شیخ محمود شلتوت کا فتوا

ویکی شیعہ سے
مذاہب اربعہ اہل سنت کے ساتھ شیعہ مذہب کو قانونی طور پر تسلیم کرنے کے بارے میں محمود شلتوت کے فتوے کا متن

شیعہ مذہب کے مطابق عمل کے جائز ہونے سے متعلق شلتوت کا فتوا، وہ فتوا ہے جسے جامعہ الازہر مصر کے سابق چانسلر محمود شلتوت نے تمام مسلمانوں کے لیے شیعہ فقہ کے مطابق عمل جائز ہونے کے بارے میں جاری کیا تھا۔ شیعہ فقہ کے بعض احکام کے مضبوط دلائل اور سنی فقہ پر شیعہ فقہ کی برتری کو اس فتوا کا محرک قرار دیا گیا ہے۔

اس فتوا کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ جامعۃ الازہر میں تقابلی فقہ اور شیعہ فقہ کا باقاعدہ طور پر درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ نیز، اس فتوے کا شیعوں کی طرف کفر کی نسبت دینے اور اس کا عقیدہ رکھنے والے سلفیوں کے طرز عمل پر بھی گہرا اثر پڑا۔ بعض سنی علماء جیسے اخوان المسلمین کے سربراہ محمد الغزالی اور الازہر کے سابق چانسلر محمد الفحام نے شلتوت کے اس فتوے کی تائید اور حوصلہ افزائی کی۔ دوسری طرف عبد اللطیف السُّبکی اور ابوالوفاء کریستانی جیسے کچھ لوگوں نے اس پر تنقید کی۔ شیخ شلتوت کی کچھ کتابوں کی جمع آوری کرنے والے اہل سنت عالم دین یوسف القرضاوی نے اس فتوے کو جاری کیے جانے کی تردید کی۔

فتوا کا صدور اور اس کی اہمیت

شلتوت کا یہ فتویٰ امامیہ اور زیدیہ شیعہ فقہ کی تقلید تمام مسلمانوں کے لیے جائز ہونے کے بارے میں استفتاء کے جواب میں ہے۔[1] یہ فتوا جامعۃ الازہر مصر کے سابق چانسلر، دار التقریب المذاہب الاسلامیہ کے بانی اور حنفی مذہب کے فقیہ محمود شلتوت[2]کی جانب سے جاری ہوا۔[3] یہ فتوا مورخہ 17 ربیع‌ الاول سنہ 1378ھ بمطابق یوم ولادت موسس مکتب جعفری حضرت امام جعفر صادقؑ، شیعہ امامی، زیدی شیعہ اور اہل سنت کے مذاہب اربعہ کے نمایندگان کی موجودگی میں جاری ہوا۔[4] بعض علما کے مطابق شلتوت کا یہ فتوا محمد تقی قمی اور آیت اللہ بروجردی کی کوششوں اور دارالتقریب بین المذاہب الاسلامیہ کے قیام کا نتیجہ تھا۔[5]

اس فتوا کے اجراء سے پہلے اہل سنت حضرات شیعہ فقہ پر عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔[6] کہا جاتا ہے کہ شلتوت نے وراثت اور طلاق جیسے بعض معاملات میں سنی فقہ کے مقابلے میں شیعہ فقہ کے بعض احکام کے دلائل کی برتری اور مضبوطی کی وجہ سے یہ فتوا جاری کیا تھا۔[7]

اس فتوا کا نتیجہ یہ نکلا کہ جامعۃ الازہر میں تقابلی فقہ اور شیعہ فقہ کا باقاعدہ طور پر سلسلہ درس و تدریس شروع ہوا۔[8] نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مذکورہ فتوا نے سعودی عرب کے سلفیوں کے طرز تفکر پر گہرا اثر ڈالا جن کا وطیرہ شیعوں کو کافر سمجھنا تھا۔[9]

استفتاء کا متن

شلتوت سے کیے گئے استفتاء کا متن

"بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی عبادتیں اور باقی دینی معاملات کی درستگی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اہل سنت کے مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کے مطابق عمل کریں اور شیعہ امامیہ اور زیدی شیعہ اسلامی مذاہب کا حصہ نہیں ہیں۔! کیا آپ اس رائے سے مکمل طور پر اتفاق کرتے ہیں اور شیعہ امامیہ فقہ کی تقلید کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں؟"

بی‌آزار شیرازی، "ترجمہ مقالات دارالتقریب: همبستگی مذاهب اسلامی"، ص344-345۔

محمود شلتوت سے کیے گئے استفتاء میں آیا ہے کہ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ شرعی احکام کو درست طریقے سے ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اہل سنت کے مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کے مطابق عمل کرنا چاہیے اور مذہب شیعہ امامیہ اور زیدیہ چونکہ ان میں شامل نہیں ہیں لہذا ان کے اعمال درست نہیں۔ سائل نے شیعہ امامیہ اور زیدی شیعہ فقہ کی تقلید جائز ہونے کی بابت سوال کیا ہے اور محمود شلتوت سے اس سلسلے میں رائے جاننا چاہا ہے۔ شلتوت نے جواباََ کہا کہ اسلام نے کسی خاص مذہب پر عمل کرنے کو واجب قرار نہیں دیا ہے ہر مسلمان مذاہب خمسہ میں سے کسی بھی مذہب پر عمل کرسکتا ہے۔ انہوں نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ بارہ امامی مذہب اہل سنت کے مذاہب اربعہ کی طرح ہے جس کی پیروی شرعاََ جائز ہے۔ مسلمانوں کو کسی خاص مکتب فکر کے ساتھ ناحق تعصب اور نا انصافی سے پرہیز کرنا چاہئے۔[10]

شلتوت نے استفتاء اور فتوا کو مکتوب صورت میں محفوظ کرنے کے لیے دارالتقریب بین المذاہب الاسلامیہ کے مدیر محمد تقی قمی کے پاس بھیج دیا۔[11] شلتوت کے دستخط کے ساتھ مذکورہ متن کی تختی محمد تقی قمی نے سید ہادی میلانی کو پیش کی اور اسے آستان قدس رضوی میں حفاظت کے لیے رکھی گئی ہے۔[12]

شلتوت کے فتوا کا ترجمہ
  1. دین اسلام اپنے پیروکاروں کو کسی خاص مذہب کی پیروی کرنے پر زور نہیں دیتا؛ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ ہر مومن کے لیے یہ حق ہے کہ وہ ان مذاہب میں سے کسی بھی مذہب کی پیروی کر سکتا ہے، جس مذہب کے احکام درست طریقے سے اس تک پہنچے ہیں ان میں سے کسی ایک پر عمل کرسکتا ہے۔ اسی طرح جسں نے کسی ایک مذہب کی پیروی کی بعد میں وہ کسی دوسرے مذہب کو اختیار کر سکتا ہے خواہ وہ کوئی بھی مذہب ہو اور ایسا کرنے میں اس پر کوئی حرج نہیں ہے۔
  2. مکتب جعفری جو مذہب امامی اثنا عشری کے نام سے معروف ہے، ایسا مکتب فکر ہے جس کی پیروی شرعا اہل سنت کے مذاہب کی پیروی کی طرح جائز ہے۔ بہتر ہے مسلمانوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے اور کسی خاص مکتب فکر کے ساتھ بے جا تعصب اور نا انصافی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اللہ کا دین اور اس کی شریعت کسی خاص مذہب میں منحصر نہیں۔ جو شخص اجتہاد کے درجے پر فائز ہوتا ہے اس پر مجتہد کا عنوان اطلاق ہوتا ہے اور اللہ کے نزدیک اس کا عمل مقبول واقع ہوگا اور جو شخص اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتا اور مجتہد کا درجہ نہیں رکھتا، اسے چاہیے کہ وہ کسی مجتہد کی تقلید کرے اور اس فقہ میں بیان شدہ احکام کے مطابق عمل کرے، اس لحاظ سے عبادات اور معاملات میں کوئی فرق نہیں۔

بی‌آزار شیرازی، «ترجمہ مقالات دارالتقریب: همبستگی مذاهب اسلامی»، ص344-345.

فتوا پر رد عمل

محمود شلتوت کی طرف سے یہ فتوا صادر ہونے کے بعد مختلف حلقوں سے اس کی تائید یا رد میں کچھ مختلف رد عمل سامنے آئے:

فتوا کی تائید میں رد عمل

  • تقریب مذاہب اسمبلی کے سربراہ محمد اَلْبَہی نے ایک مقالہ کے ضمن میں شیعہ فقہ کے دلائل کی تائید کرتے ہوئے شلتوت کے فتوا کی حمایت کی۔[13]
  • محمد اَلشَّرقاوی نے "الازہر اور اسلامی مذاہب کی فقہ" کے عنوان سے ایک نوٹ لکھا۔ انہوں نے شلتوت کی رائے کو بہادری، بے لوثی اور ایمانداری کی مثال قرار دی۔[14]
  • تقریب مذاہب کے مدیر محمد تقی قمی نے اس فتوے کے جاری ہونے کے بعد مجلہ "رسالۃ الاسلام" کے ایک شمارے میں "قصةُ التَّقریب" کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے شیعہ و سنی مذاہب کی تقریب اور ان کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی تاکید کی۔[15]
  • "رسالۃ الاسلام" مجلے کے مدیر اور الازہر یونیورسٹی میں شریعہ شعبہ کے سربراہ محمد محمد المدنی نے "رَجَّۃ الْبَعث فی کُلّیَۃ الشَّریعۃ" کے عنوان سے ایک مضمون لکھا اور اس میں امامیہ اور زیدیہ شیعہ سے غلو کو رد کرتے ہوئے انہیں دوسرے شیعہ فرقوں سے مختلف قرار دیا اور الازہر میں شیعہ فقہ کی تعلیم سے متعلق سوالات کے جوابات کے ضمن میں شلتوت کے فتوے کی تصدیق کی۔[16]
  • محمد اَلغزالی نے الازہر مجلے میں "علیٰ أوائل الطریق" کے عنوان سے ایک نوٹ لکھا اور شلتوت کے فتوے کو ایک عظیم اقدام قرار دیا۔ انہوں نے اس مضمون میں نادر شاہ کو تقریب بین المذاہب کا حامی اور شیعہ مذہب کو اسلام کے پانچویں رسمی مذہب کے طور پر متعارف کرانے میں کامیاب قرار دیا اور طنزیہ انداز میں کچھ علماء کی ملامت کی۔[17]

فتوا کے رد میں رد عمل

  • الازہر فتوا بورڈ کے سربراہ اور حنبلی مذہب کی بزرگ شخصیت شیخ عبد اللطیف السُّبکی نے ایک مضمون میں شیعہ اور اہل سنت کے مابین تقریب مذاہب کی شدید مخالفت کی اور اسے حقیقت سے عاری قرار دیتے ہوئے اہل سنت کی طرف سے یک طرفہ اقدام قرار دیا۔[18]
  • یوسف القَرضاوی نے شلتوت سے ایسا فتوا جاری ہونے کی مکمل تردید کی۔ اس سلسلے میں ان کا موقف یہ تھا کہ یہ فتوا شلتوت کی کتابوں میں نہیں ہے۔ ان کے مقابلے میں محمد حسون نے کچھ دلائل کی بنیاد پر قرضاوی کے مدعا کو رد کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ شلتوت کا فتوا ان کی کتابوں کے منظر عام پر آنے کے بعد جاری ہوا ہے دوسری دلیل یہ کہ مصر کے"اشارہ اخباریہ" ٹی وی چینل پر مفتی مصر "علی جمعہ" نے صراحت کے ساتھ اس فتوا کے جاری ہونے کا اعلان کیا ہے۔[19]
  • عمر عبد اللہ احمد نے ایک مقالہ تدوین کیا جس میں شیعہ نظریات کو رد کرنے میں بعض سنی علماء کے بیانات کا حوالہ دیا اور شلتوت کے فتوے کو چیلنج کیا۔[20]
  • ابوالوفاء کریستانی نے شلتوت کو خط لکھ کر ان سے اس فتوا کی بابت کچھ سوالات کیے اور اس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ محمود شلتوت نے اس خط کے جواب میں اپنے فتوے کی وضاحت کی۔ [21]

حوالہ جات

  1. ابوالحسینی، «شیخ محمود شلتوت: آیت شجاعت»، ص135.
  2. خبرگذاری رسا، «آشنایی با زندگینامه شیخ تقریب، شیخ شلتوت و صدور فتوای تاریخی».
  3. کریمی، «شخصیت علمی شیخ شلتوت و روش تفسیری وی»، ص38؛ عبدالله احمد، «الشيخ محمود شلتوت شيخ الأزهر حياته الدعوية وموقفه من مسألة التقريب بين السنة والشيعة»، ص1596.
  4. رستم‌نژاد، «فقه شیعه و جایگاه آن نزد مذاهب اسلامی»، ص200.
  5. آیت الله بروجردی و شیخ شلتوت منادیان وحدت اسلامی، «خبرگذاری ایرنا».
  6. ابوالحسینی، «پیشگامان تقریب: آیت الله بروجردی: آیت اخلاص».
  7. ابوالحسینی، «شیخ محمود شلتوت: آیت شجاعت»، ص136؛ ساور، «آشنایی با پیش گامان بیداری اسلامی(1) علامه شیخ محمود شلتوت»، ص173.
  8. ابوالحسینی، «شیخ محمود شلتوت: آیت شجاعت»، ص136؛ابوالحسینی، «پیشگامان تقریب: آیت الله بروجردی: آیت اخلاص».
  9. خبرگزاری ایرنا، «آیت الله بروجردی و شیخ شلتوت منادیان وحدت اسلامی».
  10. بی‌آزار شیرازی، «ترجمه مقالات دارالتقریب:همبستگی مذاهب اسلامی»، ص345و344.
  11. پایگاه اطلاع رسانی حوزه، «سخنی در باب انکار صدور فتوای شیخ محمود شلتوت از سوی قرضاوی».
  12. «فتوای تاریخی شیخ شلتوت»، سایت راسخون.
  13. سایت دکتر محمد حسون، «إنكار الشيخ القرضاوي لفتوى شيخ الأزهر محمود شلتوت»؛ البهی، مع المذاهب الاسلامیة، ص139-141.
  14. سایت دکتر محمد حسون، «إنكار الشيخ القرضاوي لفتوى شيخ الأزهر محمود شلتوت»؛ الشرقاوی، «الأزهر و مذاهب الفقه الإسلامی»، ص143.
  15. سایت دکتر محمد حسون، «إنكار الشيخ القرضاوي لفتوى شيخ الأزهر محمود شلتوت»؛ القمی، «قصة التقریب»، ص348.
  16. سایت دکتر محمد حسون، «إنكار الشيخ القرضاوي لفتوى شيخ الأزهر محمود شلتوت»؛ محمد المدنی، «رجة البعث فی کلیة الشریعة»، ص373.
  17. سایت دکتر محمد حسون، "إنكار الشيخ القرضاوي لفتوى شيخ الأزهر محمود شلتوت"، الغزالی السقا، «علی أوائل الطریق»، ص412.
  18. سایت دکتر محمد حسون، «إنكار الشيخ القرضاوي لفتوى شيخ الأزهر محمود شلتوت»؛ السبکی، «طوائف بهائیة و بکتاشیة ثم جماعة التقریب»، ص283.
  19. خبرگذاری رسا، «آشنایی با زندگینامه شیخ تقریب؛ شیخ شلتوت و صدور فتوای تاریخی»؛ سایت دکتر محمد حسون، «إنكار الشيخ القرضاوي لفتوى شيخ الأزهر محمود شلتوت».
  20. عبدالله احمد، «الشيخ محمود شلتوت شيخ الأزهر حياته الدعوية وموقفه من مسألة التقريب بين السنة والشيعة»، ص 1621.
  21. شریعتی، «شلتوت پاسخ میدهد»، ص26.

مآخذ