مندرجات کا رخ کریں

اسلام رحمانی

ویکی شیعہ سے

اسلامِ رحمانی، دین اسلام کے بارے میں ایک ایسی تعبیر ہے جو اسلام کی رحمت و شفقت اور افراط و تشدد سے دوری کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس تعبیر کے حامیوں کے مطابق، اسلام کا اس کے مخالف نظریات کے ساتھ رویہ؛ نرمی، مکالمے پر زور، آزادی کو اہمیت دینے نیز انحصار، جمود و تنگ نظری سے پرہیز پر مبنی ہے۔ اسلامِ رحمانی کے حامیوں کے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ آیا رحمت و مہربانی اسلام کی ذاتی خصوصیت ہے یا بعد میں اس میں شامل کی گئی، اور یہ کہ کیا یہ تعبیر اسلامی حکومت سے ہم آہنگ ہو سکتی ہے یا نہیں۔ محسن کدیور اور عبد الکریم سروش کو اسلامِ رحمانی کے حامیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

شیعہ مرجع تقلید اور رہبر شیعیان جہاں، سید علی حسینی خامنہ‌ ای کے مطابق، اسلامِ رحمانی الْتِقَاطی نظریہ (سہل اور مفاہمتی طرز فکر) اور لبرل ازم سے متاثر ہے۔ سید علی حسینی خامنہ ای اور عبد اللہ جوادی آملی، اسلامِ رحمانی اور شدت پسند تعبیرات کے مقابلے میں اسلامِ ناب (خالص اسلام) کا تصور پیش کرتے ہیں، جو عقلانیت، دشمن کے سامنے تسلیم نہ ہونے کے ساتھ ساتھ تشدد اور تکفیر کو بھی مسترد کرتا ہے۔ اسلامِ رحمانی کے ناقدین کے مطابق، یہ نقطۂ نظر دین کو صرف آخرت تک محدود کرنے، تسامح و رواداری اور ایسے رویے کا باعث بنتا ہے جس میں ہر چیز کو جائز سمجھا جاتا ہے۔

اسلامِ رحمانی کا نظریہ مختلف اسلامی مذاہب کے مفکرین کے درمیان موجود ہے، لیکن کہا جاتا ہے کہ ایران میں سیاسی اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کی وجہ سے یہ فکر ایران اور شیعہ حلقوں میں زیادہ نمایاں ہوئی ہے۔ اس تصور کی بنیاد ایک فکری و سماجی رجحان کے طور پر سنہ 1980ء کی دہائی کے آخر میں رکھی گئی تھی۔

اسلامِ رحمانی کی تشریح

اسلامِ رحمانی ایک ایسی تعبیر ہے جو اسلامی تعلیمات اور اس کے عقائد کی تشریح اس انداز میں کرتی ہے کہ جس میں مکالمہ، تنوع (تکثّر)، آزادیٔ رائے اور مخالف نظریات کو برداشت کرنے کو بنیادی اصولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی تعلیمات کی کچھ اس طرح سے تشریح پیش کی گئی ہے جس کے مطابق اسلام میں انحصار پسندی، جمود (تَحَجُّر) اور تنگ نظری جیسے اوصاف پائے جاتے ہیں۔ ان محققین کے مطابق، اسلامی تعلیمات کی بہت سی تفاسیر اور تشریحات شدت پسندی اور افراط کا پہلو رکھتی ہیں۔[1] محسن کدیور اسلامِ رحمانی کو فاشیستی اسلام، طالبانی اسلام، اُموی اسلام، اور تاریک و متحجر اسلام کے مقابل قرار دیتے ہیں۔[2]

اسلام کی اصل فطرت رحمانی ہے

اسلامِ رحمانی کے اہم نظریہ پرداز محسن کدیور کا عقیدہ ہے کہ اسلام کی اصل فطرت رحمت اور شفقت پر مبنی ہے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جاہلیت کے خشونت آمیز رسم و رواج اور اس اسلام کے اہداف کی روح پر توجہ کے فقدان جیسے عوامل کی وجہ سے اسلام اپنی رحمانی بنیادوں سے دور ہوگیا۔[3] اس کے برعکس عبد الکریم سروش کا خیال ہے کہ اسلام کے ابتدا میں رحمانی پہلو نہ تھا، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان مفکرین کے فکری ارتقاء کے نتیجے میں اسلام کے رحمانی پہلو اجاگر ہوتے گئے۔ انہوں نے اپنے اس نظریے کو اپنی دو کتابوں نبوی تجربے کی توسیع اور "قبض و بسط تئوریک شریعت" میں بیان کیا ہے۔[4]

اسلامِ رحمانی بمقابلہ اسلامِ تاریخی

اسلامِ رحمانی کے ماننے والے اسلام کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں؛ اسلامِ تاریخی؛ جسے وقت اور مقام کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا گیا ہے۔ اسلامِ معنوی (رحمانی)؛ جو دین کے اصلی اور ابدی اصولوں اور مقاصد پر مبنی ہے اور زمان و مکان جیسے قیودات پر توجہ نہیں دی جاتی ہے۔[5] محسن کدیور کے مطابق، اسلام کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ہمیں اسلام کی تاریخی تفاسیر سے دور ہو کر عقلانیت کی بنیاد پر اسلام کی اصل حقیقت پر غور کرنا چاہیے۔[6] سید محمدعلی ایازی کے مطابق، اسلامِ رحمانی میں دین کے بنیادی اصول، دیگر تعلیمات اور معاملات و احکام بدستور معتبر ہیں، تاہم بعض احکام و رسومات جو نزولِ قرآن کے دور کے مخصوص حالات میں سمجھے گئے تھے اور اب اپنی رحمانی فطرت سے دور ہو چکے ہیں، ان کی نئی تفسیر کی ضرورت ہے۔[7]

اسلامِ رحمانی کی بنیادی خصوصیات

اسلام رحمانی میں دین کو سمجھنے کی بنیادیں

محسن کدیور خدا کی رضا اور رحمت کے سوا جو کہ اسلام رحمانی کی بنیاد ہیں، دین کو سمجھنے میں عقل کی اصالت اور اعتبار پر بہت زور دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، کوئی بھی ایسی بات جو عقلِ سلیم کے خلاف ہو، معتبر نہیں ہو سکتی، اور ہر دینی حکم کو عقل کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے۔[8] کدیور کا یہ بھی کہنا ہے کہ دین کی صحیح تفسیر اور سمجھ بوجھ کے لیے جدید انسانی علوم کا بھی استعمال ضروری ہے، کیونکہ یہ علوم دین کے بہتر فہم میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔[9]

رحمانی اسلام میں عدل، اخلاق اور انسانی حقوق کا تصور

اسلامِ رحمانی کی تعبیر میں عدل و انصاف اور اخلاقیات کو اسلام فہمی کی بنیاد شمار کیا جاتا ہے۔ ایسا کوئی بھی فتویٰ یا حکم جو سماجی انصاف سے ٹکرائے، ناقابلِ قبول سمجھا جاتا ہے؛[10] اسی طرح ہر حکم کو اخلاقی اصولوں کے عین مطابق ہونا چاہیے۔[11] اسلامِ رحمانی میں انسانی آزادی اور اختیار کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یہ نظریہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ اسلام، کسی شخص کے دین، مسلک یا عقیدے سے قطع نظر، اس کی جان، مال، عزت اور آزادی کی حفاظت کو ضروری سمجھتا ہے[12] اور دین کے معاملے میں زبردستی یا جبر کو سختی سے رد کیا گیا ہے۔[13]

اسلام رحمانی میں دین و سیاست کے مابین تعلق

اسلام رحمانی کے حامیوں کے مطابق، جمہوریت معاشرے کو چلانے کا بہترین طریقہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جمہوری طرز حکومت میں اقتدار کا منبع عوام ہوتے ہیں اور حکومت عوامی خواہش اور رضامندی کے مطابق تشکیل پاتی ہے۔[14] محسن کدیوردین اور سیاست کے ایک دوسرے سے جدا ہونے کو رحمانی اسلام کا بنیادی رکن مانتا ہے۔ ان کے خیال میں حکومت کو دینی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں، اور دونوں کو آزاد اور خودمختار طور پر کام کرنا چاہیے۔[15] تاہم، اسلام رحمانی کی دوسری تفاسیرکے مطابق دین و سیاست کے مابین باہمی تعلق ہے۔ اکبر ہاشمی رفسنجانی، سید محمد خاتمی اور حسن روحانی جیسے افراد کی گفتگو سے یہ تاثر بھی لیا گیا ہے کہ وہ اسلام اور سیاست کو مکمل جدا نہیں سمجھتے، بلکہ اسلامی انقلاب اور حکومت کو اسلامِ رحمانی کے اصولوں پر مبنی سمجھتے ہیں، جو تشدد اور تنگ نظری کے خلاف ہے۔[16] یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا میں اسلام کی درست اور رحمانی تصویر پیش کرنے سے عالمی سطح پر اسلام کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور اسلامی جمہوریت کے اعلیٰ اہداف کی ترقی اور بین الاقوامی حکمتِ عملی میں مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔[17]

تاریخی پس منظر

اگرچہ اسلام رحمانی کی تعبیر مختلف مذاہب اور ممالک کے مفکرین کے درمیان بھی دیکھی جا سکتی ہے،[18] تاہم کہا جاتا ہے کہ اس تعبیر کا مرکزی محور شیعہ مذہب اور ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایجاد ہونے والی مذہبی فضا ہے۔[19] اسلام کی اس تعبیر نے سنہ 1980ء کی دہائی کے آخری سالوں اور 1990ء کی ابتدائی دہائی میں ایک علمی-سماجی تحریک کی شکل اختیار کی۔[20]

اسلام کی جامعیت کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی من پسند تفسیر کرنے پر امام خمینی کی تنقید

کہتے ہیں کہ تفسیر اسلام رحمانی کی ابتدائی علامات ایران کی شخصیات؛ مہدی بازرگان، علی گلزادہ غفوری، سید حسین نصر، اکبر ہاشمی رفسنجانی، محمد مجتہد شبستری، عبد الکریم سروش، مصطفی ملکیان، سید محمد خاتمی، محسن کدیور اور حسن روحانی کی گفتگو میں دکھائی دیتی ہیں۔[21] ان سب کے باوجود، محسن کدیور کو اس نظریے کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرنے والا مفکر سمجھا جاتا ہے۔[22] محسن کدیور کا کہنا ہے کہ انہیں اس نظریے کی بنیاد پاکستانی روشن خیال اہل سنت عالم دین فضل الرحمٰن کے خیالات سے ملی، تاہم وہ خود کو اس تعبیر کا بانی بھی سمجھتے ہیں۔[23]

محققین کے مطابق، اسلام رحمانی کی ایک اہم تعبیر ترکی کے مفکر "فتح اللہ گولن" کی پیش کردہ "اسلامِ اجتماعی" ہے، جسے اسلامِ اناطولی بھی کہا جاتا ہے۔ اس نظریے پر تصوف کے اثرات نمایاں ہیں۔ گولن، محبت اور عشق جیسے مفاہیم کو اجاگر کرتے ہوئے، اسلام کو تشدد سے پاک، جدیدیت اور سیکولرزم کے ساتھ ہم آہنگ مذہب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔[24]

اسلامِ رحمانی نقادوں کی نظر میں

کبھی کچھ نعرے لگائے جاتے ہیں جو بظاہر اسلامی ہوتے ہیں، لیکن درحقیقت اسلامی نہیں ہوتے؛ جیسے "'اسلام رحمانی"' کا نعرہ۔ یہ الفاظ کی حد تک تو خوبصورت ہیں، اس میں لفظ "اسلام" بھی خوبصورت ہے اور "رحمانی" بھی، لیکن اس کا مطلب کیا ہے؟... "اسلام رحمانی" ایک کلیدی لفظ ہے جو دراصل لبرل ازم کے افکار سے متاثرہ معانی کا نمائندہ ہے۔۔۔[25]

اسلام رحمانی کے نظریے پر نقد کرنے والوں کے مطابق، اسلام رحمانی کی تعبیر، فقہ کے دائرے کو محدود کرنے کی کوشش ہے اور دین کو دنیا پرستی، اباحہ پسندی اور تساہل و تسامح تک محدود کر دیتی ہے۔ ان کے بقول، اسلام رحمانی اسلام کی روشن خیالی فکر پر مبنی ہے اور اگرچہ اس کا مقصد تشدد کو کم کرنا ہے، لیکن اس نے بعض بنیادی دینی احکام و قوانین کو نظرانداز کردیا ہے۔[26] کہتے ہیں کہ اسلام رحمانی کی فکر، عیسائیت میں پروٹسٹنٹ فکری زاویے سے متاثر ہے، جس میں دین کی لچکدار تفسیریں بیان کی جاتی ہیں۔[27]

سید علی حسینی خامنہ ای کے نظریے کے بارے میں انجام شدہ ایک تحقیق کے مطابق، سید علی خامنہ‌ ای اسلام رحمانی کو ایک التقاطی تعبیر سمجھتے ہیں؛ کیونکہ اسلام رحمانی کے حامیوں کے نظریات نادرست تصور کائنات پر مبنی ہیں جن میں ہیومین ازم(انسان کو مرکزیت دینے کا نظریہ)، توحید سے دوری، ادیان کے بارے میں کثرت‌پسند نظریہ اور دین کو صرف آخرت تک محدود کر دینے جیسے نظریے شامل ہیں۔ ان مذکورہ باتوں کے تناظر میں سید علی حسینی خامنہ ای کی نظر میں حقیقی اسلام کے بارے میں اسلامِ ناب (خالص اسلام) وہ جامع و مکمل تعبیر ہے جسے امام خمینی نے پیش کیا تھا۔ اسلام وہ دین ہے جس کی تکمیل کے لیے دوسرے مکاتب سے مدد لینے کی ضرورت نہیں۔ اس اسلام کی تمام تعلیمات پر مکمل ایمان و التزام ضروری ہے۔[28]

اسلام رحمانی والے نظریے میں عدالت کے تصور پر بھی تنقید کی گئی ہے؛ کیونکہ محسن کدیور کا کہنا ہے کہ عدل کے درست ادراک کے لیے عرف (سماجی فہم) کو معیار بنایا جائے، جبکہ ناقدین کے مطابق عرف اور اجتماعی عقل، وحی الٰہی کا متبادل بالکل نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اسلام رحمانی میں کرامت انسانی انسان محوری کے تصور پر مبنی ہے جو حقوقِ خداوندی کے منافی قرار دی جاتی ہے۔[29]

مزید یہ کہ ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ اسلامِ سیاسی پر عمل درآمد اور اس سے وابستگی کی نوعیت کے سلسلے میں دو نمایاں گروہ نظر آتے ہیں: ایک طرف اسلامِ رحمانی کے حامی ہیں اور دوسری طرف وہ گروہ ہے جو اسلام کو تکفیری اور پرتشدد انداز میں پیش کرتا ہے، اس گروہ کا نظریہ "اسلامی انتہا پسندی" کے عنوان سے بھی جانا جاتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان سید علی خامنہ ای اور عبد اللہ جوادی آملی ایک تیسرا اور اعتدال پسندانہ نظریہ پیش کرتے ہیں جو افراط و تفریط سے دور ہے۔ یہ نظریہ امام خمینی کے اسلامِ سیاسی کے تصور کے عین مطابق ہے۔عقلانیت، بیداری اور دشمنوں کے سامنے نہ جھکنا اس نظریے کی نمایاں خصوصیات میں شامل ہیں اس کے علاوہ یہ نظریہ ہر قسم کے غیر عقلی، پرتشدد اور تکفیری رویّے کو رد کرتا ہے۔ یہی فکر، امام خمینی کی پیش کردہ اسلامِ سیاسی کی اصل روح ہے۔[30]

کتاب «اسلام رحمانی: تحلیلی بر مبانی و مؤلفہ ہا»: از حسن علی‌پور وحید۔

مونوگرافی

اسلام رحمانی کے موضوع پر کئی مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں چند یہ ہیں:

  • "اسلام رحمانی: تحلیلی بر مبانی و مؤلفہ‌ہا" نامی کتاب کو حسن علی‌ پور وحید نے تالیف کیا ہے

جس میں اسلام رحمانی اور اس نظریے کے حامیوں کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔[31]

  • "الإسلام الرحمانی: المعرفۃ الدینیۃ فی العصر الحدیث"؛ اس کتاب کا مصنف محسن کدیور ہیں۔ یہ کتاب در حقیقت اسلام رحمانی کے موضوع پر کدیور کے مقالات کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب عراق میں شائع ہوئی ہے۔[32]
  • "قرائت رحمانی: اسلام رحمانی با تأکید بر دیدگاہ محسن کدیور"؛ یہ کتاب حسن علی‌ پور وحید کی ایک اور تصنیف ہے جس میں محسن کدیور کے نظریات پر تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔[33]

متعلقہ موضوعات

حوالہ جات

  1. جمشیدی،‌ «نقدی بر پنج مؤلفہ «اسلام رحمانی»»، پایگاہ دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌اللہ خامنہ‌ای؛ مہربانی‌فر و مؤذن،‌ «مطالعہ مقایسہ‌ای خوانش‌ہای مختلف شخصیت ہای فکری- سیاسی پس از انقلاب اسلامی از«اسلام رحمانی»»، ص158-159۔
  2. کدیور، «اسلام رحمانی»، وب‌سایت رسمی محسن کدیور۔
  3. کدیور، «اسلام رحمانی»، وب‌سایت رسمی محسن کدیور۔
  4. «دین یک قدرت است»، سایت زیتون۔
  5. کدیور، حق‌الناس، 1386شمسی، ص15۔
  6. کدیور، «اسلام رحمانی»، وب‌سایت رسمی محسن کدیور۔
  7. ایازی، «دربارہ اسلام رحمانی»، پایگاہ اندیشہ ما۔
  8. کدیور، حق‌الناس، 1386شمسی، ص15۔
  9. کدیور، «اسلام رحمانی»، وب‌سایت رسمی محسن کدیور۔
  10. کدیور، «اسلام رحمانی»، وب‌سایت رسمی محسن کدیور۔
  11. کدیور، «اسلام رحمانی»، وب‌سایت رسمی محسن کدیور۔
  12. کدیور، «اسلام رحمانی»، وب‌سایت رسمی محسن کدیور۔
  13. کدیور، «اسلام رحمانی»، وب‌سایت رسمی محسن کدیور۔
  14. کدیور، «اسلام رحمانی»، وب‌سایت رسمی محسن کدیور۔
  15. کدیور، «اسلام رحمانی»، وب‌سایت رسمی محسن کدیور۔
  16. مہربانی‌فر و مؤذن،‌ «مطالعہ مقایسہ‌ای خوانش‌ہای مختلف شخصیت ہای فکری- سیاسی پس از انقلاب اسلامی از«اسلام رحمانی»»، ص140-148۔
  17. فتحی و تولایی، «تبیین چہرہ رحمانی از اسلام و نقش آن درپیشبرد ایدہ جہان عاری ازخشونت و افراط گری(WAVE)»، ص71۔
  18. کارشناس و دیگران، «نقد انگارۀ اسلام رحمانی بہ‌مثابہ‌ی چالش فقہ تمدنی با تأکید بر آرای امام خمینی (رہ) و مقام معظم رہبری»، ص67۔
  19. کارشناس و دیگران، «نقد انگارۀ اسلام رحمانی بہ‌مثابہ‌ی چالش فقہ تمدنی با تأکید بر آرای امام خمینی (رہ) و مقام معظم رہبری»، ص67۔
  20. علی‌پور وحید، اسلام رحمانی، 1394شمسی، ص11؛ جمشیدی، «نقدہای آیت‌ اللہ خامنہ‌ ای بہ منطق ہویّتی اسلام رحمانی»، ص56۔
  21. کارشناس و دیگران، «نقد انگارۀ اسلام رحمانی بہ‌مثابہ‌ی چالش فقہ تمدنی با تأکید بر آرای امام خمینی (رہ) و مقام معظم رہبری»، ص67؛ مہربانی‌فر و مؤذن،‌ «مطالعہ مقایسہ‌ای خوانش‌ہای مختلف شخصیت ہای فکری- سیاسی پس از انقلاب اسلامی از«اسلام رحمانی»»، ص158؛ جمشیدی، «نقدہای آیت‌اللہ خامنہ‌ای بہ منطق ہویّتی اسلام رحمانی»، ص39۔
  22. علی‌پور وحید، قرائت رحمانی، 1395شمسی، ص15۔
  23. کدیور، «اسلام رحمانی»، وب‌سایت رسمی محسن کدیور۔
  24. مقدسی و یزدی، «اسلام آناتولی در اندیشہ اجتماعی فتح اللہ گولن»، ص74۔
  25. حسینی خامنہ‌ای، «بیانات در دیدار جمعی از دانشجویان،‌ 1394/04/20»، پایگاہ دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌اللہ خامنہ‌ای۔
  26. علی‌پور وحید، اسلام رحمانی، 1394شمسی، ص19-20۔
  27. کارشناس و دیگران، «نقد انگارۀ اسلام رحمانی بہ‌مثابہ‌ی چالش فقہ تمدنی با تأکید بر آرای امام خمینی (رہ) و مقام معظم رہبری»، ص66۔
  28. جمشیدی، «نقدہای آیت‌اللہ خامنہ‌ای بہ منطق ہویّتی اسلام رحمانی»، ص56-57۔
  29. جعفری موحد و دیگران،‌ «کاربست عدالت عرفی در انگارہ اسلام رحمانی و نقد آن»، ص55-56۔
  30. مہربانی‌فر و مؤذن،‌ «مطالعہ مقایسہ‌ای خوانش‌ہای مختلف شخصیت ہای فکری- سیاسی پس از انقلاب اسلامی از«اسلام رحمانی»»، ص159۔
  31. علی‌پور وحید، اسلام رحمانی: تحلیلی بر مبانی و مؤلفہ‌ہا، 1394شمسی، ص13۔
  32. کدیور، الإسلام الرحماني، 2022م، شناسنامہ کتاب؛‌ «انتشار کتاب «اسلام رحمانی: معرفت دینی در دوران مدرن» بہ عربی»،‌ وب‌سایت رسمی محسن کدیور۔
  33. علی‌پور وحید، قرائت رحمانی: اسلام رحمانی با تاکید بر دیدگاہ محسن کدیور، 1395شمسی، ص15-16۔

مآخذ