مندرجات کا رخ کریں

"ابو سفیان" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 38: سطر 38:


==اسلام ابوسفیان==
==اسلام ابوسفیان==
<!--
مسلمانوں سے متعدد جنگیں کرنے کے بعد ابو سفیان آخرکار ہجرت کے آٹھویں سال فتح مکہ کے بعد [[عباس بن عبدالمطلب]] کی وساطت سے رسول اکرم کے پاس آیا اور اس نے اپنے اسلام لانے کا اعلان کیا۔<ref>واقدی، ج۲، ص۸۱۷ـ۸۱۸</ref> رسول خدا نے اس کے گھر کو امن کی پناہ گاہ کا اعلان کیا۔ <ref>واقدی، ج۲، ص۸۱۷ـ۸۱۸؛ ابن ہشام، ج۴، ص۴۶</ref> اسکے بعد ابو سفیان اور اس کے اہل خانہ مسلمانوں میں شمار ہونے لگے۔<ref>کلبی، ص۴۹</ref> اسی سال  [[غزوہ حنین]] میں ابوسفیان کی سپہ سالاری اس کے حوالے تھی اور جنگ کے آخر میں رسول خدا نے ابو سفیان اور اس کی بیٹوں میں غنیمت کا مال زیادہ دیا۔<ref>واقدی، ج۲، ص۹۴۴ـ۹۴۵؛ طبری، ج۱، ص۱۶۷۹</ref>
مسلمانوں سے متعدد جنگویں کرنے کے بعد ابو سفیان آخرکار ہجرت کے آٹھویں سال فتح مکہ کے بعد [[عباس بن عبدالمطلب]] کی وساطت سے رسول اکرم کے پاس آیا اور اپنے اسلام لانے کا اعلان کیا۔<ref>واقدی، ج۲، ص۸۱۷ـ۸۱۸</ref> رسول خدا نے اس کے گھر کو امن کی پناہ گاہ کا اعلان کیا۔ <ref>واقدی، ج۲، ص۸۱۷ـ۸۱۸؛ ابن ہشام، ج۴، ص۴۶</ref> اسکے بعد ابو سفیان اور اس کے اہل خانہ مسلمانوں میں شمار ہونے لگے۔<ref>کلبی، ص۴۹</ref> اسی سال  [[غزوہ حنین]] میں ابوسفیان کی سپہ سالاری اس کے حوالے تھی اور جنگ کے آخر میں رسول خدا نے ابو سفیان اور اس کی بیٹوں میں غنیمت کا مال زیادہ دیا۔<ref>واقدی، ج۲، ص۹۴۴ـ۹۴۵؛ طبری، ج۱، ص۱۶۷۹</ref>


بعض اقوال کی بنا پر  پیامبر(ص) نے ابوسفیان کو [[نجران]] کی امارت منصوب کی <ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲، ج ۲، ص ۷۱۴.</ref> اگرچہ اس قول کے مخالف بھی موجود ہیں۔<ref>ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵،، ج ۳، ص ۳۳۳.</ref>
بعض اقوال کی بنا پر  پیامبر(ص) نے ابوسفیان کو [[نجران]] کی امارت منصوب کی <ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲، ج ۲، ص ۷۱۴.</ref> اگرچہ اس قول کے مخالف بھی موجود ہیں۔<ref>ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵،، ج ۳، ص ۳۳۳.</ref>
سطر 45: سطر 44:
بعض مصادروں کے بقول [[غزوہ طائف]] تھی کہ جس میں ابو سفیان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ <ref>بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۸</ref> اس کے بعد آپ نے اسے طائف سے تحائف کی جمع آوری کیلئے طائف روانہ کیا۔<ref>ابن قتیبہ، الإمامہ و السياسہ، ص ۳۴۴؛ قس: بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۳۰</ref>
بعض مصادروں کے بقول [[غزوہ طائف]] تھی کہ جس میں ابو سفیان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ <ref>بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۸</ref> اس کے بعد آپ نے اسے طائف سے تحائف کی جمع آوری کیلئے طائف روانہ کیا۔<ref>ابن قتیبہ، الإمامہ و السياسہ، ص ۳۴۴؛ قس: بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۳۰</ref>


==ابوسفیان اور تین ==
==ابوسفیان اور تین خلافتیں==
از پارہ‌ای روایات چنین برمی‌آید کہ ہنگام رحلت پیامبر(ص)، ابوسفیان والی نجران بود<ref>کلبی، ص۴۹؛ بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۷، ۱۲</ref> و آنگاہ بہ مکہ آمد و چندی در آنجا ماند، سپس بہ مدینہ رفت و در آن شہر ساکن شد.
بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ [[رسول اکرم]] کی رحلت کے وقت ابو سفیان والئ نجران تھا۔<ref>کلبی، ص۴۹؛ بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۷، ۱۲</ref> و اس وقت وہ [[مکہ]] آیا کچھ روز وہاں رہنے کے بعد [[مدینہ]] میں ساکن ہو گیا۔


===ابوسفیان و خلافت ابوبکر===
===ابوسفیان اور خلافت ابوبکر===
پس از رسیدن [[ابوبکر]] بہ خلافت، ابوسفیان از اینکہ مردی از کم‌ارج‌ترین تیرہ‌ہای [[قریش]] بہ خلافت برگزیدہ شدہ، ناراضی و آشفتہ بہ نظر می‌رسید و احتمالاً در اندیشہ فتنہ انگیزی بود.<ref>بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۲۹، ۵۸۸؛ طبری، ج۱، ص۱۸۲۷</ref>
[[ابوبکر]] کے خلیفہ بنے کے بعد ابو سفیان اس کے خلیفہ بننے پر زیادہ خوش نہ تھا کیونکہ اس کے نزدیک ابوبکر قریش کے پست قبیلوں سے رکھتا تھا اور شاید وہ فتہ برپا کرنے کے در پے تھا۔<ref>بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۲۹، ۵۸۸؛ طبری، ج۱، ص۱۸۲۷</ref>


با این ہمہ وی در ۱۵ق، در [[پیکار یرموک]] کہ فرماندہی آن با یزید فرزند او بود، شرکت داشت و سپاہ اسلام را بہ مبارزہ و پایداری تشویق می‌کرد.<ref>بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۱۱؛ ابن اثیر، ج۳، ص۱۳</ref>
اس کے باوجود 15 ہجری قمری کے سال اپنے بیٹے یزید کی سپہ سالاری میں [[جنگ یرموک]] میں شریک ہوا اور  اسلامی لشکر کی جنگ و مبارزے  میں ہمت بڑھاتا رہا۔<ref>بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۱۱؛ ابن اثیر، ج۳، ص۱۳</ref>


گفتہ‌اند کہ وی در این نبرد چشم دیگرش را نیز از دست داد.<ref>طبری، ج۱، ص۲۱۰۱</ref>
کہتے ہیں کہ اس جنگ میں اس کی دوسری آنکھ بھی کام آگئی۔<ref>طبری، ج۱، ص۲۱۰۱</ref>


===ابوسفیان و خلافت عمر===
===ابوسفیان و خلافت عمر===
<!--
از برخی روایات چنین برمی آید کہ ابوسفیان، فرزندش [[معاویہ]] را از مخالفت با [[عمر بن خطاب|عمر]] بر حذر داشت و بہ او سفارش کرد کہ باید از وی پیروی کند<ref>بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۹</ref> ابوسفیان در روزگار عمر، ظاہرا خلاف‌ہایی مرتکب و بدین سبب مورد نکوہش وی واقع شدہ است.
از برخی روایات چنین برمی آید کہ ابوسفیان، فرزندش [[معاویہ]] را از مخالفت با [[عمر بن خطاب|عمر]] بر حذر داشت و بہ او سفارش کرد کہ باید از وی پیروی کند<ref>بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۹</ref> ابوسفیان در روزگار عمر، ظاہرا خلاف‌ہایی مرتکب و بدین سبب مورد نکوہش وی واقع شدہ است.



نسخہ بمطابق 18:54، 25 دسمبر 2017ء

ابو سفیان ظہور اسلام کے وقت کی ایک معروف شخصیت ہے۔ اس کا اصل نام صَخر بن حَرب بن اُمَیَّہ بن عبدالشمس بن عبد مَناف تھا۔رسول اللہ کی دعوت اسلام کے آغاز میں وہ آپ کا نہایت سر سخت دشمن تھا۔ جنگ بدر، احد اور خندق میں مسلمانوں کے خلاف اس نے اہم کردار کیا۔ اس نے ہجرت کے آٹھویں سال اسلام قبول کیا۔رسول اکرم کی طرف نجران کا والی مقرر ہوا۔ اس نے خلیفۂ اول و دوم کے ساتھ رہا اور خلافت عثمانی کی حمایت کی۔اس کے بیٹے معاویہ نے پہلی صدی ہجری میں اہم سیاسی کردار رہا اور اس نے بنی امیہ کی حکومت کی بنیاد ڈالی۔

تعارف

صَخر بن حَرب بن اُمَی‍ـَّہ بن عبدالشمس بن عبدمَناف نام تھا۔ اَبوسُفیان اور کبھی اسے ابو حنظلہ بھی کہا گیا [1] اس کا نسب تیسری جد عبد مناف پر رسول اکرم سے مل جاتا ہے۔ پیدائش کی تاریخ دقیق معلوم نہیں لیکن ایک روایت کے مطابق عام الفیل (560عیسوی) سے 10 سال پہلے پیدا ہوا۔[2]

اس کی والدہ صفیہ دختر حَز‍ن بن بُجَیر بن ہُزَم اور باپ کا نام حرب تھا۔ اس کا باپ اپنے زمانے میں بنی امیہ کا پیشوا اور فجار کی جنگوں میں سپہ سالار تھا[3]

سیاسی و اجتماعی شخصیت

صدر اسلام کی تاریخ میں ابو سفیان کی شہرت کے باوجود اسلام سے پہلے کی زندگی کے متعلق کوئی خاص معلومات مذکور نہیں ہیں۔ مؤرخین کے بعض اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اسلام سے پہلے قریش کے بزرگوں میں سے تھا اور تجارت کے پیشے سے وابستہ تھا۔[4] ابن حبیب [5] اسے قریش کے حکام میں سے تھا۔وہ قریش کے بلند پایہ سربراہوں میں سے تھا اور جاہلیت کے زمانے کے ان 4 سربراہوں میں سے ایک تھا جس کا حکم نافذ ہوتا تھا۔[6]

پیامبر(ص) کی دعوت اسلام کے ساتھ ہی ابو سفیان رسول کا سخت ترین جانی دشمن ہو گیا۔ اتنی سخت دشمنی کے باوجود اسے قریش کے دیگر سرداروں ابوجہل اور ابولہب سے کمتر دشمن سمجھتے تھے۔[7]

فتح مکہ کے بعد اگرچہ اس نے اسلام قبول کیا لیکن ردہ کے ماجرا میں اس کی نسبت ایسی گفتگو منسوب ہے جو اس کی پہلے مذہب سے وابستگ کو ظاہر کرتی ہے۔[8] ابن حبیب [9] اسے زنادقۂ قریش‌ میں سے کہا گیا۔

ابوسفیان نے رسول اکرم سے روایات بھی نقل کی ہیں۔[10]

پیغمبر کے روبرو

جنگ بدر

رسول اللہ کی مدینہ ہجرت کے دوسرے سال ابو سفیان شام سے تجارتی سفر سے واپس آ رہا تھا۔ پیغمبر نے اپنے سپاہیوں کی مدد سے حملہ کی تیاری کی تو دوسری جانب ابو سفیان نے ایک طرف مکہ سے مدد طلب کی اور اس نے اپنے راستے کو بدلا اور کاروان کو مکہ پہنچایا۔ ابو جہل رسول اکرم کی تہدید سے بہت زیادہ غضبناک ہوا اس نے ارادہ کیا کہ وہ مکہ واپس نہیں جائے گا یہانتک کہ اہل یثرب سے مقالہ نہ کر لے۔[11]

جنگ بَدر میں قریش شکست سے دوچار ہوئے اس معرکہ میں ابو سفیان کا بیٹا حنظلہ مارا گیا اور دوسرا بیٹا اسیر ہوا جو بعد آزاد ہو گیا۔[12]

مدینے کے کھجوروں کے درختوں کو آگ لگانا

بدر کی شکست نے قریش کو اس طرح غضبناک کی کہ انہوں نے دوبارہ رسول اللہ اور مسلمانوں سے جنگ کیلئے مدینے کا ارادہ کیا۔ پس ابوسفیان نے 200 سواروں کے ساتھ مدینہ کا قصد کیا اور بنی نضیر کے رئیس سلّام بن مِشْکم سے مذاکرے کے بعد افراد کو مدینہ روانہ کیا جنہوں نے عُریض‌ نامی جگہ پر کھجوروں کے باغات کو آگ لگا کر وہاں سے فرار ہو گئے۔ پیغمبر نے ابو سفیان کا پیچھا کیا لیکن اس تک رسائی حاصل نہ کر سکے اور آپ واپس مدینہ تشریف لے آئے۔[13]

جنگ احد

ہجرت کے تیسرے سال ابو سفیان نے بڑے لشکر کے ساتھ مسلمانوں سے انتقام کیلئے مدینہ کی طرف حرکت کی۔[14] مدینہ کے نزدیک احد کے نزدیک جنگ ہوئی ،مسلمان شکست سے دوچار ہوئے اور رسول کے چچا حمزہ جیسے سردار شہید ہوئے۔ اس جنگ کے بعد ابوسفیان نے پہاڑ پر چڑھ کر بتوں کی تعریف کی اور رسول کو دوبارہ بدر میں جنگ کرنے کا وعدہ دیا۔ [15]

ایک سال بعد پیامبر(ص) بدر میں آئے لیکن ابو سفیان نے اپنے وعدے کے مقام پر پہنچنے سے پہلے قریش کو قائل کیا کہ وہ مکہ واپس چلے جائیں۔[16]

جنگ خندق

آئندہ سال ابوسفیان نے مدینہ کے یہودیان سے مل کر خندق کو رسول اکرم کے خلاف ترتیب دیا۔[17]، لیکن رسول اللہ کی عقلمندی اور تدبیر کی بدولت ابو سفیان کی سپاہ اور اس کے اتحادی ناکام واپس لوٹ گئے اور یوں مدینہ نے رہائی حاصل کی۔[18]

جنگ خندق کے ایک سال بعد رسول اللہ اور مکہ کے مشرکین کے درمیان صلح حدیبیہ ہوا۔ ابھی اس معاہدے کو دو سال نہیں گزرے تھے قریش مکہ نے اپنے عہد کو توڑ ڈالا۔ ابوسفیان خود ذاتی طور پر عذر خواہی کیلئے مدینہ گیالیکن کسی نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور اس کا عذر نہیں سنا گیا۔[19]

اسلام ابوسفیان

مسلمانوں سے متعدد جنگیں کرنے کے بعد ابو سفیان آخرکار ہجرت کے آٹھویں سال فتح مکہ کے بعد عباس بن عبدالمطلب کی وساطت سے رسول اکرم کے پاس آیا اور اس نے اپنے اسلام لانے کا اعلان کیا۔[20] رسول خدا نے اس کے گھر کو امن کی پناہ گاہ کا اعلان کیا۔ [21] اسکے بعد ابو سفیان اور اس کے اہل خانہ مسلمانوں میں شمار ہونے لگے۔[22] اسی سال غزوہ حنین میں ابوسفیان کی سپہ سالاری اس کے حوالے تھی اور جنگ کے آخر میں رسول خدا نے ابو سفیان اور اس کی بیٹوں میں غنیمت کا مال زیادہ دیا۔[23]

بعض اقوال کی بنا پر پیامبر(ص) نے ابوسفیان کو نجران کی امارت منصوب کی [24] اگرچہ اس قول کے مخالف بھی موجود ہیں۔[25]

بعض مصادروں کے بقول غزوہ طائف تھی کہ جس میں ابو سفیان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ [26] اس کے بعد آپ نے اسے طائف سے تحائف کی جمع آوری کیلئے طائف روانہ کیا۔[27]

ابوسفیان اور تین خلافتیں

بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرم کی رحلت کے وقت ابو سفیان والئ نجران تھا۔[28] و اس وقت وہ مکہ آیا کچھ روز وہاں رہنے کے بعد مدینہ میں ساکن ہو گیا۔

ابوسفیان اور خلافت ابوبکر

ابوبکر کے خلیفہ بنے کے بعد ابو سفیان اس کے خلیفہ بننے پر زیادہ خوش نہ تھا کیونکہ اس کے نزدیک ابوبکر قریش کے پست قبیلوں سے رکھتا تھا اور شاید وہ فتہ برپا کرنے کے در پے تھا۔[29]

اس کے باوجود 15 ہجری قمری کے سال اپنے بیٹے یزید کی سپہ سالاری میں جنگ یرموک میں شریک ہوا اور اسلامی لشکر کی جنگ و مبارزے میں ہمت بڑھاتا رہا۔[30]

کہتے ہیں کہ اس جنگ میں اس کی دوسری آنکھ بھی کام آگئی۔[31]

ابوسفیان و خلافت عمر

حوالہ جات

  1. واقدی، ج۲، ص۸۱۷؛ ابن اثیر، ج۳، ص۱۲
  2. بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۱۳
  3. ابوالفرج، ج۶، ص۳۴۱؛ ابن قدامہ، ص۲۰۲
  4. نک‍: بلاذری، فتوح، ص۱۲۹
  5. ص ۳۶۸
  6. عبدالبر، ج۲، ص۷۱۵
  7. بلاذری، انساب، ج۱، ص۱۲۴
  8. بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۱۳
  9. ص ۳۸۸
  10. مثلاً نک‍: بخاری، ج۱، ص۹۱، ج۲، ص۱۰۸؛ مزی، ج۴، ص۱۵۸ـ۱۵۹
  11. عروہ بن زبیر، ص۱۳۱ـ ۱۳۷
  12. ابن ہشام، ج۲، ص۳۰۵ـ۳۰۶؛ ابن قتیبہ، ص۳۴۴ـ۳۴۵
  13. ابن اسحاق، ص۳۱۰ـ۳۱۲؛ واقدی، ج۱، ص۱۸۱؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۳۱۰
  14. بلاذری، انساب، ج۱، ص۳۱۲
  15. ابن اسحاق، ص۳۳۳ـ۳۳۴؛ ابن ہشام، ج۳، ص۹۹ـ ۱۰۰؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۳۲۷
  16. ابن ہشام، ج۳، ص۲۲۰ـ۲۲۱
  17. ابن ہشام، ج۳، ص۲۲۵-۲۲۶
  18. بلاذری، انساب، ج۱، ص۳۴۳ـ۳۴۵
  19. ابن ہشام، ج۴، ص۳۷ـ۳۹
  20. واقدی، ج۲، ص۸۱۷ـ۸۱۸
  21. واقدی، ج۲، ص۸۱۷ـ۸۱۸؛ ابن ہشام، ج۴، ص۴۶
  22. کلبی، ص۴۹
  23. واقدی، ج۲، ص۹۴۴ـ۹۴۵؛ طبری، ج۱، ص۱۶۷۹
  24. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲، ج ۲، ص ۷۱۴.
  25. ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵،، ج ۳، ص ۳۳۳.
  26. بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۸
  27. ابن قتیبہ، الإمامہ و السياسہ، ص ۳۴۴؛ قس: بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۳۰
  28. کلبی، ص۴۹؛ بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۷، ۱۲
  29. بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۲۹، ۵۸۸؛ طبری، ج۱، ص۱۸۲۷
  30. بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۱۱؛ ابن اثیر، ج۳، ص۱۳
  31. طبری، ج۱، ص۲۱۰۱

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغاب‍ـہ، قاہرہ، ۱۲۸۰ ق.
  • ابن اسحاق، محمد، السیر، والمغازی، کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۳۹۸ق/۱۹۷۸ م.
  • ابن حبیب، محمد، المنمق فی اخبار قریش، کوشش خورشید احمد فارق، بیروت، ۱۴۰۵ق/ ۱۹۸۵ م.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق: عبد الموجود، عادل احمد، معوض، علی محمد،‌ دار الکتب العلمیہ، بیروت، چاپ اول، ۱۴۱۵ق.
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دارصادر.
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب، کوشش علی محمد بجاوی، قاہرہ، ۱۳۸۰ق/ ۱۹۶۰ م.
  • ابن قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، المعارف، کوشش ثروت عکاشہ، قاہرہ، ۱۹۶۰ م.
  • ابن قدامہ مقدسی، عبداللہ بن احمد، التبیین فی انساب القرشیین، کوشش محمد نایف دلیمی، بیروت، ۱۴۰۸ق/ ۱۹۸۸ م.
  • ابن ہشام، عبدالملک، السیرہ النبوی‍ـہ، کوشش ابراہیم ابیاری و دیگران، قاہرہ، ۱۳۷۵ ق/۱۹۵۵ م.
  • ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، قاہرہ، دارالکتب المصری‍ـہ، بخاری، محمدبن اسماعیل، صحیح، بولاق، ۱۳۱۵ ق.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۱، کوشش محمد حمیداللہ، قاہرہ، ۱۹۵۹ م، ج۴، کوشش احسان عباس، بیروت، ۱۴۰۰ق/۱۹۷۹ م.
  • ہمو، فتوح البلدان، کوشش دخویہ، لیدن، ۱۸۶۶ م.
  • ذہبی، محمد بن احمد، سیراعلام النبلاء، کوشش شعیب ارنؤوط، بیروت، ۱۴۰۵ق/ ۱۹۸۵ م.
  • طبری، تاریخ، کوشش دخویہ و دیگران، لیدن، ۱۹۶۴ م.
  • عروہ بن زبیر، مغازی رسول اللہ(ص)، کوشش محمد مصطفی اعظمی، ریاض، ۱۴۰۱ق/ ۱۹۸۱ م.
  • کلبی، ہشام بن محمد، جمہرہ النسب، کوشش ناجی حسن، بیروت، ۱۴۰۷ق/ ۱۹۸۶ م.
  • ماہنامہ سینمایی فیلم، شمارہ ۲۴۵، آذر ۱۳۷۸ش.
  • مزّی، یوسف بن عبدالرحمن، تحف‍ـہ الأشراف، بمبئی، ۱۳۹۶ق/ ۱۹۷۶ م.
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶ م.

بیرونی رابط