اصل

ویکی شیعہ سے

اصل حدیث کی ایک کتاب ہے جس کی حدیثیں براہ راست یا کسی ایک واسطے کے ذریعے معصوم سے سنی اور لکھی گئی ہیں۔ حدیث کی دوسری کتابوں کے مقابلے اصل کے امتیازات ہیں اور شیعہ علماء کے نزدیک اس میں روایت کا ہونا حدیث کی سند کے معیار میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس مسئلہ کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ چونکہ یہ حدیث معصوم سے کسی واسطے کے بغیر ہے یا صرف ایک واسطے سے نقل ہوئی ہے، اس لیے اس میں غلطیوں اور تحریف کا امکان دوسری کتب حدیث سے کم ہے۔

شیعہ علماء کے مطابق، بعض شیعہ حدیثی اصول کے علاوہ باقی زیادہ تر امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں یا اس کے کچھ عرصہ بعد اور اس سے پہلے لکھے گئے تھے۔ مشہور ہے کہ اصحاب ائمہ کے لکھے ہوئے اصولوں کی تعداد چار سو تھی۔ اس لیے انہیں اربعمائۃ کہا جاتا ہے۔ تاہم بعض کا خیال ہے کہ ان کی تعداد اس تعداد سے کم ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ اصول ضائع ہو گئے اور آج اگرچہ کتابوں میں ان کے نام درج ہیں، لیکن ان میں سے صرف سولہ دستیاب ہیں، جو الاُصولُ السِّتَّہ عَشَر (سولہ اصول) نامی کتاب میں چھپے ہیں۔ البتہ کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر اصول، شیعوں کی سب سے اہم کتب کُتُب اَربَعہ کے مصنفین کے پاس تھے اور ان کی احادیث ان کتابوں میں شامل ہیں۔

اصل کی تعریف

اصل کی مختلف تعریفیں پیش کی گئی ہیں۔ [1] آقا بزرگ تہرانی کی تعریف کو زیادہ درست اور جامع سمجھا جاتا ہے۔ [2] اس کے مطابق، اصل، حدیث کی وہ کتاب ہے جس کے مصنف نے براہ راست یا کسی ایک واسطے کے ذریعے حدیث سنی اور لکھی ہے۔[3] اصل کسی اور کتاب سے نہیں لی گئی ہے۔ بلکہ اس میں وہ احادیث ہیں جو مصنف نے خود معصوم سے یا اس شخص سے سنی اور لکھی ہیں جس نے معصوم سے براہ راست نقل کی ہیں۔[4]

کتاب دِراسۃٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَمِائۃ کے مصنف کے مطابق، "اصول" کی اصطلاح سب سے پہلے پانچویں صدی ہجری کے بعد شیعہ علماء کے ادب میں ذکر ہوئی؛ [5] واضح طور پر، شیخ مفید، نجاشی اور شیخ طوسی کی تصانیف میں۔[6]

اصل اور "کتاب"، "مسند" اور "مصنف" میں فرق

شیعہ رجالی علماء کی تحریروں میں بعض اوقات "کتاب" کے مقابلے میں "اصل" کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، کہا جاتا ہے کہ ایک مخصوص راوی کی ایک "کتاب" ہے اور ایک اصل ہے۔[7] اہلسنت کی بعض احادیث کو "مسند" یا "مصنف" کہا جاتا ہے۔[8] ان اصلاحات کے درمیان فرق کی یوں وضاحت کی گئی ہے:

کتاب میں ہر حدیثی تحریر شامل ہے۔ چاہے اس کی احادیث کسی اور کتاب سے لی گئی ہیں یا اصل کی طرح، کسی اور کتاب سے نہیں لی گئی ہیں۔[9] مسند سے مراد وہ کتابیں ہیں جن میں احادیث صحابہ کی ترتیب کے مطابق الگ الگ ابواب میں جمع کی گئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر حصہ کسی ایک صحابی کے لیے مخصوص ہے اور اس میں مختلف موضوعات پر ان کی روایتیں شامل ہیں۔ جیسا کہ مسند احمد ابن حنبل۔ [10] مصنفات بھی حدیث کی وہ کتابیں ہیں جن کی احادیث کو عنوانات کے مطابق درجہ بندی کیا گیا ہے؛[11] جیسا کہ مُصَنَّف عبدالرزاق بن ہَمّام صَنعانی[12]

اصولوں کا اعتبار

شیعہ کتاب شناس آقا بزرگ تہرانی کے مطابق، حدیث کی دوسری کتابوں کے مقابلے میں اصل میں غلطیاں اور بھول چوک بہت کم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی احادیث بلاواسطہ یا صرف کسی ایک واسطے کے ذریعے سے حاصل ہوتی تھیں۔ اس لیے اصول دوسری کتابوں سے زیادہ معتبر ہیں۔ خاص طور پر اگر ان کا مصنف معتبر راویوں میں سے ہو اور روایت کرنے کی شرائط رکھتا ہو، اس صورت میں ان کی احادیث کو بلاشبہ مستند سمجھا جاتا ہے۔[13] اسی لئے اگر ایک رجالی کسی راوی کے جائزے میں یہ کہتا ہے کہ وہ اصل کا مصنف تھا، تو یہ اس کی مثبت خصوصیات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ احادیث کو اچھی طرح محفوظ کرنے کی طرف اس کی خاص توجہ، معصوم سے عین حدیث کو حاصل کرنے اور بھول چوک کے اسباب سے بچنے کو ظاہر کرتا ہے۔[14]

ایک شیعہ محدث فیض کاشانی لکھتے ہیں کہ اصل حدیث کو جانچنے کے معیار میں سے ایک تھی، اور شروع کے فقہاء ایک ایسی حدیث کو مان لیتے تھے اور اسے صحیح سمجھتے تھے جو متعدد اصلوں میں آئی ہو، یا ایک یا دو میں اصل، متعدد اور معتبر سلسلہ سند کے ساتھ مذکور ہو، یا اصل کا مصنف اصحاب اجماع میں سے ہو۔[15]

کہا جاتا ہے کہ شیعہ علماء اس بات پر متفق ہیں کہ سب سے اہم شیعہ جوامع حدیثی کی بنیاد یہی اصلیں تھیں اور چار کتابوں کی زیادہ تر احادیث ان ہی سے لی گئی ہیں۔[16]

اصل نویسی کی تاریخ

شیعہ علماء کا ماننا ہے کہ اصول، تمام کی تمام، شیعہ ائمہ کے زمانے میں، یعنی امام علی علیہ السلام کے زمانے سے لے کر [[امام حسن عسکری علیہ السلام] کے زمانے تک کے درمیان لکھی گئی ہیں؛[17]لیکن اصل نویسی کی شروعات کے بارے میں دو نظریہ پائے جاتے ہیں۔[18] کچھ علماء، جیسے سید محسن امین، شیخ مفید کی پیروی کرتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ یہ امام علی کے زمانے سے شروع ہوا اور امام حسن عسکری علیہ السلام تک جاری رہا۔

دوسرا گروہ جیسے شہید اول، محقق حلی اور میر داماد کہتے ہیں کہ اصلیں امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں یا اس سے کچھ پہلے یا بعد میں لکھی گئی تھیں۔[19]

کتاب دِراسۃٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَمِاءہ کے مصنف نے دوسرے نقطہ نظر کی درستی پر زور دیا ہے۔ [20] آقا بزرگ تہرانی نے الذریعہ میں لکھا ہے کہ اصل کی تالیف کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ بہت کم تعداد کو چھوڑ کر باقی سب کو امام صادق علیہ السلام کے اصحاب نے لکھا ہے۔ وہ یا تو ان کے مخصوص اصحاب ہوں یا ان کے اصحاب میں سے وہ جو امام محمد باقر یا موسیٰ کاظم کے شاگرد بھی تھے۔[21]

دوسری طرف مجید معارف نے اپنی کتاب عمومی تاریخ حدیث میں تیسرا نقطہ نظر پیش کیا جس پر وہ یقین رکھتے ہیں۔ کہ اصول امام محمد باقر، امام صادق اور امام کاظم علیہم السلام کے زمانے میں لکھے گئے تھے۔[22] ان کی دلیل ہے کہ اصلوں میں زیادہ تر احادیث ان تینوں ائمہ سے ہیں۔[23]

امام صادقؑ کے دور میں اصل نویسی کے رائج ہونے کی وجہ

آقا بزرگ تہرانی کے مطابق، امام باقر، امام صادق اور امام کاظم علیہم السلام کی امامت کا دور، اموی خلافت کی کمزوری اور پھر اس کے زوال اور بنی عباس کو اقتدار کی منتقلی کے ساتھ تھا۔ اس دور میں حکمران، سیاسی جھگڑوں میں مصروف رہے اور انہیں اماموں پر سختی کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس لیے ائمہ کی مذہبی تعلیمات کی اشاعت میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی اور شیعہ راوی محفوظ طریقے سے ان کے عمومی اور خصوصی دروس میں شرکت کرتے تھے اور ان سے سیکھی ہوئی روایات کو لکھتے تھے۔[24]

شیعوں کی اصل کا اہل سنت کی مسند سے موازنہ

شیعہ اور اہل سنت نے حدیث کی کتابیں مرتب کرنے میں مختلف راستے اختیار کئے ہیں۔ سنیوں میں مسند نگاری بہت مشہور ہوئی۔ لیکن شیعوں نے اصل نویسی پر بہت زیادہ توجہ دی۔[25] اصل اور مسند میں کچھ مماثلتیں ہیں۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ دونوں میں احادیث کی وحدت کا معیار راوی ہے، احادیث کا موضوع نہیں۔ یعنی ان دونوں میں ہی بغیر درجہ بندی کئے، ایک راوی سے مختلف مضامین میں احادیث جمع کی گئی ہیں۔ نیز یہ دونوں ہی احادیث سننے پر مبنی تھے اور ان میں سے کسی میں بھی حدیثیں دوسری کتابوں سے نہیں لی گئی تھیں۔ ایک اور مماثلت یہ ہے کہ شیعوں میں سب سے اہم جوامع حدیثی کو انھیں اصلوں کی بنیاد پر لکھا گیا۔ سنی جوامع حدیثی کے مصنفین نے بھی مسندوں پر مبنی اپنی جوامع حدیثی تصنیف کی ہیں۔[26]

البتہ شیعہ علماء کی نظر میں اصول کو مسندوں پر برتری حاصل ہے؛ کیونکہ وہ امام کی طرف سے براہ راست یا صرف ایک واسطے کے ذریعے سنی ہوئی تھیں۔ لہٰذا ان میں غلطیوں اور تحریف کا امکان کم ہے: لیکن مسندیں، بعض اوقات چار، پانچ یا چھ واسطوں کے ساتھ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتی ہیں اور اول درجے کی کتابیں نہیں شمار ہوتی ہیں۔[27]

اصول کی تعداد

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: اصول اربع مائۃ

علماء کے درمیان مشہور رائے یہ ہے کہ اصول کی چار سو کتابیں تھیں۔[28] یا آقا بزرگ تہرانی کے مطابق چار سو سے کم نہیں تھیں۔[29] اس بات کی تصریح کرنے والوں میں سے ایک شیخ مفید ہیں۔ مَعالم‌ُالعلما میں ان سے نقل ہے اور یہ ان کی اپنی تصانیف میں نہیں ملتا۔ اسی طرح فضل بن حسن طَبرِسی، شیخ بہائی، حُرّ عاملی اور میرداماد۔[30]

مثال کے طور پر شیخ مفید کی کتاب معالم العلماء میں مذکور ہے کہ امامیہ نے امام علی علیہ السلام کے زمانے سے لے کر امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانے تک چار سو کتابیں لکھیں جنھیں اصول کہا جاتا ہے۔[31] اس کے علاوہ، اَعیان‌ُالشیعہ کے مصنف سید محسن امین، نے کہا کہ شیعوں نے امام علی سے لے کر امام حسن عسکری کے زمانہ تک چھ ہزار سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ جن میں سے چار سو کتب کو برتری حاصل تھی اور وہ چار سو اصل کے نام سے شیعوں میں مشہور تھیں۔[32]

مشہور رائے کا مخالف نقطہ نظر

مشہور شیعہ علماء کی رائے کے باوجود، کتاب دِراسۃٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَمِاءہ میں حسین جلالی حسینی کے مطابق ان اصولوں کی تعداد ایک سو اصول سے زیادہ نہیں تھی۔[33] ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس کام کو لیکر تحقیق میں جو کچھ کیا ہے، مجموعی طور پر، انہوں نے شیخ طوسی اور نجاشی کی تصانیف میں ستر سے زیادہ اصل نہیں پائے۔ جبکہ ان دونوں کا کام ہی شیعوں کی کتابوں کی فہرست بنانا تھا اور خاص کر شیخ طوسی نے ان سب کو جمع کرنے کا وعدہ کیا تھا کہ وہ ان سب کی فہرست تیار کریں گے۔[34]

ان کے نزدیک یہ حقیقت کہ اکثر علماء نے چار سو اصول کے ہونے کی بات کی ہے اس کی وجہ ان کے درمیان، اصول کی تعریف میں فرق ہے۔ کیونکہ بعض نے کسی بھی معتبر کتاب کو اصل کہا ہے اور بعض نے اصل کو ایسی کتاب سمجھا جو کسی دوسری کتاب سے نہ لی گئی ہو۔ لہٰذا جب وہ کہتے ہیں کہ شیعوں نے حدیث کی چھ ہزار کتابیں لکھیں جن میں سے چار سو اصل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے درمیان اتنی تعداد میں معتبر کتابیں تھیں۔[35]

موافق نقطہ نظر

حدیث کی عمومی تاریخ کے مصنف ماجد معارف، مشہور قول سے متفق ہیں اور لکھتے ہیں کہ بہت سے شواہد اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ نجاشی اور شیخ طوسی کی دو کتابوں میں امام باقر کے اصحاب سے لے کر امام کاظم تک پانچ سو سے زائد افراد کا ذکر ہے جو ان سے براہ راست کسی کتاب کے راوی تھے۔[36] اس کتاب میں شیخ طوسی کی کتاب الفہرست کا ایک بار نقل کی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے شیعوں کے اصول اور تصنیفات کی فہرست مرتب کی ہے۔ لیکن اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ انھوں نے ان سب کی شناخت کر لی ہو۔[37]

اصول کی موجودہ حالت

کہا جاتا ہے کہ شیعہ اصول کے تحفظ میں بہت دلچسپی رکھتے تھے۔[38] اس کے باوجود ان میں سے بہت کم دستیاب ہیں اور اکثر ضائع ہو چکی ہیں؛ لیکن ان میں سے اکثر اس وقت دستیاب تھیں جب کُتُب اَربَعہ لکھی گئی تھیں، اور ان کی احادیث ان چار کتابوں میں موجود ہیں[39] جو کہ شیعہ کی سب سے اہم جوامع حدیثی ہیں۔[40]۔ حدیث کے محقق کاظم مدیر شانہ‌چی نے اصولوں کے ضائع ہونے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ حدیثی جوامع کی تشکیل کے بعد شیعوں نے ان کی زیادہ تحفظ کی ضرورت محسوس نہیں کی۔[41]

ان اصولوں میں سے سولہ اصل باقی ہیں اور ان کے قلمی نسخوں کے علاوہ حسن مصطفوی کی کوششوں سے ایک کتاب اَلاُصولُ السِّتَّہ عَشَر کی شکل میں شائع ہوئی ہیں۔[42] ان اصول کی تفصیل یوں ہے[43]:

  1. اصل زید زرّاد کوفی
  2. اصل ابو سعید عَبّاد عُصفُری
  3. اصل عاصِم بن حُمَید حنّاد کوفی
  4. اصل زید نَرسی کوفی
  5. اصل جعفر بن محمد بن شُرَیح حضرمی
  6. اصل محمد بن مثنی حضرمی
  7. اصل عبدالملک بن حکیم خَثعَمی
  8. اصل مثنی بن ولید حناط
  9. اصل خَلّاد سِندی
  10. اصل حسین بن عثمان عامری
  11. اصل عبداللہ بن یحیی کاہلی
  12. اصل سَلّام بن ابی‌عمرہ
  13. اصل یا نوادر علی بن اسباط کوفی
  14. گزیدہ اصل علاء بن رزین‌القلا
  15. اصل درست بن ابی‌منصور محمد واسطی
  16. کتاب عبداللہ بن جبر معروف بہ دیات ظریف بن ناصح کوفی۔

حوالہ جات

  1. حسین جلالی، دِراسۃٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَمِائۃ، مؤسسۃ الاعلمی، ص7۔
  2. معارف، عمومی تاریخ حدیث، 1377، صفحہ 256۔
  3. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج2، ص126؛ فضلی، اصول‌الحدیث، 1420ھ، ص47۔
  4. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج2، ص126۔
  5. حسین جلالی، دِراسۃٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَمِائۃ، مؤسسۃ الاعلمی، ص8-9۔
  6. حسین جلالی، دِراسۃٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَمِائۃ، مؤسسۃالاعلمی، ص9۔
  7. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج2، ص125۔
  8. طباطبایی، مسندنویسی در تاریخ حدیث، 1377ش، ص42۔
  9. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج2، ص125-126۔
  10. طباطبایی، مسندنویسی در تاریخ حدیث، 1377ش، ص42۔
  11. طباطبایی، مسندنویسی در تاریخ حدیث، 1377ش، ص42۔
  12. طباطبایی، مسندنویسی در تاریخ حدیث، 1377ش، ص47۔
  13. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج2، ص126۔
  14. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج2، ص127۔
  15. فیض کاشانى، الوافی، 1406ھ، ص22۔
  16. طباطبایی، مسند نویسی در تاریخ حدیث، 1377ش، ص211-212۔
  17. طباطبایی، مسندنویسی در تاریخ حدیث، 1377ش، ص205۔
  18. حسین جلالی، دِراسۃٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَمِاءہ، مؤسسۃالاعلمی، ص22؛‌ طباطبایی، مسند نویسی در تاریخ حدیث، 1377ش، ص205-206۔
  19. طباطبایی، مسند نویسی در تاریخ حدیث، 1377ش، ص205-206۔
  20. حسین جلالی، دِراسۃٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَمِاءہ، مؤسسۃالاعلمی، ص23-24۔
  21. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج2، ص130-131۔
  22. معارف، تاریخ عمومی حدیث، 1377ش، ص261۔
  23. معارف، تاریخ عمومی حدیث، 1377ش، ص264-265۔
  24. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج2، ص131-132۔
  25. طباطبایی، مسندنویسی در تاریخ حدیث، 1377ش، ص197-198۔
  26. طباطبایی، مسندنویسی در تاریخ حدیث، 1377ش، ص211-212۔
  27. طباطبایی، مسندنویسی در تاریخ حدیث، 1377ش، ص215-216۔
  28. حسین جلالی، دِراسۃٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَمِاءہ، مؤسسۃالاعلمی، ص26۔
  29. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج2، ص129۔
  30. معارف، تاریخ عمومی حدیث، 1377ش، ص258۔
  31. ابن‌شہرآشوب، معالم‌العلما، 1380ق/1961م، ص3۔
  32. امین، اعیان‌الشیعہ، 1403ھ، ج1، ص140۔
  33. حسین جلالی، دِراسۃٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَمِاءہ، مؤسسۃالاعلمی، ص26۔-27۔
  34. حسین جلالی، دِراسۃٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَمِاءہ، مؤسسۃالاعلمی، ص26۔
  35. حسین جلالی، دِراسۃٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَمِاءہ، مؤسسۃالاعلمی، ص27-28۔
  36. معارف، تاریخ عمومی حدیث، 1377ش، ص259۔
  37. معارف، تاریخ عمومی حدیث، 1377ش، ص257۔
  38. مدیر شانہ‌چی، تاریخ حدیث، 1382ش، ص94۔
  39. مدیر شانہ‌چی، تاریخ حدیث، 1382ش، ص94؛ معارف، تاریخ عمومی حدیث، 1377ش، ص262۔
  40. مؤدب، تاریخ حدیث، 1388ش، ص86۔
  41. مدیر شانہ‌چی، تاریخ حدیث، 1382ش، ص94۔
  42. معارف، تاریخ عمومی حدیث، 1377ش، ص263۔
  43. معارف، تاریخ عمومی حدیث، 1377ش، ص263-264؛ طباطبایی، مسندنویسی در تاریخ حدیث، 1377ش، ص213-215۔

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دارالاضواء، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • ابن‌شہرآشوب، محمد بن علی، معالم العلماء فی فہرست کتب الشیعۃ و اسماء المصنفین منہم قدیماً و حدیثاً، نجف، المطبعۃ الحیدریہ، چاپ اول، 1380ھ/1961ء
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1403ھ۔
  • حسین جلالی، محمدحسین، دِراسۃٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَمِاءہ، تہران، مؤسسۃالاعلمی۔
  • سبحانی، جعفر، اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بے‌تا۔
  • طباطبایی، سید کاظم، مسندنویسی در تاریخ حدیث، قم، مرکز انتشارات دفتر تبلیغلت اسلامی، چاپ اول، 1377ش۔
  • فضلی، عبدالہادی، اصول‌الحدیث، بیروت، مؤسسہ ام‌القری، چاپ دوم، 1420ھ۔
  • فیض کاشانى، محمدمحسن، الوافی، اصفہان، کتابخانہ امام أمیر المؤمنین على علیہ السلام‏، چاپ اول، 1406ھ۔
  • مدیر شانہ‌چی، کاظم، تاریخ حدیث، تہران، سمت، 1382ش۔
  • معارف، مجید، تاریخ عمومی حدیث با رویکرد تحلیلی، تہران، کویر، چاپ اول، 1377ش۔
  • مؤدب، رضا، تاریخ حدیث، قم، مرکز بین المللی ترجمہ و نشر المصطفی، چاپ دوم، 1388ش۔

بیرونی روابط