ہفت بند کاشی

ویکی شیعہ سے


ہفت‌ بند کاشی ایران کے شیعہ شاعر حسن کاشی آملی (متوفیٰ: 738ھ) کی مدح امام علیؑ میں کہے گئے اشعار کا مجموعہ ہے۔ ایران اور برصغیر پاک و ہند کے بہت سے شعراء نے ہفت بند کاشی کے طرز کی پیروی کی ہے۔ کاشی آملی نے اپنے اس شعری مجموعے میں قرآنی آیات، احادیث اور تاریخی واقعات سے استفادہ کرتے ہوئے شعری اور ادبی جمالیات و محاسن کو بروئے کار لائے ہیں۔ ایران اور برصغیر پاک و ہند میں اس شعری اثر کو پچھلی صدیوں کے ماہرین ادب نے متعدد بار تحریر کیا ہے۔

مجموعہ ہفت بند کی دو شرحیں لکھی جاچکی ہیں: پہلی شرح کا تعلق برصغیر پاک و ہند کے فارسی زبان دان اصغر حسین سے ہے جس کا عنوان «معادن‌ الرضا» ہے۔ اس شرح کو سنہ 1196 ہجری میں تحریر کیا گیا ہے؛ دوسری شرح، آذربائیجان کے شاعر و عارف ملا ادہم خلخالی (متوفیٰ:1052ھ) جن کا تخلص عزلتی ہے، نے لکھی ہے جس کا عنوان ہشت بہشت(آٹھ جنت) یا (قنبرنامہ) ہے۔

تعارف اور اہمیت

روضہ امام علی (ع) کے ایوان کی دائیں جانب کتیبہ جس پر ہفت بند کاشی کا ایک شعر تحریر ہے
زایران درگهت را بر در خُلد برین
می‌دهند آواز طِبتُم فَادْخلوها خالدین
روضہ امام علیؑ کے ایوان میں بائیں جانب پر تحریر ہفت بند کاشی کا شعر
تا نجف شد آفتاب دین و دولت را مقام
خاک آن دارد شرف بر زمزم و بیت الحرام

ہفت‌ بند کاشی امام علیؑ کی مدح میں کہے گئے اشعار کا مجموعہ ہے جسے حسن کاشی آملی(متوفیٰ: 738ھ) کے بہترین اور مشہور ترین اشعار میں شمار کرتے ہیں۔[2] شعراء کی جانب سے اس مجموعے میں بیان شدہ اشعار کو انتہائی دلنشین اور استوار قرار دیا گیا ہے۔ کاشی نے اپنے مجموعہ اشعار میں قرآن کی آیات، احادیث اور مختلف تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان اشعار میں مختلف ادبی جمالیات اور محاسن جیسے تشبیہات، استعارات، تضمیں، تضادات اور ترکیبات کا استعمال کیا گیا ہے۔[3]

یہ مجموعہ اور ترکیب بندی [یادداشت 1] سات بند پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ہفت‌بند کے نام سے مشہور ہوا ہے۔[4] بند اول کے پہلے شعر کے آخری حرف «ن»، بند دوم کے «س»، بند سوم کے «یافتہ»، بند چہارم کے «مصطفی»، بند پنجم کے «امیرالمؤمنین»، بند ششم کے «شماست» اور بند ہفتم کے پہلے شعر کے آخری حرف «م» ہے۔[5] ہفت‌بند کاشی کو ایران اور برصغیر پاک و ہند میں زیادہ پسند کرنے کی وجہ سے پچھلی صدیوں میں کئی بار تحریر میں لایا گیا ہے۔[6]

پانچواں بند
ما همه بر درگه لطفت گدایی می کنیم
ای همه شاهان گدایت یا امیرالمؤمنین

مایل ہروی، مجموعه رسائل فارسی، 1378ہجری شمسی، دفتر پنجم، ص14

ہفت بند کے شاعر کاشی آملی کے دو اور بھی مجموعہ اشعار ہیں جو ہفت‌گنج اور ہفت‌رنگ کے نام سے مشہور ہے۔ عدد سات کے انتخاب کی وجہ انسانی ثقافت و تہذیب اور اسلامی و ایرانی تعلیمات و عقائد بتائی گئی ہے۔[7]

ہفت‌بند کاشی کے بہت سے خطی نسخے موجود ہیں۔ ادبیات فارسی کے ماہر نجیب مایل ہروی نے ان نسخوں میں سے ایک نسخے کی یوں تعریف کی ہے: عصر صفوی میں شیخ بہائی کے منظوموں میں ہفت‌بند کاشی تحریر شدہ ہے۔ اس خطی نسخے کو برصغیر پاک و ہند میں خط نستعلیق سے لکھا گیا ہے۔ ِاس کے تمام صفحات پر لکیروں کے مابین سنہرے رنگ بھر دیے گئے ہیں۔[8]

اثر گزاری

چوتھا بند
منّت خلقم به جان آورد لطفی کن شَها
وا رهان از منّتِ خلقم به جان مصطفی

مایل ہروی، مجموعه رسائل فارسی، 1378ہجری شمسی، دفتر پنجم، ص13

ہفت‌بندِ حسنِ کاشی ہمیشہ سے تیموری اور صفویوں کے لیے مورد تقلید اور اس عصر کے ادیبوں کا مورد توجہ رہا ہے اور بعض محققین کے مطابق اس نے فارسی ادب کی تاریخ میں ایک قسم کا ادبی اسلوب پیدا کیا ہے۔[9] ہفت بند کاشی کی پیروی کا سلسلہ صرف ایران تک محدود نہیں، برصغیر پاک و ہند کے شیعہ شعراء نے بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے اشعار کہے ہیں۔[10]

بعض شعرا نے ہفت بند کاشی کی من و عن پیروی کرتے ہوئے اپنی شعری ترکیب کو ہو بہو ہفت بند کاشی جیسی رکھی ہے، سات موضوع، وزن، قافیہ، ردیف وغیرہ میں ہفت بند کاشی کی مکمل پیروی کی گئی ہے۔ معاصر محقق سعید ہندی نے 14 شعراء کا نام ذکر کیا ہے جنہوں نے اپنے اشعار میں ہفت بند کاشی کی مکمل پیروی کی ہے۔[11]

بعض شعرا نے اپنے اشعار میں قدرے اختلاف کے ساتھ ہفت بند کاشی کی پیروی کی ہے۔ مولانا نعمتی (متوفیٰ: 960ھ)، نیاز (تیرہویں صدی)[12] اور مرزا قاسم علی اخگر حیدرآبادی[13] انہی افراد میں سے ہیں۔

ہفت بند کاشی کا خطی نسخہ ایران کے قومی کتاب خانہ
ہفت بند ملا حسن کاشی به خط عبدالرشید دیلمی (متوفیٰ: 1081ھ)
خط نستعلیق میں ہفت بند کاشی کے چند اشعار، کتابخانہ مجلس.

شاعر

دوسرا بند
با شکوه صولتَت دستان نیاید در مصاف
در بر عَنقای مَغرِب کی شکوه آرد مگس

مایل ہروی، مجموعه رسائل فارسی، 1378ہجری شمسی، دفتر پنجم، ص9

حسن بن محمود کاشی آملی (متوفیٰ: 738ھ) ایران کے صوبہ مازندران کے شہر آمل میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے۔[14]ان کا سلسلہ نَسَب کاشان سے جاملتا ہے۔[15]

ان کا شعری تخلص کاشی تھا۔[16] کاشی حکومتوں کی خوشنودی کے لیے شعر کہنے کے سخت مخالف تھے۔ اس کے برعکس وہ صرف اہل بیتؑ کی مدح سرائی کرتے تھے۔[17] انہوں نے اس مطلب کو شعر میں ہوں کہا ہے:

من غلام حیدر و آنگاه مداحی غیر؟! خواجگانِ حَشر کی معذور دارندم از این؟[18]

شیعہ مشہور شاعر محتشم کاشانی نے کاشی اور ان کے ہفت بند کے بارے میں یوں شعر کہا ہے:

فصیح بلبل خوش لهجه، کاشی مداحکه بود روضهٔ آمل ازو ریاض ارم
به مدح شاه عدو بندہجری شمسی، از مهارت طبعچو داد سلسلهٔ هفت بند،  دست بهم
به پیروی، منِ گستاخ هم به رسم قدیم به حکم شوق نهادم بر آن بساط قدم[19]

کتابیات

کاشی کے ہفت بند کی دو شرحیں لکھی جاچکی ہیں: پہلی «معادن‌الرضا» ہے جبکہ دوسری «ہشت بہشت» اور «ہفت‌بند ہفتاد بند»۔

  • "معادن‌ الرضا" کو برصغیر پاک و ہند کے فارسی زبان دان اصغرحسین نے سنہ 1196ھ میں تحریر کیا؛[20] اس کا خطی نسخہ ایرانی قانون ساز اسمبلی کے کتابخانہ میں محفوظ کیا گیا ہے۔[21]
  • ہشت بہشت (قنبرنامہ)؛ اس شرح کو آذربائیجان کے شاعر و عارف ملا ادہم خلخالی تخلص عزلتی (متوفیٰ: 1052) نے تحریر کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب کو بعض لوگوں کی جانب سے ہفت بند کاشی کے ایک شعر پر وارد کردہ ایک اعتراض کے جواب میں لکھا گیا ہے۔[22] خط نستعلیق میں تحریر کردہ یہ نسخہ قطع رحلی کے سات صفحات میں کتابخانہ آستان قدس رضوی میں محفوظ کیا گیا ہے۔[23]
  • کتاب «ہفت‌بند ہفتاد بند» سعید ہندی کی لکھی ہے۔ اس میں ہفت بند کاشی کے علاوہ دیگر وہ اشعار جو ہفت بند پر مشتمل ہیں، بھی موجود ہیں۔ اس کتاب کی تحریر کا آغاز اس طرح ہوا کہ مصنف اپنی بیماری شفایابی کے لیے اس کا نذر کیا اور کتاب لکھی۔[24]

نوٹ

  1. فارسی ادبیات کے مطابق "ترکیب‌بند" کے قالب میں چند بیت ایک ہی وزن اور قافیے پر کہے یا لکھے جاتے ہیں؛ پھر ایک بیت لایا جاتا ہے جو باقی ابیات سے مختلف ہوتا ہے، لیکن وزن ان کا ایک ہی ہوتا ہے، پھر چند ابیات کو ایک ہی وزن کے ساتھ لائے جاتے ہیں۔ پھر ایک اور بیت لاتے ہیں جس کا قافیہ پچھلے اشعار سے مختلف ہوتا ہے اور یہ سلسلہ تکرار ہوتا ہے۔(«قالب ترکیب بند»، ادب آباد.)

حوالہ جات

  1. مایل هروی، مجموعه رسائل فارسی، ۱۳۷۸ش، دفتر پنجم، ص۸-۱۶.
  2. شکراللهی طالقانی، «هشت بهشت از هفت بند کاشی مرقع هشت قطعه چلیپای نستعلیق منسوب به فتحعلی شیرازی»، ص219.
  3. هندی، هفت‌بند هفتادبند، 1388ہجری شمسی، ص بیست و شش.
  4. «شعر کتیبه ایوان نجف را چه کسی سروده است؟»، سایت مشرق‌نیوز.
  5. هندی، هفت‌بند هفتادبند، 1388ہجری شمسی، ص بیست و شش.
  6. هندی، هفت‌بند هفتادبند، 1388ہجری شمسی، ص بیست و هفت.
  7. هندی، هفت‌بند هفتادبند، 1388ہجری شمسی، ص بیست و سه.
  8. مایل هروی، مجموعه رسائل فارسی، دفتر پنجم، ص8.
  9. مایل هروی، مجموعه رسائل فارسی، دفتر پنجم، ص7.
  10. مرادی (رستا)، «سبعۀ سیاره؛ هفت بند در جواب هفت بند کاشی»، ص4.
  11. هندی، هفت‌بند هفتادبند، 1388ہجری شمسی، ص سی و یک.
  12. هندی، هفت‌بند هفتادبند، 1388ہجری شمسی، ص سی و یک.
  13. مرادی (رستا)، «سبعۀ سیاره؛ هفت بند در جواب هفت بند کاشی»، ص4.
  14. «شعر کتیبه ایوان نجف را چه کسی سروده است؟»، سایت مشرق‌نیوز.
  15. «شعر کتیبه ایوان نجف را چه کسی سروده است؟»، سایت مشرق‌نیوز.
  16. رستاخیز، دیوان حسن کاشی، 1389ہجری شمسی، ص20.
  17. مایل هروی، مجموعه رسائل فارسی، دفتر پنجم، ص7.
  18. شکراللهی طالقانی، «هشت بهشت از هفت بند کاشی مرقع هشت قطعه چلیپای نستعلیق منسوب به فتحعلی شیرازی»، ص219.
  19. هندی، هفت‌بند هفتادبند، 1388ہجری شمسی، ص سی.
  20. هندی، هفت‌بند هفتادبند، 1388ہجری شمسی، ص سی و پنج.
  21. هندی، هفت‌بند هفتادبند، 1388ہجری شمسی، ص سی و چهار.
  22. هندی، هفت‌بند هفتادبند، 1388ہجری شمسی، ص سی و پنج.
  23. هندی، هفت‌بند هفتادبند، 1388ہجری شمسی، ص سی و شش.
  24. هندی، هفت‌بند هفتادبند، 1388ہجری شمسی، ص سی و هشت.

مآخذ

  • ذاکرزاده، حمیده سادات، «تضمین هفت بند کاشی از میر ضامن علی»، مجله میراث شهاب، شماره 75، بهار 1393ہجری شمسی۔
  • رستاخیز، سیدعباس، دیوان حسن کاشی، مقدمه: حسن عاطفی، تهران، کتابخانه موزه و مرکز اسناد مجلس شورای اسلامی، 1389ہجری شمسی۔
  • «شعر کتیبه ایوان نجف را چه کسی سروده است؟»، سایت مشرق‌نیوز، تاریخ درج مطلب:8 شهریور 1397ہجری شمسی، تاریخ بازدید 22 آبان 1402ہجری شمسی۔
  • شکراللهی طالقانی، احسان‌الله، «هشت بهشت از هفت بند کاشی مرقع هشت قطعه چلیپای نستعلیق منسوب به فتحعلی شیرازی»، پیام بهارستان، شماره 1 و 2، 1387ہجری شمسی۔
  • «قالب ترکیب بند»، ادب آباد، تاریخ درج مطلب: 7 دی 1400ہجری شمسی، تاریخ بازدید 22 آبان 1402ہجری شمسی۔
  • مایل هروی، نجیب، متن کامل هفت‌بند حسن کاشی (مجموعۀ رسائل فارسی)، دفتر پنجم، مشهد، بنیاد پژوهشهای اسلامی آستان قدس رضوی، 1378ہجری شمسی۔
  • مرادی (رستا)، ابوالفضل، «سبعۀ سیاره؛ هفت بند در جواب هفت بند کاشی»، شماره 72- 73، تابستان و پاییز 1392ہجری شمسی۔
  • هندی، سعید، هفت‌بند هفتادبند، تهران، کتابخانه موزه و مرکز اسناد مجلس شورای اسلامی، 1388ہجری شمسی۔