مندرجات کا رخ کریں

"محمد بن امام علی نقیؑ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 44: سطر 44:


شیعہ محدیث میرزا حسین نوری(متوفی 1320ھ) کے مطابق سید محمد کے کرامات [[متواتر]] طور پر اور [[اہل سنت]] کے یہاں بھی مشہور ہیں؛ اسی بنا پر [[عراق]] کے لوگ ان کے نام کی [[قسم]] کھانے سے خوف محسوس کرتے ہیں، اگر کسی شخص پر کسی چیز کے چرائے جانے کی تہمت لگائی جاتی تو اس چیز کو متعلقہ شخص کو دے دیتے ہیں لیکن سید محمد کی قسم نہیں کھاتے ہیں۔<ref>نوری، نجم الثاقب، ۱۳۸۴ق، ج۱، ص۲۷۲۔</ref> بعض منابع میں سید محمد سے بعض [[کرامت]] نقل ہوئی ہیں؛ من جملہ یہ کہ محمدعلی اردوبادی (۱۳۱۲-۱۳۸۰ھ) نے اپنی کتاب "حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادیؑ" میں ان کی تقریبا 60 کرامات کا ذکر کیا ہے۔<ref> اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ۱۴۲۷ق، ص۵۰ بہ بعد۔</ref>
شیعہ محدیث میرزا حسین نوری(متوفی 1320ھ) کے مطابق سید محمد کے کرامات [[متواتر]] طور پر اور [[اہل سنت]] کے یہاں بھی مشہور ہیں؛ اسی بنا پر [[عراق]] کے لوگ ان کے نام کی [[قسم]] کھانے سے خوف محسوس کرتے ہیں، اگر کسی شخص پر کسی چیز کے چرائے جانے کی تہمت لگائی جاتی تو اس چیز کو متعلقہ شخص کو دے دیتے ہیں لیکن سید محمد کی قسم نہیں کھاتے ہیں۔<ref>نوری، نجم الثاقب، ۱۳۸۴ق، ج۱، ص۲۷۲۔</ref> بعض منابع میں سید محمد سے بعض [[کرامت]] نقل ہوئی ہیں؛ من جملہ یہ کہ محمدعلی اردوبادی (۱۳۱۲-۱۳۸۰ھ) نے اپنی کتاب "حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادیؑ" میں ان کی تقریبا 60 کرامات کا ذکر کیا ہے۔<ref> اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ۱۴۲۷ق، ص۵۰ بہ بعد۔</ref>
==وفات==
سید محمد نے سن ۲۵۲ ھجری قمری میں خانہ خدا کی زیارت کے لئے سفر کا ارادہ کیا۔ جس وقت آپ بلد نامی قریہ ([[سامرا]]، [[عراق]]) کے پاس پہچے آپ کی طبیعت خراب ہو گئی اور ۲۹ جمادی الثانیۃ میں آپ نے وفات پائی۔ شیعوں نے آپ کو وہیں پر دفن کر دیا اور بعض نے آپ کو عباسیوں کی طرف سے زہر دینے کے احتمال کا ذکر بھی کیا ہے۔<ref>قرشی زندگانی امام حسن عسکریؑ، ص:۳۰ </ref>
آپ کی وفات کے بعد امام علی نقیؑ نے آپ کے لئے مجلس ختم منعقد کی اور بعض [[بنی ہاشم]] جن میں حسن بن حسن افسط بھی شامل ہیں، نے نقل کیا ہے:
سید محمد کی وفات کے روز جب ہم [[امام علی نقیؑ]] کے بیت الشرف میں گئے تو دیکھا کہ صحن خانہ میں فرش بچھا ہوا ہے اور حلقہ بنائے ہوئے بیٹھے ہیں، ہم نے جمعیت کا اندازہ لگایا تو غلاموں اور دوسرے افراد کے علاوہ ۱۵۰ لوگ آل ابی طالب، بنی ہاشم اور قریش سے موجود اور شریک تھے کہ اچانک امام حسن عسکریؑ جن کا گریبان اپنے بھائی کی موت کی وجہ سے چاک تھا، وہاں وارد ہوئے اور اپنے والد ماجد کے پاس کھڑے ہو گئے، ہم حضرت کو نہیں پہچانتے تھے۔ کچھ دیر کے بعد امام علی نقیؑ نے ان کی طرف رخ کرکے فرمایا:
<font color=blue>{{حدیث|'''"یا بنی احدث للہ شکرا فقد احدث فیک امرا۔"'''}}</font> ترجمہ: (اے بیٹا اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے یہ امر تمہارے سپرد کیا) امام حسن عسکریؑ نے گریہ کیا اور فرمایا: <font color=blue>{{حدیث|'''" الحمد اللہ رب العالمین، ایاہ نشکر نعمہ علینا و انا للہ و انا الیہ راجعون۔"'''}}</font> ترجمہ: (تمام حمد عالمین کے پروردگار کے لئے ہے، جو نعمتیں اس نے ہمیں عطا فرمائی ہیں، ہم اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور ہم سب اللہ کے لئے ہیں اور بیشک اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔) میں نے پوچھا وہ کون ہیں؟ جواب ملا وہ امام علی نقیؑ کے بیٹے حسن عسکری ہیں۔ اس وقت ان کا سن ۲۰ سال کے قریب معلوم ہو رہا تھا تو ہم نے سمجھ لیا کہ اپنے والد امام علی نقیؑ کے بعد وہ ہمارے امام ہوں گے۔<ref>مجلسی، بحار الأنوار، ج‏۵۰، ص ۲۴۶ </ref>
==فرقہ محمدیہ==
سید محمد کی وفات کے بعد بعض [[شیعوں]] نے جو ان کی [[امامت]] کے طرف دار تھے۔ انہوں نے کہا: ان کی وفات نہیں ہوئی ہے وہ زندہ ہیں۔ کیونکہ [[امام علی نقیؑ]] نے امامت کے لئے ان کا تعارف کرایا ہے اور جیسا کہ امام کی طرف [[جھوٹ]] کی نسبت دینا جائز نہیں ہے اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ [[بدا|بداء]] واقع ہوا ہے لہذا وہ امام کے جانشین ہیں اور ان کے والد نے لوگوں کی طرف انہیں گزند پہنچنے کے خوف سے چھپا دیا ہے۔<ref>اشعری قمی، المقالات و الفرق، ص۱۰۱ </ref>


== روضہ==
== روضہ==
سطر 69: سطر 56:


عتبات عالیات کی تعمیراتی کمیٹی نے سنہ ۱۳۹۲ش میں سید محمد کے مرقد کی تعمیر شروع کی۔<ref>[https://atabat.org/fa/news/50 «چند طرح بازسازی حرم امامزادہ سیدمحمد آمادہ بہرہ‌برداری»]</ref> اگرچہ 7 جولائی 2016ء کو حرم سید محمد پر [[داعش]] کے حملے میں حرم کے بعض حصوں کو نقصان پهنچا،<ref>[https://al-aalem.com/news/28088 «الصور: إحباط محاولۃ تفجير مرقد (سيد محمد) في بلد۔۔ و مقتل ثلاثۃ انتحاريين أمام بوابۃ دخول الزائرين»]</ref> لیکن اس کی تعمیر سنہ 2019ء کے بہار تک جاری رہی۔<ref>[https://atabat.org/fa/news/50 «چند طرح بازسازی حرم امامزادہ سیدمحمد آمادہ بہرہ‌برداری»]</ref>
عتبات عالیات کی تعمیراتی کمیٹی نے سنہ ۱۳۹۲ش میں سید محمد کے مرقد کی تعمیر شروع کی۔<ref>[https://atabat.org/fa/news/50 «چند طرح بازسازی حرم امامزادہ سیدمحمد آمادہ بہرہ‌برداری»]</ref> اگرچہ 7 جولائی 2016ء کو حرم سید محمد پر [[داعش]] کے حملے میں حرم کے بعض حصوں کو نقصان پهنچا،<ref>[https://al-aalem.com/news/28088 «الصور: إحباط محاولۃ تفجير مرقد (سيد محمد) في بلد۔۔ و مقتل ثلاثۃ انتحاريين أمام بوابۃ دخول الزائرين»]</ref> لیکن اس کی تعمیر سنہ 2019ء کے بہار تک جاری رہی۔<ref>[https://atabat.org/fa/news/50 «چند طرح بازسازی حرم امامزادہ سیدمحمد آمادہ بہرہ‌برداری»]</ref>
==امام زادہ سید محمد کا روضہ==
امام زادہ سید محمد کا روضہ صلاح الدین ضلع کے شہر بلد میں واقع ہے جو شمال بغداد سے ۸۵ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ اور آج وہ شیعوں کی ایک زیارت گاہ کے طور پر معروف ہے۔
اس روضہ کی اولین تعمیر کے سلسلہ میں واضح اطلاعات دسترس میں نہیں ہیں۔ البتہ جو تعمیراتی کام سن ۱۳۷۹ سے ۱۳۸۴ ھجری قمری کے درمیان انجام پائے ہیں ان سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس روضہ کی سب سے پہلی عمارت کی چوتھی صدی ھجری میں [[عضد الدولہ دیلمی]] کے ہاتھوں انجام پائی ہے۔ اور اس کے بعد دوسری تعمیر دسویں صدی ہجری میں [[شاہ اسماعیل صفوی]] نے فتح بغداد کے بعد کرائی تھی۔
ضریح پر موجود ایک کتیبہ پر لکھا ہوا ہے:
یہ سید جلیل ابو جعفر سید محمد بن امام علی نقیؑ کا مرقد ہے جو عظیم الشان انسان تھے اور شیعوں کو یہ گمان تھا کہ امام علی نقیؑ کے بعد عہدہ امامت ان  تک پہچے گا اور جب ان کی رحلت ہو گئی تو [[امام علی نقیؑ]] نے [[امام حسن عسکریؑ]] کی امامت کی طرف اشارہ  فرمایا۔ جس وقت [[امام ہادیؑ]] مدینہ سے سامرا کی طرف جا رہے تھے اس وقت سید محمد ایک کم عمر بچہ تھے اور بعد میں جب وہ بلوغ کی منزل میں پہچے تو انہوں نے سامرا کا سفر کیا اور کچھ عرصہ وہاں رہے اور اس کے بعد انہوں نے مدینہ واپسی کا قصد کیا اور جب سامرا سے ۹ فرسخ کے فاصلہ پر بلد نامی دیہات تک پہچے تو بیمار پڑ گئے اور وہیں آپ کی وفات ہو گئی۔<ref>احسان مقدس، ص۳۱۲</ref>
===دہشت گردانہ حملہ===
۱۷ تیر ۱۳۹۵ شمسی بمطابق 7جولائی2016 میں شام کے وقت سید محمدؑ کا روضہ ایک دہشت گردانہ حملہ کا شکار بنا۔ داعش نامی دہشت گرد گروہ کے افراد نے پہلے تو روضے پر دور سے گولے برسائے پھر اس کے بعد کچھ دہشت گردوں نے روضہ کے نزدیک خودکش حملہ کے ذریعہ خود کو بم باندھ کر اڑا دیا۔<ref>خبرگزاری ابنا </ref>
==کرامات==
سید محمد کی طرف بہت سی کرامات دیکھنے میں آئیں ہیں۔ [[میرزا حسین نوری]] نے اپنی کتاب النجم الثاقب میں تحریر کیا ہے:
سید محمد، صاحب کرامات متواتر ہیں۔ حتی وہ اہل سنت کے یہاں بھی شہرت رکھتے ہیں۔ عراق کے لوگ حتی بادیہ نشین ان کے نام کی قسم کھانے سے ڈرتے ہیں۔ اگر ان پر مال کی چوری کا الزام لگایا جائے تو وہ مال تو واپس کر دیتے ہیں لیکن سید محمد کی قسم نہیں کھاتے۔
بعض علمائ نے سید محمد کی کرامات کے سلسلہ میں کتابیں تالیف کی ہیں؛ منجملہ ان میں سے ایک فارسی کتاب ہے جس کا نام یہ ہے: رسالہ ای در کرامات سید محمد بن علی الہادی، جس کے مولف مہدی آل عبد الغفار کشمیری ہیں۔ یہاں پر ان کی کرامات کے ایک نمونہ کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ علامہ سید میرزا ہادی خراسانی، سید حسن آل خوجہ سے جو امامین عسکریین کے روضہ کے خادم تھے، نقل کرتے ہیں:
وہ کہتے ہیں کہ میں ایک روز ابو جعفر سید محمد کے روضہ مبارک کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا کہ متوجہ ہوا کہ ایک عرب شخص جس نے اپنا ایک ہاتھ اپنی گردن کے پیچھے کی طرف کیا ہوا تھا، روضہ میں وارد ہوا تو میں اس کے نزدیک گیا اور اس سے اس کی بیماری کی علت کے بارے میں دریافت کیا۔ اس نے کہا کہ میں گزشتہ سال ایک روز اپنی بہن کے گھر گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے صحن میں ایک گوسفند بندھا ہوا ہے، میں نے چاہا کہ اسے ذبح کرکے کھایا جائے میری بہن ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی اور کہا کہ یہ گوسفند سید محمد کی نذر ہے۔ میں اس کی باتوں پر توجہ نہیں دی اور اسے ذبح کر ڈالا۔ تین دن کے بعد سے میرے ہاتھ میں لقوے کے آثار نمایاں ہونے لگے اور دن بہ دن وہ بڑھنے لگا میں اس کی علت کی طرف متوجہ نہیں تھا یہاں تک کہ ادھر میں اس کی طرف متوجہ ہوا اور میں پشمیان ہوں اور شفا کے لئے یہاں سید محمد کے روضہ پر آیا ہوں۔ اس کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ روضہ میں داخل ہوا اور گریہ و زاری کرنے لگا تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں حرکت پیدا ہو گئی ہے۔ اس نے سجدہ شکر ادا کیا اور اس کے نذر مانی کہ ہر سال ایک گوسفند لا کر سید محمد کی طرف سے اسے ذبح کرے گا۔<ref>احسان مقدس ، ص۳۰۲.</ref>


==سید محمد کے سلسلہ میں کتاب==
==سید محمد کے سلسلہ میں کتاب==
سطر 98: سطر 61:


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
<div class="reflist4" style="height: 220px; overflow: auto; padding: 3px" >
{{حوالہ جات2}}
{{حوالہ جات|3}}
</div>


== مآخذ ==
== مآخذ ==
{{ستون آ|2}}
{{مآخذ}}
* احسان مقدس، راهنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، نشر مشعر
* احسان مقدس، راهنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، نشر مشعر
* رجائی، مهدی، المعقبون، من آل ابی‌ طالب، موسسه عاشورا، قم، ۱۳۸۵ش
* رجائی، مهدی، المعقبون، من آل ابی‌ طالب، موسسه عاشورا، قم، ۱۳۸۵ش
سطر 113: سطر 74:
* طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، تحقیق علی اکبر غفاری بیروت، دارالمعرفه، ۱۳۹۹ق
* طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، تحقیق علی اکبر غفاری بیروت، دارالمعرفه، ۱۳۹۹ق
* اشعری قمی، المقالات و الفرق، تصحیح محمد جواد مشکور، مرکز انتشارات علمی و فرهنگی، ۱۳۶۱ش
* اشعری قمی، المقالات و الفرق، تصحیح محمد جواد مشکور، مرکز انتشارات علمی و فرهنگی، ۱۳۶۱ش
{{ستون خ}}
{{خاتمہ}}
{{سانچہ:امام علی نقی}}
{{سانچہ:امام علی نقی}}


confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم