ایٹن کوہلبرگ

ویکی شیعہ سے
(ایتھن کوہلبرگ سے رجوع مکرر)
ایٹن کوہلبرگ
مشہور یہودی شیعہ شناس
کوائف
نام(عبری: איתן קולברג، انگریزی: Etan Kohlberg)
مذہبیہودی
تاریخ پیدائش1943ء
ملکاسرائیل
سکونتاسرائیل
علمی معلومات
دیگر معلومات
مہارتتاریخ، عقاید و فقہ شیعہ
پیشہیونیورسٹی کے پروفیسر اور محقق
ایوارڈ(EMET) • روچیلد ایوارڈ


ایٹن کوہلبرگ (Etan Kohlberg)، ایک اسرائیلی اسلام شناس اور شیعہ شناس ہے جن کی تألیفات کو یہودی مستشرقین کے درمیان شیعہ مذہب کے مطالعہ میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔

اسرائیلی اسلام شناسوں میں کوہلبرگ پہلا محقق ہے جس نے شیعہ تاریخ پر توجہ مرکوز کی۔ کوہلبرگ اسرائیل میں اسلامی مطالعات کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہیں۔ کوہلبرگ کو اسلامی شناسی خاص کر شیعہ مطالعات میں منفرد خدمات کی وجہ سے اسرائیل آرٹس، سائنس اینڈ کلچر (EMET) پرائز سے نوازا گیا ہے۔

کولبرگ کے تحقیقی دائرہ کار میں شیعہ خاص کر مذہب امامیہ کے عقائد، فقہ، تاریخ اور مآخذ شامل ہیں۔ شیعیت سے متعلق کوہلبرگ کے مطالعے کا طریقہ اہل تشیع کی کمزوریوں کو پہنچاننا اور مسلمان فرقوں خاص کر شیعوں کے متنازعہ مسائل سے بحث کرنا ہے۔ کولبرگ کے لیے شیعہ شناسی اور اسلامی شناسی کے میدان میں 110 سے زیادہ تحقیقی کام متعارف کرائے گئے ہیں۔ ان کی تصانیف میں ابن طاووس کی لائبریری، ان کے حالات اور آثار (1993ء)، "امامیہ سے اثناعشریہ تک" (1976ء) اور "شیعہ امامیہ عقائد اور فقہ" (1991ء) شامل ہیں۔

تشیع کا تدریجی ارتقاء کوہلبرگ کے شیعہ شناسی میں دئے گئے نظریات میں سے ایک ہے۔ اس نظریہ پر مختلف اعتراضات کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ کوہلبرگ نے اپنے نظریے کے اثبات میں صرف ان احادیث کا حوالہ دیا ہے جو اس کے نظریے کے موافق ہیں جبکہ ان منابع میں ایسی روایتیں بھی موجود ہیں جو ان کی رائے کے مخالف ثابت کر سکتی ہیں۔

اہمیت

ایتن کوہلبرگ، ایک مشہور اسرائیلی اسلام شناس اور شیعوں کے بارے میں تحقیق کرنے والے ایک محقق[1] اور اسرائیل اکیڈمی آف ہیومن سائنسز کے رکن ہیں[2] جنہیں ایگناس گولڈزیہر Ignas Goldziher (وفات: 1912) کے بعد سب سے مشہور یہودی مستشرق کہا جاتا ہے۔[3] اسلام شناسی کے اسرائیلی ماہرین کے درمیان کوہلبرگ وہ پہلا اسکالر سمجھا جاتا ہے جس نے شیعہ تاریخ کے شعبے پر توجہ مرکوز کی اور اس میدان میں طلباء کی تربیت کی۔[4] ان کے آثار کو یہودی مستشرقین کے درمیان شیعہ علوم میں ایک اہم موڑ اور ان کی اگلی نسل کے لیے ایک نمونہ سمجھا جاتا ہے۔[5] ان کی شہرت کی وجہ شیعہ مذہب پر مرکوز ہونا[6] اور ان کے آثار کو عربی، فارسی اور ترکی زبانوں میں ترجمہ اور نقد کرنے کو جانا جاتا ہے۔[7]

شیعہ کے بارے میں کوہلبرگ کے تبصروں کو مختلف حوالوں سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے؛ منجملہ ائمہؑ کی زندگی کے بارے میں ان کی آراء [8]اور کچھ شیعہ فقہی نظریات کے بارے میں ان کا نظریہ[9] ان کے نظریات پر تنقید کے علاوہ ان کی تحقیقی شخصت پر بھی تنقید کی گئی ہے؛ منجملہ بعض آراء میں تعصب، مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو اجاگر کرنا، شیعہ فکر کی ایک غیر فعال تصویر پیش کرنا، روایات کے ساتھ انتخابی سلوک اور شیعہ افکار میں شک و تردید ایجاد کرنا ہے۔[10] کوہلبرگ کی تعصب کے لئے ایک مثال ان کا اس بات پر اصرار ہے کہ شیعہ مذہب کی بنیاد اور اصول کو دیگر اسلامی مذاہب اور فرقوں سے اخذ کیا گیا ہے۔[11]

کوہلبرگ اسرائیل میں اسلامی علوم میں اعلیٰ ترین کرسی پر فائز ہیں۔[12] وہ یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی میں طویل عرصے تک ممتاز پروفیسر رہے ہیں۔[13] سنہ 2008ء میں، کوہلبرگ کو روتھ چائلڈ پرائز سے نوازا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایوارڈ اس شخص کو دیا جاتا ہے جس نے یہودی کاز کی سب سے زیادہ خدمت کی ہو۔[14] اسی طرح انہیں اسلامی علوم بالخصوص شیعہ علوم کے میدان میں ان کی منفرد خدمات کی وجہ سے اسرائیل آرٹس، سائنس اینڈ کلچر (EMET) پرائز سے نوازا گیا ہے۔[15]

کوہلبرگ کی شیعوں کے بارے میں لکھی جانے ولی اہم تحقیق ابن طاووس کی لائبریری اور ان کی زندگی اور آثار[16]

کوہلبرگ کی تجلیل کرتے ہوئے ایک تجلیلی کتابچہ چالیس سال امامیہ شیعہ کے بارے میں تحقیق کے نام سے سنہ 2009ء میں محمد علی امیرمعزی کے زیر نظر پیرس یونیوسٹی کے استاد اور شیعہ شناس ایرانی، اسرائیلی شیعہ شناس میر میخائیل براشر اور کوہلبرگ کے شاگرد نے فرانس میں نشر کیا۔[17]

تحقیق کے شعبے اور خصوصیات

کولبرگ کے تحقیقی شعبے دینیات، فقہ، تاریخ اور شیعہ مآخذ ہیں، خاص طور پر امامیہ [18]

کوہلبرگ کے تحقیقی شعبوں میں کلام، فقہ، تاریخ و شیعہ مآخذ، خاص کر امامیہ۔[18] موضوع کے لحاظ سے، ان کے شیعہ شناسی کی تالیفات میں شخصیات کی سوانح (بشمول شیعہ ائمہعلم رجال اور ستاویزی مطالعات، شیعہ تاریخ، میراث شناسی (تعارف، تصحیح، تعمیر نو اور قدیم متون کی توثیق) اور فقہ الحدیث شامل ہیں۔[19]

شیعہ شناسی کے علوم میں کوہلبرگ کے کام کا طریقہ شیعیت کی تاریخ کی پیتھالوجی[20] اور اسلامی فرقے، خاص طور پر شیعہ کے متنازعہ مسائل سے چھیڑنا ہے۔[21] کہا گیا ہے کہ کوہلبرگ نے شیعوں کے درمیان اصول دین و فروع دین کا کافی حد تک مطالعہ کیا ہے، خاص طور پر شیعہ حدیث سے متعلق حصوں کا۔[22] کوہلبرگ کی تالیفات میں شیعوں کے اصلی عقائد جیسے امامت اور مہدیت کی بنیادی تحقیقات کی گئی ہیں۔[23]

کوہلبرگ کے تحقیقی کردار کی مثبت خصوصیات میں[24]مطالعہ کے شعبوں کی وسعت، مصادر میں تحقیق ان پر مہارت، تحقیق کے موضوع کی بنیادی باتوں کا علم، تاریخی تحریکوں کا علم، اور اپنی تحقیقات میں نظریہ دینا، شامل ہیں۔ مصادر میں ان کی تحقیق اور ان پر گرفت کے حوالے سے اصول اربعمائہ کے بارے میں ان کی تحقیق کی مثال دی جاتی ہے[25] جس میں فہرست ابن ندیم، شیخ طوسی کی رجالی کتابیں، رجال نجاشی اور معالم العلماء کے مطابق 109 اصل بیان کیا ہے۔[26]

نظریات اور ان کا نقد

کولبرگ کے اسلامی شاسی اور شیعوں کے بارے میں دئے گئے نظریات میں شیعہ کے تدریجی ارتقاء، قرآن کی تحریف اور شیعوں کی نظر میں تقیہ شامل ہیں جن پر نقد بھی کیا ہے۔[27]

شیعیت کا تدریجی ارتقاء

کوہلبرگ کے مطابق، امامیہ کا نظریہِ امامت تدریجی طور پر پہلی صدی ہجری میں پیش کیا گیا تھا اور اسے دوسری صدی کے نصف حصے میں ہشام بن حکم نے مضبوط کیا تھا۔[28] اس نظرئے میں سو سال تک (امام حسن عسکریؑ کے دور تک) کوئی تبدیلی نہیں آئی اور چوتھی صدی ہجری کے نصف حصے میں اس میں کچھ اہم نکات شامل کیے گئے۔[29] غیبت صغری کے بعد امامیہ کو اثناعشریہ کا نام دیا گیا اور یہ شیعوں میں امامت کے نظرئے کی تدریجی انضمام کی علامت ہے۔[30]

کچھ لوگوں نے کوہلبرگ کی اس رائے پر تنقید کی ہے؛[31] منجملہ: کوہلبرگ نے اپنی رائے کو ثابت کرنے کے لیے جو روایتیں استعمال کی ہیں، ان میں ایسی روایتیں بھی ہیں جو ان کی رائے کے خلاف ثابت ہوسکتی ہیں؛ ان روایات کو کولبرگ نے نظر انداز کیا ہے۔[32] اپنے نظرئے کو ثابت کرنے کے لئےکولبرگ کی سب سے اہم دلیل بعض معارف کے بارے میں شواہد کا نہ ملنا ہے جو کہ قابلِ نقد ہے؛ کیونکہ تمام متون ہم تک نہیں پہنچے ہیں اور سیاسی حالات کی وجہ سے اس میدان میں مخفی کاری کا امکان بھی پایا جاتا تھا۔[33] غیبت صغری بعد نظریہ امامت کی طرف شیعوں کی توجہ ایک فطری امر اور آل بویہ کے اقتدار میں آنے کے بعد اسلامی معاشری کی جدید سیاسی اور ثقافتی صورت حال کی عکاس ہونے کو ذکر کیا ہے اور کہا کہ اس کا مطلب حتمی طور پر یہ نہیں کہ یہ معارف اس دور میں ایجاد ہوئی ہوں۔[34]

تحریف قرآن شیعہ کی نظر میں

کچھ لوگوں کے مطابق، کوہلبرگ کا خیال ہے کہ غیبت سے پہلے کے دور میں شیعوں کی ایک بڑا تعداد قرآن کی تحریف پر یقین رکھتے تھے۔ [35] ان کا کہنا ہے کہ غیبت کے بعد اس عقیدے میں تجدید نظر ہوگئی اور شیخ صدوق پہلے شیعہ عالم تھے جنہوں نے قرآن کی عدم تحریف پر استدلال کیا ہے۔[36] کوہلبرگ کی اس رائے پر تنقید ہوئی ہے؛[37] منجملہ تحریف قرآن کے بارے میں موجود روایات جو کوہلبرگ کی نظر میں امامیہ مصادر حدیث میں فراوان پائی جاتی ہیں ان میں سے اکثر جعلی ہیں اور بہت ساری ایسی روایات اہل سنت کے مصادر سے شیعہ کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔[38] دوسری طرف یہ روایات قرائن کے مطابق تفسیر، شأن نزول، غیر قرآنی وحی اور تحریف معنوی کے بارے میں ہیں تحریف لفظی کے بارے میں نہیں۔[39]

تقیہ شیعہ کی نظر میں

بعض محققین کے مطابق کوہلبرگ تقیہ کو ان عوامل میں سے ایک مانتے ہیں جو امامیہ کو دوسرے اسلامی فرقوں سے ممتاز کرتے ہیں اور اس مذہب کے ایک بنیادی اصل شمار ہوتا ہے۔[40] ان کی رائے میں ائمہؑ کے دور کے شیعوں کا عملی طریقہ۔ اس اصول پر عمل کرنے میں متضاد تھے؛ بعض اس کے حق میں تھے اور بعض اس کے مخالف تھے۔[41] بعض نے کوہلبرگ کے اس نظرئے کو نقد کیا ہے؛[42] منجملہ: تقیہ کا عقیدہ صرف امامیہ سے مخصوص نہیں بلکہ تقیہ ایک ایسا اصل ہے جس کی بنیادی قرآن و سنت پر مبنی ہے اور اسے اسلامی مکاتب کا عقیدہ سمجھا جاتا ہے۔[43] شیعوں کے ہاں اصول دین معین ہیں اور تقیہ ان میں سے نہیں ہے۔[44] مختلف صدیوں میں تقیہ کے مسئلہ پر امامیہ علماء کے فتاویٰ میں اختلاف ان کے نقطہ نظر میں اختلاف (اصول تقیہ کو قبول یا عدم قبولیت) کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ مختلف واقعات میں مکلف کی حالت میں فرق کی وجہ سے تھا۔[45]

سوانح

ایٹن کاہلبرگ 1943ء میں تل ابیب میں پیدا ہوئے۔[46] اس کے والد ایک فعال صہیونی یہودی تھے۔[47] انہوں نے 1968 میں یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی سے ابوبکر کے بارے میں سنی اور شیعہ نظریات پر ایک تحقیقی مقالہ لکھ کر ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔[48] ​​اور 1971 میں، انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔[49] ان کا ڈاکٹریٹ مقالہ "اصحابِ رسولؑ کے بارے میں شیعوں کا نظریہ" شرق شناس سیموئل اسٹرن (وفات: 1969) اور اسلامی فلسفے کے پروفیسر رچرڈ والزر (وفات: 1975)، کی زیر نگرانی لکھ دیا۔[50] کوہلبرگ نے 1972 میں عبرانی یونیورسٹی میں عربی زبان اور ادب پڑھانا شروع کردیا۔[51] سنہ 1991 میں مکمل پروفیسر بنے اور 2006 میں ریٹائر ہوئے۔[52] کوہلبرگ نے ویزیٹنگ پروفیسر کے طور پر ریاستہائے متحدہ امکریہ کی ییل اور پریسٹن یونیورسٹی میں پڑھایا ہے۔[53]

آثار

بعض ذرائع کے مطابق کولبرگ کی فیسٹیول کی کتاب کے تعارف میں ان کے 110 کام درج ہیں۔[54] کچھ علمی مجموعوں کی ایڈیٹنگ کے علاوہ کولبرگ کے کاموں کی شکلوں میں کتابیں، رسالوں میں شائع ہونے والے مضامین، انسائیکلوپیڈک مضامین، اور کتاب کے جائزے اور تجزیے شامل ہیں۔[55]

حدیث امامیہ کے بارے میں کوہلبرگ کے نظریات کی نقد پر ایک کتاب

کتابیں

کوہلبرگ کی کتابیں درج ذیل ہیں:

  • تصحیح جوامع آداب الصوفیۃ و عیوب النفس و مُداواتہا از ابوعبدالرحمن سُلَّمی صوفی (1976ء)،
  • شیعہ امامیہ عقائد اور فقہ (1991ء) (Belief and low in Imami shi,ism)
  • ابن طاووس کی لائبریری اور ان کے سوانح اور آثار (1993م) (A medieval muslim scholar at wirk. Ibn tawus and his library )

[56]

  • وحی اور تحرف: کتاب القراءۃ احمد بن محمد السیاری (2009م) Rvelation and falcification: The Kitab al-qira at of Ahmad b.Muhammad al-Sayyari) (2009) [57]

مقالات

مجلات اور رسالوں میں چھپنے والے مقالات کی تعداد 44 ہے جو مختلف موضوعات کے بارے میں لکھے گئے ہی۔[58] ہفدہ عنوان از این مقالہ ہا در کتاب عقاید و فقہ شیعہ امامیہ بہ چاپ رسیدہ است.[59]

  • Some Notes on the Imamite Attitude to the Quran (1972)
  • From Imamiyya to Ithana-ashariyya (1979)
  • The Development of the Imami Shii Doctrine of Jihad (1976)
  • Abu Turab (1978)
  • The Term MUhaddath in Twelver Shiism (1979)
  • The Evolution of the Shia (1983)
  • Non-Imami Muslims in Imami Figh(1985)
  • The position of the walad zina in imami shiism (1985)
  • Baraa in shi i doctrine (1986)
  • Al-Usul al-arbaumia (1987)
  • Taqiyya in Shii Theology and Religion (1995)
  • [60]

ان کے علاوہ بعض انسائکلوپیڈیا میں بھی بعض مقالات لکھے ہیں۔[61] اور بعض کتابوں پر نقد بھی کیا ہے۔[62] از جملہ:

حوالہ جات

  1. کلبرگ، «امام و قوای بصری»، مقدمہ مترجم، ص113۔
  2. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص35؛ بارانی و تورگوت، «بررسی و تحلیل شخصیت ہای برجستہ و مراکز علمی شیعہ پژوہان یہودی»، ص19۔
  3. بارانی و تورگوت، «بررسی و تحلیل شخصیت ہای برجستہ و مراکز علمی شیعہ پژوہان یہودی»، ص24۔
  4. رحمتی، «مطالعات اسلامی در فلسطین اشغالی: بررسی کتاب شناختی»، ص305۔
  5. بارانی و تورگوت، «بررسی و تحلیل شخصیت ہای برجستہ و مراکز علمی شیعہ پژوہان یہودی»، ص22۔
  6. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص36؛ ارانی و تورگوت، «بررسی و تحلیل شخصیت ہای برجستہ و مراکز علمی شیعہ پژوہان یہودی»، ص25۔
  7. بارانی و تورگوت، «بررسی و تحلیل شخصیت ہای برجستہ و مراکز علمی شیعہ پژوہان یہودی»، ص22؛ بارانی و تورگوت، «بررسی و تحلیل شخصیت ہای برجستہ و مراکز علمی شیعہ پژوہان یہودی»، ص25؛ مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص95۔
  8. رنجبر، «نقد و بررسی مدخل امام علی بن الحسین زین العابدین(ع)»، ص223-237؛ رزاقی موسوی، «بررسی انتقادی آثار خاورشناسان دربارہ امام کاظم(ع)»، ص127-152۔
  9. کریمی و طباطبایی نژاد، «تحلیل انتقادی نظرات اتان کولبرگ در موضوع جہاد از دیدگاہ امامیہ»، ص87-111؛ ظفری، «نقد دیدگاہ کلبرگ دربارہ ولد زنا بر اساس حقوق جزای امامیہ»، ص33-53۔
  10. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص127-140۔
  11. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص128۔
  12. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص35۔
  13. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص35۔
  14. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص35-36۔
  15. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص36۔
  16. حسینی، شیعہ پژوہی و شیعہ پژوہان انگلیسی زبان، 1387ہجری شمسی، ص285
  17. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص36۔
  18. حسینی، شیعہ پژوہی و شیعہ پژوہان انگلیسی زبان، 1387ہجری شمسی، ص285۔
  19. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص62-95۔
  20. رحمتی، «مطالعات اسلامی در فلسطین اشغالی: بررسی کتاب شناختی»، ص307۔
  21. بارانی و تورگوت، «بررسی و تحلیل شخصیت ہای برجستہ و مراکز علمی شیعہ پژوہان یہودی»، ص18۔
  22. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص36۔
  23. برای نمونہ ن.ک: بارانی و تورگوت، «بررسی و تحلیل شخصیت ہای برجستہ و مراکز علمی شیعہ پژوہان یہودی»، ص25۔
  24. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص109-127؛ نفیسی، مستشرقان و حدیث، قم، ص187۔
  25. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص113۔
  26. مہریزی، «مکتوبات حدیثی اصحاب ائمہ(ع)»، ص8۔
  27. الویری، «نقد نظریہ ای در پیدایش شیعہ اثنی عشریہ»، ص51-70؛ رضایی ہفتادر و سروی، «نقد نظریہ اتان کلبرگ در تحریف قرآن»، ص85۔
  28. کلبرگ، «از امامیہ تا اثنی عشریہ»، ص201۔
  29. کلبرگ، «از امامیہ تا اثنی عشریہ»، ص201۔
  30. کلبرگ، «نخستین کاربردہای اصطلاح اثنی عشریہ»، ص64-67۔
  31. ملاحظہ کریں: الویری، «نقد نظریہ ای در پیدایش شیعہ اثنی عشریہ»، ص51-70۔
  32. الویری، «نقد نظریہ ای در پیدایش شیعہ اثنی عشریہ»، ص54-57۔
  33. الویری، «نقد نظریہ ای در پیدایش شیعہ اثنی عشریہ»، ص62۔
  34. الویری، «نقد نظریہ ای در پیدایش شیعہ اثنی عشریہ»، ص70۔
  35. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص127؛ رضایی ہفتادر و سروی، «نقد نظریہ اتان کلبرگ در تحریف قرآن»، ص84۔
  36. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص127؛ رضایی ہفتادر و سروی، «نقد نظریہ اتان کلبرگ در تحریف قرآن»، ص84.
  37. برای نمونہ ن.ک: رضایی ہفتادر و سروی، «نقد نظریہ اتان کلبرگ در تحریف قرآن»، ص84-85۔
  38. رضایی ہفتادر و سروی، «نقد نظریہ اتان کلبرگ در تحریف قرآن»، ص85۔
  39. رضایی ہفتادر و سروی، «نقد نظریہ اتان کلبرگ در تحریف قرآن»، ص85۔
  40. معارف و دیگران، «نقدی روایی-کلامی بر دیدگاہ اتان کلبرگ در موضوع تقیہ از منظر شیعہ امامیہ»، ص156۔
  41. معارف و دیگران، «نقدی روایی-کلامی بر دیدگاہ اتان کلبرگ در موضوع تقیہ از منظر شیعہ امامیہ»، ص156۔
  42. برای نمونہ ن.ک: معارف و دیگران، «نقدی روایی-کلامی بر دیدگاہ اتان کلبرگ در موضوع تقیہ از منظر شیعہ امامیہ»، ص155-176۔
  43. معارف و دیگران، «نقدی روایی-کلامی بر دیدگاہ اتان کلبرگ در موضوع تقیہ از منظر شیعہ امامیہ»، ص157-158۔
  44. معارف و دیگران، «نقدی روایی-کلامی بر دیدگاہ اتان کلبرگ در موضوع تقیہ از منظر شیعہ امامیہ»، ص158-160۔
  45. معارف و دیگران، «نقدی روایی-کلامی بر دیدگاہ اتان کلبرگ در موضوع تقیہ از منظر شیعہ امامیہ»، ص175-176۔
  46. کلبرگ، کتابخانہ ابن طاووس، پیشگفتار مترجمان، 1371ہجری شمسی، ص11۔
  47. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص34۔
  48. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص34۔
  49. حسینی، شیعہ پژوہی و شیعہ پژوہان انگلیسی زبان، 1387ہجری شمسی، ص284-285۔
  50. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص34-35۔
  51. حسینی، شیعہ پژوہی و شیعہ پژوہان انگلیسی زبان، 1387ہجری شمسی، ص285۔
  52. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص35۔
  53. بارانی و تورگوت، «بررسی و تحلیل شخصیت ہای برجستہ و مراکز علمی شیعہ پژوہان یہودی»، ص19۔
  54. برای نمونہ ن.ک: مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص43۔
  55. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص43؛ کلبرگ، «امام و قوای بصری»، مقدمہ مترجم، ص113۔
  56. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399 شمسی، ص44-45۔
  57. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399شمسی، ص44-45۔
  58. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص46۔
  59. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص46۔
  60. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص46-50۔
  61. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص50۔
  62. مطہری، اتان کلبرگ و حدیث امامیہ، 1399ہجری شمسی، ص56-58۔

مآخذ