مندرجات کا رخ کریں

"عصمت" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 49: سطر 49:
[[محمدتقی مصباح یزدی]] عصمت کے راز کو دو چیزوں میں قرار دیتے ہیں جن میں سے ایک کمالات اور حقایق سے آگاہی اور دوسرا اس تک پہنچنے کا پکا اور مستحکم ارادہ ہے؛ کیونکہ انسان جہالت کی صورت میں حقیقی اور واقعی کمال کو نہیں پہچان سکتا اور ایک خیالی اور ذہنی کمال کو حقیقی اور واقعی کمال قرار دیتا ہے اسی طرح اگر مستحکم ارادہ کا مالک نہ ہو تو نفسانی خواہشات کے ہاتھوں اسیر ہو کر مطلوبہ ہدف تک پہچنے میں ناکام رہتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، راه و راهنما شناسی، ۱۳۹۵ش، ص۳۰۲.</ref> ان کا کہنا ہے کہ معصوم انسان کے پاس ایک خاص علم اور محکم ارادہ ہوتا ہے جس کے سبب کبھی اپنی اختیار کے ساتھ گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا ہے اور ہر حال میں اللہ کا فرمانبردار رہتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، راه و راهنما شناسی، ۱۳۹۵ش، ص۳۰۳-۳۰۴.</ref>
[[محمدتقی مصباح یزدی]] عصمت کے راز کو دو چیزوں میں قرار دیتے ہیں جن میں سے ایک کمالات اور حقایق سے آگاہی اور دوسرا اس تک پہنچنے کا پکا اور مستحکم ارادہ ہے؛ کیونکہ انسان جہالت کی صورت میں حقیقی اور واقعی کمال کو نہیں پہچان سکتا اور ایک خیالی اور ذہنی کمال کو حقیقی اور واقعی کمال قرار دیتا ہے اسی طرح اگر مستحکم ارادہ کا مالک نہ ہو تو نفسانی خواہشات کے ہاتھوں اسیر ہو کر مطلوبہ ہدف تک پہچنے میں ناکام رہتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، راه و راهنما شناسی، ۱۳۹۵ش، ص۳۰۲.</ref> ان کا کہنا ہے کہ معصوم انسان کے پاس ایک خاص علم اور محکم ارادہ ہوتا ہے جس کے سبب کبھی اپنی اختیار کے ساتھ گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا ہے اور ہر حال میں اللہ کا فرمانبردار رہتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، راه و راهنما شناسی، ۱۳۹۵ش، ص۳۰۳-۳۰۴.</ref>


==عصمت اور اختیار==
لبنانی شیعہ مرجع تقلید سید محمد حسین فضل اللہ کا ماننا ہے کہ عصمت ایک جبری حقیقت ہے<ref>ر. ک. فضل‌الله، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، ۱۴۱۹ ق، ج‏۴، ص ۱۵۵–۱۵۶.</ref> لیکن معاصر ماہر الہیات علی ربانی گلپایگانی کے مطابق متکلمین اور حکما اس بات پر متفق ہیں کہ عصمت معصوم کے اختیار اور مرضی کے ساتھ سازگار ہے اور معصوم گناہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۸۷ش، ص۲۱۷.</ref> عقل کی رو سے اگر عصمت معصوم کا مجبور ہونے کے معنی میں ہو تو اس صورت میں معصوم شخص کی بندگی اور گناہ کا ترک کرنا تعریف و تمجید کے مستحق نہیں ہوگا اور ان کو امر یا نہی کرنا اور جزا و سزا دینا غیر معقول ہوگا۔<ref>علامه حلی، کشف‌المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۶؛ فاضل مقداد، اللَّوامع الاِلهیّه، ۱۴۲۲ق، ص۲۴۳؛ جرجانی، شرح‌المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۲۸۱.</ref>
معاصر فلسفی اور مفسر قرآن [[عبدالله جوادی آملی]] کا بھی خیال ہے کہ جبری عصمت، معصوم کا لوگوں پر حجت ہونے اور اللہ کی طرف سے ان کی پیروی واجب ہونے کے ساتھ متصادم ہے اور اگر گناہ کا ارتکاب فطری طور پر ناممکن ہے تو اطاعت فطری طور پر ضروری ہے، اور ایسی صورت میں اس کی اطاعت پر شرعی حکم نہیں آسکتا ہے اور پھر ڈرانے یا بشارت دینے اور جزا و سزا کے وعدوں کے لئے بھی گنجائش نہیں رہتی ہے۔<ref>جوادی آملی، سیره پیامبر اکرم ص در قرآن (ج۹)، ۱۳۸۵ش، ص۲۴.</ref>
[[سید محمدحسین طباطبائی|علامه طباطبایی]] عصمت کا اختیار کے ساتھ سازگار ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ «عصمت کا منبع ایک خاص علم ہے جو اللہ نے معصوم کو عطا کی ہے۔ علم خود ہی اختیار کے مبانی اور بنیاد میں سے ہے۔ لہذا معصومین اعمال کے مفاسد اور مصالح کو جاننے کی وجہ سے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتے ہیں؛ جیسا کہ جس شخص کو زہرا ہلاہل کا پتہ ہو تو کبھی اسے نہیں پیے گا۔»<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۱۶۲–۱۶۳.</ref>
شیعہ فلسفی [[محمد تقی مصباح یزدی]] کا کہنا ہے کہ عصمت صرف ایک علمی ملکہ ہی نہیں بلکہ علمی اور عملی ملکہ ہے جو معصوم کے بااختیار عمل کا اللہ تعالی کے لطف سے مطابقت ہونے سے حاصل ہوا ہے۔<ref>مصباح یزدی، در پرتو ولایت، ۱۳۸۳ش، ص۵۳–۶۳.</ref>
وہ اپنی رائے کو یوں بیان کرتے ہیں کہ جو بھی ایک استعداد اور اللہ کے لطف کے ساتھ اس دنیا میں آیا ہے اس کو فعال کرنا اس کے اپنے اختیار میں ہے۔ جو علم معصومین کی عصمت کا زینہ بنتا ہے وہ بھی اللہ کی عنایت ہے لیکن اس سے کوئی چیز ان پر تحمیل نہیں ہوتی ہے۔ پس اس استعداد کو برائے کار لانا اور اس کے مطابق عمل کرنا خود معصوم کی اپنی کوشش ہے۔<ref>مصباح یزدی، در پرتو ولایت، ۱۳۸۳ش، ص۵۷–۵۸.</ref>
==عصمت انبیا==
==عصمت انبیا==
===دائرہ===
===دائرہ===
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم