مندرجات کا رخ کریں

"قیام زید بن علی" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
سطر 8: سطر 8:
زیدی، زید بن علی کو اپنا پانچواں امام مانتے ہیں اور [[زیدی| زیدی فرقہ]] انہی سے منسوب ہے۔<ref>صبحی، فی علم الکلام، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۴۸۔</ref> زید کو اس اعتبار سے امام مانا گیا ہے کہ [[امام حسینؑ]] کی شہادت کے بعد کچھ [[علویوں]] نے [[امامت]] کی ایک شرط مسلح جدوجہد کو قرار دیا۔<ref>صبحی، فی علم الکلام، ۱۴۱۱ق، ج۳، ۱۴۱۱ق، ص۴۸ـ۵۲؛ خزاز قمی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۳۰۵۔</ref> اور زید کی [[شہادت]] کے بعد جو شیعہ [[قیام بالسیف]] اور ظالم حکمران کے خلاف خروج کا عقیدہ رکھتے تھے، انہوں نے انہیں اپنا امام کہا اور وہ زیدی کے نام سے مشہور ہو گئے۔<ref>ملاحظہ کیجئے: خزاز قمی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۳۰۵</ref>
زیدی، زید بن علی کو اپنا پانچواں امام مانتے ہیں اور [[زیدی| زیدی فرقہ]] انہی سے منسوب ہے۔<ref>صبحی، فی علم الکلام، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۴۸۔</ref> زید کو اس اعتبار سے امام مانا گیا ہے کہ [[امام حسینؑ]] کی شہادت کے بعد کچھ [[علویوں]] نے [[امامت]] کی ایک شرط مسلح جدوجہد کو قرار دیا۔<ref>صبحی، فی علم الکلام، ۱۴۱۱ق، ج۳، ۱۴۱۱ق، ص۴۸ـ۵۲؛ خزاز قمی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۳۰۵۔</ref> اور زید کی [[شہادت]] کے بعد جو شیعہ [[قیام بالسیف]] اور ظالم حکمران کے خلاف خروج کا عقیدہ رکھتے تھے، انہوں نے انہیں اپنا امام کہا اور وہ زیدی کے نام سے مشہور ہو گئے۔<ref>ملاحظہ کیجئے: خزاز قمی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۳۰۵</ref>


===قیام کا آغاز اور اس کے وقت میں تبدیلی===
==قیام کا آغاز اور اس کے وقت میں تبدیلی==
تاریخ طبری کے مطابق سنہ ۱۲۲ھ کے ماہ صفر کی پہلی بدھ کو زید نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے قیام کا آغاز کیا۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۱۔</ref> مگر قیام اپنے مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی شروع ہو گیا۔ وہ منگل کی شام کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شہر سے خارج ہوئے اور جنگ کیلئے تیار ہو گئے<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۱-۱۸۲؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۳۲۔</ref> جب عراق کے گورنر یوسف بن عمر کو زید اور ان کے دو ساتھیوں کی آمد و رفت کی اطلاع ملی<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۰۔</ref> تو اس نے انہیں گرفتار کرنے کا حکم جاری کر دیا لیکن اس کے باوجود سپاہی زید کا سراغ نہ لگا سکے۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۰۔</ref> مگر زید اور ان کے ساتھی جلد ہی لڑائی کیلئے تیار ہو گئے کیونکہ حکام کو زید کے پڑاؤ کی جگہ کا پتہ چل چکا تھا، ان کے دو قریبی ساتھی گرفتار کر لیے گئے تھے اور دشمن کی جانب سے حملے کا احتمال بھی تھا<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۰؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۳۲۔</ref>  
تاریخ طبری کے مطابق سنہ ۱۲۲ھ کے ماہ صفر کی پہلی بدھ کو زید نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے قیام کا آغاز کیا۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۱۔</ref> مگر قیام اپنے مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی شروع ہو گیا۔ وہ منگل کی شام کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شہر سے خارج ہوئے اور جنگ کیلئے تیار ہو گئے<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۱-۱۸۲؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۳۲۔</ref> جب عراق کے گورنر یوسف بن عمر کو زید اور ان کے دو ساتھیوں کی آمد و رفت کی اطلاع ملی<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۰۔</ref> تو اس نے انہیں گرفتار کرنے کا حکم جاری کر دیا لیکن اس کے باوجود سپاہی زید کا سراغ نہ لگا سکے۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۰۔</ref> مگر زید اور ان کے ساتھی جلد ہی لڑائی کیلئے تیار ہو گئے کیونکہ حکام کو زید کے پڑاؤ کی جگہ کا پتہ چل چکا تھا، ان کے دو قریبی ساتھی گرفتار کر لیے گئے تھے اور دشمن کی جانب سے حملے کا احتمال بھی تھا<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۰؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۳۲۔</ref>
 
===بیعت کنندگان کی عدم حمایت===
===بیعت کنندگان کی عدم حمایت===
جب زید بن علی شام سے کوفہ واپس پہنچے تو لوگوں نے استقبال کیا اور لوگوں نے اپنی بہت سی درخواستوں میں قیام کا مطالبہ کیا۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۶۲-۱۶۶۔</ref> اور [[شیخ مفید]] کی نقل کے مطابق ان کی ملاقات کو جانے والے لوگوں نے ان کی بیعت بھی کی<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۳۔</ref> مگر [[زید بن علی]] کے خروج اور قیام کے آغاز سے ایک دن قبل عراق کے گورنر نے کوفہ کے والی کو حکم دیا کہ اہل کوفہ مسجد میں جمع ہوں۔ والی نے قبائل کے سرداروں اور قوم کی بڑی شخصیات کو مسجد میں اکٹھا کرنے کے بعد شہر میں اعلان کرا دیا کہ جو مسجد میں نہیں آئے گا اس کا خون مباح ہو گا۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۱۔</ref> نتیجہ یہ کہ ان سب میں سے صرف ۳۰۰ افراد اور ایک نقل کے مطابق ان سے بھی کم لوگوں نے زید بن علی کا ساتھ دیا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۷۷م، ج۳، ص۲۴۴۔</ref> منابع میں منقول ہے کہ وہ رات زید بن علی اور ان کے ساتھیوں نے صحرا میں بسر کی اور وہ [[یا منصور امت|یا منصور اَمِت]] کا نعرہ لگا رہے تھے۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۲۔</ref>
جب زید بن علی شام سے کوفہ واپس پہنچے تو لوگوں نے استقبال کیا اور لوگوں نے اپنی بہت سی درخواستوں میں قیام کا مطالبہ کیا۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۶۲-۱۶۶۔</ref> اور [[شیخ مفید]] کی نقل کے مطابق ان کی ملاقات کو جانے والے لوگوں نے ان کی بیعت بھی کی<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۳۔</ref> مگر [[زید بن علی]] کے خروج اور قیام کے آغاز سے ایک دن قبل عراق کے گورنر نے کوفہ کے والی کو حکم دیا کہ اہل کوفہ مسجد میں جمع ہوں۔ والی نے قبائل کے سرداروں اور قوم کی بڑی شخصیات کو مسجد میں اکٹھا کرنے کے بعد شہر میں اعلان کرا دیا کہ جو مسجد میں نہیں آئے گا اس کا خون مباح ہو گا۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۱۔</ref> نتیجہ یہ کہ ان سب میں سے صرف ۳۰۰ افراد اور ایک نقل کے مطابق ان سے بھی کم لوگوں نے زید بن علی کا ساتھ دیا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۷۷م، ج۳، ص۲۴۴۔</ref> منابع میں منقول ہے کہ وہ رات زید بن علی اور ان کے ساتھیوں نے صحرا میں بسر کی اور وہ [[یا منصور امت|یا منصور اَمِت]] کا نعرہ لگا رہے تھے۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۲۔</ref>
confirmed، Moderators، منتظمین، templateeditor
21

ترامیم