اینگلو میسور جنگیں ہندوستان میں اٹھارویں صدی عیسوی میں سلطنت خداداد میسور اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین جنگوں کا ایک سلسلہ ہے جو نواب حیدر علی کے دور میں شروع ہوئیں اور ٹیپو سلطان کی شہادت کے ساتھ ختم ہوئیں۔

اینگلو_میسور جنگیں
اینگلو_میسور جنگیں
انگریزوں سے جنگ میں ٹیپو سلطان کے توپ
انگریزوں سے جنگ میں ٹیپو سلطان کے توپ
مقامجنوبی ہندوستان
علل و اسبابانگریزوں کی مداخلت
فریق 1سلطنت خداداد میسور
فریق 2برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی
سپہ سالار 1حیدر علی،ٹیپو سلطان

اہمیت

سلطنت خداداد میسور نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف جو جنگیں لڑی ان کو اینگلو میسور جنگیں کہا جاتا ہے جن کا مقصد ہندوستان کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے نجات دلوانا تھا۔ ان کا اختتام ٹیپو سلطان کی وفات پر ہوا۔ یہ اینگلو میسور جنگیں چار جنگوں پر مشتمل ہیں۔ اگرچہ ان جنگوں کے نتیجے میں سلطنت خداداد میسور ختم ہوئی اور ٹیپو سلطان مارا گیا اور وہاں کی حکومت ایک نواب حکومت میں بدل گئی لیکن ان جنگوں کے نتیجے میں برصغیر میں انگریزوں کے خلاف ایک تحریک نے جنم لیا جس کے نتیجے میں انگریزوں کو برصغیر چھوڑنا پڑا۔

پہلی جنگ

اینگلو میسور کی پہلی جنگ (1767–1769) حیدر علی کے دور میں لڑی گئی۔[1] اس جنگ میں انگریز اور نظام الملک اتحادی تھے۔ حیدرآباد کی فوج کی کمان خود نظام الملک کے ہاتھوں تھی۔[2] جبکہ حیدر علی کی فوج کے دستوں میں سے ایک کی کمان ٹیپو سلطان کر رہے تھے۔[3] اس جنگ میں حیدر علی کو فتح ملی۔[4] اس جنگ میں انگریزوں کے دو ہزار سپاہی اسیر اور 4500 سے زائد سپاہی مارے گئے۔[5] اس جنگ میں حیدر علی خان بہادر کی فوج مدراس تک پہنچی اور یہ پہلی جنگ تھی جس میں انگریزوں کو شکست ہوئی۔[6] اور انگریز صلح کرنے پر مجبور ہوئے۔[7] سنہ 1769ء کو مرہٹوں سے جنگ ہوئی جو سنہ 1772ء کو سلطنت میسور کے حق میں صلح پر ختم ہوئی۔[8]

دوسری جنگ

اینگلو میسور کی دوسری جنگ (1780–1784) نواب حیدر علی کے دور میں لڑی گئی[9] اس دوران نواب حیدر علی کے پاس 80 ہزار کی فوج تھی۔[10] جب انگریزوں نے فرانسیسیوں کی ایک بندرگاہ پر ایسے وقت میں قبضہ کیا جب فرانسیسی اور نواب کے مابین اتحاد کا معاہدہ ہوچکا تھا۔ اس لئے نواب نے پوری طاقت کے ساتھ کرناٹک پر حملہ کیا۔[11] سنہ 1782ء میں جنگ کے دوران حیدر علی بیماری کی وجہ سے وفات پاگئے اور ٹیپو سلطان مسند پادشاہی پر بیٹھ گئے۔[12] اور انگریز کی فوج نے بغیر کسی نتیجے کے جنگ کے ختم کردی اور ان کی فوج گورنر مدراس کے حکم سے واپس مدراس چلی گئی۔[13] اس جنگ میں کامیابی میں ٹیپو سلطان کا بڑا دخل ہے۔[14] 23 جنوری سنہ 1784ء کو بنگلور پر قبضہ کیا۔[15] مورخین کا کہنا ہے کہ اگر حیدر علی اس جنگ کو جاری رکھتے تو انگریزوں کا ہندوستان سے انخلاء ہونا تھا۔[16]

تیسری جنگ

اینگو میسور کی تیسری جنگ (1789–1792) ٹیپو سلطان کے دور میں انگریزوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ ہے۔[17] اس جنگ میں مراہٹہ اور نظام انگریزوں کے اتحادی تھے جبکہ ٹیپو سلطان کے فرانسیسی اتحادی نے اس جنگ حمایت سے انکار کیا۔[18] اس جنگ میں انگریز نے سلطنت خداداد میسور کے کئی علاقوں پر قبضہ کیا۔[19] اور جنگ کا خاتمہ 13 فروری سنہ 1792ء کو فریقین کے مابین صلح سے ہوئی جس کے تحت سلطان کو تاوان جنگ کے عنوان سے تین کروڑ روپیوں کا ملک چھوڑنے، تین کروڑ روپیہ نقد اور ان روپیوں کے وصول ہونے تک دو شہزادوں کو انگریزوں کے پاس بطور یرغمال رکھنے پر اتفاق ہوا۔[20] صلح نامہ کے تحت میسور کا حدوداربعہ تقریباً 25% دشمن کے ہاتھ لگ گیا۔[21]

چوتھی جنگ

اینگلو میسور کی آخری جنگ (1798–1799) ٹیپو سلطان کے دور میں لڑی گئی۔[22] ٹیپو سلطان انگریزوں سے سابقہ جنگ کا انتقام لیکر کھوئے ہوئے علاقوں کو واپس لینا چاہتے تھے۔[23] اور ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے لئے سب سے زیادہ خطرہ سلطنت خدادا کو سمجھتی تھی اس لئے سنہ 1798ء میں انگریزوں نے ہندوستان کی ریاستوں کو سلطنت خداداد سے دور رکھنے کے لئے نظام حیدر آباد سے ایک معاہدہ کیا[24] اور دوسری طرف سلطنت کے اندر سازشوں پر بھی زور دیا جھوٹ، فریب اور رشوت ستانی سے کام لیتے ہوئے رعایا کو سلطان سے بدگمان کرنے پر زور دیا۔ سلطان کو عیاش، بزدل اور ظالم معرفی کیا۔[25]

دوسری طرف میرصادق نے ٹیپو سلطان کے خلاف خیانت کی اور ہر راز انگریزوں تک پہنچاتا رہا۔[26]

22 فروری سنہ 1799ء کو ولزلی کی طرف سے اعلان جنگ ہوا جنرل ہارس نے پیش قدمی شروع کی۔ملیبار اور مدراس کی طرف سے پیش قدمی کرتے ہوئے انگریز کی فوج سلطنت خداداد کے پایہ تخت کے قریب پہنچے۔ گھمسان کی جنگ چھڑ گئی۔ داخلی غداری اور خیانت کا شاید سلطان کو احساس ہوا تھااس لئے سب عہدہ داروں کو مسجد میں لے جاکر ایمانداری کا حلف لیا۔[27]

22 اپریل 1799ء کو جب جنرل ہارس نے مصالحت اور امن کے نام سے ایک مسودہ سلطان کی خدمت میں بھیجا جس میں آدھی سلطنت، دو کروڑ تاوان؛ جس میں ایک کروڑ فورا ادا کرنےکا مطالبہ تھا نیز چار بیٹے اور چار جرنیل کو بطور یرغمال دینے اور 24 گھنٹے کے اندر جواب دینے کا کہا گیا تھا۔[28]


ٹیپو سلطان نے «گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے» [29] کہتے ہوئے شرائط ماننے سے انکار کیا اور اسی جنگ میں جام شہادت نوش کر گئے۔[30]

دیگر جنگیں

اینگلو میسور جنگوں کے علاوہ بھی انگریزوں کے ساتھ ہندوستانیوں کی پہلی جنگ بنگال کے حاکم نواب سراج الدولہ نے 20 جون 1757ء کو لڑی جس میں انگریزوں کی فوج تین ہزار فوجیوں کے مقابلے میں ستر ہزار کا لشکر آیا لیکن میر جعفر اور بعض دیگر کی غداری کی وجہ سے سراج الدولہ کو شکست ہوئی اور بےدردی سے شہید کیا۔[31]جبکہ دوسری جنگ 22 اکتوبر سنہ1764ء کو میرقاسم نے لڑی جس میں مسلمانوں کی پچاس ہزار کی لشکر کو صرف سات ہزار فوجیوں نے نجف خان کی غداری کے بدولت شکست ہوئی۔[32]

حوالہ جات

  1. ساموئل سٹرنڈبرگ، ٹیپو سلطان(شیر میسور) ، مترجم: محمد زاہد ملک، ص30
  2. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص82۔
  3. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص85۔
  4. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص86۔
  5. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص142، 144۔
  6. شاہد صدیقی علیگ، شہید شیر میسور ٹیپو سلطان کی 222ویں یوم شہادت کے موقع پر خصوصی پیشکش، قومی آواز ویب سائٹ۔
  7. ساموئل سٹرنڈبرگ، ٹیپو سلطان(شیر میسور) ، مترجم: محمد زاہد ملک، ص33
  8. ساموئل سٹرنڈبرگ، ٹیپو سلطان(شیر میسور)، مترجم: محمد زاہد ملک، ص35
  9. ساموئل سٹرنڈبرگ، ٹیپو سلطان(شیر میسور)، مترجم: محمد زاہد ملک، ص35
  10. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص139-140۔
  11. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص139-140۔
  12. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص154-155۔
  13. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص202۔
  14. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص199۔
  15. ساموئل سٹرنڈبرگ، ٹیپو سلطان(شیر میسور)، مترجم: محمد زاہد ملک، ص50۔
  16. ساموئل سٹرنڈبرگ، ٹیپو سلطان(شیر میسور)، مترجم: محمد زاہد ملک، ص40۔
  17. ساموئل سٹرنڈبرگ، ٹیپو سلطان(شیر میسور) ، مترجم: محمد زاہد ملک، ص74
  18. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص233۔
  19. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص250۔
  20. ساموئل سٹرنڈبرگ، ٹیپو سلطان(شیر میسور)، مترجم: محمد زاہد ملک، ص90۔
  21. عیشتہ الراضیہ، شیر میسور ٹیپو سلطان، روزنامہ نوائے وقت
  22. ساموئل سٹرنڈبرگ، ٹیپو سلطان(شیر میسور) ، مترجم: محمد زاہد ملک، ص106۔
  23. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص278۔
  24. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص275۔
  25. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص39۔
  26. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص39۔
  27. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص40۔
  28. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص42-43۔
  29. قریشی، عظیم مجاہد ٹیپو سلطان، 4 مئی 2017ء
  30. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص44۔
  31. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص62-60۔
  32. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص64۔

مآخذ

  • ساموئل سٹرنڈبرگ،Tipu Sultan (The Tiger of Mysore) ٹیپو سلطان(شیر میسور) ، مترجم: محمد زاہد ملک، علم و عرفان پبلشرز لاہور، بی تا۔
  • سید محمد واضح رشید حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو، 1433ھ2011ء.
  • شاہد صدیقی علیگ، شہید شیر میسور ٹیپو سلطان کی 222 ویں یوم شہادت کے موقع پر خصوصی پیشکش، قومی آواز ویب سائٹ۔ تاریخ درج 4 مئی 2021، تاریخ اخذ: 16 مارچ 2023ء۔
  • عیشتہ الراضیہ، شیر میسور ٹیپو سلطان، روزنامہ نوائے وقت، تاریخ درج 3 مئی 2018ء تاریخ اخذ: 16 فروری 2023ء
  • قریشی، محمد ارشد، عظیم مجاہد ٹیپو سلطان، 4 مئی 2017ء، تاریخ اخذ: 14 فروری 2023ء۔
  • محمود بنگلوری، محمود خان، تاریخ سلطنت خداداد میسور، مطبوعہ برقی کوثر پریس بنگلور، 1939ء