الفہرست (شیخ طوسی)

ویکی شیعہ سے
الفہرست (شیخ طوسی)
مشخصات
مصنفشیخ محمد بن حسن بن علی (385-460 ھ)، مشہور بنام شیخ طوسی
موضوعرجال و فہرست نویسی
زبانعربی
تعداد جلد1
طباعت اور اشاعت
ناشرچاپخانہ دانشگاہ مشہد


الفہرست شیخ طوسی کی عربی زبان کی تالیف ہے جسے فہرست نویسی کی روش کے مطابق لکھا گیا ہے۔ اس کتاب میں شیعہ مؤلفین کے آثار کی معرفی کی گئی ہے نیز یہ کتاب شیعہ رجال کے اہم ترین آثار اور منابع میں سے ہے۔

مؤلف

تفصیلی مضمون: شیخ طوسی

محمد بن حسن بن علی (385-460 ھ)، مشہور بنام شیخ طوسی پانچویں صدی ہجری کے شیعہ محدثین اور فقہا میں سے ہیں۔ شیخ طوسی نے عراق میں شیخ مفید، سید مرتضی اور دیگر علما کی شاگردی اختیار کی۔ جب شاپور کا کتب خانہ جلایا گیا تو بغداد سے نجف ہجرت کی اور وہاں حوزۂ علمیہ قائم کیا۔ سید مرتضی کی وفات کے بعد شیعوں کی رہبری کے فرائض شیخ طوسی نے سنبھالے۔ مختلف فنون فقہی، حدیثی، تفسیری، رجالی و ... میں ان کی تالیفات شیعہ مکتب میں منبع اور مصدر اصلی کی حیثیت رکھتی ہیں۔

نام کتاب

شیخ طوسی نے اس کتاب کا نام الفہرست رکھا ہے۔[1] نجاشی نے اسے بنام فہرست کتب الشیعہ و اسماء المصنفین سے یاد کیا ہے۔[2] جبکہ رجالی کتب میں اختصار کے پیش نظر اسے «ست» سے ذکر کیا جاتا ہے۔[3]

ہدف

شیخ طوسی نے اس کتاب کو امامیہ مفکرین کے آثار کی معرفی کی غرض سے تالیف کیا۔[4] لیکن بعض مقامات پر اس غرض کی مخالفت کرتے ہوئے بعض غیر شیعہ مؤلفین کی تالیفات کی جانب اشارہ بھی کیا ہے مثلا زیدیہ کے ابن عقده سمیت 5 علما [5] اور اہل سنت کے 10 علما کا اس وجہ سے ذکر کیا کہ انہوں نے اہل بیت(ع) کے مناقب میں تالیفات لکھی تھیں۔

مقام و منزلت

شیخ طوسی کی الفہرست شیعہ رجال کے چار اصلی منابع اور شیخ طوسی کے تین رجالی آثار میں سے ایک ہے۔ شیخ طوسی نے اس کتاب کی تدوین و تالیف میں فہرست ابن ندیم، فہرست ابن بطہ مؤدب، فہرست یا رجال ابن عقده، فہرست ابن ولید، فہرست احمد بن خالد برقی اور فہرست احمد بن عبدون سے استفادہ کیا ہے۔ فہرست ابن ندیم سے دوسری کتابوں سے زیادہ استفادہ کرتے ہوئے 22 موارد ذکر کیے ہیں۔[6] شیخ طوسی نے اس کتاب میں شیعہ مؤلفین اور آثار کی معرفی میں اپنی سند کو اس کتاب میں ذکر کیا ہے۔[7]

سبب تالیف

شیخ طوسی کتاب کے مقدمے میں شیعہ کے علمی آثار کے متعلق کوئی جامع کتاب کے نہ ہونے کو اس کتاب کی تالیف کا سبب ذکر کرتا ہے۔ اس سلسلے میں لکھے جانے والے آثار کو جامع نہیں سمجھا نیز فہرست کتب اور فہرست اصول میں غضائری کی دو کتابوں کو جامع کہا ہے لیکن ان کی نسخہ برداری نہ ہونے کی وجہ سے ان کے مفقود ہونے کی خبر دی ہے۔[8]

شیخ کے اساتذہ میں سے ایک استاد نے ایسی کتاب کے لکھنے کا شوق دلایا کہ جس میں شیعہ مؤلفین کے اصول و آثار کی معرفی بیان کی جائے۔[9]

روش تالیف

یہ کتاب مؤلفین کی سوانح اور کتابوں کے اسماء پر ہے۔ یہ حروف الف با کی ترتیب اور صاحبان کتب کے ناموں کے ساتھ مرتب کی گئی ہے۔ شیخ طوسی نے آسان طریقے سے مطالب تک دسترسی کو اپنا ہدف قرار دیا اور تاکید کی ہے کہ اس کتاب میں ترتیب زمانی کا لحاظ نہیں کیا گیا۔[10]

مؤلف ہر عنوان کے ذیل میں نام، نسب، کنیت، القاب اور صاحب اصل یا کتاب کے محل سکونت کو بیان کرتا ہے پھر اس کی علمی شخصیت اور اس کے آثار ذکر کرتا ہے۔ شیخ طوسی نے کتاب کے مقدمے میں اپنے آپ کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ راویوں کی جرح و تعدیل اور مذہب بھی بیان کرے گا۔[11]

مضامین کتاب

شیخ طوسی کی کتاب درج ذیل تین حصوں پر مشتمل ہے:

  • وہ افراد جن کا اصلی نام معلوم نہیں (یہ حصہ الف با کی ترتیب سے لکھا گیا ہے۔)[12]
  • وہ افراد جو کنیت کے نام سے معروف تھے اور شیخ ان کے ناموں سے واقف نہیں ہے۔[13]
  • وہ افراد جو شہر، قبیلے یا لقب سے معروف تھے اور ان کے نام و کنیت معلوم نہیں۔[14]

زمانۂ تالیف

اس کتاب کی تالیف کا زمانہ معلوم نہیں لیکن اپنی رجال کی تالیف میں اکثر مقامات پر فہرست کا حوالے دیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب رجال کی کتاب سے پہلے یا ہمزمان لکھی گئی ہے۔[15] نیز فہرست کی اس عبارت :نَذكُرُهُم فی کتابِ الرِّجال اِن شاءَ اللهُ تَعالی سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب رجال کی کتاب سے پہلے تالیف ہوئی۔[16] البتہ اپنی تالیف الفہرست میں اپنے آثار شمار کرتے ہوئے رجال کی کتاب کا بھی ذکر کیا ہے۔[17] شیخ طوسی نے اپنی اس کتاب کی تالیف کا کام سید مرتضی کی زندگی میں شروع کیا[18] اور ایک حصہ اس کی وفات کے بعد لکھا۔[19]

تحقیق و طباعت

الفہرست در سنہ 1271ھ، 1853ء میں ہندوستان میں چھپی۔ جس کی تصحیح کے فرائض: الویس اسپرنگر التیرولی، مولوی عبدالحق اور مولوی غلام قادر نے انجام دیئے تھے[1] نیز ناموں میں حروف تہجی کی ترتیب، باپ اور جد کے ناموں کی رعایت کی گئی ہے۔

پھر اس کے بعد اپنی ابتدائی ترتیب کے مطابق پہلی مرتبہ 1356 ھ میں نجف کے انتشارات حیدریہ نجف سے سید محمد صادق بحر العلوم کی تحقیق اور تصحیح کے ساتھ چھپی۔ یہ کتاب 1417 ھ میں جواد قیومی کی تحقیق کے ساتھ نشر الفقاہہ سے 343 صفحات پر مشتمل طبع ہوئی اور سید عبد العزیز طباطبائی نے 1420 ھ میں اس کی تحقیق کی۔

تکمیل و تلخیص

اس تالیف کی نگارش میں الفہرست بعض شیعہ مؤلفین کا ذکر نہیں آیا ہے۔ اس عدم ذکر کا سبب ذکر کرتے ہوئے شیخ طوسی نے کہا: ان کے آثار لکھے نہیں گئے یا مؤلفین کے سکونت کے مختلف مقامات کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔[20] لہذا س کے پیش نظر بعد میں اس کتاب کے تکملے یا تتمے کے عنوان سے اضافات کئے گئے ہیں:

بعض علما نے فہرست شیخ طوسی کی تلخیص بھی کی ہے مثلا:

نقد و نظر

فہرست شیخ طوسی میں بعض اشتباہات جیسے مصنف کے مذہب، نام، کنیت اور کتاب، دیکھنے کو ملتے ہیں۔ علامہ محمد تقی شوشتری نے ان اشتباہات کو ابن ندیم کی کتاب الفہرست اور کتاب رجال کشی سے زیادہ استفادہ کی وجہ قرار دیا ہے چونکہ وہ دو کتابیں اشتباہات پر مشتمل ہیں جبکہ آیت الله خوئی ان اشتباہات کی وجہ شیخ طوسی کی تدریس و تالیف کی زیادہ مصروفیات سمجھتے ہیں۔[23] البتہ شیخ طوسی نے خود کتاب میں ابن ندیم کے بعض اشتباہات ذکر کئے جیسے فضل بن شاذان نیشابوری شیعی اور فضل بن شاذان رازی سنی کو ایک سمجھنا اور لوط بن یحیی ازدی کی امام علی(ع) سے ملاقات کے کشی کے قول کو رد کرتے ہیں۔[24]

بعض نے یہ بھی کہا ہے شیخ طوسی نے بعض مقامات پر اپنی بات کا کوئی مستند ذکر نہیں کیا اور بعض جگہوں پر مبہم اور غیر معلوم منبع ذکر کئے ہیں۔[25]

حوالہ جات

  1. طوسی، رجال، ص۳۳۶؛ طوسی، فہرست، ص۱۵۹-۱۶۰.
  2. نجاشی، رجال، ص۴۰۳.
  3. حائری، منتہی المقال، ص۶.
  4. طوسی، الفہرست، ص۱-۲، ۱۶۰.
  5. طوسی، الفہرست، ص۲۸.
  6. شمشیری، بررسی روش عمومی شیخ طوسی در کتاب الفہرست، ص۱۳۷.
  7. شمشیری، بررسی روش عمومی شیخ طوسی در کتاب الفہرست، ص۱۵۳.
  8. طوسی، الفہرست، ص۱-۲.
  9. طوسی، الفہرست، ص۱-۲.
  10. طوسی، الفہرست، ص۲.
  11. طوسی، الفہرست، ص۲.
  12. طوسی، الفہرست، ص۳-۱۸۳.
  13. طوسی، الفہرست، ص۱۸۳-۱۹۳.
  14. طوسی، الفہرست، ص۱۹۳-۱۹۴.
  15. طوسی، رجال، ص۳۳۶، ۴۰۹، ۴۱۰، ۴۱۱، ۴۱۴، ۴۱۵، ۴۱۷، ۴۱۸، ۴۲۱، ۴۲۳، ۴۲۵ و...
  16. طوسی، الفہرست، ص۷۴.
  17. طوسی، الفہرست، ص۱۶۰.
  18. شمشیری، مزایای فہرست نجاشی بر فہرست و رجال شیخ طوسی، ص۱۰۳.
  19. رضا داد، گاهشماری آثار شیخ طوسی، ص۶۰.
  20. طوسی، الفہرست، ص۳.
  21. ابن شہر آشوب، معالم العلماء، ص۲.
  22. حر عاملی، امل الآمل، ج۲، ص۱۹۴.
  23. شمشیری، بررسی روش عمومی شیخ طوسی در کتاب الفہرست، ص۱۴۹.
  24. شمشیری، بررسی روش عمومی شیخ طوسی در کتاب الفہرست، ص۱۵۲-۱۵۳.
  25. شمشیری، بررسی روش عمومی شیخ طوسی در کتاب الفہرست، ص۱۳۸-۱۳۷.

منابع