مندرجات کا رخ کریں

"عصمت" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 2: سطر 2:
[[عصمت]] کے معنی معصوم انسان کا [[گناہ]] اور خطا سے محفوظ ہونا ہے۔ شیعہ اور معتزلہ متکلمین عصمت کو لطفِ الہی اور اسلامی حکما اسے نفسانی ملَکَہ سمجھتے ہیں جو معصوم کو گناہ اور خطا سے محفوظ ہونے کا باعث بنتی ہے۔
[[عصمت]] کے معنی معصوم انسان کا [[گناہ]] اور خطا سے محفوظ ہونا ہے۔ شیعہ اور معتزلہ متکلمین عصمت کو لطفِ الہی اور اسلامی حکما اسے نفسانی ملَکَہ سمجھتے ہیں جو معصوم کو گناہ اور خطا سے محفوظ ہونے کا باعث بنتی ہے۔


معصوم کا گناہ اور خطا سے مبرا ہونے کے منشاء کے بارظ میں مختلف آراء پیش ہوئے ہیں جن میں لطف الہی، مخصوص علم، ارادہ اور انتخاب اور فطری تمام عوامل انسانی ہو یا الہی شامل ہیں۔ حکما عصمت کو اختیار سے سازگار سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معصوم گناہ میں مرتکب ہونے کی قدرت رکھتا ہے لیکن گناہ انجام نہیں دیتا ہے اور اسی وجہ سے وہ اجر کا مستحق ہوتا ہے۔
معصوم کا گناہ اور خطا سے مبرا ہونے کے منشاء کے بارے میں مختلف آراء پیش ہوئے ہیں جن میں لطف الہی، مخصوص علم، ارادہ اور انتخاب اور فطری تمام عوامل انسانی ہو یا الہی شامل ہیں۔ حکما عصمت کو اختیار سے سازگار سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معصوم گناہ میں مرتکب ہونے کی قدرت رکھتا ہے لیکن گناہ انجام نہیں دیتا ہے اور اسی وجہ سے وہ اجر کا مستحق ہوتا ہے۔


انبیاء کی عصمت کے بارے میں تمام اسلامی دانشوروں کا اتفاق ہے۔ البتہ اس کے حدود کے بارے میں اختلاف نظر پایی جاتی ہے۔ البتہ انبیاءؑ کا شرک اور کفر سے معصوم ہونا، وحی کو دریافت کرنے اور لوگوں تک پہنچانے میں معصوم ہونا اور نبوت کے بعد جان بوجھ کر گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہونے کے بارے میں تمام علما کا اجماع ہے۔
انبیاء کی عصمت کے بارے میں تمام اسلامی دانشوروں کا اتفاق ہے۔ البتہ اس کے حدود کے بارے میں اختلاف نظر پایی جاتی ہے۔ البتہ انبیاءؑ کا شرک اور کفر سے معصوم ہونا، وحی کو دریافت کرنے اور لوگوں تک پہنچانے میں معصوم ہونا اور نبوت کے بعد جان بوجھ کر گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہونے کے بارے میں تمام علما کا اجماع ہے۔
سطر 20: سطر 20:
عصمت کے بارے میں [[مسیحیت]] اور [[یهودیت]] جیسے ادیان میں بھی بحث ہوتی ہے اور عیسائی حضرت عیسیؑ کے علاوہ کتاب مقدس لکھنے والے اور کیتھولیک کلیسا کے پاپ کو بھی معصوم سمجھتے ہیں؛ البتہ پاپ کی عصمت پر صرف کیتھولیک آئین کا عقیدہ ہے۔<ref>حسینی، «[http://www.intizar.ir/article/34/عصمت-دیدگاه-اهل-کتاب-یهودیان-مسیحیان عصمت از دیدگاه اهل کتاب (یهودیان و مسیحیان)]»، وبگاه آینده روشن.</ref>
عصمت کے بارے میں [[مسیحیت]] اور [[یهودیت]] جیسے ادیان میں بھی بحث ہوتی ہے اور عیسائی حضرت عیسیؑ کے علاوہ کتاب مقدس لکھنے والے اور کیتھولیک کلیسا کے پاپ کو بھی معصوم سمجھتے ہیں؛ البتہ پاپ کی عصمت پر صرف کیتھولیک آئین کا عقیدہ ہے۔<ref>حسینی، «[http://www.intizar.ir/article/34/عصمت-دیدگاه-اهل-کتاب-یهودیان-مسیحیان عصمت از دیدگاه اهل کتاب (یهودیان و مسیحیان)]»، وبگاه آینده روشن.</ref>


=== لغوی معنی ===
===تعریف اور معنی===
لغوی اعتبار سے عصمت "ع ص م" کے مادے سے اسم مصدر ہے جس کے معنی مصونیت اور محفوظ رہنا،<ref>فیومی، ص۴۱۴</ref> پاکدامنی اور  نفس کو گناہ سے بچانا،<ref>دہخدا، مادہ عصمت</ref> "روکنے کا وسیلہ" اور "مصونیت کا ابزار" کے ہیں۔<ref>ابن منظور، ج۱۲، ص۴۰۵</ref>
‏[[مسلمان]] مفکرین اور حکما نے عصمت کی مختلف تعریفیں کی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
*'''تعریف متکلمان''': امامیہ<ref>مفید، تصحیحُ اعتقاداتِ الامامیه، ۱۴۱۴ق، ص۱۲۸؛ سیدِ مرتضی، رسائلُ الشَّریف المرتضی، ۱۴۰۵ق، ج۳،‌ ص۳۲۶؛ علامه حلی، بابُ الحادی‌عشر، ۱۳۶۵ش، ص۹.</ref> اور معتزلہ<ref>قاضی عبدالجبار، شرحُ الاصولِ الخمسة، ۱۴۲۲ق، ص۵۲۹؛ تفتازانی، شرح‌المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۱۲-۳۱۳.</ref>) عصمت کو [[قاعدہ لطف]] کے ذریعے تفسیر کرتے ہیں۔<ref>فاضل مقداد، اللَّوامعُ الالهیه، ۱۴۲۲ق، ص۲۴۲؛ ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۸۷ش، ص۲۱۵.</ref> اس قاعدے کی بنا پر خداوندعالم بعض انسانوں کو عصمت عطا کرتا ہے جس کے سائے میں صاحبِ عصمت گناہ اور برے کام انجام نہیں دیتا ہے۔<ref>سیدِ مرتضی، رسائلُ الشَّریف المرتضی، ۱۴۰۵ق، ج۳،‌ ص۳۲۶؛ علامه حلی، بابُ الحادی‌عشر، ۱۳۶۵ش، ص۹؛ فاضل مقداد، اللَّوامعُ الاِلهیه، ۱۴۲۲ق، ص۲۴۳.</ref> [[علامہ حلّی]] عصمت کو [[خدا]] کی جانب سے بندے کے حق میں لطف خفی سمجھتے ہیں اس طرح کہ اس کے ہوتے ہوئے پھر انسان میں گناہ کے انجام دہی یا اطاعت کے ترک کرنے کا رجحان ہی پیدا نہیں ہوتا ہے اگر چہ اس پر قدرت اور توانائی رکھتا ہے۔<ref>علامه حلی، البابُ الحادی‌عشر‏، ۱۳۶۵ش، ص۹.</ref>


===اصطلاحی معنی===
اشاعرہ عصمت کی تعریف میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالی معصوم کے اندر گناہ ایجاد نہیں کرتا ہے۔<ref>جرجانی، شرح‌المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۲۸۰؛ تفتازانی، شرح‌المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۱۲-۳۱۳.</ref> اشاعرہ کی اس تعریف کا مبنی یہ ہے کہ ان کے مطابق ہر چیز بغیر واسطہ کے اللہ کی طرف منسوب ہوتی ہے۔<ref>جرجانی، شرح‌المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۲۸۰.</ref>
‏[[مسلمان]] مفکرین نے عصمت کی مختلف تعریفیں کی ہیں جن میں سے سب سے معروف تعریف [[قاعدہ لطف]] کے ذریعے اس کی تفسیر ہے۔<ref>شریف مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، ص۳۲۶</ref> اس قاعدے کی بنا پر خداوندعالم بعض انسانوں کو عصمت عطا کرتا ہے جس کے سائے میں صاحب عصمت گناہ اور ترک اطاعت پر قدرت رکھنے کے باوجود ان کے مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔ ذیل میں مختلف مذاہب کے نظریات بیان کئے جاتے ہیں:
* '''اشاعرہ کا نظریہ''': [[اشعری]] مذہب کے متکلمین چونکہ انسان کو اس کے اعمال اور رفتار میں مجبور سمجھتے ہیں اس لئے عصمت کی تعریف میں کہتے ہیں کہ خدا معصوم کے اندر گناہ ایجاد نہیں کرتا ہے۔<ref>جرجانی، شرح المواقف، ص۲۸۰</ref>


* '''امامیہ اور معتزلہ کا نظریہ''': [[امامیہ]] اور [[معتزلہ]] [[حسن و قبح عقلی]] اور قاعدہ لطف کے معتقد ہونے کی وجہ سے عصمت کی تعریف میں کہتے ہیں کہ: انسان اپنے ارادے اور اختیار سے خدا کے لطف و کرم کی وجہ سے گناہوں سے پرہیز کرتا ہے۔<ref>شریف مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، ص۳۲۶</ref> [[علامہ حلّی]] عصمت کو [[خدا]] کی جانب سے بندے کے حق میں لطف خفی سمجھتے ہیں اس طرح کہ اس کے ہوتے ہوئے پھر انسان میں گناہ کے انجام دہی یا اطاعت کے ترک کرنے کا رجحان ہی پیدا نہیں ہوتا ہے اگر چہ اس پر قدرت اور توانائی رکھتا ہے۔<ref>حلی، الباب الحادی عشر‏، ص۹</ref> عصمت کا ملکہ اگرچہ [[تقوا]] اور پرہیزگاری کی صنف سے ہے لیکن درجے میں ان دونوں سے بلند و بالا ہے اس طرح کہ معصوم شخص گناہ کے بارے میں سوچنے اور فکر کرنے سے بھی پرہیز کرتا ہے۔<ref>ربانی گلپائگانی، محاضرات فی الالہیات، ص۲۷۶</ref> جس کی وجہ سے لوگ ان حضرات پر ہر لحاظ سے مکمل اعتماد کرتے ہیں۔<ref>مطہری، وحی و نبوت، ص۱۵۹</ref>
*'''فیلسوف کی تعریف''': مسلم حکما عصمت کو ایک نفسانی ملَکَہ{{یادداشت|نفسانی ایک حالت کا نام ہے جو انسان کی روح میں داخل ہوتی ہے اور پھر ختم نہیں ہوتی ہے۔(جرجانی، التعریفات، ۱۴۱۲ق، ص۱۰۱)}} سے تعریف کرتے ہیں جس کے ہوتے ہوئے صاحبِ عصمت سے گناہ سرزد نہیں ہوتا ہے۔<ref>طوسی، تلخیص‌المحصل، ۱۴۰۵ق، ص۳۶۹؛ جرجانی، شرح‌المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۲۸۱؛ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۱۶۲؛ جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، ۱۳۹۲ش، ص۱۹۷؛ مصباح یزدی، راه و راهنماشناسی، ۱۳۹۵ش، ص۲۸۵-۲۸۶.</ref>


==عصمت کا سرچشمہ==
شیعہ معاصر مفسر اور متکلم [[جعفر سبحانی|آیت الله سبحانی]] عصمت کی تعریف میں گناہ سے عصمت اور خطا سے عصمت میں فرق کے قائل ہیں اور ایک طرح سے عدلیہ اور حکما کی تعریف کو ملایا ہے۔ اور وہ گناہ سے عصمت کو تقوی الہی کا اعلی ترین درجہ اور ملکہ نفسانی اور درونی طاقت سمجھتے ہیں جس کی وجہ معصوم شخص گناہ سے اجتناب بلکہ اس کے بارے میں سوچنے سے بھی اجتناب کرتا ہے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۴، ص۱۲-۱۴؛ سبحانی، الالهیات، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۵۸-۱۵۹.</ref> آپ خطا اور سہو سے عصمت کو غفلت سے عاری علم سمجھتا ہے جو اللہ کے لطف کے زیر سایہ ہے جس کی وجہ سے چیزوں کی حقیقی تصویر معصوم کے فکر و ذہن میں آجاتی ہے اور اس وجہ سے وہ خطا اور اشتباہ سے محفوظ رہتا ہے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۴، ص۲۰.</ref>
عصمت کی تعریف میں اکثر مفکرین کا خیال ہے کہ معصوم شخص اپنے ارادے اور اختیار سے گناہ سے کنارہ گیری کرتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسا عامل یا عوامل ہیں جس کی وجہ سے قدرت رکھنے کے باوجود بھی یہ معصوم ہستیاں نہ فقط گناہ اور معصیت کا شکار نہیں ہوتیں بلکہ اس کے بارے میں سوچتے بھی نہیں اور بھول چوک میں بھی غلطی کا ارتکاب نہیں کرتے؟ اس سوال کے جواب میں مختلف نظریات موجود ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:


* '''قاعدہ لطف کے چار اسباب''': وہ علماء جو عصمت کو خدا کا لطف قرار دیتے ہیں چار اسباب اور عوامل کو اس لطف کا منشا قرار دیتے ہیں جو جس کے سبب معصوم شخص میں عصمت کا ملکہ پیدا ہوتا ہے:
لغوی اعتبار سے عصمت "ع ص م" کے مادے سے اسم مصدر ہے جس کے معنی مصونیت اور محفوظ رہنا۔.<ref> ملاحظہ کریں: ابن‌فارس، مُعجَمُ مَقاییسِ اللّغة، مکتب الاعلامِ الاسلامی، ج۴، ص۳۳۱؛ راغب اصفهانی، مفردات الفاظ القرآن، دار قلم، ص۵۶۹؛ جوهری،‌ الصِّحاح، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۱۹۸۶؛‌ ابن‌منظور، لسان‌العرب، دار صادر، ج۱۲، ص۴۰۳-۴۰۴. </ref>
# معصوم شخص جسمانی یا روحانی اعتبار سے کچھ ایسی خصوصیات کا حامل ہے جو باعث بنتا ہے کہ اس میں عصمت کا ملکہ پیدا ہو۔
# معصوم شخص کیلئے گناہوں کے برے اثرات اور خداوند متعال کی اطاعت اور بندگی کی قدروقیمت سے مکمل آگاہی حاصل ہونے کی وجہ سے اس میں عصمت کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔
# وحی یا الہام کے پے در پے نازل ہونے کے ذریعے اس آگاہی میں مزید وسعت اور گہرائی پیدا ہوتی ہے۔
# معصوم شخص نہ فقط [[واجب|واجبات]] بلکہ ترک اولی پر بھی مورد مؤاخذہ قرار پاتا ہے اس طرح کہ احساس کرنے لگتا ہے کہ ان کے حق میں کسی قسم کی کوئی تخفیف کی گنجائش موجود نہیں ہے۔<ref>حلی، کشف المراد، ص۴۹۴</ref>


* '''گناہ کے انجام سے مکمل آگاہی''': بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ عصمت کا سرچشمہ یہ ہے کہ معصوم شخص گناہ کی حقیقت اور باطن اور اس کے برے انجام سے مکمل آگاہی ہے اور اس کے برے اثرات سے اس طرح مکمل واقفیت رکھتا ہے کہ گویا علم حضوری کے ذریعے گناہ کے برے انجام کو دیکھ رہا ہوتا ہے اسی بنا پر کبھی بھی گناہ اور معصیت کا ارادہ بھی نہیں کرتا ہے۔<ref>ری شہری، ص۲۱۰</ref>
==عصمت کا سرچشمہ==
عصمت کا سرچشمہ اور معصوم کو گناہ اور خطا سے بچانے کے عامل کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں جن میں معصوم پر اللہ کا لطف، گناہ کے آثار کے بارے میں معصوم کا مخصوص علم اور معصوم کا ارادہ اور انتخاب شامل ہیں۔ البتہ بعض معاصر محققین کا خیال ہے کہ عصمت کسی ایک عامل کا مرہون منت نہی ہے بلکہ بعض فطری عوامل جیسے، وراثت، سماج اور خاندان، اور بعض انسانی عوامل جیسے شعور اور آگاہی، ارادہ اور انتخاب، عقل اور نفسانی ملکہ، اور خداوند متعال کے خاص  لطف و کرم کا نتیجہ ہے۔<ref>قدردان قراملکی، کلام فلسفی، ۱۳۸۳ش، ص۳۸۸-۳۹۰.</ref>


* '''ارادہ اور اختیار''': اس حوالے سے ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ عصمت کا سرچشمہ تقوا ہے جو بار بار نیک اور اچھے اعمال کی انجام دہی اور گناہوں سے پرہیز کرنے کی وجہ سے ملکہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ ملکہ اگرچہ تقوا میں بھی موجود ہوتا ہے لیکن عصمت میں زیادہ شدت اختیار کرتا ہے۔ نیک اعمال کا مکرر انجام دینا اور گناہوں سے پرہیز کرنا ارادہ اور اختیار کا محتاج ہے لہذا عصمت کا اصل عامل معصوم شخص کا ارادہ اور اختیار ہے۔ یہ نظریہ گناہوں کی حقیقت اور باطن سے معصومین کی آگاہی کے اصل محرک کو معصوم شخص کا ارادہ اور اختیار قرار دیتا ہے۔<ref>ری شہری، ص۲۱۵</ref>
===لطف الهی===
[[شیخ مفید]] اور [[سید مرتضی|سیدِ مرتضی]] عصمت کو معصومین کے حق میں اللہ کا لطف سمجھتے ہیں۔<ref>مفید، تصحیحُ الاعتقاداتِ الامامیه، ۱۴۱۴ق، ص۱۲۸؛ سیدِ مرتضی، الذخیره، ۱۴۱۱ق، ص۱۸۹.</ref> [[علامه حلی]] چار اسباب اور عوامل کو اس لطف کا منشا قرار دیتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
# معصوم شخص جسمانی یا روحانی اعتبار سے کچھ ایسی خصوصیات کا حامل ہے جو باعث بنتا ہے کہ اس میں گناہ سے اجتناب کا ملکہ ایجاد ہوتا ہے؛
# معصوم شخص کیلئے گناہوں کے برے اثرات اور خداوند متعال کی اطاعت اور بندگی کی قدروقیمت سے مکمل آگاہی حاصل ہونا؛
# وحی یا الہام کے ذریعے گناہ کی حقیقت اور اطاعت کے بارے میں بینش اور آگاہی میں وسعت آجاتی ہے (وحی یا الہام کے ذریعے علم کی تائید اور اس پر تاکید)؛
# معصوم شخص نہ فقط [[واجب|واجبات]] بلکہ ترک اولی پر بھی مورد مؤاخذہ قرار پاتا ہے ۔<ref>علامه حلی، کشف‌المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۶.</ref>


* '''علم اور ارادہ''': بعض اسلامی مفکرین معصومین کی عصمت کے راز کو دو چیز قراار دیتے ہیں جن میں سے ایک کمالات اور حقایق سے آگاہی اور دوسرا اس تک پہنچنے کا پکا اور مستحکم ارادہ ہے۔ کیونکہ انسان جہالت کی صورت میں حقیقی اور واقعی کمال کو نہیں پہچان سکتا اور ایک خیالی اور ذہنی کمال کو حقیقی اور واقعی کمال قرار دیتا ہے اسی طرح اگر مستحکم ارادہ کا مالک نہ ہو تو نفسانی خواہشات کے ہاتھوں اسیر ہو کر مطلوبہ ہدف تک پہچنے میں ناکام رہتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، ص۱۱۹</ref>
===علم ویژه===
بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ عصمت کا سرچشمہ یہ ہے کہ معصوم شخص گناہ کے اثرات اور اطاعت کے پاداش کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔<ref>فاضل مقداد، اللَّوامع الاِلهیه، ۱۴۲۲ق، ص۲۲۴؛ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۷۹، ج۱۱، ص۱۶۲-۱۶۳، ج۱۷، ص۲۹۱؛ سبحانی، الالهیات، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۵۹-۱۶۱.</ref>
علامہ طباطبائی کہتے ہیں کہ معصومین خدادادی علم کے مالک ہیں اس لئے مضبوط ارادے کے مالک ہیں جس کے ہوتے ہوئے گناہ کی طرف نہیں جاتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۱۶۳.</ref> یہ علم باقی علوم کی طرح سیکھنے سے حاصل نہیں ہوتا اور خواہشتا اور دیگر طاقتوں سے شکست بھی نہیں کھاتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۷۹.</ref>


* '''انسانی، فطری اور الہی عوامل کا مجموعہ''': بعض معاصر محققین کا خیال ہے کہ عصمت کسی ایک عامل کا مرہون منت نہی ہے بلکہ بعض فطری عوامل جیسے، وراثت، سماج اور خاندان، اور بعض انسانی عوامل جیسے شعور اور آگاہی، ارادہ اور انتخاب، عقل اور نفسانی ملکہ، اور خداوند متعال کے خاص  لطف و کرم کا نتیجہ ہے۔ <ref>قدردان قراملکی، ص۳۸۸-۳۹۰</ref>
===علم و ارادہ===
[[محمدتقی مصباح یزدی]] عصمت کے راز کو دو چیزوں میں قرار دیتے ہیں جن میں سے ایک کمالات اور حقایق سے آگاہی اور دوسرا اس تک پہنچنے کا پکا اور مستحکم ارادہ ہے؛ کیونکہ انسان جہالت کی صورت میں حقیقی اور واقعی کمال کو نہیں پہچان سکتا اور ایک خیالی اور ذہنی کمال کو حقیقی اور واقعی کمال قرار دیتا ہے اسی طرح اگر مستحکم ارادہ کا مالک نہ ہو تو نفسانی خواہشات کے ہاتھوں اسیر ہو کر مطلوبہ ہدف تک پہچنے میں ناکام رہتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، راه و راهنما شناسی، ۱۳۹۵ش، ص۳۰۲.</ref> ان کا کہنا ہے کہ معصوم انسان کے پاس ایک خاص علم اور محکم ارادہ ہوتا ہے جس کے سبب کبھی اپنی اختیار کے ساتھ گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا ہے اور ہر حال میں اللہ کا فرمانبردار رہتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، راه و راهنما شناسی، ۱۳۹۵ش، ص۳۰۳-۳۰۴.</ref>


==عصمت انبیا==
==عصمت انبیا==
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم