"عصمت انبیاء" کے نسخوں کے درمیان فرق
←دائرہ
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←منشأ) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←دائرہ) |
||
سطر 20: | سطر 20: | ||
== دائرہ == | == دائرہ == | ||
عصمت انبیاء کے کئی مراحل اور مراتب تصور کئے جاتے ہیں جو بالترتیب یہ ہیں: شرک اور کفر سے معصوم ہونا، وحی کے دریافت اور ابلاغ میں معصوم ہونا، گناہ کبیرہ و صغیرہ نیز روزمرہ امور میں خطا سے معصوم ہونا۔ مسلمان علماء پہلے اور دوسرے مرحلے کے بارے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں اور سب اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء نبوت پر فائل ہونے سے پہلے اور بعد میں کسی وقت بھی شرک اور کفر میں مبتلا نہیں ہوتے ہیں۔ | عصمت انبیاء کے کئی مراحل اور مراتب تصور کئے جاتے ہیں جو بالترتیب یہ ہیں: شرک اور کفر سے معصوم ہونا، وحی کے دریافت اور ابلاغ میں معصوم ہونا، گناہ کبیرہ و صغیرہ نیز روزمرہ امور میں خطا سے معصوم ہونا۔ مسلمان علماء پہلے اور دوسرے مرحلے کے بارے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں اور سب اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء نبوت پر فائل ہونے سے پہلے اور بعد میں کسی وقت بھی شرک اور کفر میں مبتلا نہیں ہوتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۳۱۳؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۱۲ق، ج۵، ص۵۰۔</ref> اسی طرح شیعہ اور سنی متکلمین اس بات کے بھی معتقد ہیں کہ انبیاء وحی کے دریافت، حفظ اور ابلاغ میں عمدا،<ref>ایجی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ش، ص۲۶۳۔</ref> اور سہوا کسی گناہ یا خطا<ref>تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۱۲ق، ج۵، ص۵۰۔</ref> سے معصوم ہوتے ہیں۔ البتہ پانچویں صدی ہجری کے معتزلی رہنما قاضی عبدالجبار تبلیغ رسالت میں کذب سہوی کو جائز قرار دیتے ہیں۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۳۱۔</ref> | ||
عصمت کے تیسرے مرحلے میں بھی شیعہ متکلمین اتفاق نظر رکھتے؛ | |||
چوتھا مرحلہ یعنی روزمرہ امور میں خطا سے بھی معصوم ہونے کو بھی اکثر شیعہ علماء قبول کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انبیاء زندگی کے فردی اور سماجی امور میں بھی خطا سے معصوم ہوتے ہیں؛ | عصمت کے تیسرے مرحلے میں بھی شیعہ متکلمین اتفاق نظر رکھتے؛<ref>مفید، النکت الاعتقادیہ، ۱۴۱۳ق، ص۳۷؛ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵۔</ref> یعنی ان کے مطابق انبیاء ہر قسم کے گناہ کبیرہ و صغیرہ سے معصوم ہوتے ہیں۔<ref>برای نمونہ نگاہ کنید بہ مفید، النکت الاعتقادیہ، ۱۴۱۳ق، ص۳۷؛ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵۔</ref> اس بارے میں صرف شیخ مفید سہوا گناہ صغیرہ کی انجام دہی کو انبیاء کے لئے بعثت سے پہلے ممکن قرار دیتے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ یہ گناہ بھی نفس کی پستی کی وجہ سے سرزد نہ ہوا ہو۔<ref>مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۶۲۔</ref> | ||
علامہ طباطبایی اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء کی زندگی کے وہ امور جو وحی اور لوگوں کی ہدایت سے مربوط نہیں ہیں | |||
چوتھا مرحلہ یعنی روزمرہ امور میں خطا سے بھی معصوم ہونے کو بھی اکثر شیعہ علماء قبول کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انبیاء زندگی کے فردی اور سماجی امور میں بھی خطا سے معصوم ہوتے ہیں؛<ref>مفید، عدم سہو النبی، ۱۴۱۳ق، ص۲۹و۳۰؛ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵-۱۵۷۔</ref> لیکن ان میں سے بعض جیسے کلینی اور شیخ صدوق اس نظریے کے مخالف ہیں۔ کلینی اس بات کے معتقد ہیں کہ روزمرہ امور میں انبیاء کا چھوٹی چھوٹی خطاوں سے بھی معصوم ہونا جن کے سرزد ہونے جس سے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچتا، نہ اس حوالے سے کوئی عقلی دلیل ہے، بلکہ بعض احادیث بھی موجود ہیں کہ جو اس بات کے اوپر دلالت کرتی ہیں کہ اس طرح کے خطائیں انبیاء سے سرزد ہوئی ہیں۔<ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۵-۳۱۔</ref> شیخ صدوق ہم با استناد بہ روایت ذوالشمالین<ref>صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۳۵۸و۳۵۹۔</ref> سہو النبی را پذیرفتہ و اعتقاد بہ عصمت انبیاء کو خطا اور اشتباہ سے بھی معصوم سمجھنے کو غلو اور تفویض سمجھتے ہیں۔<ref>صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۳۵۹۔</ref> | |||
علامہ طباطبایی اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء کی زندگی کے وہ امور جو وحی اور لوگوں کی ہدایت سے مربوط نہیں ہیں وہ عصمت کے موضوع سے خارج ہیں۔ آپ کے مطابق پیغمبر اسلامؐ خدا کے خاص لطف و کرم کی بنا پر، کے علاوہ دوسرے انبیاء سے روزمرہ امور میں خطا اور اشتباہ کے مرتکب ہونے میں قرآن کی بعض آیات دلالت کرتی ہیں مثلا: حضرت آدم کا اپنے عہد و پیمان کو فراموش کرنا، حضرت نوح کا اپنے گناہگار بیٹے کو طوفان نجات دینے کی درخواست کرنا، حضرت یونس کا عصے کی حالت میں اپنی قوم سے باہر جانا اور حضرت موسی کا بنیاسرائیل کی گوسالہ پرستی سے متعلق حضرت ہارون کے بارے میں بےجا قضاوت۔<ref>فاریاب، «عصمت پیامبران در منظومہ فکری علامہ طباطبایی»، ص۲۴-۲۸۔</ref> | |||
== انبیاء کی عصمت اور ان کا اختیار == | == انبیاء کی عصمت اور ان کا اختیار == | ||
ایک گروہ کا خیال ہے کہ عصمت اور اختیار ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ اسی بنا پر بعض لوگ انبیاء کی عصمت کے منکر ہیں جبکہ بعض، انبیاء کی عصمت کے تو قائل ہیں لیکن اسے ایک اجباری امر قرار دیتے ہیں۔[29] دوسرا گروہ کہتے ہیں کہ انسان خطا کا پتلا اور گناہ اس کی سرشت میں شامل ہے لہذا وہ لاکھ کوشش کرے پھر بھی کسی نہ کسی خطا میں مبتلا ہو کر ہی رہے گا۔ اس بنا پر کسی انسان کا عصمت کے مقام پر فائز ہونا بیرونی عوامل کی بنا پر اور اس کی اختیار سے خارج ہے۔ یہ گروہ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی بعض آیات سے بھی تمسک کرتے ہیں۔[30] | ایک گروہ کا خیال ہے کہ عصمت اور اختیار ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ اسی بنا پر بعض لوگ انبیاء کی عصمت کے منکر ہیں جبکہ بعض، انبیاء کی عصمت کے تو قائل ہیں لیکن اسے ایک اجباری امر قرار دیتے ہیں۔[29] دوسرا گروہ کہتے ہیں کہ انسان خطا کا پتلا اور گناہ اس کی سرشت میں شامل ہے لہذا وہ لاکھ کوشش کرے پھر بھی کسی نہ کسی خطا میں مبتلا ہو کر ہی رہے گا۔ اس بنا پر کسی انسان کا عصمت کے مقام پر فائز ہونا بیرونی عوامل کی بنا پر اور اس کی اختیار سے خارج ہے۔ یہ گروہ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی بعض آیات سے بھی تمسک کرتے ہیں۔[30] |