مندرجات کا رخ کریں

"عصمت انبیاء" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 29: سطر 29:


== انبیاء کی عصمت اور ان کا اختیار ==
== انبیاء کی عصمت اور ان کا اختیار ==
ایک گروہ کا خیال ہے کہ عصمت اور اختیار ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ اسی بنا پر بعض لوگ انبیاء کی عصمت کے منکر ہیں جبکہ بعض، انبیاء کی عصمت کے تو قائل ہیں لیکن اسے ایک اجباری امر قرار دیتے ہیں۔[29] دوسرا گروہ کہتے ہیں کہ انسان خطا کا پتلا اور گناہ اس کی سرشت میں شامل ہے لہذا وہ لاکھ کوشش کرے پھر بھی کسی نہ کسی خطا میں مبتلا ہو کر ہی رہے گا۔ اس بنا پر کسی انسان کا عصمت کے مقام پر فائز ہونا بیرونی عوامل کی بنا پر اور اس کی اختیار سے خارج ہے۔ یہ گروہ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی بعض آیات سے بھی تمسک کرتے ہیں۔[30]
ایک گروہ کا خیال ہے کہ عصمت اور اختیار ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ اسی بنا پر بعض لوگ انبیاء کی عصمت کے منکر ہیں جبکہ بعض، انبیاء کی عصمت کے تو قائل ہیں لیکن اسے ایک اجباری امر قرار دیتے ہیں۔<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۳۹۔</ref> دوسرا گروہ کہتے ہیں کہ انسان خطا کا پتلا اور گناہ اس کی سرشت میں شامل ہے لہذا وہ لاکھ کوشش کرے پھر بھی کسی نہ کسی خطا میں مبتلا ہو کر ہی رہے گا۔ اس بنا پر کسی انسان کا عصمت کے مقام پر فائز ہونا بیرونی عوامل کی بنا پر اور اس کی اختیار سے خارج ہے۔ یہ گروہ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی بعض آیات سے بھی تمسک کرتے ہیں۔<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۳۹-۴۱۔</ref>
من جملہ ان آیات میں سے ایک سورہ ص کی آیت نمبر 46 ہے جس میں انبیاء کے بارے میں "اخلصناهم" (ہم نے ان کو مخلص بنایا) کی عبارت استعمال ہوئی ہے۔ اسی طرح آیت تطہیر (سورہ احزاب کی آیت نمبر 33) جس کے مطابق خدا نے بعض انسانوں کو گناہوں سے پاک اور منزہ کیا ہے۔[31]
 
اس نظریے کے مقابلے میں علامہ طباطبایی کہتے ہیں کہ خدا نے انبیاء کو علم عطا کیا ہے جس سے وہ گناہ کے باطن سے بھی باخبر ہوتے ہیں۔ اس بنا پر چونکہ انبیاء گناہ کی پستی اور حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں اس کا ارتکاب نہیں کرتے ہیں نہ یہ کہ وہ اس کام میں مجبور ہیں۔ علامہ طباطبائی گناہ سے ابیناء کی آگاہی کو کسی کھانے والی زہریلی چیز سے متعلق انسان کی آگاہی سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان اس چیز کو کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔[32]
من جملہ ان آیات میں سے ایک سورہ ص کی آیت نمبر 46 ہے جس میں انبیاء کے بارے میں "اخلصناہم" (ہم نے ان کو مخلص بنایا) کی عبارت استعمال ہوئی ہے۔ اسی طرح آیت تطہیر (سورہ احزاب کی آیت نمبر 33) جس کے مطابق خدا نے بعض انسانوں کو گناہوں سے پاک اور منزہ کیا ہے۔<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۳۹-۴۱۔</ref>
آیت اللہ جعفر سبحانی لکھتے ہیں کہ مقام عصمت خدا کے ارادے سے نصیب ہوتا ہے اور قرآن کی بعض آیات اس بات پر تاکید کرتی ہیں کہ یہ مقام خدا کی عطا کردہ ہے؛ لیکن عصمت کے مقام کو کسب کرنے کے مقدمات انسانی کی کوشش اور نفسانی خواہشات کے ساتھ مقابلہ کرنے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اس بنا پر عصمت اختیار کے ساتھ قابل‌ جمع ہے۔[33]
 
اس نظریے کے مقابلے میں علامہ طباطبایی کہتے ہیں کہ خدا نے انبیاء کو علم عطا کیا ہے جس سے وہ گناہ کے باطن سے بھی باخبر ہوتے ہیں۔ اس بنا پر چونکہ انبیاء گناہ کی پستی اور حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں اس کا ارتکاب نہیں کرتے ہیں نہ یہ کہ وہ اس کام میں مجبور ہیں۔ علامہ طباطبائی گناہ سے ابیناء کی آگاہی کو کسی کھانے والی زہریلی چیز سے متعلق انسان کی آگاہی سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان اس چیز کو کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۵، ص۳۵۴۔</ref>
 
آیت اللہ جعفر سبحانی لکھتے ہیں کہ مقام عصمت خدا کے ارادے سے نصیب ہوتا ہے اور قرآن کی بعض آیات اس بات پر تاکید کرتی ہیں کہ یہ مقام خدا کی عطا کردہ ہے؛ لیکن عصمت کے مقام کو کسب کرنے کے مقدمات انسانی کی کوشش اور نفسانی خواہشات کے ساتھ مقابلہ کرنے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اس بنا پر عصمت اختیار کے ساتھ قابل‌ جمع ہے۔<ref>سبحانی، عصمۃ الانبیاء فی القرآن الکریم، ۱۴۲۰ق، ص۲۹؛ مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۱۶۱۔</ref>
 
== دلائل ==
== دلائل ==
انبیاء کی عصمت پر عقلی اور نقلی دلائل موجود ہیں:  
انبیاء کی عصمت پر عقلی اور نقلی دلائل موجود ہیں:  
confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم