صارف:Waziri/تختہ مشق 3

ویکی شیعہ سے

برصغیر کے امامیہ مفسرین کی فہرست

ذیل میں ہم مختلف زبانوں میں موجود برصغیر کے امامیہ مفسرین اور مترجمین کی فہرست پیش کی جاتی ہے:

نمبر شمار نام تاریخ وفات مقیم نام تألیف زبان تعداد جلد ملاحظات
1 محمد طاهر بن مهدی دکنی 952ھ دکن حاشیہ بر تفسیر بیضاوی اردو [1]
2 محمد بن احمد خواجگی شیرازی 988ھ تفسیر بحر العلوم فارسی [2]
3 مبارک شیخ ناگوری 1001ھ سندھ تفسیر منبع عیون المعانی مطلع شموس المثانی عربی 5 [3]
4 سید موسی شبیری زنجانی 1346ھ قم 12 سید کاظم حسینی حائری 1357ھ قم
5 عباس محفوظی 1347ھ قم 13 محمدعلی گرامی قمی 1357ھ قم
6 جعفر سبحانی تبریزی 1347ھ قم 14 سید علی خامنہ‌ای 1358ھ تہران
7 محمداسحاق فیاض 1348ھ نجف 15 بشیر حسین نجفی 1360ھ پاکستان نجف
8 سید علی حسینی سیستانی 1349ھ نجف 16 سید محمدتقی مدرسی 1364ھ کربلا
  1. مبارک شیخ ناگوری (متوفی: 1001ھ) آپ کے جد امجد یمن سے آکر نویں صدی ہجری میں سندھ میں مقیم ہوئے۔ آپ سنہ 911ھ کو ناگور میں پیدا ہوئے۔ 14 سال کی عمر میں علوم متداولہ میں سے ہر فن کا ایک ایک خط حفظ تھا. آپ نے عربی زبان میں تفسیر منبع عیون المعانی مطلع شموس المثانی لکھی جو 5 جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر کتب خانہ ممتاز العلماء جنت مآب لکھنؤ میں محفوظ ہے۔ ص 87-89
  2. ابوالفیض فیضی (متوفی: 1004ھ) آپ شیخ مبارک ناگروی کے سب سے بڑے فرزند تھے۔ سنہ 954ھ میں آگرہ میں متولد ہوئے اور وہی پر ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ مختلف علوم و فنون پر مہارت حاصل تھی۔ آپ تفسیر سواطع الالہام کے مصنف ہیں جو آپ کا شاندار علمی کارنامہ اور غیر منقوط تفسیر ہے۔ یہ تفسیر دو سال کی مدت میں مکمل ہوئی اور ایران اور ہندوستان میں اس کے مختلف ایڈیشن شایع ہو چکے‌ہیں۔ ص 92- 99
  3. ابوالفضل علّامی (متوفی: 1011ھ) آپ شیخ مبارک ناگوری کے دوسرے فرزند ہیں جنوری سنہ 958ھ کو آگرہ میں متولد ہوئے 15 سال کی عمر میں علوم عقلیہ ا ور نقلیہ سے فارغ هوئے۔ تفسیر اکبری آپ کی قرآنی تألیفات میں سے ہے جس میں آپ نے آیت الکرسی کی دقیق اور پر مغز تفسیر تحریر کی ہے۔ ص 100- 101
  4. نورالله شوشتری،‌ شہید ثالث (متوفی: 1019ھ) سنہ 974ھ کو مشہد میں متولد ہوئے۔ سنہ 991ھ کو اکبر بادشاہ کے دربار میں قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سنہ 1014ھ کو ابطال الباطل کے جواب میں احقاق الحق نامی معرکۃ الارائ کتاب تحریر کی۔ اکبر بادشاہ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے جہانگیر بادشاہ بنا جس نے آپ پر الزام تراشی کرتے ہوئے درباری علماء کے ذریعے آپ کے خلاف فتوا جاری کروایا اور جہانگیربادشاہ کے حکم پر بدترین ازیتیں پہنچانے کے بعد آپ کو سنہ 1019ھ کو شہید کر دیا گیا۔ آپ کی قرآنی تألیفات میں حاشیہ تفسیر بیضاوی انتہائی معلوماتی حاشیہ ہے جو دو جلدوں میں شایع ہوا. حاشیہ ثانی تفسیر بیضاوی مختصر عربی نسخہ کتب خانہ ناصریہ لکھنؤ میں محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ مختلف آیات کی تفسیریں جن میں انس الوحید فی تفسیر آیت العد و التوحید، تفسیر انما المشرکون عربی میں، سحاب المطر فی تفسیر آیت التطہیر عربی، رفع القدر فی تفسیر آیت شرح الصدر عربی میں۔ ص 102-106
  5. شریف الدین شوشتری (متوفی: 1020ھ) آپ قاضی نور الله شوشتری کے بڑے فرزند ہیں۔ سنہ 990ھ کو متولد ہوئے۔ 22 سال کی عمر میں اجتہاد کے‌ درجے پر پہنچے۔ آپ کی تألیفات میں حاشیہ تفسیر بیضاوی ایک علمی اور تحقیقی تفسیر ہے۔ ص107
  6. ابوالعالی سید (متوفی: 1046ھ) آپ قاضی نوراللہ کے چوتھے فرزند ہیں اور سنہ 1004ھ کو متولد ہوئے۔ تفسیر سورۃ الاخلاص آپ کی قرآنی تألیفات میں سے ہے جو ایک علمی اور تحقیقی تفسیر ہے جس میں توحید باری تعالی کو عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعے یوں بیان کیا ہے جو کسی دوسری کتاب میں ناپید‌ہے۔ص108-109
  7. عبد الحکیم ملا سیالکوٹی (متوفی: 1067ھ) آپ جامع معقول و منقول تھے اور جہانگیر بادشاہ کے دور میں سیالکوٹ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے۔ آپ نے تفسیر بیضاوی پر ایک علمی اور تحقیقی تفسیر تحریر کی جسے جہانگیر کے دربار میں پیش کیا گیا تو اسے بہت پسند کیا گیا۔ ص110-111
  8. حسین بن شہاب الدین العاملی (متوفی:‌1076ھ) سنہ 1014ھ میں متولد ہوئے۔ آپ عربی النسل تھے اور کچھ عرصہ ایران میں قیام کے بعد حیدر آباد دکن آگئے۔ قطب شاہ کے دربار میں آپ کو نمایاں مقام حاصل تھا۔ حاشیہ تفسیر بیضاوی آپ کی مشہور تفسیر ہے۔ ص113-114
  9. علاء الدولہ شوشتری (متوفی: 1080ھ) آپ قاضی نور اللہ شوشتری کے پانچویں فرزند ہیں اور تفسیر بیضاوی پر حاشیہ آپ کی قرآنی تألیفات میں سے ہے اس کے علاوہ شرح لمعہ اور مدارک پر حاشیہ اور دیوان اشعار بھی آپ کی تصنیفات میں‌ شامل ہے.ص115
  10. علی رضا تجلی (متوفی: 1085ھ) آپ آیت اللہ سید حسین خوانساری کے شاگرد اور ان سے اجازہ اجتہاد حاصل کیا۔ تفسیر قرآن مجید آپ کی علمی اور تحقیقی تصنیف ہے۔ ص 116-117

بارہویں صدی ہجری

  1. مرزا محمد علی نعمت خان عالی(متوفی: 1121ھ) حکیم فتح الدین شیرازی کے فرزند اور ہندوستان میں‌ 1050ھ کو متولد ہوئے۔ آپ علوم عقلیہ اور نقلیہ میں جامع شخصیت کے حامل تھے۔ تفسیر قرآن جلد 1 فارسی زبان میں قرآن کی تفسیر ہے جس میں سورہ نحل تک کی تفسیر درج ہے۔ ص121-123
  2. صفی الدین بن ولی قزوینی سنہ 1029ھ کو ایک علمی گھرانے میں کربلا میں متولد ہوئے۔ زیور علم سے آراستہ ہو کر ہندوستان آئے اور دہلی میں قیام پذیر ہوئے۔ زیب النسناء بنت اورنگزیب کی فرمائش پر تفسیر کبیر کا فارسی میں ترجمہ کیا جسے 8 سال کی مدت میں ختم کیا۔ ص124
  3. ابوالحسن تاناشاہ (متوفی: 1111ھ) حیدر آباد دکن میں چغتائی خاندان سے آپ کا تعلق تھا قطب شاہ کی بیٹی سےشادی کی اور قطب کی وفات کے بعد تخت نشین ہوئے اور ملک میں ایک اچھا نظام قائم کیا۔ علماء اور صالحین کی صحبت کا شوقین اور ہر وقت علمی بحث و مباحثے میں مشغول رہتا تھا۔ آپ کا علمی کارنامہ تفسیر کشاف پر عربی میں یادگار حاشیہ ہے جو مجیب الرحمن خان شیروانی کے کتابخانے میں محفوظ ہے۔ ص 125
  4. محمد سعید اشرف ملا مازندرانی (متوفی: 1116ھ) آپ ملا صالح مازندرانی کے صاحبزادے اور محمد تقی مجلسی کے نواسے تھے اور سنہ 1050ھ کو اصفهان میں متولد ہوئے۔ عالمگیر کے دور حکومت میں ہندوستان آکر ان کی بیٹی سے شادی کی۔ تفسیر قرآن کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے اور تفسیر طبری کا فارسی زبان میں ترجمه کیا ہے۔ ص128
  5. مرزا ارجمند (متوفی:1134ھ) آپ کا تعلق کشمیر سے تھا اور آپ کے والد عبد الغنی کشمیری اپنے عہد میں جلیل القدر شاعر اور ادیب تھے۔ مرزا عالم، فاضل، ادیب اور مفسر قرآن تھے۔ تفسیر سورہ یوسف آپ نے عالم شاہ کے عہد میں تحریر کی جو علمی نکات پر مشتمل تھی. یه تفسیر خانقاہ احمدی میں محفوظ ہے۔ ص129
  6. محمد کاظم (متوفی:1149ھ) آپ نے فارسی زبان میں قرآن کی تفسیر تحریر کی جس کا نام نخبۃ التفاسیر ہے۔ اس کا ایک نفیس نسخہ مصنف کی مہر کے ساتھ کتب خانہ دانش انارکلی لاہور میں محفوظ ہے۔ص131
  7. محمد علی حزین لاہیجی (متوفی:1180ھ) آپ بارہویں صدی ہجری کے اہم مفسرین میں سے تھے۔ سنہ 1103ھ کو اصفہان میں متولد ہوئے۔ قرآنیات پر گہری مہارت حاصل تھی انهوں نے تفسیر قرآن اور علوم قرآن سے متعلق کئی کتابیں تحریر کی ہیں۔ تفسیر شجرۃ الطور فی شرح آیت النور آٹھ صفحات پر مشتمل عربی تفسیر ہے، تفسیر سورۃ الاخلاص ا یک علمی تحقیقی تفسیر ہے، تفسیر سورہ‌حشر فارسی زبان میں، تفسیر سورہ دهر فارسی زبان میں ان کے علاوہ علوم قرآن سے متلعق تألیفات میں خواص السور و الآیات ، الناسخ المنسوخ فی القرآن، فضائل القرآن عربی میں، تجوید القرآن عربی میں۔ ص 134-135

تیرہویں صدی ہجری

  1. ذاکر علی جونپوری (متوفی: 1211ھ) آپ کا شمار تیرہویں صدی ہجری کے نامور مفسرین میں ہوتا ہے۔ آپ کا تعلق مفتی ابوالبقاء کے خاندان سے ہے۔ آپ نے قرآن مجید کی بعض آیات کی علمی تفسیر تحریر کی جس کا نام ذریعۃ المغفرت ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے کتاب شرائع الاسلام کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ص 139
  2. غلام مرتضی فیض آبادی (حیات در 1212ھ) آپ کا شمارعهد نواب آصف الدولہ کے ممتاز علماء میں ہوتا ہے۔ نواب آصف الدولہ کی فرمائش پر قرآن مجید کا منظوم ترجمہ کیا۔ ص 141
  3. احمد آقا بہبہانی (حیات در 1223ھ) آپ سنہ 1191ھ کو متولد ہوئے 6 سال کی عمر میں قرآن مجید اور ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ پندرہ سال کی عمر میں تصنیف اور تالیف کا کام شروع کیا اور سب سے پہلے فوائد صمدیہ پر حاشیہ لکھا. آپ نے بسم اللہ کی علمی اور تحقیقی تفسیر تحریر کی ہے جس کا نام تفسیر نورالانوار ہے۔ ص143
  4. نجف علی خان دہلوی (متولد 1240ھ) آپ کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا۔ آپ سو سے زائد کتابوں کے مولف ہیں جن میں سے اکثر عربی اور فارسی زبان میں ہیں۔ تفسیر غریب القرآن آپ کی تحریر ہے جو فارسی زبان میں ایک تحقیقی اور تاریخی تفسیر ہے۔ ص 144
  5. ابراہیم سید (طبع 1240ھ) آپ تیرہویں صدی کے ممتاز مترجمین قرآن میں سے ہیں۔ آپ مرزا ابو علی خان اصفہانی کے فرزند اور جامع معقول و منقول تھے۔ آپ نے نواب حامد علی خان صاحب والی رامپور کی فرمائش پر قرآن مجید کا ترجمہ کیا ہے جو پہلی بار سنہ 1240ھ میں مطبع مولوی محمد باقر ، بہلی سے شائع ہوا۔ ص145
  6. وزیر علی (تالیف 1250ھ) آپ نے تفسیر القرآن اردو زبان میں تحریر کی جس میں قرآن کے لغات کی تشریح کی ہے اس کا خطی نسخہ کتابخانہ آصفیہ حیدر آباد دکن میں موجود ہے۔ 330 صفحات پر مشتمل ہے اور ہر ورق میں 13 سطریں ہیں سنہ 1250ھ میں یہ تفسیر تألیف ہوئی اور سنہ 1273ھ میں شایع هوئی۔ ص146
  7. یاد علی نصیر آبادی (متوفی: 1253ھ) آپ تیرہویں صدی کے نامور مفسرین میں سے ہیں۔ آیت اللہ سید دلدار علی فغران مآب کے علمی و ادبی گھرانے سے آپ کا تعلق تھا۔ لکھنؤ رومی گیٹ میں آپ منقولات اور معقولات کا درس دیتے تھے جس میں بڑی تعداد میں شاگرد حاضر ہوتے تھے۔ آپ کا علمی کارنامہ تفسیر القرآن موسوم به منہج السداد فارسی زبان میں دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر علمی نکات کی حامل ہے۔ ص147-148
  8. صفدر علی رضوی دہلوی( متوفی: 1253ھ) آپ کا تعلق فیض آباد کے معزز خاندان سے تھا اور اپنے زمانے میں اہل علم و فضل میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ تفسیر احسن الحدائق سورہ یوسف کی تفسیر ہے جسے آپ نے فارسی زبان میں تحریر کی ہیں۔ یہ نسخہ علی اکبر مالک کارپٹ کراچی کے پاس محفوظ ہے ۔ یہ تفسیر محمد علی شاہ اودھ کی تخت نشینی کے سال بروز ہفتہ 4 ربیع الثانی 1253ھ کو فیض آباد میں تحریر کی گئی۔ سبد علی اکبر رضوی کا مملوکہ نسخہ 29 جمادی الثانی 1291ھ کا مخطوطہ ہے۔ یہ نسخہ بانکے پور میں محفوظ ہے.ص149
  9. علی، سید، بن غفران مآب(متوفی: 1259ھ) آپ آیت اللہ سید دلدار علی غفران مآب کے فرزند تھے اور 18 شوال سنہ 1200ھ کو لکھنؤ میں متولد ہوئے۔ آپ نے اردو زبان میں قرآن مجید کی تفسیر لکھی جس کا نام تفسیر توضیح المجید فی کلام الله الحمید ہے۔ یہ تفسیر 1253ھ میں ثریا جاہ امجد علی شاہ کی فرمائش پر تحریر کی جو اپنی مخصوص سنعت کے سبب تفسیر زبر و بینہ کے نام سے بھی معروف ہے۔ یہ تفسیر 7 جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر 1257ھ کو شائع ہوئی۔ شوق رکھتا تھا اور علمی شاہکار تفسیر قرآن ہے جس کا نام خلاصۃ التفاسیر ہے۔ یہ تفسیر عربی زبان میں ایک معلوماتی
  10. محمد حسین (کتابت: 1259ھ) آپ منقول و معقول میں جید علماء میں سے تھے، تألیف کا بہت تفیسر ہے اس کا دوسرا حصہ کتابخانہ ناصریہ لکھنؤ میں موجود ہے جو 284 صفحات پر مشتمل ہے۔ ص158
  11. محمد قلی، مفتی کنتوری(متوفی:1260)، آپ سنہ 1188ھ کو متولد ہوئے۔ مدتوں میرٹھ میں منصب عدالت پر فائز رہے اسی لئے آپ مفتی کنتوری کے نام سے معروف ہے۔ عدالت علویہ نامی کتاب آپ کی تصنیف ہے۔ تفسیر تقریب الافہام در تفسیر آیات الاحکام فارسی زبان میں آپ کی دقیق علمی تفسیر ہے. ص 160-163
  12. نجف علی نونہروی (متوفی:1261ھ) آپ نے قرآن کی تفسیر تحریر کی اس کے علاوه تفسیر مجمع البیان پر انتہائی اہم حاشیہ بھی تحریر کیا تھا۔ص 164-165
  13. سید حسین سید العلماء (متوفی: 1273ھ) آپ آیت اللہ سید دلدار علی کے علمی گھرانے میں سنہ 1211ھ کو متولد ہوئے۔ 17 سال کی عمر میں تجزی فی ا لاجتہاد پر تحقیقی رسالہ لکھا آپ نے سورہ فاتحہ، بقرہ، ہل اتی، توحید ا ور آیہ وکذالک جعلناکم امۃ وسطا کی تفسیر تحریر کی ہے۔ ص166-170
  14. امداد علی لکھنؤ (متوفی:1274ھ) آپ کاشمار اردو کے صف اول کے مترجمین قرآن میں ہوتا ہے آپ نے قرآن کا ترجمه کیا جس کا نام ثابت نامہ نو طرز رکھا جو کوئی بار آگرہ اور لکھنؤ سے شایع ہوا ہے۔ ص172-173
  15. محمد باقر دہلوی (متوفی: 1274ھ) آپ سنہ 1205ھ کو متولد ہوئے۔ دہلی میں عزاداری اور دینی سرگرمیوں کو تیز کیا اور عزاخانہ اور مسجد تعمیر کرائی۔ آپ نے مذہبی اخبار بھی نکالا جو اردو صحافت کا پہلا نقیب شمار ہوتا هے۔ تفسیر آیت تطہیر ، آیت انک لعلی خلق عظیم آپ کی قرآنی علمی آثار میں سے ہے۔ ص174- 175
  16. رجب علی ارسطو جاه: تفسیر کشف ا لغطا تفسیر هل اتی فارسی زبان میں 65 صفحات پر مشتمل ہے، اسی طرح سر اکبر تفسیر سورہ والفجر بھی فارسی میں ہے ص177
  17. حیدر رضا ترجمہ قرآن معه حواشی جو کہ 1288ھ میں شایع ہوا ص180
  18. سید محمد تقی ممتاز العلماء (متوفی: 1289ھ) آپ کا علمی کارنامہ ینابیع الانوار فی تفسیر کلام الله الجبار ہے جو که عربی زبان میں تحریر کی گئی ہے ۔ چار حصوں پر مشتمل ہے پہلی جلد میں سورہ حمد اور پہلے پارے کی تفسیر، دوسری جلد میں دوسرے پارے کی تفسیر، تسیری جلد میں تیسرے پارے کی تفسیر ااور چوتھی جلد میں چوتھے پارے کی تفسیر رقم کی ہے. ص184
  19. محمد مرزا اخباری (متوفی: 1289) تیرھویں صدی کے مفسرین اور مقررین میں سے تھے ۔ نواب واجد علی شاه کے معتمد خاص تھے، علمی کارنامه تفسیر قرآن جامعیت کی حامل علمی نکات اور تحقیقی مباحث پر مشتمل ہے۔ سورہ حمد سے آیت 281 سوره بقره کی تفسیر ہے یه تفسیر کتب خانه مرحوم محدث ارموی تهرانی میں محفوظ هے۔ ص 192
  20. راجه امدان علی خان (متوفی: 1292) عقائد و کلام، فلسفه و منطق اور ادبیات عرب پر غیر معمولی دسترس تھی۔ علمی کارنامه تفسیر منهج السداد جس میں مختلف علوم کے ذریعے قرآن کی تفسیر قلم بند کی گئی ہے۔ تفسیر سوره یوسف علمی شاہکار هے جس میں بغیر نقطہ کے تفسیر کی گئی ہے.ص 195
  21. بنده حسین (متوفی: 1296) مترجم قرآن کی ولادت لکھنو میں ہوئی، اپنے والد کی طرف سے اجتهاد کی اجازت دریافت کی۔ علمی کارنامه ترجمه قرآن با حواشی۔ ص 197
  22. حیدر علی نواب احمد علی خان بهادر کے دور میں فارسی میں تفسیر لکھی عجائب التفسیر و غرائب التنزیل اس کا خطی نسخه رضا لائبریری رامپور میں محفظوذ ہے۔ ص200
  23. مترجم نامعلوم ترجمه قرآن بمعه حواشی سروق پر 1297 درج هے اس کا نسخه مولانا مسرور حسن کے کتب خانے مبارک پور اعظم گڑھ میں محفوظ ہے ۔ ص201

چودھویں صدی ہجری

  1. محمد عباس شوشتری( متوفی: 1306ھ) آپ نے چھ تفسیریں قلمبند کی ہیں

تفسیر روائح ا لقرآن فی فضائل امناء الرحمان : عربی زبان میں یه تفسیر سنہ 1278ھ میں مطبع جعفری لکھنو سے شائع هوئی جو کہ 456 صفحات پر مشتمل ہے اس میں‌حضرت علی کی شان میں نازل ہونے والی آیات میں سے 131 آیات کی تفسیر کی گئی ہے. ص205 تفسیر سوره رحمان علمی و ادبی تفسیر ، تفسیر سوره ق تحقیقی تفسیر دقیق و فنی مطالب پر مشتمل ہے تفمسیر آیت سیجنبہ الاتقی کی تفسیر عربی مخطوطه تفسیر انوار یوسفیہ خطی عربی زبان میں سوره یوسف کی تفسیر حسنا عالیه المهر فی تفسیر سوره الدهر خطی فارسی میں سوره دهر کی تفسیر حواشی قرآن عربی زبان میں معلوماتی حاشیه ہے

  1. محمد ابراہیم (متوفی: 1307ھ) سنہ 1259ھ میں لکھنو میں پیدا ہوئے۔ سنہ 1889ء میں خلیفۃ بلافصل کا مقدمہ جیت لیا علمی کارنامه تفسیر ظل ممدود سوره یوسف کی تفسیر جس میں کلامی مباحث موجود ہیں ص 214
  2. احمد نذر امروهی (متوفی: 1310ھ) تفسیر انتخاب روح الجنان خلاصه تفسیر روح الجنان و روض الجنان ہے فارسی زبان میں ۔ ص218
  3. علی محمد تاج العلما‌(متوفی: 1312ھ) لکھنو ترجمه قرآن یه ترجمه بغیر متن عربی دو جلدوں میں سنہ 1304ھ کو لکھنو میں شائع ہوا ، در بی بها تفسیر سوره دهر یه تفسیر سنه 1310ھ میں دہلی سے شائع هوئی، تفسیر احسن القصص یه عربی زبان میں سوره یوسف کی تفسیر ہے ۔ص 219
  4. ناصر حسین جونپوری(متوفی: 1313ھ) ایجاز التحریر در آیه تطهیر مطبوعه ص224
  5. محمد حسین قلی خان کانپور (متوفی: 1320ھ) اهم مترجم قرآن اردو زبان میں جوکہ سنہ 1302ھ کو لکھنو سے شائع ہواص 227
  6. مظاهر حسین فرقانی امروهی (ولادت:1322ھ) ترجمہ تفسیر آصفی ص 229
  7. ابوالقاسم حائری (متوفی: 1324ھ) مفسر قرآن ، تفسیر لوامع التنزیل برصغیر کی علمی تحقیقی اور کلامی تفسیر ہے جو کہ ماه رجب سنہ 1313ھ کو مکمل هوئی فارسی زبان میں هر پارے کی الگ الگ تفسیر ہے۔ باره جلدوں کے بعد آپ کی وفات ہوئی پھر آپ کے فرزند مولانا سید علی حائری نے اسے 27 جلدوں تک پہنچایا۔ یه تفسیر سنہ 1325ھ کو لاہور میں شائع‌ ہوئی۔ ص 232
  8. محمد حسن زنگی پور(متوفی: 1325ھ) مفسر، تفسیر مصباح البیان فی تفسیر سورۃ الرحمان عربی میں ص 237
  9. محمد حسین بحر العلوم، علّن( متوفی: 1325ھ) تفسیر تنویر البیان فی تفسیر القرآن تین جلدوں پر مشتمل ہے جو سنہ 1312ھ میں شائی ہوئی اس کے علاوہ تفسیر خلاصۃ المنهج کاشانی کا ترجمہ بھی کیا ہے ص241
  10. آل محمد امروہی (متوفی:1325ھ) مفسر قرآن کی بعض ایات کی علمی تحقیقی اورادبی تفسیر کی ہے ص244
  11. علی اکبر (متوفی: 1327ھ) تفسیر سوره یوسف، ص246
  12. شیخ محمد اصفہانی (متوفی: 1328ھ) مترجم قرآن به زبان گجراتی پہلا ایڈیشن سنہ 1328ھ اور دوسرا ایڈیشن سنہ 1346ھ کو شائع ہوا ص247
  13. احمد حسین امروہی (متوفی: 1328ھ) تفسیر اعظم المطالب فی ایات المناقب جس میں قرآنی کی ان آیات کی تفسیر کی ہے جو اهل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہیں ص 248
  14. علی بیگ قزلباش میرزا دہلوی (طبع 1330ھ) آیات جلی فی شان علی میں 400 قرآنی آیات جو حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی کی تفسیر کی جو کہ سنہ 1330 میں شائع هوئی ص251
  15. محمد علی طبسی حیدر آبادی (متوفی: 1331ھ) تفسیر آیہ نور ص252
  16. زوار حسین سہانپوری (طبع:‌1333ھ) قانون قدرت نامی کتاب میں بعض اخلاقی آیات کی تفسیر ص 254
  17. حافظ فرمان علی (1294- 1334ھ) چودھویں صدی کے مشہور مترجم قرآن پانچ ماه کی مختصر مدت میں قرآن حفظ کیا سنہ 1326 ھ کو ترجمه قرآن کا آغاز کیا اور دو سال کی مدت میں مکمل کر لیا. ص255
  18. بهادر علی شاه(متوفی:1335ھ) سوره یوسف کی کامل تفسیرص 260
  19. غلم حسنین کنتوری(متوفی: 1337ھ) تفسیر ایہ انما محققانہ اور فلسفی انداز میں ص 262
  20. محمد حسنین محقق ہندی (متولفی 1337ھ) تفسیر اتقان البرہان آیہ معراج کی تفسیر جو لکھنو میں شائع ہوئی ص265
  21. اولاد حسن امورہی (متوفی:1338ھ) تفسیر انوار القرآن اور چار پاروں کا ترجمہ کیا ص 268
  22. محمد هارون زنگی پور (1339ھ) امامت القرآن: میں امامت کے موضوع پر نازل ہونے والی آیات، توحید القرآن میں توحید سے متعلق آیات اور خلاصۃ التفاسیر: عربی میں تحریر کی ہیں علوم القرآن جس میں مختلف علوم سے متعلق آیات کی تفسیر کی گئی هے ص 272
  23. مقبول احمد دہلوی(1287-1340ھ) چودھویں صدی کے اهم مترجمین قرآن میں سے ‌هیں قرآن کا ترجمه معه حاشیہ جو سنہ 1331ھ کو دہلی میں شائع ہوا، مفتاح القرآن میں آیات متشابہات کی تفسیر اور تفسیر بالرائے کی ممانعت اور سورں کے خواص ص 278
  24. اعجاز حسن امروہی (1340ھ) تفسیر الآیات فارسی زبان میں ایک موضوعی تفسیر ہے، تفسیر آیت لاینال عهدی الظالمین فارسی زبان میں ص281
  25. محمد تقی (متوفی:1341ھ) سورہ حمد کی تفسیر دو جلدوں پر مشتمل ، سورہ‌ یوسف 552 صفاحات پر مشتمل اور تفسیر آیات فضائل چار جلدوں پر مشتمل تفسیر ہے ص285
  26. عبد العلوی ہروی (متوفی: 1321ھ) امین الدولہ کے مشورے سے تفسیر روائی لکھنا شروع کیا لیکن مکمل نہ کر سکا، سورہ کہف کی تفسیر اور آیه انا کل شی خلقنا بقدر کی فلسفیانہ تفسیر ہےص 287
  27. سید حسین بلگرامی (1260-1344ھ) چودھویں صدی کے نامور انگریزی مترجم قرآن ہیں۔ ص289
  28. ڈاکٹر زیرک حسین امروہی (1288-1345ھ) مترجم قرآن یه ترجمہ سنہ 1331ھ کو دہلی میں شائع هوا حاشیہ پر ہر آیت کے خواص و فوائد درج ہیں۔ ص 290
  29. محمد رضا لاہرپوری (متوفی:1346ھ) تین سپاروں کی تفسیر اس دور کی ضرورت کو پیش نظر رکھ کر لکھی ہے۔ ص294
  30. آقا حسن(متوفی: 1348ھ) ذیل البیان فی تفسیر قرآن، یه تفسیر اخبار الناطق میں قسطوار شائع هوئی اور تاریخی اور روائی تفسیر ہےص295۔
  31. ذاکر حسین بارہوی (متوفی:1349ھ) آپ نے قرآن مجید پر عربی میں حاشیہ لکھا جس میں آیات کے اسرار و رموز کو واضح کیا ہے۔ ص297
  32. محمد اعجاز حسن بدایوانی(متوفی: 1350ھ) آیت مباہلہ کی تفسیر برہان المجادلہ فی تفسیر آیۃ المباہلہ تحریر کی ص 298
  33. غضنفر علی بی اے (طبع :1351ھ) پارہ اول کی منظوم تفسیر لکھی جو سنہ 1351ھ کو شائع هوئی۔ص301
  34. خواجه فیاض حسین(متوفی: 1351ھ) قرآن کی 14 سوروں کا ترجمہ کیا جو اسلامی صحیفہ کے نام سے شائع هوا ص302
  35. مرتضی حسین حکیم (طبع: 1351ھ) آیه اکمال کی تفسیر التکمیل کے نام سے لکھی ہے جو سنہ 1351ھ کو شائع ہوئی۔ ص304
  36. یوسف حسین امروہی (متوفی:1352ھ) تفسیر یوسفی تیسویں پارے کی علمی ادبی، تاریخی، اور تحقیقی تفسیر جو سنہ 1344 ھ کو شائع ہوئی ص307

پندرہویں صدی ہجری

  1. احمد علی میر (ایم اے) انگیریزی ترجمہ قرآن سنہ 1384ھ میں شایع ہوا اس میں ترجمہ کے ساتھ مختصر تفسیر بھی درج ہے۔ ص389
  2. حسین بخش جاڑا آپ سنہ 1920ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں متولد ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے عربی فاضل کی سند لی اس کے بعد متعدد مدارس میں تدریس کی ہیں۔ آپ کا علمی شاہکار قرآن کی تفسیر ہے جو چودہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر شنه 1388 میں شائع ہوئی ہے۔ ص 390
  3. مجاور حسین رضوی پندرہویں صدی ہجری کے نامور مترجمین میں سے تھے۔ آپ کا ترجمہ قرآن 12 شعبان سنہ 1392ھ کو کراچی سے شایع ہوا۔ عام فہم، عصری تقاضوں سے ہماہنگ اس ترجمے کے حاشیے میں آیات کی شان نزول مربوطہ واقعات اور مصادیق کی بھی نشاندہی کر دی گئی ہے۔ علمی نکات اور اسرار ایات کو انتہائی ماہرانہ انداز میں رقم کیا ہے. تفسیر میں علماء کے اختلاف کا حل اور ہر پارے کے شروع میں اس کا خلاصہ اور قرآن کے آخر میں تعارف اور حقائق قرآن کے عنوان سے اہم موضوعات پر تحقیقی بحث چودہ لمعات پر مشتمل ہے جن میں توحید، نبوت، حفاظت قرآن من جانب الله، سورہ کی غلط تفسیراور اس کی تصحیح، عبس و تولی کی تفسیر، قرآن میں تقدیر کا مفہوم، معراج رسول کا جسمانی اور روحانی ہونا وغیرہ. ص392
  4. محمد حسن صلاح الدین نجفی، آپ کا تعلق بلتستان سے ہے۔ 1964ء میں اعلی تعلیم کے لئے نجف چلے گئے۔ واپسی پر دانشگاہ اہل بیت اسلام آباد میں تدریس کے فرائض میں مشغول ہوئے۔ فقہ، اصول، حدیث اور تفسیر میں اعلی صلاحیت کے حامل تھے۔ آپ کا علمی کارنامہ تفسیر قرآن ہے۔ ص394
  5. محمد حبیب الثقلین امروهوی، تلخیص و ترجمه تفسیر مجمع البیان ص396
  6. سید محمد صادق، آپ کی ولادت سنہ 1333ھ کو ہوئی۔ آپ کا علمی و ادبی شاہکار ترجمہ قران ہے جو سنہ 1965ء کو لکھنؤ سے شائع هوا۔ تفسیر مآخذ سے ہماهنگی، ادبی چاشنی، مذہبی عقاید و نظریات سے ہماہنگ، حاشیہ میں عصری مسائل پر بحث، شبہات کا جواب، روایات اور احادیث کے مابع کا ذکر کرنا اس ترجمے کے اہم خصوصیات میں سے ہے؟ ص 398- 399
  7. ملک محمد شریف، تفسیر فرات کوفی کا ترجمہ کیا ص 403-404
  8. فیروز حسین قریشی، دو پاروں کی تفسیر کی تفسیر مجمع البرہان فی تفسیر القرآن کے نام سے شایع هوئی۔ ص406
  9. سید مہدی رضوی(متوفی:1406ھ) آپ کی تصنیفات کی تعداد 279 بتائی گئی ہے جن میں بسم الله کی تفسیر، سورہ فاتحہ کی تفسیر، تعلیقات تفسیر رضوی، مانزل فی اهل بیت فی القرآن، تعلیمات قرآن و تفسیر اهلبیت مشہور ہے۔ص407
  10. مرتضی حسین فاضل لکھنؤ (متوفی: 1407ھ) سنہ 1341ھ کو متولد ہوئے مدرسہ ناظمیہ سے ممتاز الفاضل کی سند لی، آپ کی تفسیر اردو میں ہے جو مجلہ توحید تہران سے سنہ 1404ھ سے شایع ہوتی رہی ہے، عصری تقاضوں کے رہنما اشاروں کو ساده زبان میں بیان کیا ہے۔ ص410
  11. قائم رضا نسیم امروہوی (متوفی: 1407ھ) تفسیر صافی کے خلاصے اور تیسویں پارے کا ترجمه ص417
  12. علی نقی نقوی سید العلماء (متوفی: 1408ھ) سنہ 1326ھ کو لکھنؤ میں متولد ہوئے۔ سنہ 1345ھ کو اعلی تعلیم کے لئے عراق چلے گئے اور وہاں کے بزرگ علمآئ سے استفاده کیا، نجف میں قیام کے دوران کئی کتابیں تحریر کی ہیں، قرآن کی سات جلدوں پر مشتمل تفسیر کی ہے اور سنہ 1375ھ کو کشمیر اور لکھنؤ میں شائع هوئی۔ قرآن کی کامل تفسیر جس میں شان نزول، اسباب نزول، اور آیات کے مصادیق کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ہر پارے میں سورہ کے مشملات کو بطور خلاصہ پیش کیا ہے۔ قرآن پر کئے گئے قدیم اعتراضات کا جواب، ضعیف روایات سے اجتناب، مشکوک معانی کی وضاحت، کے علاوہ مختلف اہم موضوعات پر آیات و روایات کی روشنی میں وضاحت، تفسیر کامقدمہ انتہائی معلوماتی مقدمه ہے.ص 418-421
  13. پروفیسر کرار حسین (متوفی:1420ھ) سورہ تین کی تفسیر جوکہ سنہ 1987ء کو کراچی سے شائع هوئی ص424
  14. سید ظفر حسن امروہوی (متوفی: 1410ھ) آپ سنہ 1309ھ کو امروہیہ میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایل سی کا امتحان پاس کیا۔ فارسی، اردو، عربی اور انگیریزی زبان پر عبور حاصل تھا۔ آپ کی تالیفات میں تفسیر القرآن اہمیت کا حامل ہے جو 5 جلدوں پر مشتمل ہے اور ہر جلد میں 6 پاروں کی تفسیر کی گئی ہے۔ پہلی جلد 1977ء میں دوسری جلد 1978ء میں، تیسیری جلد 1981ء میں اور چوتھی اور پانچویں جلد بھی شایع ہوئی ہیں۔ ص 425-439
  15. صفدر حسین نجفی (متوفی:1410ھ) پندرہویں صدی کے ممتاز مفسرو مترجم قرآن ہیں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ آپ سنہ 1352ھ کو علی پور ضلع مظفر گڑھ میں پیدا ہوئے۔ اعلی تعلیم نجف اشرف سے حاصل کیا۔ آپ کی اہم تالیفات میں ترجمه و حاشیہ قرآن کریم، تفسیر نمونہ کا ترجمہ، تفسیر منشور جاوید کا ترجمہ ہے۔ ص430-434
  16. ریاض حسین قدوسی ، تفسیر سورہ یاسین کا ترجمه به عنوان قلب قرآن ترجمه کیا۔ ص437
  17. محمد یوسف حسین آبادی، بلتستان کی معتبر ادبی اور سماجی شخصیت ہیں۔ آپ کا اہم کارنامہ قرآن کا بلتی زبان میں ترجمه ہے۔ ص438
  18. ایم ایچ شاکر آپ کا علمی کارنامه قرآن کا انگریزی میں ترجمه ہے. ص441
  19. قیصر عباس آپ کا کارنامہ تفسیر پیام قرآن کا اردو میں ترجمه ہے. ص442
  20. علامہ طالب جوہری، آپ مشهور خطیب ہیں آپ سنہ 1358ھ کو ہندوستان میں پیدا ہوئے، کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے کیا۔ عراق میں آیت اللہ خوئی، آیت اللہ باقر الصدر اور امام خمینی سے کسب فیض کیا۔ آپ کا اہم علمی کارنامہ تفسیراحسن الحدیث ہے جو دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ ص443
  21. محمد رضی سنه 1332ھ کو پیدا ہوئے۔ اعلی تعلیم لکھنؤ سے حاصل کیا۔ دنیا کے مختلف ممالک میں تبلیغی دورے کئے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے آپ کو ستاره امتیاز ملا۔ ریڈیو پاکستان پر آپ قرآن کا درس دیتے تھے۔ آپ کے 268 قرآنی دروس تفسیر کی شکل میں دو جلدوں‌ میں شایع ہوئی۔ ص445
  22. سردار نقوی امروہی (متوفی: 1421ھ) 21 مارچ سنہ 1941ء کو پیدا ہوئے. کراچی یونیورسٹی سے ایم ایس سی پاس کیا۔ مختلف حکومتی عہدوں پر فائز رہے، عصری علوم کے ساتھ ساتھ قرآنیات پر بھی گہری نظر تھی مختلف سورتوں کی تفسیر آپ کا علمی کارنامه ہے۔ ص447
  23. ذیشان حیدر جوادی، (متوفی:1421ھ) آپ پندرہویں‌صدی کے‌مشہور مترجم قرآن ہیں سنہ 1357ھ کو پیدا ہوئے۔ لکھنو سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اعلی تعلیم کے‌لئے نجف اشرف چلے گئے وہاں سے آیت الله خوئی، محسن حکیم سے کسب فیض کیا۔ ہندوستان میں‌ مدرسه انوار العلوم قائم کیا۔ کثیر التصانیف شخصیات میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ آپ کی تصانیف میں ترجمه قرآن کریم بعنوان انوار القرآن مشہور ہے یہ ترجمه 1407ھ کو شایع ہوا۔ یہ ترجمہ مختصر تفسیر کے ساتھ عصری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ترجمه کیاگیا ہے۔ص451
  24. سعید اختر گوپالپوری(متوفی: 1423) آپ کا سب سے اہم کارنامہ تفسیر المیزان کا انگریزی میں ترجمه ہے یہ تفسیر 9 جلدوں میں سازمان تبلیغات اسلامی نے شایع کیا ہے۔ ص456
  25. محسن علی نجفی (متوفی: 2024ء) آپ کا شمار پندرہویں صدی کے نامور مفسر اور مترجمین میں ہوتا ہے۔ سنہ 1360ھ کو بلتستان کے سیاحتی مقام منٹھوکھہ میں پیدا ہوئے۔ اعلی تعلیم نجف اشرف سے حاصل کیا۔ پاکستان میں مختلف تعلیمی اور فلاحی ادارے قائم کئے جن میں جامعه الکوثر اور اسوه ایجوکیشن سسٹم قابل ذکر ہیں. قرآنیات میں آپ کا اہم کارنامہ الکوثر فی تفسیر القرآن ہے جو سنه 1426ھ کو شائع ہوئی۔ تفسیر سے پہلے آپ نے قرآن کا ترجمه کیا جو سنه 1422ھ کو شائع ہوا۔ ص459
  26. نیاز حسین نقوی کا اہم کارنامہ انوار القرآن فی تفسیر المصحف ہے جو آپ کی زیر نگرانی محققین کی ایک جماعت نے تحریر کی ہے یہ تفسیسر سنہ 1426ھ کو شائع ہوئی ہے۔ ص462
  27. پروفیسر حسین سحر آپ کا علمی اور ادبی کارنامہ قرآن مجید کا ترجمه ہے ص464
  28. مصطفی حسین انصاری آپ نے کشمیری زبان میں تفسیر کشف الانیق فی شرح قانون العمیق تحریر کی ہے اس کے‌علاوه تفسیر منہاج القرآن آپ نے اردو میں تحریر کی ہےص465
  29. قاری امان الله کربلائی آپ نے سندھی زبان میں قرآن کا ترجمہ جو سنہ 2006ء میں شائع هوا ص459
  30. ابن حسن کربلائی آپ کا اہم کارنامہ تفسیر منہج البیان فی تفسیر القرآن ہے یہ تفسیر عربی زبان میں ہے جو سنہ 1406ء کو کراچی میں شائع هوئی ہے یہ تفسیر سورہ حمد اور سوه بقره کی عام فہم تفسیر ہے۔ص 470
  31. محمد محسن پیندرہویں صدی کے نامور مترجم آپ کا عظیم کارنامہ قرآن کا منظوم ترجمه ہے۔ یہ ترجمه نظامی پریس لکھنو سے سنہ 1986ء کو شائع هواص 472
  32. مسرور حسن مبارکپوری آپ کا اہم کارنامہ مجید البیان فی تفسیر القرآن ہے جس کی پہلی جلد تکمیل ہوئی تھی جو 624 صفحات پر مشتمل سنہ 1429ھ کو شایع ہوئی ص476
  33. محمد شاکر نقوی امروهی (ولادت:1347ھ) آپ کا علمی کارنامہ تفسیر کلینی ہے جو سنہ 1430ھ میں عربی زبان میں لکھی گئی جس میں کتاب الکافی میں مستعمل آیات کی تفیسر روائی کی ہے جس میں چھ سو سے زائد آیات ہیں ص 479
  34. جعفر حسین استرزئی قرآن کا پشتو میں منظوم ترجمہ آپ کا علمی کارنامہ ہے جو پشاور پاکستان سے شائع هوا ہے۔ ص484
  35. شمیم الحسن قرآن مجید کا منظوم اردو ترجمہ ص485
  36. سید محمد زکی قرآن کی 20 سوروں کا ترجمہ کیا ہے ص486
  37. محمد اسحاق نجفی نے آیه نجوی کی تفسیر "تحقیق آیه نجوی" کے عنوان سے کی ہے ص487
  38. محمد فضل حق سوره حمد کی تفسیر البیان کے نام سے لکھی ہے ص788
  39. طیب آقا جزائری لکھنؤ(ولادت : 1347ھ) التعلیقات علی تفسیر القمی یه حاشیہ تفسیر قمی کے ساتھ قم میں شائع ہوا ہے ص491
  40. محمد حسن امروهی(ولادت: 1356ھ) قرآن کا اردو زبان میں ترجمہ اور 30 جلدوں پر مشتمل خلاصۃ التفسیر جس میں تمام اہم مکاتب فکر کی نمائنده تفاسیر کا خلاصه بیان کیا ہ.ص492
  41. بشیر حسین نجفی (ولادت: 1947ء) تفسیر آیات الاحکام جو نجف اشرف سے شائع ہوئی ہے۔ ص495
  42. رضی جعفر نقوی (ولادت: 1947ء) قرآن کا اردو زبان میں ترجمه اور حاشیہ. ص 498
  43. تلمیذ حسنین رضوی (ولادت: 1941ء) تفسیر الصافی کا اردو ترجمه۔ ص501
  44. علی قلی قرئی قرآن کا انگریزی میں ترجمہ کیا جو که قم انصاریان سے شائع هوا آپ حیدرآباد دکن سے ہیں۔ ص503
  45. شاهد حسین میثم (ولادت: 1389ھ) تفسیر آیات مشکلہ آپ کا علمی کارنامه ہے یہ تفسیر سوال جواب کی شکل میں تحریر کی گئی ہے۔ ص504
  46. پروفیسر علی محمد نقوی انگریزی مفسرین میں شمار ہوتا ہے ایران کی وزارت تعلیم نے نصابی کتب بورڈ میں نامزد کیا۔ آپ کی کتاب اسلامی اعتقاد کا نصاب لندن سے شائع ہوئی۔ مگم اوپس Magmumopus انگریزی زبان میں قرآن کی جامع تفسیر ہے یہ‌ تفسیر 31 جلدوں میں مرتب کرنے کا امکان هے اسوقت دو جلدیں شائع ہوئی ہیں. ص 507
  47. ڈاکٹر رضا حسین آیات محکم کا ترجمہ اور تفسیر آپ کے علمی کارناموں‌ میں سے ہے۔ ص510
  48. نثار احمد زین پوری تفسیر تسنیم کا اردو میں ترجمہ کیا ص 511
  49. رئیس احمد جارچوی ماہنامه ناصر کا اجراء اور اس میں قرآن کی تفسیر قسط وار شائع ہو رهی ہے اور اب تک سورہ بقرہ کی تفسیر شائع ہوئی ہے۔ ص515
  50. ولی الحسن رضوی ریڈیو تہران سے وابستہ ہیں اور ماہنامه الجواد میں آپ کی تفسیر قسطوار شائع ہو رهی ہے اس کے‌ علاوہ سورہ یوسف ارو سورہ قصص کی تفسیر شائع هو چکی ہے ص518

حوزہ علمیہ جامعتہ المنتظر لاہور

جامعتہ المنتظر لاہور پاکستان کے شہر لاہور میں واقع شیعہ دینی درسگاہ ہے جس کی بنیاد سنہ 1954ء میں رکھی گئی۔ سنہ 1965ء میں جامعتہ المنتظر ٹرسٹ تشکیل پائی۔ 1969ء میں سید محمد حسین نقوی، شیخ غلام حسین اور محمد عباس مرزا کی کاوشوں سے حسینی ٹرسٹ ماڈل ٹاؤن نے ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن میں 21 کنال سے زائد رقبہ جامعتہ المنتظر کے لئے وقف کیا۔ اس طرح دونوں ٹرسٹ کے باہمی انضمام سے خدمت دین و تعلیمات اہلبیت کی نشر و اشاعت کے لئے یکجا ہو گئے۔

تاسیس

حوزہ علمیہ جامعتہ المنتظر کی تاسیس 1954ء میں ہوئی ۔ سنہ 1956 ء میں یہ ادارہ باقاعدہ رجسٹرڈ کرایا گیا۔ سنہ 1965ء میں جامعتہ المنتظر ٹرسٹ تشکیل پائی۔ سنہ 1969ء کو خان بہادر سید محمد حسین نقوی، حاجی غلام حسین اور محمد عباس مرزا کی کاوشوں سے حسینی ٹرسٹ ماڈل ٹاؤن نے ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن میں 21 کنال سے زائد رقبہ جامعتہ المنتظر کے لئے وقف کیا اس طرح دونوں ٹرسٹ کے باہمی انضمام سے موجودہ ادارہ جامعہ المنتظر وجود میں آگیا۔[4]

بانی

علی مسجد

علی مسجد جامعہ المنتظر کے اندر واقع ہے جس میں چہاردہ معصومین علیھم السلام کے ایام کی مناسبت سے مجالس عزا اور محافل میلاد کے ساتھ دیگر قومی اور مذہبی اجتماعات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ نماز جمعہ، نماز عیدین اور ایام عزاداری میں شریک ہونے والے افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اگست 2000ء میں توسیع کی گئی اور سنہ 2004 ء میں مسجد کا ہال بھی دو منزلہ کر دیا گیا، اس کے بعد بیک وقت کئی ہزار افراد کے نماز ادا کرنے اور بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ اس مسجد میں نماز جمعہ اور اعتکاف وغیرہ کے لئے خواتین بھی شرکت کرتی ہیں۔ جامعہ ھذا کے طلباء مسجد میں مطالعہ اور مباحثہ بھی کرتے ہیں۔

المنتظر لائبریری

جامعة المنتظر لاہو میں "المنتظر لائبریری" کے نام سے ایک لائیبریری بھی ہے۔ لائیبریری کا ہال جامعہ ھذا میں واقع علی مسجد کی چھت کے ساتھ بالائی منز ل پر واقع ہے ۔ ہال کے دروازوں کے ساتھ کیٹا لاگ موجود ہے جن میں مختلف موضوعات پر مشتمل کارڈ موجود ہیں ۔ قارئین بڑی آسانی کے ساتھ کیٹا لاگ دیکھ کر اپنی پسند کی کتاب حاصل کر سکتے ہیں ۔


المنتظر کیسٹ لائبریری

جامعة المنتظر کی دوسری منزل پر کتب لائبریری کے ساتھ ایک کیسٹ لائبریری بھی بنائی گئی ہے جس میں جدید کمپیوٹر ،TV ،VCR اور ٹیپ ریکارڈر کے ساتھ مختلف موضوعات پر تقریباً 12ہزار کے قریب آڈیو اور ویڈیو کیسٹوں اور سی ڈیز کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ کیسٹ لائبریری میں اسلامی علوم کے دروس جیسے نحو، صرف، منطق، اصول، فقہ، فلسفہ، بلاغت، رجال، عقاید کے ساتھ قرآن کریم کی تفسیر، ترجمہ اور مختلف مشہور قاریوں کی تلاوت پر مشتمل کیسٹیں موجود ہیں۔

اس کے علاوہ مختلف علماء اور ذاکرین کی مجالس و محافل، جامعہ ھذا میں منعقدہ نماز جمعہ کے خطبے اور درس اخلاق کی بھی کیسٹیں اس لائبریری میں موجود ہیں۔

المنتظر فری ڈسپنسری

جامعہ میں رہائش پذیر استاتذہ کرام، طلاب اور اہل محلہ کے لئے علی مسجد و امام بارگاہ کے باہر”المنتظر فری ڈسپنسری” قائم ہے جس میں روزانہ شام کے وقت دو گھنٹے طبی سہولیات دستیاب ہیں۔ اس ڈسپنسری میں معیاری ادویات محض دس روپے کی پرچی پرمہیا کی جاتی ہیں۔

عزاء خانہ فاطمیہ

علی مسجد سے ملحقہ یہ عزاء خانہ خواتین کے لئے بنایا گیا ہے۔ یہاں پر پہلی محرم سے لے کر 8 ربیع الاول تک عزاداری ہوتی ہے جس میں خواتین عالمہ و ذاکرہ خطاب کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ دوران سال دیگر مناسبتوں کے حوالے سے بھی عزاداری و جشن کی محافل منعقد ہوتی ہیں۔ علی مسجد کے ساتھ ملحقہ نیا تعمیر شدہ اضافی ہال، عزاء خانہ فاطمیہ کے ساتھ ملحق ہے جس سے اس عزاخانے کی گنجائش اور خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔

دارالافتاء

مقامی مومنین کے علاوہ اندرون و بیرون ملک سے پوچھے جانے والے شرعی مسائل کا بروقت جواب دینے کے لئے جامعہ المنتظر میں ایک دارالافتاء بھی قائم کیا گیا ہے جس سے روزانہ مختلف ذرایع سے رابطہ کرنے والوں کے شرعی مسائل کا حل بھی بیان کیا جاتا ہے۔

شعبہ تبلیغات

جامعۃ المنتظر میں ایک شعبہ تبلیغی امور سے مختص ہے جس کے تحت بوقت ضرورت بالعموم جبکہ رمضان المبارک اور محرم الحرام میں بالخصوص سینئر طلباء تبلیغی امور کی انجام دہی کےلئے ملک کے مختلف حصوں میں بھیجے جاتےہیں۔

شعبہ تالیف و تصنیف

جامعہ ھذا کے تعاون سے متعدد کتابیں شائع کی گئیں ہیں۔ اس شعبے کے توسط سے سنہ 1999ء میں اعمال، ادعیہ و زیارات وغیرہ کی مشہور کتاب مفاتیح الجنان کا مکمل اردو ترجمہ شائع ہوا ہے جناب آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی مدظلہ العالی کا گراں قدر علمی کارنامہ ہے۔ 2009 ء سے اس شعبہ کا نام “دارالتحقیق والتالیف ” قرار دیا گیا ہے۔ جس کے زیر اہتمام جامعہ کے فاضل استاد جناب مولانا ڈاکٹر سید محمد نجفی کی متعدد، مفید و گراں قدر تصانیف و تراجم شائع کئے گئے ہیں۔

درس خارج

جامعتہ المنتظر کے سربراہ آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی مدظلہ العالی نے 1998 ء میں باضابطہ طور پر درس خارج کی تدریس کا آغاز کیا۔ اصول کا دورہ چند سال قبل مکمل ہوا جبکہ فقہ کا جاری ہے۔

تجہیز و تکفین میت

جامعہ ھذا میں ائرکنڈیشنڈ سہولیات سے آراستہ غسال خانہ برائے میت موجود ہے جس میں میت کے لئے مفت کفن کے علاوہ ایمبولینس کی خدمات بھی فراہم کیجاتی ہے۔

کاروان حج

جامعۃ المنتظر کی طرف سے عازمین حج کی راہنمائی کیلئے 1984ء میں‌ حج کاروان تشکیل دیا گیا جس میں جامعہ کے مرحوم استاد جناب حجۃ الاسلام مولانا سید محمد عباس نقوی ایک طویل عرصہ تک خدمات انجام دیتے رہے اور ان کے معاون کے طور پر جناب حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا محمد افضل حیدری صاحب بھی زحمت کرتے رہے۔ مولانا سید محمد عباس نقوی کی رحلت کے بعد جناب مولانا محمد افضل حیدری صاحب ’’ کاروان حج جامعۃ المنتظر ‘‘کے مسئول کے طور پر عازمین حج کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ فقہی مسائل و مناسک حج میں‌راہنمائی کے ساتھ ساتھ سفر ،رہائش و طعام کے لحاظ سے اس کاروان نے عازمین حج کو ہمیشہ مطمئن کیا ہے ۔ جامعۃ المنتظر حج،عمرہ پرائیویٹ لمیٹیڈ۔

مصباح القرآن ٹرسٹ

قرآنی تعلیمات سے آگاہی کے لئے محسن ملت مولانا سید صفدر حسین نجفی نے سیٹھ نوازش علی صاحب کے تعاون سے سنہ 1985ء میں‌ ادارہ مصباح القرآن قائم کیا۔ ۔مصباح القرآن ٹرسٹ کے قیام کا اصل مقصد اردو زبان میں تفسیر قرآن اور قرآنیات کی کتب کی اشاعت کے ذریعے قرآن فہمی کو آسان بنانا اور معانی و مفاہیم کو سادہ عام فہم زبان میں‌لوگوں تک پہنچانا ہے۔ مصباح القرآن کا آغاز تفسیر نمونہ کے ترجمے سے ہوا۔ فارسی زبان میں 27 جلدوں پر مشتمل اس کتاب کا علامہ سید صفدر حسین نجفی نے اردو زبان میں ترجمہ کے ساتھ ساتھ مشکل الفاظ وضاحت اور مختلف ضمنی موضوعات کی تشریح مربوطہ روایات کی روشنی میں تاریخی حوالوں سے مزین کرکے جدید علوم کے موضوعات کی بحثوں‌سے آراستہ کیا۔

ماہنامہ المنتظر

صاحبان فکر کی تسکین کے لیے ماہنامہ المنتظر کے نام سے ایک ماہنامہ شایع کیا جاتا ہے جسے ہر ماہ، اندرون و بیرون ملک اراکین کے گھر و دفتر تک پہنچایا جاتا ہے۔ ملک بھر کے چار سو سے زائد مدارس کو وفاق المدارس کی طرف سے بلا قیمت بھیجا جاتا ہے۔

شارٹ کورسز

ہر سال موسم گرما کی تعطیلات میں سکولوں اور کالجوں کے طلباء کے لئے اسلام شناسی کا شارٹ کورس منعقد کیا جاتاہے۔لاہور کے مقامی طلباء و طالبات کی راہنمائی کے لئے ہر اتوار کو دوگھنٹے کا اسلام شناسی کا پروگرام منعقد کیا جاتا ہے جس میں‌جامعہ کے استاد اور شعبہ طالبات کی معلمات الگ الگ کلاسوں میں معارف اسلامی کی تعلیم دیتے ہیں۔

اسوه ایجوکیشن سسٹم

اسوا ایجوکیشن سسٹم جابر بن حیان ٹرسٹ کا ایک ذیلی ادارہ ہے جو شیخ محسن نجفی کی سرپرستی میں 1994ء سے پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں تعلیم کے میدان میں اپنا مشن انجام دے رہا ہے۔ اس سسٹم کے تحت ملک کے مختلف علاقوں میں قائم اداروں کی مجموعی تعداد 72 ہے جن میں سے بلتستان میں 20 ، گلگت میں 5، کرم ایجنسی میں 9، بنگش میں 14، مرکزی علاقے میں 18، کشمیر میں 3، ہزارہ ریجن میں 2 اور سندھ ریجن میں 1 ادارہ قائم ہے۔ اسوہ ایجوکیشن سسٹم

اسوہ سسٹم کے تحت قائم بعض اداروں کا مختصر تعارف:

اسوا کالج اسلام آباد

اسوا کالج اسلام آباد مارچ 2003 میں قائم ہوا۔ یہ کالج اسلام آباد سے تقریباً 25 کلومیٹر دور سہالہ میں ایک خوبصورت وادی میں واقع ہے جو تعلیمی سرگرمیوں کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک رہائشی کیڈٹ کالج ہے جو قومی شہرت کے حامل تعلیمی ادارے کے لیے درکار تمام جدید تعلیمی سہولیات سے آراستہ ہے۔

کالج کیمپس ایک خوبصورت کمپلیکس میں 5 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس کا نام "سیف علی نقوی ایجوکیشنل کمپلیکس" ہے جس میں تین کثیر المنزلہ عمارتیں ہیں۔ کالج جب سے قائم ہوا ہے شاندار تعلیمی نتائج حاصل کر رہا ہے جس میں سال 2007 کے سیکنڈری سکول سرٹیفکیٹ امتحان میں پہلی پوزیشن بھی شامل ہے۔ اسوہ کالج اسلام آباد

اسوا کالج چکوال

یہ کالج جولائی 2008 میں قائم کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر اس نے چکوال میں ایک کرائے کی عمارت میں ڈیرہ ڈالا تھا اور بعد ازاں اپریل 2009 میں چکوال سے 20 کلومیٹر دور دڈیال میں اپنے موجودہ مقام پر منتقل ہو گیا تھا۔ یہ اسوا کالج اسلام آباد کی طرح ایک رہائشی ادارہ ہے جو معیار کی فراہمی کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ چکوال اور گردونواح کے طلباء کو تعلیم جبکہ دیگر علاقوں کے طلباء کی بڑی تعداد کو بھی اس میں جگہ دی گئی ہے۔ کالج کیمپس دو اہم بلاکس پر مشتمل ہے، اکیڈمک اور ہاسٹل بلاک کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت مسجد اور دیگر عمارتیں شامل ہیں۔ اسوہ کالج چکوال

اسوا پبلک سکول اینڈ کالج فار بوائز سکردو

یہ کالج 1995 میں اسکردو میں اسوا ایجوکیشن سسٹم کی طرف سے جونیئر پبلک اسکول کے طور پر قائم کیے جانے والے اہم تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے جو 2006 میں ثانوی سطح تک پہنچا۔ اس کا کالج سیکشن اسی سال ایک آزاد ادارے کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ دونوں حصوں کو 2009 میں ایک ساتھ ملایا گیا اور مشترکہ ادارے کا نام اسوا پبلک اسکول اینڈ کالج فار بوائز رکھا گیا۔

یہ کالج اسکردو شہر کے عین وسط میں واقع 10 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ کالج کمپلیکس دو بلاکس پر مشتمل ہے۔ پرانا بلاک 1996 میں تعمیر ہوا جبکہ نیا بلاک 2006 میں مکمل ہوا۔ حال ہی میں فرینڈز ایجوکیشنل اینڈ میڈیکل ٹرسٹ کراچی کے تعاون سے کالج کو جدید ترین تعلیمی انفراسٹرکچر سے آراستہ کیا گیا ہے۔اسوہ کالج چکوال

اسوا پبلک سکول اینڈ کالج فار گرلز سکردو

1995 میں قائم ہونے والے ادارے نے 2006 میں سیکنڈری اسکول کا درجہ حاصل کیا۔ ابتدائی طور پر اسے کرائے کی عمارت میں قائم کیا گیا تھا اور بعد میں اسے اپنی موجودہ عمارت میں منتقل کر دیا گیا جہاں ضروریات کے مطابق مزید تعمیرات جاری ہیں۔

اس کالج کو فرینڈز ایجوکیشنل ٹرسٹ کراچی کے تعاون سے تمام جدید تعلیمی سہولیات سے آراستہ کیا گیا ہے۔ کالج کی سطح پر اپ گریڈیشن کے آغاز میں ہی یہ ادارہ اچھی طرح سے سامنے آیا ہے اور اس نے بہترین نتائج دیے ہیں۔اسوہ کالج چکوال

بنت الہدی حفظ القرآن گرلز ماڈل سکول، سکردو

بنت الہدی حفظ القرآن گرل ماڈل سکول سنہ 2006ء میں شیخ محسن علی نجفی کی سرپرستی میں بلتستان کے صدر مقام سکردو میں قائم کیا گیا ہے۔ بنت الہدی حفظ القرآن گرلز ماڈل سکول سکردو

اسوا انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن

اسلام آباد میں جابر بن حیان ٹرسٹ کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ یہ ادارہ پاکستان کے تمام صوبوں بالخصوص فاٹا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں تعلیم، صحت اور غربت کے خاتمے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس کی بنیادی توجہ تعلیم پر ہے۔اسوہ انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن

جامعہ الکوثر

محسن علی نجفی کی سرپرستی میں چلنے والے تعلیمی اداروں میں سے ایک جامعۃ الکوثر ہے جس کی بنیاد الخوئی فاؤنڈیشن نے 1992ء میں رکھی ۔ یہ ادارہ پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں واقع ہے۔ سنہ 2002ء میں جامعہ ھذا نے اپنی علمی و تعلیمی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کیا۔ جامعہ الکوثر میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تکنیکی بنیادوں پر عصری تعلیم کی بھی سہولیت موجود ہے۔الکوثر یونیورسٹی اسلام آباد

کوثر کالج برائے خواتین

کوثر کالج برائے خواتین ایک رہائشی کالج ہے جس میں اسلامی علوم اور جدید تعلیم (ایف ایس سی اور اے لیولز پر مشتمل) کی سہولت موجود ہے۔ یہ ادارہ سنہ 2011ء کو قائم ہوا۔ اس ادارے میں غیر ملکی طلباء کو بھی داخلہ دیا جاتا ہے۔ کوثر کالج برائے خواتین درج ذیل محکموں کے ساتھ منسلک ہے:

  • پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز رجسٹریشن اتھارٹی اسلام آباد
  • فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن اسلام آباد
  • برٹش کونسل برائے یونیورسٹی آف کیمبرج انٹرنیشنل ایگزامینیشن

اس کے علاوہ اس ادارے نے تمام متعلقہ وزارتوں کے ساتھ رابطے کے ذریعے خواہشمند طلباء کی رہنمائی کے لیے ایک ایس او پی بنایا ہے اور ان کے داخلے کو ممکن بنانے کے لیے ایسے معاملات کی پیروی کے لیے ایک ورک پلان تیار کیا گیا ہے۔

مینجمنٹ سائنسز کالج چنیوٹ

چنیوٹ میں مینجمنٹ سائنس کالج کا قیام دور دراز علاقوں کے طلباء کو پیشہ ورانہ تعلیم کی فراہمی کی طرف ایک قدم ہے اور اس طرح انہیں اپنی مستقبل کی زندگی کے لیے ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ یہ ادارہ ڈگری کے لیے ورچوئل یونیورسٹی لاہور سے منسلک ہے۔

پیرامیڈیکل کالج چنیوٹ

جابر بن حیان ٹرسٹ کے اہم مقاصد میں سے ایک صحت عامہ کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے ۔ اس مقصد کے لئے میڈیکل کالجوں کا قیام اس کی ابتدائی منصوبہ بندی میں شامل تھا۔ پہلے قدم کے طور پر چنیوٹ میں پیرامیڈیکل کالج کے ساتھ ساتھ تمام ضروری سہولیات سے آراستہ 25 بستروں کا ہسپتال بھی قائم کیا گیا ہے جو طلباء کو ملازمت کے لئے تربیتی ورکشاپ کے طور پر کام کرے گا۔ کالج کے تربیتی شیڈول میں درج ذیل کورسز شامل ہیں:

پاک پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ چنیوٹ

انسٹی ٹیوٹ کا مرکزی کیمپس فیصل آباد روڈ چنیوٹ پر واقع ہے جس کا رقبہ 2 ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہے ۔ عمارت کافی تعداد میں کلاس رومز اور ورکشاپس پر مشتمل ہے۔ رہائشی ادارہ ہونے کی وجہ سے کالج ہاسٹل کی سہولیات سے بھی لیس ہیں۔ کالج کا ایک ذیلی کیمپس چنیوٹ سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بھوانہ میں قائم کیا گیا ہے تاکہ اس علاقے کے طلباء کو وہاں کے دروازے پر سہولت فراہم کی جا سکے۔ کالج ہر سال 500 سے زیادہ طلباء اور اعلیٰ تعلیم یافتہ عملے کو ملازمت دلوانے کے لیے درج ذیل پانچ ٹیکنالوجیز پیش کرتا ہے:

  • الیکٹریکل الیکٹرانکس
  • سول
  • مکینیکل
  • کمپیوٹر ٹیکنالوجی
  • تربیت کا سامان

انسٹی ٹیوٹ کو مختلف ٹکنالوجیوں میں تربیت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تمام ضروری آلات فراہم کیے گئے ہیں۔ اس وقت استعمال ہونے والے آلات کی تخمینہ لاگت 6 ملین سے زیادہ ہے۔ کالج ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (TEVTA) پنجاب کے ساتھ رجسٹرڈ ہے۔ 3 سال کی تربیت مکمل کرنے کے بعد طلباء کو پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن، لاہور کی طرف سے ایسوسی ایٹ انجینئرنگ میں ڈپلومہ دینے کے لیے ہونے والے امتحان میں شرکت کی اجازت دی جاتی ہے۔ گریجویٹ سطح کے طلباء کو یونیورسٹی آف سرگودھا کی جانب سے انجینئرنگ ٹیکنالوجی میں بی ایس کی ڈگری دی جاتی ہے۔

پاک پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ سکردو

سکردو سے 5 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ ادارہ چند سال قبل تعمیر کی گئی ہے۔ عمارت کی پہلی منزل دفاتر کے ساتھ 6 ورک شاپس اور 8 کلاس رومز پر مشتمل ہے۔ انسٹی ٹیوٹ میں ابتدائی طور پر درج ذیل تین ٹیکنالوجیز متعارف کرائی گئی ہیں جن کی تعداد میں ضرورت کے مطابق اضافہ کیا جائے گا۔ انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے پہلے دو سالوں کے دوران 200 سے زائد طلباء کو تربیت فراہم کرنے کے لیے تقریباً 20 قابل اساتذہ کو ملازمت دی گئی ہے۔

الیکٹریکل الیکٹرانکس سول تربیت کا سامان

یہ ادارہ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (TEVTA) پنجاب کے ساتھ رجسٹرڈ ہے اور ایسوسی ایٹ انجینئرنگ میں ڈپلومہ کے اعزاز کے لیے پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن لاہور سے منسلک ہے۔ https://jbht.org/uswanew/institutions/technical-institutes/

  1. نقوی، ڈاکٹر مولانا سید شہوار حسین، تذکرہ مفسرین امامیہ، 1433ھ، ص 71۔
  2. نقوی، ڈاکٹر مولانا سید شہوار حسین، تذکرہ مفسرین امامیہ، 1433ھ، ص 81-82۔
  3. نقوی، ڈاکٹر مولانا سید شہوار حسین، تذکرہ مفسرین امامیہ، 1433ھ، ص 87-89۔
  4. مادر علمی جامعۃ المنتظر لاہور۔ مختصر تعارف، 67 سالہ فعالیت + درس خارج، وفاق ٹائمز، تاریخ درج 13 جون سنہ 2021ء، تاریخ اخذ: 21 جنوری سنہ 2024ء۔