مندرجات کا رخ کریں

"قیام زید بن علی" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Abbashashmi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 3: سطر 3:
ابتدا میں [[کوفہ]] اور دیگر علاقوں کے بہت سے لوگوں نے ان کی بیعت کر لی تھی مگر مسجد کوفہ میں ان کی گرفتاری کے بعد صرف ۳۰۰ افراد نے زید کا ساتھ دیا۔ زید کا قیام جیسا کہ تاریخ طبری میں آیا ہے، ۱۲۲ھ کے ماہ صفر کی پہلی شب بدھ کو شروع ہوا اور پہلے دن زید کے لشکر کو کامیابی نصیب ہوئی لیکن دوسرے دن کوفہ کے والی کی فوجوں کے ساتھ تیر اندازوں کے ملحق ہونے کے بعد زید کی فوج کو شکست ہو گئی اور زید بن علی بھی زخمی ہو گئے۔ زید اسی سال تین صفر کو انتقال کر گئے۔
ابتدا میں [[کوفہ]] اور دیگر علاقوں کے بہت سے لوگوں نے ان کی بیعت کر لی تھی مگر مسجد کوفہ میں ان کی گرفتاری کے بعد صرف ۳۰۰ افراد نے زید کا ساتھ دیا۔ زید کا قیام جیسا کہ تاریخ طبری میں آیا ہے، ۱۲۲ھ کے ماہ صفر کی پہلی شب بدھ کو شروع ہوا اور پہلے دن زید کے لشکر کو کامیابی نصیب ہوئی لیکن دوسرے دن کوفہ کے والی کی فوجوں کے ساتھ تیر اندازوں کے ملحق ہونے کے بعد زید کی فوج کو شکست ہو گئی اور زید بن علی بھی زخمی ہو گئے۔ زید اسی سال تین صفر کو انتقال کر گئے۔
منابع کی رو سے زید نے [[امام حسینؑ]] کے خون کا بدلہ،[[امر بالمعروف اور نہی عن المنکر | امر بالمعروف ونہی عن المنکر]] اور بنو امیہ کے ہاتھوں سے خلافت واپس لینے کے جذبے سے قیام کیا تھا۔ اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کا درباریوں کی موجودگی میں زید سے ناروا سلوک بھی قیام کیلئے زید کی جدوجہد کا ایک سبب قرار دیا گیا ہے۔ ان کے قیام کو بنی امیہ کی حکومت کے زوال کا ایک مقدمہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح کوفیوں کی عدم حمایت، [[اموی حکومت]] کی فوجی طاقت اور اموی آلہ کاروں کے اثرو و رسوخ کو قیام زید کی ناکامی کے اسباب میں سے شمار کیا گیا ہے۔
منابع کی رو سے زید نے [[امام حسینؑ]] کے خون کا بدلہ،[[امر بالمعروف اور نہی عن المنکر | امر بالمعروف ونہی عن المنکر]] اور بنو امیہ کے ہاتھوں سے خلافت واپس لینے کے جذبے سے قیام کیا تھا۔ اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کا درباریوں کی موجودگی میں زید سے ناروا سلوک بھی قیام کیلئے زید کی جدوجہد کا ایک سبب قرار دیا گیا ہے۔ ان کے قیام کو بنی امیہ کی حکومت کے زوال کا ایک مقدمہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح کوفیوں کی عدم حمایت، [[اموی حکومت]] کی فوجی طاقت اور اموی آلہ کاروں کے اثرو و رسوخ کو قیام زید کی ناکامی کے اسباب میں سے شمار کیا گیا ہے۔
===قیام کے رہبر===
==قیام کے رہبر==
{{اصلی|زید بن علی}}
{{اصلی|زید بن علی}}
زید [[شیعوں کے چوتھے امام]] کے فرزند ہیں۔ زید کی والدہ [[ام ولد]] تھیں کہ جنہیں [[مختار ثقفی]] نے ۳۰ ہزار درہم میں خریدا اور امام سجادؑ کو ہدیہ کر دیا تھا۔<ref>ملاحظہ کیجئے: ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۲۴۔</ref> زید کی تاریخ ولادت درست طور پر مشخص نہیں ہے البتہ ان کی شہادت ۱۲۰<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۴۔</ref> ۱۲۱ یا ۱۲۲ھ میں نقل کی گئی ہے۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۶۰۔</ref>  
زید [[شیعوں کے چوتھے امام]] کے فرزند ہیں۔ زید کی والدہ [[ام ولد]] تھیں کہ جنہیں [[مختار ثقفی]] نے ۳۰ ہزار درہم میں خریدا اور امام سجادؑ کو ہدیہ کر دیا تھا۔<ref>ملاحظہ کیجئے: ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۲۴۔</ref> زید کی تاریخ ولادت درست طور پر مشخص نہیں ہے البتہ ان کی شہادت ۱۲۰<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۴۔</ref> ۱۲۱ یا ۱۲۲ھ میں نقل کی گئی ہے۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۶۰۔</ref>  
زیدی، زید بن علی کو اپنا پانچواں امام مانتے ہیں اور [[زیدی| زیدی فرقہ]] انہی سے منسوب ہے۔<ref>صبحی، فی علم الکلام، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۴۸۔</ref> زید کو اس اعتبار سے امام مانا گیا ہے کہ [[امام حسینؑ]] کی شہادت کے بعد کچھ [[علویوں]] نے [[امامت]] کی ایک شرط مسلح جدوجہد کو قرار دیا۔<ref>صبحی، فی علم الکلام، ۱۴۱۱ق، ج۳، ۱۴۱۱ق، ص۴۸ـ۵۲؛ خزاز قمی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۳۰۵۔</ref> اور زید کی [[شہادت]] کے بعد جو شیعہ [[قیام بالسیف]] اور ظالم حکمران کے خلاف خروج کا عقیدہ رکھتے تھے، انہوں نے انہیں اپنا امام کہا اور وہ زیدی کے نام سے مشہور ہو گئے۔<ref>ملاحظہ کیجئے: خزاز قمی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۳۰۵</ref>
زیدی، زید بن علی کو اپنا پانچواں امام مانتے ہیں اور [[زیدی| زیدی فرقہ]] انہی سے منسوب ہے۔<ref>صبحی، فی علم الکلام، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۴۸۔</ref> زید کو اس اعتبار سے امام مانا گیا ہے کہ [[امام حسینؑ]] کی شہادت کے بعد کچھ [[علویوں]] نے [[امامت]] کی ایک شرط مسلح جدوجہد کو قرار دیا۔<ref>صبحی، فی علم الکلام، ۱۴۱۱ق، ج۳، ۱۴۱۱ق، ص۴۸ـ۵۲؛ خزاز قمی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۳۰۵۔</ref> اور زید کی [[شہادت]] کے بعد جو شیعہ [[قیام بالسیف]] اور ظالم حکمران کے خلاف خروج کا عقیدہ رکھتے تھے، انہوں نے انہیں اپنا امام کہا اور وہ زیدی کے نام سے مشہور ہو گئے۔<ref>ملاحظہ کیجئے: خزاز قمی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۳۰۵</ref>
===قیام کا آغاز اور اس کے وقت میں تبدیلی===
===قیام کا آغاز اور اس کے وقت میں تبدیلی===
تاریخ طبری کے مطابق سنہ ۱۲۲ھ کے ماہ صفر کی پہلی بدھ کو زید نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے قیام کا آغاز کیا۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۱۔</ref> مگر قیام اپنے مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی شروع ہو گیا۔ وہ منگل کی شام کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شہر سے خارج ہوئے اور جنگ کیلئے تیار ہو گئے<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۱-۱۸۲؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۳۲۔</ref> جب عراق کے گورنر یوسف بن عمر کو زید اور ان کے دو ساتھیوں کی آمد و رفت کی اطلاع ملی<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۰۔</ref> تو اس نے انہیں گرفتار کرنے کا حکم جاری کر دیا لیکن اس کے باوجود سپاہی زید کا سراغ نہ لگا سکے۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۰۔</ref> مگر زید اور ان کے ساتھی جلد ہی لڑائی کیلئے تیار ہو گئے کیونکہ حکام کو زید کے پڑاؤ کی جگہ کا پتہ چل چکا تھا، ان کے دو قریبی ساتھی گرفتار کر لیے گئے تھے اور دشمن کی جانب سے حملے کا احتمال بھی تھا<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۰؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۳۲۔</ref>  
تاریخ طبری کے مطابق سنہ ۱۲۲ھ کے ماہ صفر کی پہلی بدھ کو زید نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے قیام کا آغاز کیا۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۱۔</ref> مگر قیام اپنے مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی شروع ہو گیا۔ وہ منگل کی شام کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شہر سے خارج ہوئے اور جنگ کیلئے تیار ہو گئے<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۱-۱۸۲؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۳۲۔</ref> جب عراق کے گورنر یوسف بن عمر کو زید اور ان کے دو ساتھیوں کی آمد و رفت کی اطلاع ملی<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۰۔</ref> تو اس نے انہیں گرفتار کرنے کا حکم جاری کر دیا لیکن اس کے باوجود سپاہی زید کا سراغ نہ لگا سکے۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۰۔</ref> مگر زید اور ان کے ساتھی جلد ہی لڑائی کیلئے تیار ہو گئے کیونکہ حکام کو زید کے پڑاؤ کی جگہ کا پتہ چل چکا تھا، ان کے دو قریبی ساتھی گرفتار کر لیے گئے تھے اور دشمن کی جانب سے حملے کا احتمال بھی تھا<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۰؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۳۲۔</ref>  
confirmed، Moderators، منتظمین، templateeditor
21

ترامیم