مسودہ:کیومرث اول
کیومرث اول سنہ 807 تا 857 ہجری قمری کے دوران موجودہ ایران کے مازندران کے مغربی علاقے رُستمدار کے حاکم تھے۔ انہوں نے برسر اقتدار آتے ہی شیعہ مذہب کو اپنے علاقے کا سرکاری مذہب قرار دے دیا۔
کہا جاتا ہے کہ یہاں مذہب کی تبدیلی حکومتِ پادوسبانیان کے بقا کے لیے تھی، کیونکہ رستمدار کا علاقہ دو شیعہ حکومتوں؛ گیلان اور مازندران کے درمیان محصور تھا۔ بعض کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک کیومرث نے شیعہ مذہب اس لیے اختیار کیا تاکہ شمالی ایران میں تشیع کے فروغ میں مؤثر کردار ادا کر سکے۔
کیومرث اوّل نے شیعہ مذہب کے فروغ کے لیے عبد الرحیم بن معروف رستمداری کو شیعہ فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے نجف بھیجا۔ عبد الرحیم نے "نیل المرام فی مذہب الائمہ" نامی کتاب تصنیف کی، تاکہ رُستمدار کے علاقے میں عدالتی امور میں شیعہ فقہ کو نافذ کیا جا سکے۔
کیومرث کے دورِ حکومت میں رستمدار کے مرعشیانِ آمل اور گیلان کی آلِ کیا کے ساتھ تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہے، لیکن مجموعی طور پر ان کا دور پرسکون اور امن و امان کا دور سمجھا جاتا ہے۔ کیومرث کو مذہبی مقامات اور قلعوں کی تعمیر میں خاص دلچسپی تھی۔
تعارف
کیومرث ابن بیستون، جو کیومرث اوّل کے نام سے مشہور ہے، سلسلہ پادوسبانیان کے حکمرانوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے سنہ 807 سے 857 ہجری قمری تک رُستمدار (ایران کے شہر مازندران کا مغربی علاقہ جو گیلان اور آمل کے درمیان واقع ہے)[1] پر حکومت کی۔[2] انہیں اس سلسلے کا آخرین مقتدر حکمران سمجھا جاتا ہے۔[3] ان کی قبر امام زادہ طاہر نوشہر میں واقع ہے۔[4]
کیومرث اوّل کا برسرِ اقتدار آنا
ابتدا میں کیومرث کو اُس وقت کے حاکمِ رستمدار نے قلعہ نور کا کوتوال (قلعہ دار) مقرر کیا۔[5] حکومت پادوسبانیان، مرعشیان اور تیموریان کے مابین جھڑپوں کے دوران وہ قلعہ نور سے ہاتھ دھو بیٹھے[6] اور کچھ عرصہ شیراز میں سرگردان اور قید میں رہے۔ بالآخر قید سے بھاگنے میں کامیاب ہوئے اور درویش کے لباس میں دوبارہ قلعہ نور پہنچے۔[7] وہاں اُنہوں نے موجودہ کوتوال کو قتل کر دیا اور دوبارہ قلعہ نور اور حکومتِ رستمدار پر قبضہ جمالیا۔[8]
سرکاری مذہب کی شیعہ مذہب میں تبدیلی
کیومرث نے اقتدار سنبھالنے کے بعد شیعہ مذہب قبول کیا اور رستمدار میں شیعہ مذہب کو رائج کیا۔[9] اس سے پہلے رستمدار کے لوگ سنّی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔[10] کہا جاتا ہے کہ کیومرث شاید مرعشیانِ آمل سے متاثر ہوکر شیعہ مذہب کی طرف مائل ہوئے، کیونکہ کیومرث کے ان کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔[11] بعض مورخین کے مطابق، جس وقت وہ شیراز میں سرگرداں تھےانہوں نے اسی وقت نذر مانی تھی کہ اگر دوبارہ انہیں اقتدار حاصل ہوا تو وہ شیعہ مذہب اختیار کریں گے۔[12]
کچھ محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کیومرث نے شیعہ مذہب اس لیے قبول کیا تاکہ شمالی ایران میں اس مذہب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرسکے۔[13] مذہب کی اس تبدیلی کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مازندران کے مرعشیان اور گیلان کی آلِ کیا کے علاقہ رویان پر مذہبی حملوں کا راستہ بند ہوگیا۔[14] بعض مورخین کا کہنا ہے کہ کیومرث اول نے برسراقتدار آنے کے بعد سیاسی اور مذہبی حالات کے پیش نظر شیعہ مذہب قبول کیا۔ چونکہ اُس وقت رستمدار واحد سنی نشین علاقہ تھا اس لیے اگر کیومرث سنّی مذہب پر باقی رہتا تو دو شیعہ طاقتوں کے درمیان محصور ہوجاتا۔[15]
کیومرث دور کے کتبوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شیعہ تھے اور شیعہ مذہب کو فروغ دینے کے لیے ان کتبوں پر ائمہ معصومینؑ سے متعلق عبارات لکھی گئی تھیں۔[16] کتبوں پر مرقوم اس طرح کے جملات؛ "المعتصم بولایۃ علیّ المختار"، "معین امیرالمؤمنین" اور چودہ معصومین پر صلوات وغیرہ، اس بات کی بڑی گواہی دیتے ہیں کہ ان کا تعلق شیعہ مذہب سے تھا۔[17]
امامیہ فقہ کا فروغ
کیومرث اوّل نے مذہب کی تبدیلی کے بعد شیعہ فقہ کے فروغ کے لیے عبد الرحیم بن معروف رستمداری کو امامیہ فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے نجف بھیجا۔[18] عبد الرحیم دس سال بعد رستمدار واپس آئے اور کیومرث اور ان کے بیٹے کاووس کے دربار میں ملازمت کا اغاز کیا ۔[19] عبد الرحیم نے "نیل المرام فی مذہب الأئمہ" نامی کتاب تصنیف کی تاکہ رستمدار کے قاضی اسی کے مطابق عدالتی فیصلے کریں اور اس کتاب کے مطابق دیگر عدالتی امور کی نگرانی کی جاسکے۔[20] کیومرث کا یہ اقدام اس بات کا باعث بنا کہ رستمدار میں شیعہ فقہ کے مطابق عدالتی فیصلہ جات کا سلسلہ شروع ہو[21] اور اس خطے میں امامیہ فقہ کے فروغ میں نمایاں کردار ادا ہو۔[22]
کیومرث کا دورِ حکومت
کیومرث اوّل کے دورِ حکومت میں رستمدار میں امن و امان کی فضا قائم رہی۔[23] انہوں نے حکمرانی میں احتیاط، سیاسی تدبر اور امن و امان کے قیام کو بنیادی اصول قرار دیا؛[24] تاہم مازندران کے مرعشیان اور شیعیان گیلان کے ساتھ ان کی دشمنی برقرار رہی، جس کے نتیجے میں دونوں جانب سے جھڑپیں ہوتی رہیں۔[25] سنہ 832 ھ میں گیلان کے شیعوں نے مرعشیان کی مدد سے رستمدار پر لشکرکشی کی جس کے نتیجے میں اس علاقے کو شدید نقصان پہنچا۔[26]
کیومرث اوّل کا دور، سلسلہ پادوسبانیان کی طاقت و شوکت کا نقطہ عروج سمجھا جاتا ہے۔[27] تاہم، سنہ 857ھ میں ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں میں اختلافات پیدا ہوگئے اور پادوسبانی حکومت چند حصوں میں بٹ گئی؛ ملک اسکندر نے کجور میں، ملک کاوس نے نور میں اور ملک بہمن نے آمل کے لاریجان میں حکومت کی قائم کی۔[28]
مذہبی عمارتوں کی تعمیر
کیومرث اوّل نے مذہبی عمارتوں کی تعمیر میں خاص دلچسپی لی اور اس سلسلے میں نمایاں کام کئے۔[29] اس کے دور کی اہم تعمیرات میں سے ایک ضریح امام زادہ طاہر ہے، جو ایران کے نوشہر کے گاؤں ہزارخال میں واقع ہے۔ اس کی تعمیر 829ھ میں انجام پائی۔[30] اس مذہبی عمارت کو سنہ 1985ء میں ایران کے قومی تاریخی آثار میں شامل کیا گیا۔[31]
اس کے علاوہ، بقعہ بالو؛ جو آقابالو کے نام سے بھی معروف ہے اور آہودشت نامی گاؤں میں واقع ہے، ان کے دور کی ایک اور باقی ماندہ عمارت ہے۔[32] کیومرث اور ان کے بیٹوں نے قلعوں کی تعمیر پر بھی کافی توجہ دی اور مختلف مقامات پر قلعے تعمیر کرائے۔[33]
حوالہ جات
- ↑ مشکور، «مقدمہ»، تاریخ طبرستان، مازندران، رویان، 1361شمسی، ص24۔
- ↑ جعفریان، «مقدمہ»، نیل المرام فی مذہب الأئمۃ علیہم السلام، 1395شمسی، ص15؛ نعیمایی عالی و وثوقی، «تأثیر اوضاع سیاسی و مذہبی مازندران و گیلان در سدہ نہم ہـ. ق بر کتیبہہای ملک کیومرث بادوسپانی، حاکم رویان و رستمدار»، ص97۔
- ↑ نعیمایی عالی، و وثوقی، «تأثیر اوضاع سیاسی و مذہبی مازندران و گیلان در سدہ نہم ہـ. ق بر کتیبہہای ملک کیومرث بادوسپانی، حاکم رویان و رستمدار»، ص99۔
- ↑ ستودہ، از آستارا تا استرآباد، 1355شمسی، ص186؛ شایان، مازندران جغرافیای تاریخی و اقتصادی، 1336شمسی، ص311۔
- ↑ جعفریان، «مقدمہ»، نیل المرام فی مذہب الأئمۃ علیہم السلام، 1395شمسی، ص14 تا ص16۔
- ↑ شورمیج؛ و رضایی، «چگونگی استقرار و تثبیت تشیع امامی در طبرستان (از قرن سوم تا پایان ہشتم ہجری)»، ص266۔
- ↑ نعیمایی عالی، و وثوقی، «تأثیر اوضاع سیاسی و مذہبی مازندران و گیلان در سدہ نہم ہـ. ق بر کتیبہہای ملک کیومرث بادوسپانی، حاکم رویان و رستمدار»، ص99۔
- ↑ مرعشی، تاریخ طبرستان، مازندران، رویان، 1361شمسی، ص49 تا ص51؛ گیلانی، تاریخ مازندران، 1352شمسی، ص85۔
- ↑ گیلانی، تاریخ مازندران، 1352شمسی، ص85؛ شورمیج، و رضایی، «چگونگی استقرار و تثبیت تشیع امامی در طبرستان (از قرن سوم تا پایان ہشتم ہجری)»، ص267 و ص268؛ نعیمایی عالی، و وثوقی، «تأثیر اوضاع سیاسی و مذہبی مازندران و گیلان در سدہ نہم ہـ. ق بر کتیبہہای ملک کیومرث بادوسپانی، حاکم رویان و رستمدار»، ص100۔
- ↑ مشکور، «مقدمہ»، تاریخ طبرستان، مازندران، رویان، 1361شمسی، ص20؛ جعفریان، «مقدمہ»، نیل المرام فی مذہب الأئمۃ علیہم السلام، 1395شمسی، ص25؛ یوسفی، «سیر تحول دین و مذہب در مازندران»، ص187۔
- ↑ جعفریان، «مقدمہ»، نیل المرام فی مذہب الأئمۃ علیہم السلام، 1395شمسی، ص25۔
- ↑ گیلانی، تاریخ مازندران، 1352شمسی، ص85؛ جعفریان، «مقدمہ»، نیل المرام فی مذہب الأئمۃ علیہم السلام، 1395شمسی، ص25 و ص26۔
- ↑ یوسفی، «سیر تحول دین و مذہب در مازندران»، ص187۔
- ↑ نعیمایی عالی، و وثوقی، «تأثیر اوضاع سیاسی و مذہبی مازندران و گیلان در سدہ نہم ہـ. ق بر کتیبہہای ملک کیومرث بادوسپانی، حاکم رویان و رستمدار»، ص97۔
- ↑ شورمیج، و رضایی، «چگونگی استقرار و تثبیت تشیع امامی در طبرستان (از قرن سوم تا پایان ہشتم ہجری)»، ص267 و ص268۔
- ↑ نعیمایی عالی، وثوقی، «تأثیر اوضاع سیاسی و مذہبی مازندران و گیلان در سدہ نہم ہـ.ق بر کتیبہہای ملک کیومرث بادوسپانی، حاکم رویان و رستمدار»، ص114۔
- ↑ نعیمایی عالی، وثوقی، «تأثیر اوضاع سیاسی و مذہبی مازندران و گیلان در سدہ نہم ہـ.ق بر کتیبہہای ملک کیومرث بادوسپانی، حاکم رویان و رستمدار»، ص114۔
- ↑ جعفریان، «مقدمہ»، نیل المرام فی مذہب الأئمۃ علیہم السلام، 1395شمسی، ص27 و ص37 و ص38؛ شورمیج، و رضایی، «چگونگی استقرار و تثبیت تشیع امامی در طبرستان (از قرن سوم تا پایان ہشتم ہجری)»، ص268۔
- ↑ جعفریان، «مقدمہ»، نیل المرام فی مذہب الأئمۃ علیہم السلام، 1395شمسی، ص27۔
- ↑ شورمیج، و رضایی، «چگونگی استقرار و تثبیت تشیع امامی در طبرستان (از قرن سوم تا پایان ہشتم ہجری)»، ص268؛ جعفریان، «مقدمہ»، نیل المرام فی مذہب الأئمۃ علیہم السلام، 1395شمسی، ص27۔
- ↑ جعفریان، «مقدمہ»، نیل المرام فی مذہب الأئمۃ علیہم السلام، 1395شمسی، ص27۔
- ↑ شورمیج، و رضایی، «چگونگی استقرار و تثبیت تشیع امامی در طبرستان (از قرن سوم تا پایان ہشتم ہجری)»، ص268۔
- ↑ جعفریان، «مقدمہ»، نیل المرام فی مذہب الأئمۃ علیہم السلام، 1395شمسی، ص17؛ شورمیج، و رضایی، «چگونگی استقرار و تثبیت تشیع امامی در طبرستان (از قرن سوم تا پایان ہشتم ہجری)»، ص267۔
- ↑ شورمیج، و رضایی، «چگونگی استقرار و تثبیت تشیع امامی در طبرستان (از قرن سوم تا پایان ہشتم ہجری)»، ص267۔
- ↑ مرعشی، تاریخ طبرستان، مازندران، رویان، 1361شمسی، ص52؛ جعفریان، «مقدمہ»، نیل المرام فی مذہب الأئمۃ علیہم السلام، 1395شمسی، ص17؛ نعیمایی عالی، و وثوقی، «تأثیر اوضاع سیاسی و مذہبی مازندران و گیلان در سدہ نہم ہـ. ق بر کتیبہہای ملک کیومرث بادوسپانی، حاکم رویان و رستمدار»، ص100۔
- ↑ جعفریان، «مقدمہ»، نیل المرام فی مذہب الأئمۃ علیہم السلام، 1395شمسی، ص17۔
- ↑ یوسفی، صفر، «سیر تحولات شہر نور در بستر تاریخ»، پژوہشنامہ تاریخ، شمارہ 7، تابستان 1386شمسی، ص141۔
- ↑ یوسفی، صفر، «سیر تحولات شہر نور در بستر تاریخ»، پژوہشنامہ تاریخ، شمارہ 7، تابستان 1386شمسی، ص141۔
- ↑ جعفریان، «مقدمہ»، نیل المرام فی مذہب الأئمۃ علیہم السلام، 1395شمسی، ص29۔
- ↑ ستودہ، از آستارا تا استرآباد، 1355شمسی، ص187؛ جعفریان، «مقدمہ»، نیل المرام فی مذہب الأئمۃ علیہم السلام، 1395شمسی، ص29۔
- ↑ جعفریان، «مقدمہ»، نیل المرام فی مذہب الأئمۃ علیہم السلام، 1395شمسی، ص29۔
- ↑ جعفریان، «مقدمہ»، نیل المرام فی مذہب الأئمۃ علیہم السلام، 1395شمسی، ص32۔
- ↑ جعفریان، «مقدمہ»، نیل المرام فی مذہب الأئمۃ علیہم السلام، 1395شمسی، ص34۔
مآخذ
- رستمداری، عبدالرحیم بن معروف، نیل المرام فی مذہب الأئمۃ علیہم السلام، مقدمہ رسول جعفریان، قم، مورخ، 1395ہجری شمسی۔
- ستودہ، منوچہر، از آستارا تا استرآباد، تہران، انجمن آثار ملی، 1355ہجری شمسی۔
- شایان، عباس، مازندران: جغرافیای تاریخی و اقتصادی، تہران، چاپخانہ موسوی، 1336ہجری شمسی۔
- شورمیج، محمد، و رمضان رضایی، «چگونگی استقرار و تثبیت تشیع امامی در طبرستان (از قرن سوم تا پایان ہشتم ہجری)»، دوفصلنامہ ادیان و عرفان، شمارہ 2، مہر 1397ہجری شمسی۔
- گیلانی، شیخعلی، تاریخ مازندران، تصحیح منوچہر ستودہ، تہران، بنياد فرہنگ ايران، 1352ہجری شمسی۔
- مرعشی، ظہیرالدین بن نصیرالدین، تاریخ طبرستان، مازندران، رویان، با مقدمہ محمدجواد مشکور، بہ کوشش محمد حسین تسبیحی، تہران، مؤسسہ مطبوعاتى شرق، 1361ہجری شمسی۔
- نعیمایی عالی، امین، و محمدباقر وثوقی، «تأثیر اوضاع سیاسی و مذہبی مازندران و گیلان در سدہ نہم ہـ.ق بر کتیبہہای ملک کیومرث بادوسپانی، حاکم رویان و رستمدار»، دو فصلنامہ پژوہشہای علوم تاریخی، شمارہ 17، 1397ہجری شمسی۔
- یوسفی، صفر، «سیر تحولات شہر نور در بستر تاریخ»، فصلنامہ پژوہشنامہ تاریخ، شمارہ 7، تابستان 1386ہجری شمسی۔
- یوسفی، صفر، «سیر تحول دین و مذہب در مازندران»، فصلنامہ فقہ و تاریخ تمدن، شمارہ 2، تابستان 1387ہجری شمسی۔