مندرجات کا رخ کریں

"خطبہ شقشقیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 56: سطر 56:
اس خطبے کو اس کے ابتدائی جملے یعنی {{حدیث|"واللّهِ لَقَدْ تَقَمَّصَها فلان"}} کی وجہ سے "خطبہ مُقَمّصہ" کا نام دیا جاتا ہے، جس کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور یہاں پر امام(ع) خلافت کو لباس پہننے سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ابوبکر باوجودیکہ کہ جانتا تھا کہ خلافت کی یہ لباس اس کے لئے موزون نہیں ہے، پھر بھی اسے زیب تن کیا ہے۔ لیکن اس خطبے کا مشہور نام "شقشقیہ" ہے جسے اس خطبے کے اختتام پر ابن عباس کی جانب سے جاری رکھنے کے درخواست پر امام نے فرمایا تھا کہ: {{حدیث|"هیهاتَ یا ابنَ عباس تلک شِقشِقَةٌ هَدَرَت ثُم قَرَّت."}} یعنی افسوس ابن عباس یہ توایک شقشقہ تھا جوابھر کر دب گیا، سے لیا گیا ہے۔ اور ماہرین لغت اور نہج البلاغہ کی شرح لکھنے والے حضرات کی باتوں سے جو چیز معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ شقشقہ سے مراد اونٹ کے منہ میں وہ گوشت کا لوتھڑا ہے جو غصہ اور ہیجان کے وقت باہر نکل آتا ہے جو عام عادی حالتوں میں باہر نہیں نکلتا۔ یہاں پر امام(ع) اپنی حالت کو اس اونٹ کی حالت کے ساتھ تشبیہ دے رہے ہیں جو غصہ اور ہیجان کی حالت میں ہو گویا ایک لحظہ کیلئے ہیجانی کیفیت میں یہ خطبہ ارشاد فرمایا تھا اور اب نارمل حالت میں ہے اب اسے جاری رکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ اس طرح آپ نے اس خطبے کو جاری رکھنے سے متعلق ابن عباس کی درخواست کو رد فرمایا۔ اس بنا پر ابن عباس کہتے ہیں کہ جس قدر اس خطبے کے نامکمل رہ جانے پر مجھے افسوس ہوا اتنا کسی اور کلام کے نامکمل رہنے پر افسوس نہیں ہوا۔
اس خطبے کو اس کے ابتدائی جملے یعنی {{حدیث|"واللّهِ لَقَدْ تَقَمَّصَها فلان"}} کی وجہ سے "خطبہ مُقَمّصہ" کا نام دیا جاتا ہے، جس کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور یہاں پر امام(ع) خلافت کو لباس پہننے سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ابوبکر باوجودیکہ کہ جانتا تھا کہ خلافت کی یہ لباس اس کے لئے موزون نہیں ہے، پھر بھی اسے زیب تن کیا ہے۔ لیکن اس خطبے کا مشہور نام "شقشقیہ" ہے جسے اس خطبے کے اختتام پر ابن عباس کی جانب سے جاری رکھنے کے درخواست پر امام نے فرمایا تھا کہ: {{حدیث|"هیهاتَ یا ابنَ عباس تلک شِقشِقَةٌ هَدَرَت ثُم قَرَّت."}} یعنی افسوس ابن عباس یہ توایک شقشقہ تھا جوابھر کر دب گیا، سے لیا گیا ہے۔ اور ماہرین لغت اور نہج البلاغہ کی شرح لکھنے والے حضرات کی باتوں سے جو چیز معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ شقشقہ سے مراد اونٹ کے منہ میں وہ گوشت کا لوتھڑا ہے جو غصہ اور ہیجان کے وقت باہر نکل آتا ہے جو عام عادی حالتوں میں باہر نہیں نکلتا۔ یہاں پر امام(ع) اپنی حالت کو اس اونٹ کی حالت کے ساتھ تشبیہ دے رہے ہیں جو غصہ اور ہیجان کی حالت میں ہو گویا ایک لحظہ کیلئے ہیجانی کیفیت میں یہ خطبہ ارشاد فرمایا تھا اور اب نارمل حالت میں ہے اب اسے جاری رکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ اس طرح آپ نے اس خطبے کو جاری رکھنے سے متعلق ابن عباس کی درخواست کو رد فرمایا۔ اس بنا پر ابن عباس کہتے ہیں کہ جس قدر اس خطبے کے نامکمل رہ جانے پر مجھے افسوس ہوا اتنا کسی اور کلام کے نامکمل رہنے پر افسوس نہیں ہوا۔


== سید رضی سے پہلے اس خطبے کے اسناد ==<!--
== سید رضی سے پہلے اس خطبے کے اسناد ==
با توجه به انتقادات صریح از خلفای سه گانه در این خطبه، نه تنها سند خود این خطبه مورد تردید برخی از علمای اهل سنت قرار گرفته، بلکه گفته‌اند یکی از بزرگترین اسباب تردید در اسناد کل نهج البلاغه توسط اهل سنت نیز، همین خطبه است.<ref>الحسینی الخطیب، مصادر نهج البلاغة وأسانیده، ج۱، ص۳۳۶.</ref> اما این تردید باطل است و این خطبه در آثار قبل از تألیف [[نهج البلاغه]] موجود بوده است و سند آن تا امام علی(ع) نیز نقل شده است. [[عبدالحسین امینی|امینی]] در [[الغدیر]] ۲۸ طریق بدون [[سید رضی]] را برای این خطبه یاد کرده است.<ref>الامینی، الغدیر، ج۷، صص۱۰۹-۱۱۵.</ref> در کتاب «پرتوی از نهج البلاغه» مجموعاً ۲۲ سند برای این خطبه ذکر شده است که ۸ تا از آنها مربوط به منابع پیش از [[سید رضی]]، ۵ تا مربوط به معاصران سید رضی و ۹ تا منابعی است که بعد از تألیف نهج البلاغه یا در قرن‌های بعد از ''[[قرن پنجم]]'' [[هجری قمری]] این [[خطبه]] را نقل کرده‌اند، لیکن از منبع یا منابعی مستقل از نهج البلاغه یا متفاوت با آنها.<ref>رجوع کنید به: طالقانی، پرتوی از نهج البلاغه، صص۱۲۴-۱۲۸.</ref> قطعاتی از این خطبه به عنوان شاهد لغوی و مثال در کتب ادبی و فرهنگهایی مانند: النهایه ابن اثیر، قاموس فیروزآبادی، لسان العرب ابن منظور و مجمع الامثال میدانی آمده است.<ref>طالقانی، پرتوی از نهج البلاغه، ص۱۲۸.</ref> در ذیل به برخی از اسناد این خطبه اشاره شده است.
اس خطبے میں خلفائے ثلاثہ پر کڑی تنقید کی وجہ سے بعض اہل سنت علماء کی جانب سے نہ تنہا اس خطبے کی سند کو مشکوک قرار دیا گیا بلکہ کہا جاتا ہے کہ اہل سنت کے درمیان خود نہج البلاغہ کی سند کے مشکوک ہونے کی علت بھی یہی خطبہ ہے۔<ref>الحسینی الخطیب، مصادر نہج البلاغۃ وأسانیدہ، ج۱، ص۳۳۶.</ref> لیکن حقیقت میں یہ تردید اور اس قسم کے شکوک و شبہات باطل ہیں اور یہ خطبہ [[نہج البلاغہ]] کی اشاعت سے پہلے بھی مختلف منابع میں موجود تھا اور اس کی سند بھی خود امام علی(ع) تک ان منابع میں مذکور ہے۔ علامہ [[عبدالحسین امینی|امینی]] نے کتاب [[الغدیر]] میں [[سید رضی]] کے علاوہ 28 دوسرے راستوں سے اس خطبے کو بیان کیا ہے۔<ref>الامینی، الغدیر، ج۷، صص۱۰۹-۱۱۵.</ref> کتاب "پرتوی از نہج البلاغہ" میں اس خطبے کے 22 سند بیان کئے ہیں جن میں سے 8 منابع کا تعلق [[سید رضی]] سے پہلے، 5 منابع سید رضی کے معاصر اور باقی 9 منابع نہج البلاغہ کی تصنیف کے بعد سے ہے۔ ''پانچویں صدی ہجری'' میں نہج البلاغہ کے علاوہ مستقل اور الگ منابع میں میں اس خطبے کو ذکر کیا گیا ہے۔<ref>رجوع کریں: طالقانی، پرتوی از نہج البلاغہ، صص۱۲۴-۱۲۸.</ref> اس کے علاوہ اس خطبے کے بعد حصے شاہد مثال کے طور پر مختلف ادبی اور لغت کی کتابوں جیسے: ابن اثیر کی کتاب النہایہ، فیروزآبادی کی کتاب قاموس، ابن منظور کی کتاب لسان العرب اور میدانی کی کتاب  مجمع الامثال وغیرہ میں بھی آئے ہیں۔<ref>طالقانی، پرتوی از نہج البلاغہ، ص۱۲۸.</ref> ذیل میں اس خطبے کے بعد اسناد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
#[[ابن ابی الحدید]]، سنّی معتزلی (متوفای ۶۵۶ق.) پس از شرح خطبه شقشقیه، می‌گوید: در سال ۶۰۳ق. از شیخم [[مصدق بن شبیب واسطی]] شنیدم که می‌گفت: این خطبه (یعنی خطبه شقشقیه) را بر عبدالله بن احمد معروف به [[ابن خشاب]] خواندم،... پس بدو گفتم: آیا نسبت این خطبه [به امام علی] را ساختگی می‌دانی؟ گفت: بخدا سوگند، من می‌دانم که سخن اوست همچنانکه می‌دانم که تو مصدق هستی. پس بدو گفتم: بسیاری از مردم می‌گویند که این خطبه، سخن رضی، رحمه الله تعالی، است. گفت: رضی و جز رضی کجا و این اسلوب سخن کجا؟ ما رسائل رضی را دیده ایم و روش و سبک او را در سخن نثر می‌شناسیم؛ او بدین خطبه، خوب و بدی نیافزوده است. سپس ادامه داد: بخدا سوگند این خطبه را در کتابهایی که ۲۰۰ سال پیش از تولد رضی نوشته شده، دیده‌ام، و خط نویسنده آنها را می‌شناسم و می‌دانم خط کدام یک از علما و ادیبان است قبل از اینکه ابواحمد، پدر رضی، زاده شود.<ref>ابن أبی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج۱، ص۲۰۵.</ref> ابن ابی الحدید در ادامه می‌گوید: من بسیاری از این خطبه را در نوشته‌های شیخمان [[ابوالقاسم بلخی]]، امام [[معتزله]] بغداد، دیدم. او قبل از تولد رضی، در دولت [[مقتدر]] می‌زیست. همچنین بسیاری از آن را در کتاب مشهور [[ابن قبه رازی|ابوجعفر بن قبه]]، یکی از متکلمان [[امامیه]]، معروف به کتاب [[الانصاف]] دیدم. این ابوجعفر از شاگردان شیخ ابوالقاسم بلخی رحمه الله تعالی بود و همان روزگار مرد قبل از اینکه رضی، رحمه الله تعالی، زاده شود.<ref>ابن أبی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج۱، صص۲۰۵-۲۰۶.</ref>
#[[ابن ابی الحدید]] (متوفای ۶۵۶ق.) جو ایک سنّی اور معتزلی ہے اس خطبے کی تشریح کے بعد کہتے ہیں: سن 603 ہجری میں نے اپنے استاد [[مصدق بن شبیب واسطی]] سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ: اس خطبے (یعنی خطبہ شقشقیہ) کو عبداللہ بن احمد جو [[ابن خشاب]] کے نام سے معروف ہے کے پاس پڑھا... پھر ان سے کہا: آیا اس خطبے کو امام علی(ع) کی طرف نسبت دی جاتی ہے کیا اسے جھوٹ اور جعلی سمجھتے ہیں؟ انہوں نے کہا: خدا کی قسم میں اس طرح جانتا ہوں یہ خطبہ خود حضرت علی ہی کی ہے جس طرح میں جانتا ہوں کہ تم مصدق ہو۔ میں نے کہا اکثر لوگ کہتے ہیں کہ یہ خطبہ سید رضی کا ہے۔ تو انہوں نے کہا: سید رضی اور اس جیسے کہاں اور یہ انداز بیاں کہاں؟  ہم نے سید رضی کی کتابیں دیکھی ہیں اور نثر میں ان کے انداز بیان سے ہم واقف ہیں انہوں نے اس خطبے میں کسی اچھی یا بری چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے۔ پھر انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا خدا کی قسم اس خطبے کو سید رضی کی ولادت سے 200 سال پہلے لکھی گئی کتابوں میں دیکھا ہے اور ان کتابوں کے مصنفوں کی لکھائی کو بھی میں جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ کتابیں کن ادیبوں اور مصنفوں کی ہیں اور یہ ساری باتیں سید رضی کے والد ابو احمد کی پیدائش سے پہلے کی ہیں۔<ref>ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج۱، ص۲۰۵.</ref> ابن ابی الحدید آگے چل کر کہتے ہیں: میں نے اس خطبے کے اکثر حصوں کو میرے استاد [[ابوالقاسم بلخی]] جو بغداد میں [[معتزلہ|معتزلیوں]] کے امام تھے، کی یادداشتوں میں بھی دیکھا ہے اور میرے استاد سید رضی سے پہلے زمانے کے ہیں۔ اسی طرح اس خطبے کے بہت سارے حصوں کو [[ابن قبہ رازی|ابوجعفر بن قبہ]] جو کہ ایک [[شیعہ]] متکلم تھے کی مشہور کتاب جو کتاب [[الانصاف (کتاب)|الانصاف]] کے نام سے معروف ہے میں بھی دیکھا ہے۔ یہ ابوجعفر شیخ ابوالقاسم بلخی رحمۃ اللہ تعالی کے شاگردوں میں سے تھا اور یہ اسی وقت سید رضی کی ولادت سے پہلے فوت ہوگئے تھے۔<ref>ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج۱، صص۲۰۵-۲۰۶.</ref>
#یکی از کسانی که قبل از سید رضی، خطبه شقشقیه را در آثارش به نحو مستند از امام علی(ع) روایت کرده است، [[شیخ صدوق]] (متوفای ۳۸۱ق.) است. وی یکبار در [[علل الشرائع]]، این خطبه را ذکر می‌کند؛<ref>الصدوق، علل الشرائع، ج۱، ص۱۵۰.</ref> بار دیگر، در [[معانی الاخبار]].<ref>الصدوق، معانی الاخبار، ص۳۶۱.</ref> در هر دو کتاب، شیخ صدوق به دو سند خطبه را ذکر می‌کند و پس از پایان خطبه، الفاظ دشوار آن را توضیح می‌دهد.
#ایک اور شخصیت جس نے سید رضی سے پہلے "خطبہ شقشقیہ" کو اپنے آثار میں مستند طور پر خود امام علی(ع) سے نقل کی ہے وہ [[شیخ صدوق]] (متوفای ۳۸۱ق.) کی ذات ہے۔ انہوں نے ایک دفعہ [[علل الشرائع (کتاب)|علل الشرائع]] میں<ref>الصدوق، علل الشرائع، ج۱، ص۱۵۰.</ref> اور دوسری دفعہ [[معانی الاخبار]] میں اس خطبے کو ذکر کیا ہے۔<ref>الصدوق، معانی الاخبار، ص۳۶۱.</ref> دونوں کتابوں میں شیخ صدوق نے اس خطبے کو دو واسطوں سے نقل کرتے ہیں اور خطبے کی اختتام پر مشکل الفاظ کی تشریح بھی کرتے ہیں۔
#[[شیخ مفید]] (متوفای ۴۱۳ق.)، استاد [[سید رضی]]، در کتاب الارشاد، خطبه را نقل می‌کند و می‌گوید عده‌ای از راویان با اسناد گوناگون آن را نقل کرد ه‌اند.<ref>المفید، الارشاد، ص۲۸۷.</ref> همو در [[المسألتان فی النص علی علی(ع)]]، از این خطبه به خطبه‌ای معروف یاد می‌کند<ref>المفید، المسألتان فی النص علی علی(ع)، ص۲۸.</ref> و این حاکی از این است که در عصر وی نه تنها تردیدی در سند خطبه نبوده است بلکه خطبه‌ای معروف و شناخته شده، بوده است. باز خود شیخ مفید در کتاب [[الجمل]]، این خطبه را مشهورتر از این می‌داند که راجع به آن توضیحی دهد.<ref>المفید، الجمل، ص۶۲.</ref>
#[[شیخ مفید]] (متوفای ۴۱۳ق.) جو [[سید رضی]] کے استاد بھی ہیں اپنی کتاب [[الارشاد (کتاب)|الارشاد]] میں اس خطبے کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بعض راویوں نے مختلف طریقوں سے اس خطبے کو نقل کئے ہیں۔<ref>المفید، الارشاد، ص۲۸۷.</ref> اسی طرح آپ [[المسألتان فی النص علی علی(ع)]] نامی کتاب میں اس خطبے کو معروف اور مشہور خطبات میں شمار کرتے ہیں۔<ref>المفید، المسألتان فی النص علی علی(ع)، ص۲۸.</ref> اور یہ اس بات کی نشانی ہے کہ شیخ مفید کے دور میں نہ تنہا اس خطبے کے سند میں کوئی شکوک و شبہات پائے جاتے تھے بلکہ یہ خطبہ ایک مشہور و معروف خطبہ شمار ہوتا تھا۔ پھر شیخ مفید کتاب [[الجمل (کتاب)|الجمل]] میں اس کو اس قدر مشہور قرار دیتے ہیں کہ اس کے بارے میں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔<ref>المفید، الجمل، ص۶۲.</ref>


== غصب خلافت ==
== غصب خلافت ==<!--
غصب خلافت مطرح شده در شقشقیه و نقد امام از خلفا، امور عجیبی نیست که باعث انکار صدور خطبه شود چه اینکه خواه در کلام امام علی(ع) در غیر این خطبه و خواه در کلام غیر [[شیعه]] به سهولت می‌توان این موارد را مشاهده کرد. در ذیل جهت تقریب به ذهن نمودن این امور صرفاً به بعضی از موارد اشاره می‌شود.
غصب خلافت مطرح شده در شقشقیه و نقد امام از خلفا، امور عجیبی نیست که باعث انکار صدور خطبه شود چه اینکه خواه در کلام امام علی(ع) در غیر این خطبه و خواه در کلام غیر [[شیعه]] به سهولت می‌توان این موارد را مشاهده کرد. در ذیل جهت تقریب به ذهن نمودن این امور صرفاً به بعضی از موارد اشاره می‌شود.


confirmed، templateeditor
8,935

ترامیم