مندرجات کا رخ کریں

"کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد (کتاب)" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 24: سطر 24:
== سبب  تألیف ==
== سبب  تألیف ==
[[علامہ حلی]] کشف‌المراد کے مقدمہ میں اس کے سبب تألیف کو [[خواجہ نصیرالدین طوسی]] کی کتاب  تجرید الاعتقاد کے مبہم مطالب کی توضیح قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ علامہ کے بقول کتاب [[تجرید الاعتقاد (کتاب)|تجریدالاعتقاد]] اگرچہ [[علم کلام]] کے تمام مسائل اور بہت عمیق علمی مفاہیم پر مشتمل ہے لیکن اسے نہایت اختصار کے ساتھ تالیف کی گئی ہے جس کی بنا پر اس کے مفاہیم کو سمجھنے میں نہایت دقت پیش آتی ہے اور چہ بسا ناممکن ہو جاتا ہے۔<ref>علامہ حلی، کشف‌المراد، ۱۴۱۷ق، ص۱۹-۲۰۔</ref>
[[علامہ حلی]] کشف‌المراد کے مقدمہ میں اس کے سبب تألیف کو [[خواجہ نصیرالدین طوسی]] کی کتاب  تجرید الاعتقاد کے مبہم مطالب کی توضیح قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ علامہ کے بقول کتاب [[تجرید الاعتقاد (کتاب)|تجریدالاعتقاد]] اگرچہ [[علم کلام]] کے تمام مسائل اور بہت عمیق علمی مفاہیم پر مشتمل ہے لیکن اسے نہایت اختصار کے ساتھ تالیف کی گئی ہے جس کی بنا پر اس کے مفاہیم کو سمجھنے میں نہایت دقت پیش آتی ہے اور چہ بسا ناممکن ہو جاتا ہے۔<ref>علامہ حلی، کشف‌المراد، ۱۴۱۷ق، ص۱۹-۲۰۔</ref>
==کتاب کی اہمیت==
کشف‌المراد [[حوزہ علمیہ]] کے درسی نصاب میں شامل ہے اور علماء اس کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔<ref>علامہ حلی، کشف‌المراد، ۱۴۱۷ق، ص۱، مقدمہ ناشر۔</ref> کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب دو وجوہات کی بنا پر تجریدالاعتقاد کی دوسری شروحات پر فوقیت رکھتی ہے: ایک یہ کہ یہ کتاب تجرید الاعتقاد کی پہلی شرح ہے اور دوسرا یہ کہ اس کا مصنف تجریدالاعتقاد کے مصنف کا شاگرد ہے۔<ref>خالقیان، «از علامہ حلی تا ابوالفضل شعرانی»، ص۲۷۔</ref>
[[علامہ حسن‌زادہ آملی]] جو اس کتاب کے مصحح بھی ہیں کہتے ہیں کہ تجریدالاعتقاد علم کلام کی بنیادی کتابوں میں سے ہے اور کشف‌المراد اس کی پہلی اور بہترین شرح ہے۔<ref>علامہ حلی، کشف‌المراد، ۱۴۱۷ق، مقدمہ مصحح، ص۳۔</ref> آپ فاضل قوشچی سے بھی نقل کرتے ہیں کہ اگر کشف‌المراد نہ ہوتی تو تجریدالاعتقاد کو صحیح طور پر سمجھنا ناممکن تھا۔<ref> علامہ حلی، کشف‌المراد، ۱۴۱۷ق، مقدمہ مصحح، ص۳۔</ref> کتاب [[الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ (کتاب)|الذریعہ]] کے مصنف [[آقا بزرگ تہرانی]] شمس‌‌ الدین اصفہانی شارح تجریدالاعتقاد سے نقل کرتے ہیں کہ اگر کشف المراد نہ ہوتی  تجریدالاعتقاد کوئی اور شرح نہیں لکھی جا سکتی تھی۔<ref>ملاحظہ کریں آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳م، ج۱۸، ص۶۰۔</ref>


== مطالب کتاب  ==
== مطالب کتاب  ==
confirmed، templateeditor
8,796

ترامیم