود کو قحطانی کا نام دیا جس کا یمن والوں کو انتظار تھا۔<ref> مسعودی، التنبیه و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۷۲؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج۲، ص۱۸۴.</ref> ابن اشعث امویوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد سیستان چلا گیا اور وہیں پر وفات پاگیا۔<ref> مسعودی، التنبیه و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۷۳.</ref> |
نسخہ بمطابق 21:20، 2 اگست 2018ء
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم Hakimi (حصہ · شراکت) نے 6 سال قبل کی۔ |
قیام یمانی یا قیام قحطانی امام زمانہ کے ظہور کی نشانیوں میں سے ایک ہے جو امام حسینؑ کی نسل سے ایک یمنی شخص کے قیام کی طرف اشارہ ہے جو امامؑ کے ظہور سے پہلے واقع ہوگا۔ بعض روایات کے مطابق یہ قیام خروج سفیانی اور سید خراسانی کے قیام کے دور میں ہوگا۔ آپ لوگوں کو امام مہدیؑ کی طرف دعوت دینگے اور احادیث کے مطابق سفیانی سے نبرد آزما ہونگے۔
پہلی صدی ہجری سے ہی بعض لوگوں نے یمانی ہونے کا ادعا کیا ہے؛ عبدالرحمان بن محمد بن اشعث جس پر حجاج بن یوسف ثقفی نے حملہ کیا اور احمد بن اسماعیل بصری جو احمد الحسن سے مشہور ہیں، یمانی ہونے کے مدعی ہیں۔
یمانی کی شخصیت
یمانی وہ شخص ہے جو امام زمانہ کے ظہور سے پہلے قیام کریں گے[1] اور لوگوں کو امام مہدی کی طرف دعوت دیں گے۔[2]
یمانی کا نام شیعہ احادیث میں نہیں آیا ہے لیکن انہیں امام حسینؑ کی نسل[3]یا زید بن علی کی نسل[4]سے قرار دیا گیا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ بعض اہل سنت کتابوں میں ان کا نام جہجاہ، حسن یا حسین ذکر ہوا ہے۔[5]«رایات الهدی و الضّلال فی عصر الظّهور» کے مصنف کا کہنا ہے کہ اگرچہ یمانی کا شجرہ نسب روایات میں ذکر نہیں ہے لیکن قطعی دلیل سے ثابت ہوتا ہے وہ اہل بیت سے اور امام حسینؑ کی نسل سے ہیں۔[6]
پیغمبر اکرمؐ سے ایک روایت میں انہیں منصور (جو امام مہدی کی مدد کرتا ہے) کے عنوان سے یاد کیا ہے۔[7]اسی طرح اہل سنت مآخذ میں انہیں قحطانی[8] اور منصور یمانی[9] کے نام سے بھی ذکر کیا ہے۔ قحطانی، قحطان نامی ایک شخص سے منسوب ہے[10] جس سے یمن کے عربوں کا نسب ملتا ہے۔[11]
یمانی کا قیام؛ ظہور کی علامت
احادیث میں یمانی کے قیام کو ظہور کی علامتوں میں سے شمار کیا ہے۔ کمال الدین شیخ صدوق میں امام صادقؑ سے منقول ایک روایت میں یمانی کے قیام کو صیحه آسمانی، خروج سفیانی، قتل نفس زکیه اور خسف بیداء کے ساتھ اسے بھی ظہور کی یقینی علامتوں میں سے قرار دیا ہے۔[12]بعض مصنفین کے مطابق یمانی کے قیام کے بارے میں 36 احادیث شیعہ اور سنی مآخذ میں ملتی ہیں۔[13]اور ان میں سے اکثر روایات میں یمانی کا قیام، ظہور کی قطعی علامتوں سے ہونے کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔[14]اور شیعہ روایات میں سے صرف دو روایتوں میں[یادداشت 1] قطعی علامتوں سے قرار دیا گیا ہے۔[15]اسی لئے بعض مصنفین نے یمانی کے قیام کو ظہور کی علامت ہونے میں تردید کیا ہے۔[16] اور اس بات سے استناد کیا ہے کہ بعض کتابوں میں اس حدیث کے ساتھ قطعی ہونے کی قید ذکر نہیں ہوئی ہے۔[17]اور احتمال دیا جاتا ہے کہ یہ قید شاید راویوں کی طرف سے روایت میں اضافہ کی گئی ہوگی۔[18]
قیام کا زمان و مکان
احادیث کے مطابق یمانی کا قیام خروج سفیانی کے ساتھ ساتھ ہوگا۔[19]امام باقرؑ کی ایک روایت کے مطابق خروج سفیانی، یمانی کا قیام اور خراسانی کا قیام سب ایک ہی سال، ایک ہی مہینہ اور ایک ہی دن میں ہوگا۔[20] امام صادقؑ کی ایک روایت میں سفیانی کا خروج رجب کے مہینے میں قرار دیا ہے۔[21]بعض نے ان دونوں روایت کے تناظر میں یمانی کے قیام کو بھی رجب کے مہینے میں قرار دیا ہے۔[22]بعض مؤلفین نے ان دونوں واقعات کا ایک ہی دن میں ہونے کو کنایہ سمجھا ہے کیونکہ ان دونوں میں بہت زیادہ باہمی رابطہ پایا جاتا ہے اس لئے اگر ان دونوں میں معمولی فاصلہ ہو تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔[23]
اسی طرح اہل سنت کے بعض مآخذ میں حضرت عیسی کا آسمان سے اترنا اور اسی وقت دجال کا خروج کرنا[24] اور مہدیؑ کے بعد دجال کا خروج کرنا ذکر ہوا ہے۔[25] شیعہ مؤلفین کے مطابق چونکہ یہ روایات معصوم سے صادر نہیں ہوئی ہیں اس لئے ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ [26]اور جو روایت دجال کا خروج امام مہدی کے قیام کے ذکر کیا ہے یہ روایت اور جس روایت میں یمانی کے قیام کو حضرت مہدی کے قیام کی علامت قرار دیا ہے ان دونوں میں باہمی سازگاری نہیں ہے۔[27] احادیث کے مطابق یمانی کا قیام یمن سے شروع ہوگا[28] یمانی کے قیام کے بارے میں موجود روایات میں صَنعا، عَدَن، کِنده اور اَبین کے علاقے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[29]بعض کا کہنا ہے کہ صنعا کے بارے میں موجود روایات مستفیض ہیں جو شیعہ اور اہل سنت دونوں سے نقل ہوئی ہے اور قیام کے مرکز کی طرف اشارہ ہے۔[30]
یمانی کے اقدامات
احادیث میں یمانی کے قیام کی تفصیل ذکر نہیں ہوئی ہے لیکن ان کے بعض اقدامات کا ذکر موجود ہے:
- حق کی دعوت؛ امام باقرؑ کی ایک روایت کے مطابق یمانی کا قیام برحق، اس کا علم ہدایت دینے والا اور ان کی دعوت صراط مستقیم کی طرف ہوگی اور ان کے قیام سے منسلک ہونے کی بہت تاکید ہوئی ہے۔[31]بعض مؤلفین نے حق کی دعوت کو امامت کی طرف دعوت سے تعبیر کیا ہے۔[32]ایک روایت میں ان کو منصور (یعنی حضرت مہدی کے مددگار) کے نا م سے ذکر ہوا ہے جس کی 70 ہزار لوگ حمایت کر رہے ہونگے۔[33] احادیث کے مطابق جب یمانی قیام کرے گا تو اس وقت اسلحہ بیچنا حرام ہوگا۔[34]
- سفیانی سے جنگ؛ بعض روایات میں یمانی اور سفیانی کی لڑائی کا ذکر ہوا ہے مثال کے طور پر کسی روایت میں آیا ہے کہ جو شخص سفیانی کی آنکھ نکالتا ہے وہ صنعا سے قیام کرے گا۔[35] یا کسی اور روایت میں سفیانی سے لڑنے والا پہلا شخص قحطانی ذکر ہوا ہے۔[36]یمانی اور سفیانی کی جنگ کے بارے میں موجود روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ بعض میں یمانی کی کامیابی [37] اور بعض دوسری روایات میں یمانی کی شکست[38] کی خبر دی گئی ہے۔ بعض مؤلفین نے ان دو قسم کی روایات کے اختلاف کو یوں حل کیا ہے کہ ہر روایت الگ الگ زمان اور مکان کی جنگ کی خبر دے رہی ہیں۔[39] لیکن ان روایات کی سند صحیح ہونے کے بارے میں تردید کیا ہے۔[40] الفتن میں سنی عالم دین ابن حماد نے یوں نقل کیا ہے کہ یمانی، مدینہ میں امام مہدیؑ سے ملحق ہونگے، سفیانی اپنی لشکر مدینہ بھیج دے گا لیکن وہ دونوں مدینہ سے مکہ کی سمت نکلیں گے۔[41] سفیانی لشکر ان کے تعاقب میں مکہ کی جانب نکلے گا اور بیداء نامی جگہ زمین دھنس کر وہ سب نابود ہونگے۔[42]
- فتوحات؛ اہل سنت کے بعض مآخذ میں ذکر ہوا ہے کہ یمانی قسطنطنیه اور روم کو فتح کرے گا[43] اور ان کے پرچم کا رنگ سفید ہوگا۔[44] لیکن شیعہ منابع میں ان علاقوں کی فتح امام زمانہؑ سے منسوب کیا گیا ہے۔[45]
یمانی ہونے کے دعویدار
بعض روایات کے مطابق امام صادقؑ کے دور سے شیعہ، یمانی کا انتظار کر رہے تھے؛ آپؑ نے طالب حق کو یمانی ہونے[یادداشت 2] کو اس لئے رد کیا کہ یمانی علیؑ کا محب ہے اور طالب حق علی سے بیزار ہے۔[46] پہلی صدی ہجری سے ہی بعض لوگوں نے خود کو یمانی سے معرفی کیا ہے ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
- عبدالرحمن بن محمد بن اشعث (م 85ھ)؛ اس نے عبدالملک بن مروان کے دور میں عراق کے حاکم حجاج بن یوسف ثقفی، کے خلاف بغاوت کیا اور خود کو قحطانی کا نام دیا جس کا یمن والوں کو انتظار تھا۔[47] ابن اشعث امویوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد سیستان چلا گیا اور وہیں پر وفات پاگیا۔[48]
- ابن فرس؛ ابن خلدون عبدالرحیم بن عبدالرحمان بن فرس اندلس کے علما میں سے تھا اور ایک دن منصور کے دربار میں سخت لہجے میں بات کی اور اس کے بعد کچھ عرصہ مخفی زندگی کرنے پر مجبور ہوا اور جب منصور مرگیا تو وہ ظاہر ہوا اور وہی قحطانی ہونے کا دعوی کیا جس کے آنے کے بارے میں پیغمبر اکرم نے خبر دی تھی، ناصر بن منصور نے اس کی طرف ایک لشکر بھیجا اور اسی جنگ میں وہ مارا گیا۔[49]
- احمد بن اسماعیل بصری المعروف احمد الحسن جو خود کو یمانی کہلاتا ہے۔ اور اس کا دعوی ہے کہ وہ یمانی ہیں اور امام زمانہؑ کے ظہور کے لیے موقع فراہم کر رہا ہے اور امام مہدیؑ کے بعد حکومت اسے ملے گی۔[50] دعوة احمد الحسن بین الحق و الباطل نامی کتاب اس کے دعوں کے رد میں لکھی گئی ہے۔[51]
اسی طرح یزید بن ملہب[52] اور عبدالرحمن بن منصور (ہشام بن حکم الموید باللہ کے دور میں)[53] بھی یمانی ہونے کے دعویداروں میں سے شمار ہوتے ہیں۔
تکنگاری
حوالہ جات
- ↑ نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۳، ۲۵۲.
- ↑ نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۵-۲۵۶؛ فتلاوی، رایات الهدی و الضّلال فی عصر الظّهور، ۱۴۲۰ق، ص۱۰۱.
- ↑ صدوق، کمال الدین، ج۱، ۱۳۹۵ق، ص۲۵۱.
- ↑ ابن طاووس، فلاح السائل،۱۴۰۶ق، ص۱۷۱.
- ↑ آیتی، «یمانی درفش هدایت»، ص۲۰.
- ↑ فتلاوی، رایات الهدی و الضّلال فی عصر الظّهور، ۱۴۲۰ق، ص۱۰۰.
- ↑ نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۳۹.
- ↑ ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۷۵؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج۲، ص۱۸۳.
- ↑ ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۱۹۹.
- ↑ ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ج۷، ص۳۷۴.
- ↑ ابن کثیر، البدایه و النهایه، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۱۵۶.
- ↑ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۶۵۰، ح۷.
- ↑ مهدویراد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۲۶.
- ↑ رجوع کریں؛ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۳۲۸، ج۲، ص۶۴۹، ح۱؛ نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۳، ۲۵۲؛ لیثی، عیون الحکم و المواعظ، ۱۳۷۶ش، ص۲۴۴؛ ابن طاووس، فلاح السائل، ۱۴۰۶ق، ص۱۷۱.
- ↑ آیتی، «یمانی درفش هدایت»، ص۱۷.
- ↑ آیتی، «یمانی درفش هدایت»، ص۱۷-۱۹؛ مهدویراد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۲۶.
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۳۱۰، ح۴۸۳؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۲۳۳.
- ↑ آیتی، «یمانی درفش هدایت»، ص۱۹.
- ↑ نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۳۰۵؛ طوسی، الغیبه، ۱۴۱۱ق، ص۴۴۷.
- ↑ نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۵-۲۵۶.
- ↑ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۶۵۰.
- ↑ آیتی، «یمانی درفش هدایت»، ص۲۶.
- ↑ آیتی، «یمانی درفش هدایت»، ص۲۶-۲۷.
- ↑ ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۹۱.
- ↑ ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۸۵؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج۲، ص۱۸۴.
- ↑ آیتی، «یمانی درفش هدایت»، ص۳۶.
- ↑ رجوع کریں؛ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۳۲۸، ج۲، ص۶۴۹، ح۱؛ نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۳، ۲۵۲؛ لیثی، عیون الحکم و المواعظ، ۱۳۷۶ش، ص۲۴۴؛ ابن طاووس، فلاح السائل، ۱۴۰۶ق، ص۱۷۱.
- ↑ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۳۳۱؛ لیثی، عیون الحکم و المواعظ، ۱۳۷۶ش، ص۲۴۴
- ↑ فتلاوی، رایات الهدی و الضّلال فی عصر الظّهور، ۱۴۲۰ق، ص۱۰۱.
- ↑ فتلاوی، رایات الهدی و الضّلال فی عصر الظّهور، ۱۴۲۰ق، ص۱۰۱.
- ↑ نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۵-۲۵۶.
- ↑ مهدویراد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۵۲.
- ↑ نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۳۹.
- ↑ نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۶.
- ↑ نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۲۷.
- ↑ ازدی نیشابوری، مختصر اثبات الرجعه، ۱۴۱۳ق، ح۹، ص۲۶۱، به نقل از مهدویراد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۵۳؛ نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۲۲۷.
- ↑ ازدی نیشابوری، مختصر اثبات الرجعه، ۱۴۱۳ق، ح۹، ص۲۶۱، به نقل از مهدویراد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۵۳.
- ↑ ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۱۹۹.
- ↑ آیتی، «یمانی درفش هدایت»، ص۳۵.
- ↑ آیتی، «یمانی درفش هدایت»، ص۳۵؛ مهدویراد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۵۴.
- ↑ ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۲۳.
- ↑ ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۱۲.
- ↑ ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۹۱.
- ↑ ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، ص۱۹۹.
- ↑ رجوع کریں: نعمانی، الغیبه، ۱۳۹۷ق، ص۳۱۹.
- ↑ طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ق، ص۶۶۱.
- ↑ مسعودی، التنبیه و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۷۲؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج۲، ص۱۸۴.
- ↑ مسعودی، التنبیه و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۷۳.
- ↑ ابن خلدون، دیوان المبتدأ و الخبر، ۱۴۰۸ق، ج۶، ص۳۳۶.
- ↑ یوسفیان، «بررسی برخی ادله روایی احمد بصری یمانی دروغین»، ص۶۳.
- ↑ یوسفیان، «بررسی برخی ادله روایی احمد بصری یمانی دروغین»، ص۶۳.
- ↑ فخر رازی، المحصول، ۱۴۱۸ق، ج۴، ۳۴۷-۳۴۸.
- ↑ ابن خلدون، دیوان المبتدأ و الخبر، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۹۱.
مآخذ
- آیتی، نصرتالله، یمانی درفش هدایت، مجله مشرق موعود، شماره ۱، سال ۱۳۸۵ش.
- ابن حماد، نعیم بن حماد، الفتن، تصحیح: مجدی بن منصور شوری، بیروت، دار الکتب العلمیه منشورات محمدعلی بیضون، بیتا.
- ابن خلدون، عبد الرحمان بن محمد، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب و البربر و من عاصرهم من ذوی الشأن الاکبر، تحقیق: خلیل شحادة، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸م.
- ابن طاووس، علی بن موسی، فلاح السائل و نجاح المسائل، قم، بوستان کتاب، ۱۴۰۶ق.
- ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م.
- ابن منظور، محمد مکرم، لسان العرب، تصحیح: احمد فارس، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۴ق.
- ازدی نیشابوری، فضل بن شاذان، مختصر اثبات الرجعه، ترجمه: میرلوحی، تحقیق: باسم الهاشمی، بیروت، دار الکرم، ۱۴۱۳ق.
- حلو، سید محمدعلی، الیمانی رأیة هدی، نجف، مرکز الدراسات التخصصیه فی الامام المهدی، ۱۴۱۲۵ق.
- خلیفة بن خیاط، تاریخ خلیفه، تحقیق: فواز، بیروت، دار الکتب العلمیة، ۱۹۹۵م/۱۴۱۵ق.
- صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمه، تصحبح: علیاکبر غفاری، تهران، اسلامیه، ۱۳۹۵ق.
- طوسی، محمد بن حسن، الامالی، تصحیح: مؤسسه البعثة، قم، دار الثقافة، ۱۴۱۴ق.
- طوسی، محمد بن حسن، کتاب الغیبة للحجة، تصحیح: عبادالله تهرانی و علی احمد ناصح، قم، دار المعارف الاسلامیه، ۱۴۱۱ق.
- فتلاوی، مهدی، رایات الهدی و الضّلال فی عصر الظّهور، بیروت، دار المحجه البیضاء، ۱۴۲۰ق/۱۹۹۹م.
- فخر رازی، محمد بن عمر، المحصول، تحقیق: طه جابر فیضا العلوانی، مؤسسه الرساله، ۱۴۱۸ق/۱۹۹۷م.
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علیاکبر غفاری و محمد آخوندی، تهران، دار الکتب الاسلامیه، ۱۴۰۷ق.
- لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم و المواعظ، تصحیح: حسین حسنی بیرجندی، قم، دار الحدیث، ۱۳۷۶ش.
- مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
- مسعودی، علی بن حسین، التنبیه و الاشراف، تصحیح: عبدالله اسماعیل الصاوی، قاهره، دار الصاوی، بیتا.
- مقدسی، مطهر بن طاهر، البدء و التاریخ، بور سعید، مکتبة الثقافة الدینیة، بیتا.
- نعمانی، محمد بن ابراهیم، الغیبه، تصحیح: علی اکبر غفاری، نشر صدوق، تهران، ۱۳۹۷ق.
- مهدویراد، محمدعلی و دیگران، بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین، حدیثپژوهی، پاییز و زمستان ۱۳۹۳ش.
- یوسفیان، مهدی؛ شهبازیان، محمد، «بررسی برخی ادله روایی احمد بصری یمانی دروغین»، مشرق موعود، شماره۲۷، پاییز ۱۳۹۲ش.
سانچہ:مهدویت
خطا در حوالہ: "یادداشت" نام کے حوالے کے لیے ٹیگ <ref>
ہیں، لیکن مماثل ٹیگ <references group="یادداشت"/>
نہیں ملا یا پھر بند- ٹیگ </ref>
ناموجود ہے