انبار
اَنْبار یا الاَنْبار، عراق کا ایک قدیمی شہر تھا جس کا ذکر اسلامی تاریخ میں متعدد بار ملتا ہے۔ موجودہ دور میں اس شہر کے آثار دریائے فرات کے کنارے اور فلوجہ شہر کے قریب صوبہ الأنبار میں پائے جاتے ہیں۔[1] کہا جاتا ہے کہ یہ شہر فوجیوں کے لیے ذخیرہ اندوزی کی جگہ تھی، اس لیے اسے انبار(ساز و سامان) کا نام دیا گیا۔[2] بعض تاریخی نقل کے مطابق اس شہر کو "پیروز شاپور"[3] بھی کہا جاتا تھا[یادداشت 1] اور چونکہ یہ شہر بغداد کے قیام سے قبل بنی عباس کا دارالحکومت رہا ہے،[4] اس بنا پر تیسری صدی ہجری میں اسے "مدینۃ أبی العباس" بھی کہا جاتا تھا۔[5]
الأنبار کوسنہ 12ھ میں ابوبکر کے دور میں خالد بن ولید کی قیادت میں بغیر کسی جنگ و خونریزی کے مسلمانوں نے فتح کر لیا تھا۔[6]
امام علیؑ کا لشکر جنگ صفین کے دوران اس شہر سے گزرا اور وہاں کے لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔[7] الانبار کے دہقانوں نے اپنے گھوڑوں سے اتر کر برسمِ احترام امام علیؑ کے پیچھے دوڑنا شروع کیا، لیکن امام علیؑ نے انہیں اس عمل سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ دنیا اور آخرت دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔[8]
امام علیؑ نے الانبار کے لوگوں کی طرف سے برسم استقبال آپ کے مرکب کے پیچھے دوڑنے پر انہیں اس عمل سے منع کیا اور فرمایا:
«وَ اللَّہِ مَا يَنْتَفِعُ بِہَذَا أُمَرَاؤُكُمْ وَ إِنَّكُمْ لَتَشُقُّون عَلَى أَنْفُسِكُمْ فِي دُنْيَاكُمْ وَ تَشْقَوْن بِہِ فِي [أُخْرَاكُمْ] آخِرَتِكُمْ وَ مَا أَخْسَرَ الْمَشَقَّۃَ وَرَاءَہَا الْعِقَاب»۔
"بخدا! اس عمل سے تمہارے حکمرانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور تم اپنی دنیا میں خود کو مشقت میں ڈال رہے ہو اور آخرت میں عذاب کا سامنا کرو گے اور وہ مشقت کتنی خسارے والی ہے جس کے پیچھے عذاب ہو۔
نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، خطبہ 37، ص475۔
کتاب الغارات کے مصنف ثقفی کے مطابق معاویہ نے امام علیؑ کی خلافت کے دوران انبار پر حملہ کیا، اور امام کے کارگزار اَشرَس بن حَسّان بَکری کو قتل کر دیا اور شہر کو لوٹ لیا گیا۔[9] اس واقعے کے بعد امام علیؑ نے خطبہ دیا جو نہج البلاغہ میں خطبہ جہاد کے نام سے معروف ہے[10] اس کے بعد امام علیؑ نے سعید بن قیس ہمدانی کو آٹھ ہزار سپاہیوں کے ساتھ معاویہ کے لشکر کا مقابلہ کرنے کے لیے روانہ کیا۔[11]
چوتھی صدی ہجری کے مورخ طبری کے مطابق شہر الانبار کو بختنصر (چھٹی صدی قبل مسیح کے بابل کے بادشاہ) نے آباد کیا تھا۔[12] بعد میں شاپور دوم، ساسانی سلطنت کے بادشاہ (چوتھی صدی عیسوی) نے اس شہر کو دوبارہ آباد کیا۔[13] تیسری صدی ہجری کے جغرافیہ دان ابن رستہ کا ماننا ہے کہ عربی رسم الخط سب سے پہلے انبار سے رائج ہوا۔[14] اصمعی کی روایت کے مطابق جب قریش سے پوچھا گیا کہ انہوں نے کتابت کہاں سے سیکھی تو انہوں نے جواب دیا حیرہ سے اور حیرہ کے لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے الانبار کے لوگوں سے کتابت سیکھی ہے۔ انبار کے لوگوں نے کہا کہ ہم نے یہ فن "قوم ایاد" سے سیکھا ہے۔[15]
حوالہ جات
- ↑ علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، 1422ھ، ج16، ص355۔
- ↑ حموی، معجم البلدان، 1995ء، ج1، ص257۔
- ↑ دینوری، الاخبار الطوال، 1368شمسی، ص49۔
- ↑ حموی، معجم البلدان، 1995م، ج5، ص389۔
- ↑ دینوری، الاخبار الطوال، 1368شمسی، ص375۔
- ↑ حموی، معجم البلدان، 1995ء، ج1، ص258۔
- ↑ ابنمزاحم، وقعۃ صفین، 1404ھ، ص143-144۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، حکمت 37، ص475۔
- ↑ ثقفی، الغارات، 1395ھ، ص464-470۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، خطبہ 27، ص69۔
- ↑ ثقفی، الغارات، 1395ھ، ص470-471۔
- ↑ طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج2، ص43۔
- ↑ حموی، معجم البلدان، 1995ء، ج1، ص257۔
- ↑ ابن رُستہ، الاعلاق النفیسۃ، 1892م، ص192۔
- ↑ الحميري، الروض المعطار في خبر الاقطار، ص36۔
نوٹ
- ↑ پیروز فرزند شاپور شہر الانبار کو آباد کرنے والا تھا۔
مآخذ
- ابنرستہ، احمد بن عمر، الاَعلاق النفیسۃ، بیروت، دار صادر، 1892ء۔
- ابنمزاحم، نصر، وقعۃ صفین، قم، کتابخانہ آیتاللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
- پاکتچی، «ابوطالب انباری»، در دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، تہران، 1372ہجری شمسی۔
- ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، تہران، انجمن آثار ملی، 1395ھ۔
- حموی، یاقوت، معجم البلدان، بیروت، دار صادر، 1995ء۔
- الحمیری، الروض المعطار فی خبر الاقطار، بی تا، بی نا، بی جا۔
- دینوری، احمد بن داوود، الأخبار الطِوال، قم، منشورات الرضی، 1368ہجری شمسی۔
- سیدرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، 1414ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت، دار التراث، 1387ھ۔
- علی، جواد، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، بیروت، دار الساقی، 1422ھ۔