"خطبہ شقشقیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←غصب خلافت
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←غصب خلافت) |
||
سطر 62: | سطر 62: | ||
#[[شیخ مفید]] (متوفای ۴۱۳ق.) جو [[سید رضی]] کے استاد بھی ہیں اپنی کتاب [[الارشاد (کتاب)|الارشاد]] میں اس خطبے کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بعض راویوں نے مختلف طریقوں سے اس خطبے کو نقل کئے ہیں۔<ref>المفید، الارشاد، ص۲۸۷.</ref> اسی طرح آپ [[المسألتان فی النص علی علی(ع)]] نامی کتاب میں اس خطبے کو معروف اور مشہور خطبات میں شمار کرتے ہیں۔<ref>المفید، المسألتان فی النص علی علی(ع)، ص۲۸.</ref> اور یہ اس بات کی نشانی ہے کہ شیخ مفید کے دور میں نہ تنہا اس خطبے کے سند میں کوئی شکوک و شبہات پائے جاتے تھے بلکہ یہ خطبہ ایک مشہور و معروف خطبہ شمار ہوتا تھا۔ پھر شیخ مفید کتاب [[الجمل (کتاب)|الجمل]] میں اس کو اس قدر مشہور قرار دیتے ہیں کہ اس کے بارے میں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔<ref>المفید، الجمل، ص۶۲.</ref> | #[[شیخ مفید]] (متوفای ۴۱۳ق.) جو [[سید رضی]] کے استاد بھی ہیں اپنی کتاب [[الارشاد (کتاب)|الارشاد]] میں اس خطبے کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بعض راویوں نے مختلف طریقوں سے اس خطبے کو نقل کئے ہیں۔<ref>المفید، الارشاد، ص۲۸۷.</ref> اسی طرح آپ [[المسألتان فی النص علی علی(ع)]] نامی کتاب میں اس خطبے کو معروف اور مشہور خطبات میں شمار کرتے ہیں۔<ref>المفید، المسألتان فی النص علی علی(ع)، ص۲۸.</ref> اور یہ اس بات کی نشانی ہے کہ شیخ مفید کے دور میں نہ تنہا اس خطبے کے سند میں کوئی شکوک و شبہات پائے جاتے تھے بلکہ یہ خطبہ ایک مشہور و معروف خطبہ شمار ہوتا تھا۔ پھر شیخ مفید کتاب [[الجمل (کتاب)|الجمل]] میں اس کو اس قدر مشہور قرار دیتے ہیں کہ اس کے بارے میں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔<ref>المفید، الجمل، ص۶۲.</ref> | ||
== غصب خلافت == | == غصب خلافت == | ||
غصب خلافت | غصب خلافت کے حوالے سے اس خطبے میں امام علی(ع) نے جو خلفاء پر تنقید کی ہے یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے جس کی وجہ سے اس خطبے کی سند میں شکوک و شبہات ایجاد کی جائے کیونکہ خود امام علی(ع) نے اس خطبے کے علاوہ اور بہت سارے موارد اس موضوع پر پر بحث کی ہے جو شیعہ اور اہل سنت دونوں منابع میں نمایاں طور پر پایا جاتا ہے۔ ذیل میں تقریب ذہن کی خاطر ان میں سے بعض موارد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ | ||
=== اس خطبے سے ہٹ کر خلفاء کے بارے میں امام(ع) کا رویہ === | |||
[[جاحظ]] (متوفای ۲۵۵ق. یعنی نہج البلاغہ کی نصنیف سے تقریبا ڈیڑھ صدی پہلے) [[البیان و التبیین]] نامی کتاب میں ایک خطبہ امیرالمؤمنین حضرت علی(ع) سے نقل کرتے ہیں جس میں یوں آیا ہے: "... جب وہ دونوں [یعنی پہلا اور دوسرا خلیفہ] گذر گئے تو تیسرا [تیسرا خلیفہ] اٹھا اس حالت میں کہ کوئے کی طرح اس کا ہم و غم اس کا پیٹ تھا؛ وای ہو اس پر اگر اس کے دونوں پروں اور اس کے سر کو جسم سے جدا کیا جاتا تو بہتر تھا"۔<ref>الجاحظ، البیان والتبیین، ص۲۳۸.</ref> [[ابن ابی الحدید]] نے بھی اس خطبے کو جاحظ سے ہی نقل کیا ہے۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۲۷۶.</ref> | |||
[[ابن عبد ربہ]] (متوفای ۳۲۸ق.) جو [[سید رضی]] سے پہلے زندگی بسر کرتے تھے اپنی کتاب [[العقد الفرید]] میں اس خطبے کو مختصر تفاوت کے ساتھ نقل کرتا ہے۔<ref>ابن عبد ربہ، العقد الفرید، ج۴، ص۱۵۷.</ref> | |||
[[ | === ابوبکر اور عمر کا خلافت کو غصب کرنا، معاویہ کی زبانی === | ||
[[معاویہ]]، [[محمد بن ابی بکر]] کے نام ایک خط میں کہتا ہے کہ [[پیغمبر اکرم(ص)]] کی وفات کے بعد تمہارے والد [یعنی ابوبکر] اور اس کا فاروق [یعنی عمر] وہ پہلے اشخاص تھے جنہوں نے اس [یعنی علی(ع)] کا حق غصب کیا اور حکومت میں اس سے اختلافت کیا۔ یہ دونوں [یعنی ابوبکر اور عمر] اس کام (یعنی غصب خلافت) پر متحد تھے۔<ref>المسعودی، مروج الذہب ومعادن الجوہر، ج۳، صص۱۲-۱۳.</ref> | |||
== | == ترجمے == | ||
نہج البلاغہ کے ترجمے کے ضمن میں ہونے والے ترجموں کے علاوہ اس خطبے کا مستقل اور الگ ترجمے بھی منظر عام پر آ چکی ہے ذیل میں بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ | |||
{{ستون آ|3}} | |||
#ترجمہ خطبہ شقشقیہ. فارسی. مترجم علی انصاری. سن ۱۳۵۴ش ۱۴ صفحات پر مشتمل۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۳.</ref> | |||
#خطبہ شقشقیہ کا منظوم ترجمہ... مترجم سیدمحمدتقی بن امیرمحمد مؤمن حسینی قزوینی ۱۲۷۰.<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۳.</ref> | |||
#ترجمہ خطبہ شقشقیہ. فارسی. مترجم اور کتاب کا نام نامعلوم، اس کا نسخہ آستان قدس لائبریری میں موجود ہے۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۳.</ref> | |||
{{ستون خ}} | |||
== | == شرحیں == | ||
{{ستون آ|2}} | |||
#تفسیر الخطبۃ الشقشقیۃ، شرح الخطبۃ الشقشقیۃ. عربی. [[سید مرتضی |سید مرتضی]] وفات ۴۳۶.<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۲۱.</ref> مجموعہ رسائل الشریف المرتضی. ج۲.<ref>http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/531991</ref> | |||
# | #الشقشقیۃ: دراسۃ موضوعیۃ لشخصیات تصدت للخلافۃ الاسلامیہ، عبدالرسول الغفاری.<ref>http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/28ff1ii099</ref> | ||
# | #امیر مؤمنین حضرت علی(ع) کی ایک جلا دینے والی آہ (خطبہ شقشقیہ کی شرح)، علی اصغر رضوانی.<ref>http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/2000653</ref> | ||
# | #سایبان سیاہ (شرح خطبہ شقشقیہ امیرمؤمنین علی علیہالسلام)، نادر فضلی.<ref>http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/593117</ref> | ||
{{ | #الشذرات العلویہ فی شرح الخطبہ الشقشقیہ للامام علی علیہالسلام، ابوذر الغفاری.<ref>http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/2620809</ref> | ||
#شرح خطبہ شقشقیہ (نسخہ خطی).<ref>http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/807165</ref> | |||
#شرح خطبہ شقشقیہ (نسخہ خطی).<ref>http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/807300</ref> | |||
#شرح خطبہ شقشقیہ، مرتضی قاسمی کاشانی.<ref>http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/577339</ref> | |||
#شرح خطبہ شقشقیہ (نسخہ خطی).<ref>http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/1804ff1ii2</ref> | |||
#خطبہ شقشقیہ، ترجمہ و شرح، محمدباقر رشاد زنجانی.<ref>http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/2994093</ref> | |||
#خطبہ شقشقیہ میں شیعہ عقاید، محمد اسدی گرمارودی.<ref>http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/771346</ref> | |||
#المسائل التطبیقیہ علی الخطبہ الشقشقیہ، علی التبریزی.<ref>http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/2091715</ref> | |||
#التوضیحات التحقیقیۃ فی شرح الخطبۃ الشقشقیۃ. سید علی اکبر بن سید محمد بن سید دلدار علی، وفات ۱۳۲۶.<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، صص۲۲-۲۳.</ref> | |||
#شرح خطبہ شقشقیہ. ملا ابراہیم گیلانی گیارہویں صدی کے علماء میں سے تھے اس کا اصلی نسخہ قم میں موجود تھا۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۲.</ref> | |||
#شرح خطبہ شقشقیہ. میرزا ابوالمعالی کلباسی وفات ۱۳۱۵.<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۲.</ref> | |||
#شرح خطبہ شقشقیہ. تاج العلماء لکہنوی متوفای ۱۳۱۲ ق.<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۲.</ref> | |||
#شرح خطبہ شقشقیہ. فارسی. خطبہ شقشقیہ کا منظوم ترجمہ، مترجم سیدمحمدتقی قزوینی وفات ۱۲۷۰. اس کا نسخہ کتابخانہ مدرسہ سپہسالار و دانشگاہ تہران میں موجود ہے۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۲.</ref> | |||
#شرح الخطبۃ الشقشقیۃ. عربی. سید جعفر بن صادق العابد.<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۲.</ref> | |||
#شرح خطبہ شقشقیہ. سید علاء الدین گلستانہ مؤلف کتاب حدائق الحقائق اس کا نسخہ صاحب ذریعہ نے نجف میں سید محمد باقر یزدی کے یہاں دیکھا ہے۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، صص۳۲-۳۳.</ref> | |||
#شرح الخطبۃ الشقشقیۃ. عربی. خطیب معروف سید علی ہاشمی.<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۳.</ref> | |||
#شرح خطبہ شقشقیہ. شیخ ہادی بنانی مؤلف شرح الخطبۃ الزینبیۃ معاصر شیخ انصاری.<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۳.</ref> | |||
#شرح خطبہ شقشقیہ. عربی. مؤلف نسخہ مورخ سدہ سیزدہم آن در کتابخانہ ملی موجود است.<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۳.</ref> | |||
#شرح خطبہ شقشقیہ. عربی. مؤلف نسخہ مورخ سدہ سیزدہم آن در کتابخانہ ملی موجود است.<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۳.</ref> | |||
#النقد السدید شرح الخطبۃ الشقشقیۃ لابن ابی الحدید. عربی. شیخ محسن کریم، دو جلد، پہلی جلد سن ۱۳۸۳ کو نجف میں منظر عام پر آیا ہے۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۸.</ref> | |||
#کشف السحاب فی شرح الخطبۃ الشقشقیۃ. ملا حبیب إلہ کاشانی متوفای ۱۳۴۰ق.<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۵۵.</ref> | |||
{{ستون خ}} | |||
== متن و | == خطبہ شقشقیہ کا متن اور ترجمہ ==<!-- | ||
{| class="mw-collapsible mw-collapsed wikitable" style="margin:auto;min-width:50%;" | |||
! | |||
{{ quote box | |||
| title ={{حديث|خطبه شقشقیه}} | |||
|bgcolor = #ecfcf4 | |||
|title_bg = Lavender | |||
| align = center | |||
|fontsize=1em | |||
}} | |||
|- | |||
| | |||
{{quote box | |||
| quote = : | |||
{{حديث| <center>'''بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـ?نِ الرَّحِيمِ''' </center> | |||
اَما وَاللهِ لَقَدْ تَقَمَّصَهَا ابْنُ اَبی قُحافَةَ (فی بعضُ النّسخ: فُلانٌ) وَ اِنَّهُ لَیعْلَمُ اَنَّ مَحَلّی مِنْها مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحی، ینْحَدِرُ عَنِّی السَّیلُ، وَ لایرْقی اِلَی الطَّیرُ.|ترجمہ=خدا کی قسم ! فرزند2 ابو قحافہ نے پیراہنِ خلافت پہن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے میں وہ (کوہ ُ بلند ہوں ) جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ َپر نہیں مار سکتا۔ (اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کرلی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں سنِ رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہذا میں نے صبر کیا۔ حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم ورنج) كے پھندے لگے ہوئے تھے۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابنِ خطاب کو دے گیا۔ (پھر حضرت نے بطورِ تمثیل اعشی کا یہ شعر پڑھا3۔) | |||
" کہاں یہ دن جو ناقہ کے پالان پر کٹتا ہے اور کہاں وہ دن جو حیان برادر جابر کی صحبت میں گزرتا تھا۔" | |||
تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا۔ لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کے لئے استوار کرتا گیا۔ بے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا۔ اس نے خلافت کو ایک سخت و درشت محل میں رکھ دیا۔ جس کے چرکے کاری تھے۔ جس کو چھو کر بھی درشتی محسوس ہوتی تھی۔ جہاں بات بات میں ٹھوکر کھانا اور پھر عذر کرنا تھا۔ جس کا اس سے سابقہ پڑے ہو ایسا ہے جیسے سرکش اونٹنی کو سوار کہ اگر مہار کھینچتا ہے تو (اس کی منہ زوری سے ) اس کی ناک کا درمیانی حصہ ہی شگافتہ ہوا جاتا ہے جس کے بعد مہار دینا ہی ناممکن ہو جائے گا) اور اگر باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ مہلکوں میں پڑ جائے گا۔ اس کی وجہ سے بقائے ایزد کی قسم ! لوگ کجروی، سرکشی، متلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہو گئے میں نے اس طویل مدت اور شدید مصیبت پر صبر کیا۔ یہاں تک کہ دوسرا بھی اپنی راہ لگا، اور خلافت4 کو ایک جماعت میں محدود کر گیا۔ اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیا۔ اے اللہ مجھے اس شوریٰ سے کیا لگاؤ؟ ان میں کے سب سے پہلے کے مقابلہ ہی میں میرے استحقاق و فضیلت میں کب شک تھا جو اب ان لوگوں میں میں بھی شامل کر لیا گیا ہوں۔ مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتی الامکان کسی نہ کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں۔) ان میں سے ایک شخص تو کینہ وعناد کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہو گیا اور دوسرا مادی اور بعض ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا۔ یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے۔ جو اللہ کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ5 فصلِ ربیع کا چارہ چرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آگیا۔ جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بَل کھِل گئے اورا س کی بد اعمالیوں نے اسی کا کام تمام کر دیا۔ اور شکم پری نے اسے منہ کے بل گرا دیا۔ اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کر دیا جو میری جانب بچو کے ایال کی طرح ہر طرف سے لگاتار بڑھ رہا تھا یہاں تک کہ عالم یہ ہوا کہ حسن ﷷ اور حسین ﷷ کچلے جارہے تھے اور میری ردا کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے وہ سب میرے گرد بکریوں کے گلے کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ مگر اس کے باوجود جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا۔ گویا انہوں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ » یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ (بے جا) بلندی چاہتے ہیں نہ فساد پھیلاتے ہیں۔ اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے۔« ہاں ہاں خدا کی قسم! ان لوگوں نے اس کو سنا تھا اور یاد کیا تھا۔ لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا اور اس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا۔ دیکھو اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں۔ اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے۔ کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اوّل کو سیراب کیا تھا اور تم پانی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتنا پاتے۔ | |||
لوگوں کا بیان ہے کہ جب حضرت خطبہ پڑھتے ہوئے اس مقام تک پہنچے تو ایک عراقی باشندہ آگے بڑھا اور ایک نوشتہ حضرت سامنے پیش کیا، آپ اسے دیکھنے لگے۔ جب فارغ ہوئے تو ابنِ عباس نے کہا یا امیرالمومنین ﷷ آپ نے جہاں سے خطبہ چھوڑا تھا۔ وہیں سے اس کا سلسلہ آگے بڑھائیں۔ حضرت نے فرمایا کہ اے ابن عباس یہ تو شقشقہ (گوشت کا وہ نرم لوتھڑا، جو اونٹ کے منہ سے مستی و ہیجان کے وقت نکلتا ہے ) تھا جو ابھر کر د ب گیا۔ ابن عباس کہتے تھے کہ مجھے کسی کلام کے متعلق اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا اس کلام کے متعلق اس بنا پر ہوا کہ حضرت وہاں تک نہ پہنچ سکے جہاں تک وہ پہنچنا چاہتے تھے علامہ رضی کہتے ہیں کہ خطبے کے ان الفاظ کو کاب الصعبة ان اشنق لھا خرم و ان اسلس لھا تقھم سے مراد یہ ہے کہ سوار جب مہار کھینچنے میں ناقہ پر سختی کرتا ہے تو اس کھینچا تانی میں اس کی ناک زخمی ہوئی جاتی ہے اور اگر اسکی سرکشی کے باوجود باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اسے کہیں نہ کہیں گرا دیگی اور اس کے قابو سے باہر ہو جائے گی۔ اشنق الناقہ اس وقت بولا جاتا ہے۔ جب سوار باگوں کو کھینچ کر اس کے سر کو اوپر کی طرف اٹھائے اور اسی طرح اشنق الناقہ استعمال ہوتا ہے۔ ابن سکیت نے اصلاح المنطق میں اس کا ذکر کیا ہے حضرت نے اشنقہا کے بجائے اشنق لہا استعمال کیا ہے۔ چونکہ آپ نے یہ لفظ اسلس لہا کے بالمقابل، استعمال کیا ہے۔ اور سلاست اسی وقت باقی رہ سکتی تھی۔ جب ان دونوں لفظوں کا نہج استعمال ایک ہو۔ گویا حضرت ان اشنق لہا کو ان رفع لہا کی جگہ استعمال کیا ہے یعنی اس کی باگیں اوپر کی طرف اٹھا کر روک رکھے۔}} | |||
| archive date = | |||
||bgcolor= #ecfcf4 | |||
| title_bg = Lavender | |||
|qalign =justify | |||
| align = right | |||
}} | |||
|} | |||
|- | |||
|} | |||
{{نقل قول دوقلو طبقاتی | {{نقل قول دوقلو طبقاتی | ||
|شکل بندی عنوان= | |شکل بندی عنوان= | ||
سطر 123: | سطر 154: | ||
|عنوان ستون راست= | |عنوان ستون راست= | ||
|عنوان ستون چپ= ترجمه حسین انصاریان | |عنوان ستون چپ= ترجمه حسین انصاریان | ||
| | | | ||
|هان! به خدا قسم ابوبكر پسر ابوقحافه (برخی نسخهها: فلانی) جامه خلافت را پوشید در حالی كه میدانست جایگاه من در خلافت چون محور سنگ آسیا به آسیاست، سیل دانش از وجودم همچون سیل سرازیر میشود، و مرغ اندیشه به قلّه منزلتم نمیرسد. | |هان! به خدا قسم ابوبكر پسر ابوقحافه (برخی نسخهها: فلانی) جامه خلافت را پوشید در حالی كه میدانست جایگاه من در خلافت چون محور سنگ آسیا به آسیاست، سیل دانش از وجودم همچون سیل سرازیر میشود، و مرغ اندیشه به قلّه منزلتم نمیرسد. | ||
|فَسَدَلْتُ دُونَها ثَوْباً، وَطَوَیتُ عَنْها كَشْحاً، | |فَسَدَلْتُ دُونَها ثَوْباً، وَطَوَیتُ عَنْها كَشْحاً، |