ابن قولویہ قمی

ویکی شیعہ سے
(جعفر بن قولویہ قمی سے رجوع مکرر)
ابن قولویہ قمی
ابن قولویہ و شیخ مفید کی قبریں (حرم کاظمین)
ابن قولویہ و شیخ مفید کی قبریں (حرم کاظمین)
کوائف
مکمل نامجعفر بن محمد بن جعفر بن موسی بن مسرور بن قولِوَیْہْ قمی۔
لقب/کنیتابن بابویہ قمی
آبائی شہرقم
تاریخ وفات367 ھ
مدفنحرم کاظمین (بغداد)
علمی معلومات
اساتذہمحمد بن جعفر بن قولویہ، علی بن محمد بن جعفر بن قولویہ، محمد بن یعقوب کلینی، محمد بن حسن صفار، شیخ صدوق کے والد ابن بابویہ۔
شاگردشیخ مفید، حسین بن عبید اللّه غضائری، احمد بن محمد بن عیاش، حیدر بن محمد بن نعیم سمرقندی، علی بن بلال مہلبی، احمد بن عبدون‌، تلعكبری‌، ابن عزور‌، محمد بن سلیم صابونی‌۔
تالیفاتکامل الزیارات، تاریخ الشہور، مداواة الجسد‌، الصلاة‌، الجمعہ و الجماعۃ، قیام اللیل‌، الرضاع‌، الصداق‌، الأضاحی.
خدمات


ابو القاسم جعفر بن محمد بن جعفر بن موسی بن مسرور (متوفی 367 ھ) کا لقب ابن قولویہ قمی و کنیت ابو القاسم ہے۔ وہ چوتھی صدی ہجری کے برجستہ شیعہ راویوں، محمد بن یعقوب کلینی کے قریبی شاگردوں اور شیخ مفید کے برجستہ ترین اساتذہ میں سے ہیں۔ ابن قولویہ صاحب فتوا فقہا میں سے ہیں اور ان کی آراء کو حدیثی و کلامی مکتب کا درمیانی راستہ سمجھا جاتا ہے۔ ابن قولویہ کثیر التالیف ہیں۔ ان کی اہم ترین تالیف کامل الزیارات ہے۔

زندگی نامہ

نام: جعفر بن محمد بن جعفر بن موسی بن مسرور بن قولِوَیْہْ قمی
مشہور نام: ابن قولویہ قمی
کینت: ابو القاسم

جعفر بن قولویہ ایران کے شہر قم کے ایک اہل علم اور پرہیزگار خاندان میں پیدا پوئے۔ بچپن سے ہی حصول علم کیلئے اپنے باپ اور بھائی کے درس میں حاضر ہوتے تھے جن کا شمار شیعہ راویوں میں ہوتا تھا۔ [1] انکے زندگی ناموں میں کنیت ابو القاسم مذکور ہے۔[2]

ابن قولویہ نے سال ۳۴۱ قمری میں مصر کا سفر کیا اور وہاں کے علما سے استفادہ کیا۔[3] ابن حجر سے منقول ہے کہ محمد بن سلیم صابونی نے مصر میں ان سے حدیث نقل کی ہے۔[4]

ابن قولویہ سال ۳۶۷ ہجری میں فوت ہوئے اور حرم کاظمین میں موسی بن جعفر (ع) اور امام جواد (ع) کے جوار میں دفن ہوئے اور پھر انکے بعد شیخ مفید کو انکے کنارے دفن کیا گیا۔[5] آفندی اصفہانی کا ماننا ہے کہ ان کی قبر قم میں ہے۔[6]

مقام و منزلت

عراق کے شہر کاظمین میں ابن قولویہ کا مقبرہ

جعفر بن محمد بن قولویہ اپنے زمانے کی ایک جانی پہچانی علمی شخصیت تھے ۔ان سے منقول روایات آج تک حدیثی مجوعوں میں ذکر ہوتی ہیں اور ان سے استناد کیا جاتا ہے ۔ شیعہ علما اور فقہا انکے خاص احترام کے قائل ہیں اور ان کا بہت سے راویوں سے احادیث نقل کرنا ان راویوں کی توثیق کی دلیل سمجھا جاتا ہے ۔

علمائے رجال میں سے نجاشی کہتے ہیں : لوگ جس قدر بھی انکی زیبائی ،علم اور فقہ کی تعریف کریں وہ اس سے کہیں برتر ہیں ۔ [7]

شیخ طوسی انکے بارے میں لکھتے ہیں : ابو القاسم، جعفر بن محمد بن قولویہ قمی ایک مورد اطمینان شخصیت ہیں اور انکی تالیفات کی تعداد فقہ کے ابواب کی مانند کثیر ہیں ۔ [8]

علامہ حلّی نقل کرتے ہیں: ابوالقاسم حدیث و فقہ میں ثقہ اور جلیل القدر شخصیت ہیں ۔[9]

سید ابن طاووس کہتے ہیں : صادق راوی ہیں اور تمام ان کی امانت پر اتفاق رکھتے ہیں ۔ [10]

اہل سنت علما میں سے ابن حجر عسقلانی انہیں مشہور شیعہ علما اور بزرگوں میں سے سمجھتا ہے ۔ [11]

اساتذہ

انہوں نے بزرگ علما کے دروس میں شرکت کی جیسے:

شاگرد

فائل:کامل الزیارات.jpg
کامل الزیارت تالیف ابن قولویہ قمی

بہت سی نامی گرامی شخصیات ان کے حلقۂ درس میں شامل ہوتیں جیسے:

  1. شیخ مفید: انکے ممتاز ترین شاگردوں میں سے ہیں وہ اپنے استاد کے بارے میں کہتے ہیں ؛ خداوند ہمارے مورد اعتماد شیخ ابوالقاسم جعفر بن محمد بن قولویہ کی تائید فرمائے۔[13]

روایات

فقہ میں ان سے منقول روایات کی تعداد ۵۰۰ کے قریب ہے۔ آیت اللہ خوئی کے مطابق ابن قولویہ کا نام ۴۶۵ روایتوں میں جعفر بن محمد بن جعفر بن موسی اور ۲۸ روایتوں میں جعفر بن محمد بن قولویہ کی تعبیر سے آیا ہے۔[15]

تألیفات

ابن قولویہ نے بہت سے آثار تالیف کئے جن میں سے چند ایک ذکر کئے جاتے ہیں:

  • تاریخ الشہور
  • مداواة الجسد‌
  • الصلاة‌
  • الجمعہ و الجماعۃ
  • قیام اللیل‌
  • الرضاع‌
  • الصداق‌
  • الأضاحی[16]

حوالہ جات

  1. کامل الزیارات، مقدمہ کتاب.
  2. رجال طوسی، ص ۴۱۸.
  3. کامل الزیارات، مقدمہ کتاب.
  4. لسان المیزان، ج ۲، ص ۱۲۵.
  5. الکنی و الالقاب، ج ۱، ص ۳۹۱.
  6. ریاض العلماء، ج ۶، ص ۳۲.
  7. رجال نجاشی، ص۱۲۳.
  8. الفہرست، ص۹۱.
  9. خلاصۃ الاقوال، ص۸۸.
  10. اقبال الاعمال، ج۱، ص۳۴.
  11. لسان المیزان، ج۲، ص۱۲۵.
  12. کامل الزیارات، ص۹ – ۱۳.
  13. تنقیح المقال، ج ۱۵، ص ۳۳۴.
  14. کامل الزیارات، ص ۱۳ و ۱۴.
  15. معجم رجال الحدیث، ج ۵، ص ۶۷ و ۶۸.
  16. کامل الزیارات، ص ۱۵ – ۱۷.

منابع

  • مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال فی علم الرجال، قم، آل البیت.
  • ابن طاووس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، مکتب الاعلام الاسلامی، ۱۴۱۴ ق.
  • افندی، عبدالله بن عیسی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، قم، مطبعہ الخیام، بی‌تا.
  • خوئی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۳ ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، تحقیق جواد قیومی، بی‌جا، نشر الفقاہہ، ۱۴۱۷ ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال طوسی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۵ ق.
  • عسقلانی، ابن حجر، لسان المیزان، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، ۱۳۹۰ ق.
  • قمی، ابن قولویہ، کامل الزیارات، نشر الفقاہہ، ۱۴۱۷ ق.
  • حلی، حسن بن یوسف، خلاصۃ الاقوال، نشر الفقاہہ، ۱۴۱۷ ق.
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۶ق.