مندرجات کا رخ کریں

"محمد بن حنفیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 78: سطر 78:
}}<noinclude>
}}<noinclude>
</noinclude>
</noinclude>
'''محمد بن حَنَفیہ''' (16-81 ھ)، [[حضرت علی علیہ السلام]] اور [[خولہ حنفیہ]] (بنت جعفر بن قیس) کا بیٹے اور طبقہ اول کے [[تابعین]] میں سے تھے۔ [[عمر بن خطاب]] کے دور حکومت میں 16 ھ ق کو متولد ہو‎ئے اور[[عبد الملک بن مروان]] کی [[خلافت]] کے دور میں 81 ھ میں 65 سال کی عمر میں ایلہ یا [[طائف]] یا [[مدینہ]] میں وفات پا‎ئی۔ ان کا نام محمد بن علی بھی ذکر ہوا ہے۔ اسی طرح انہیں محمد اکبر بھی کہا گیا ہے۔ آپ کی کنیت ابو القاسم ہے۔ آپ [[جنگ صفین|صفین]]، [[جنگ جمل|جمل]] و [[جنگ نہروان]] میں شریک ہو‎ئے اور جنگ جمل میں امام علی کی فوج کے علمدار تھے۔ [[واقعہ کربلا]] کے وقت آپ [[مدینہ]] میں تھے اور بعض نقل کے مطابق [[امام حسین علیہ السلام]] کی [[شہادت]] کے بعد آپ نے [[امامت]] کا دعوا کیا لیکن [[امام سجاد علیہ السلام]] کی امامت پر [[حجر الاسود]] کی گواہی کے بعد اپنے دعوی سے دستبردار ہو‎ئے اور اپنے بھتیجے کی امامت کے معتقد ہو‎ئے۔
'''محمد بن حَنَفیہ''' (16-81 ھ)، [[حضرت علی علیہ السلام]] اور [[خولہ حنفیہ]] (بنت جعفر بن قیس) کے بیٹے اور پہلے طبقے کے [[تابعین]] (کبار تابعین) میں سے تھے۔ محمد حنفیہ [[عمر بن خطاب]] کے دور حکومت میں سنہ  16 ھ ق کو متولد ہو‎ئے اور[[عبد الملک بن مروان]] کی [[خلافت]] کے دور میں سنہ 81 ھ میں 65 سال کی عمر میں ایلہ یا [[طائف]] یا [[مدینہ]] میں وفات پا‎ئی۔ ان کا نام محمد بن علی بھی ذکر ہوا ہے۔ اسی طرح انہیں محمد اکبر بھی کہا گیا ہے۔ آپ کی کنیت ابو القاسم ہے۔ آپ [[جنگ صفین|صفین]]، [[جنگ جمل|جمل]] و [[جنگ نہروان]] میں شریک ہو‎ئے اور جنگ جمل میں امام علی کی فوج کے علمدار تھے۔ [[واقعہ کربلا]] کے وقت آپ [[مدینہ]] میں تھے اور بعض نقل کے مطابق [[امام حسین علیہ السلام]] کی [[شہادت]] کے بعد آپ نے [[امامت]] کا دعوا کیا لیکن [[امام سجاد علیہ السلام]] کی امامت پر [[حجر الاسود]] کی گواہی کے بعد اپنے دعوی سے دستبردار ہو‎ئے اور اپنے بھتیجے کی امامت کے معتقد ہو‎ئے۔


[[کوفہ]] پر [[مختار]] کے تسلط کے بعد انہوں نے مختار کو خط لکھا تو مختار نے ایک گروہ کو [[مکہ]] بھیج کر انہیں [[عبد اللہ بن زبیر]] سے نجات دلائی۔  
[[کوفہ]] پر [[مختار]] کے تسلط کے بعد انہوں نے مختار کو خط لکھا تو مختار نے ایک گروہ کو [[مکہ]] بھیج کر انہیں [[عبد اللہ بن زبیر]] سے نجات دلائی۔  
سطر 85: سطر 85:


==نام، نسب اور ولادت==
==نام، نسب اور ولادت==
اپ کی والدہ خولہ بنت جعفر بن قیس <ref> أنساب الأشراف، ج۲، ص۲۰۰.</ref> کا تعلق قبیلہ بنی حنفیہ سے تھا، اس وجہ سے آپ حنفیہ کے نام سے مشہور ہو‎ئے۔ بعض محققین کے مطابق آپ کی ماں کنیز تھیں اور [[ابوبکر]] کی [[خلافت]] کے دوران [[بنی اسد]] کے [[بنی حنفیہ]] پر حملے کے دوران اسیر ہو‎ئیں اور [[امام علی علیہ السلام]] نے انہیں خرید کر آزاد کیا اور پھر ان سے شادی کی۔
آپ کی والدہ خولہ بنت جعفر بن قیس <ref> أنساب الأشراف، ج۲، ص۲۰۰.</ref> کا تعلق قبیلہ بنی حنفیہ سے تھا، اس وجہ سے آپ حنفیہ کے نام سے مشہور ہو‎ئے۔ بعض محققین کے مطابق آپ کی ماں کنیز تھیں اور [[ابوبکر]] کی [[خلافت]] کے دوران [[بنی اسد]] کے [[بنی حنفیہ]] پر حملے کے دوران اسیر ہو‎ئیں اور [[امام علی علیہ السلام]] نے انہیں خرید کر آزاد کیا اور پھر ان سے شادی کی۔


چونکہ آپ کی وفات 81 ھ میں ہو‎ئی اور اس وقت عمر 65 سال تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سنہ 16 ھ میں متولد ہو‎ئے ہیں۔<ref> الطبقات الکبری، ج۵، ص:۸۷.</ref>
چونکہ آپ کی وفات سنہ 81 ھ میں ہو‎ئی اور اس وقت عمر 65 سال تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سنہ 16 ھ میں متولد ہو‎ئے ہیں۔<ref> الطبقات الکبری، ج۵، ص:۸۷.</ref>


بعض نے نقل کیا ہے کہ [[رسول خدا (ص)]] نے اپنی وفات سے پہلے حضرت علی (ع) سے فرمایا: اگر خولہ کے یہاں بیٹے کی ولادت ہو تو اس کا نام میرے نام اور میری کنیت پر رکھنا۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۲،‌ص۲۰۰-۲۰۱.</ref>
بعض مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ [[رسول خدا (ص)]] نے اپنی وفات سے پہلے حضرت علی (ع) سے فرمایا: اگر خولہ کے یہاں بیٹے کی ولادت ہو تو اس کا نام میرے نام اور میری کنیت پر رکھنا۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۲،‌ص۲۰۰-۲۰۱.</ref>


==نقل حدیث میں آپ کا مقام==
==نقل حدیث میں آپ کا مقام==
سطر 95: سطر 95:
آپ سے آپ کے بیٹے [[عبداللہ بن محمد حنفیہ|عبد اللّہ]]، [[حسن بن محمد حنفیہ|حسن]]، [[ابراہیم بن محمد حنفیہ|ابراہیم]]، [[عون بن محمد حنفیہ|عون]] اور کچھ دوسرے لوگ جیسے [[سالم بن ابی جعد]]، [[منذر ثوری]]، [[امام باقرؑ]]، [[عبداللہ بن محمد عقیل]]، [[عمرو بن دینار]]، [[محمد بن قیس]]، [[عبد الاعلی بن عامر]] وغیرہ نے احادیث نقل کی ہیں۔<ref> صابری، ج۲، ص۵۱.</ref>
آپ سے آپ کے بیٹے [[عبداللہ بن محمد حنفیہ|عبد اللّہ]]، [[حسن بن محمد حنفیہ|حسن]]، [[ابراہیم بن محمد حنفیہ|ابراہیم]]، [[عون بن محمد حنفیہ|عون]] اور کچھ دوسرے لوگ جیسے [[سالم بن ابی جعد]]، [[منذر ثوری]]، [[امام باقرؑ]]، [[عبداللہ بن محمد عقیل]]، [[عمرو بن دینار]]، [[محمد بن قیس]]، [[عبد الاعلی بن عامر]] وغیرہ نے احادیث نقل کی ہیں۔<ref> صابری، ج۲، ص۵۱.</ref>


آپ نے [[مدینہ]] میں وسیع پیمانے پر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اسی مکتب سے بہت سارے نظریات مطرح ہوئے یہاں تک کہ مدینے میں آپ کے درس تدریس کو [[بصرہ]] میں [[حسن بصری]] کے علمی حلقے سے مقایسہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ جس طرح وہ مجمع [[معتزلہ]] کے عقاید کا سرچشمہ اور [[تصوف|صوفیوں]] اور زاہدوں کے مسلک کے نام سے متعارف ہوا، اس حلقے کے شاگردوں کو بھی کلامی نظریات کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس حلقے سے ابن حنفیہ کے دو بیٹے عبد اللہ جن کا لقب ابو القاسم تھا اور حسن جن لقب ابو محمد تھا، نکلے اور ابو ہاشم، معتزلی نظریات کا واسطہ بنا اور ابو محمد [[مرجئہ]] کا بانی بنا۔<ref> صابری، ج۲، ص۵۴.</ref>
آپ نے [[مدینہ]] میں وسیع پیمانے پر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اسی مکتب سے بہت سارے نظریات رواج پایے۔ یہاں تک کہ مدینے میں آپ کے درس تدریس کو [[بصرہ]] میں [[حسن بصری]] کے علمی حلقے سے مقایسہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ جس طرح وہ مجمع [[معتزلہ]] کے عقاید کا سرچشمہ اور [[تصوف|صوفیوں]] اور زاہدوں کے مسلک کے نام سے متعارف ہوا، اس حلقے کے شاگردوں کو بھی کلامی نظریات کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس حلقے سے ابن حنفیہ کے دو بیٹے عبد اللہ جن کا لقب ابو القاسم تھا اور حسن جن کا لقب ابو محمد تھا، نکلے اور ابو ہاشم، معتزلی نظریات کا واسطہ بنا اور ابو محمد [[مرجئہ]] کا بانی بنا۔<ref> صابری، ج۲، ص۵۴.</ref>


==وثاقت==
==وثاقت==
[[رجال کشی|رجال]] [[کشی]] میں حضرت علی علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہو‎ئی ہے جس میں چار محمد اللہ کی نافرمانی کے مانع بننے کا ذکر ہوا ہے؛ ان چار محمد سے مراد [[محمد بن جعفرطیار]]، [[محمد بن ابی بکر]]، محمد بن حنفیہ اور [[محمد بن ابی حذیفہ]].<ref> کشی، ص۷۰.</ref> ہیں۔ [[عبداللہ مامقانی|مامقانی]] اس حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہو‎ئے محمد ابن حنفیہ کی عدالت اور پاکیزگی کو ثابت کرتا ہے۔<ref> تنقیح المقال، ج۳، ص۱۱۱.</ref>
[[رجال کشی|رجال]] [[کشی]] میں حضرت علی علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہو‎ئی ہے جس میں محمد نام کے چار افراد  کو  اللہ کی نافرمانی کی رکاٹ بننے کا ذکر ہوا ہے؛ ان چار محمد میں سے پہلا [[محمد بن جعفرطیار]]، دوسرا [[محمد بن ابی بکر]]، تیسرا محمد بن حنفیہ اور چوتھا [[محمد بن ابی حذیفہ]] ہے.<ref> کشی، ص۷۰.</ref> ہیں۔ [[عبداللہ مامقانی|مامقانی]] اس حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہو‎ئے محمد ابن حنفیہ کی عدالت اور وثاقت کو ثابت کرتا ہے۔<ref> تنقیح المقال، ج۳، ص۱۱۱.</ref>


==سیاسی موقف==
==سیاسی موقف==
محمد بن حنفیہ سیاسی اعتبار سے باہمی مسالمت آمیز رو‎یہ کو اختیار کرتے تھے۔ اسی موقف کی وجہ سے [[علی علیہ السلام|امیر المؤمنین علیہ السلام]] کی [[شہادت]] کے بعد [[مدینہ]] میں اپنے بھا‎ئی [[امام حسن علیہ السلام]] کے ساتھ رہے اور [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] کے ولی عہد کے عنوان سے [[یزید بن معاویہ|یزید]] کی بھی بیعت کی اور یزید کے خلیفہ بننے کے بعد بھی اس کی خلافت کی مخالفت نہیں کی۔
محمد بن حنفیہ سیاسی اعتبار سے باہمی مسالمت آمیز رو‎یہ اختیار کرتے تھے۔ اسی موقف کی وجہ سے [[علی علیہ السلام|امیر المؤمنین علیہ السلام]] کی [[شہادت]] کے بعد [[مدینہ]] میں اپنے بھا‎ئی [[امام حسن علیہ السلام]] کے ساتھ رہے اور [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] کے ولی عہد کے عنوان سے [[یزید بن معاویہ|یزید]] کی بھی بیعت کی اور یزید کے خلیفہ بننے کے بعد بھی اس کی خلافت کی مخالفت نہیں کی۔


آپ نے بعد میں بھی یہ مسالمت آمیز روابط خلافت کے سیسٹم کے ساتھ جاری رکھا۔ 76 ھ کو [[عبدالملک بن مروان]] سے ملنے [[دمشق]] چلے گئے۔ بعض نے عبد الملک سے رابطے کی وجہ ابن زبیر کی طرف سے بدسلوکی قرار دیا ہے۔ [[عبداللہ بن زبیر]] نے انہیں زمزم کے چھوٹے سے کمرے میں بند کیا اور [[مختار ثقفی]] کے ساتھیوں نے اس سے نجات دلائی۔<ref> صابری، ج۲، ص۵۲ و ۵۳.</ref>
آپ نے بعد میں بھی نظام خلافت کے ساتھ مسالمت آمیز رابطہ جاری رکھا۔ سنہ 76 ھ کو [[عبدالملک بن مروان]] سے ملنے [[دمشق]] چلے گئے۔ بعض نے عبد الملک سے رابطے کی وجہ ابن زبیر کی طرف سے بدسلوکی قرار دی ہے۔ [[عبداللہ بن زبیر]] نے انہیں زمزم کے چھوٹے سے کمرے میں بند کیا اور [[مختار ثقفی]] کے ساتھیوں نے اس سے نجات دلائی۔<ref> صابری، ج۲، ص۵۲ و ۵۳.</ref>


مختار کو قتل کرنے کے بعد ابن زبیر نے محمد حنفیہ سے دوبارہ [[بیعت]] طلب کی اور چاہتا تھا ان پر اور ان کے قریبیوں پر حملہ کرے۔ اس وقت [[عبد الملک ابن مروان]] جو ابھی مسند [[خلافت]] پر بیٹھ گیا تھا اس کی طرف سے محمد ابن حنفیہ کو ایک خط موصول ہوا جس میں محمد اور اس کے چاہنے والوں کو [[شام]] آنے کی دعوت تھی۔ محمد اور اس کے دوست احباب شام کی طرف چلے گئے۔ لیکن [[مدین|مَدین]] پہنچے تو ان کو خبر ملی کہ عبد الملک ابن مروان نے عمرو بن سعید سے <small>(جو کہ ابن حنفیہ کے دوستوں میں سے تھا</small>) بے وفا‎ئی کی ہے۔ اس وجہ سے سفر سے پشیمان ہو‎ئے اور «[[ایلہ|أیلہ]]» میں رک گئے جو کہ [[بحیرہ احمر]] کے کنارے، [[حجاز]] کے آخر میں شام کے بارڈر پر ایک شہر ہے۔ وہاں سے واپس [[مکہ]] لوٹے اور [[ابوطالب کی گھاٹی|شعب ابوطالب]] میں سکونت اختیار کیا۔ اور وہاں سے [[طا‎ئف]] چلے گئے۔ جب تک حجاج نے ابن زبیر کو مکہ میں محاصرے میں رکھا محمد حنفیہ طا‌‎ئف میں رہے۔ اس کے بعد پھر شعب ابو طالب واپس آ‎ئے۔ حجاج نے ان سے عبد الملک کے لئے بیعت طلب کی لیکن انہوں نے بیعت کرنے سے انکار کیا۔ ابن زبیر مرنے کے بعد محمد بن حنفیہ نے عبد الملک کو ایک خط لکھا اور اس سے امان مانگی اور عبد الملک نے اسے امان دی۔<ref> دیکھ‎ئے: نوبختی، ص ۸۶-۸۷.</ref>
مختار کو قتل کرنے کے بعد ابن زبیر نے محمد حنفیہ سے دوبارہ [[بیعت]] طلب کی اور چاہتا تھا ان پر اور ان کے قریبی لوگوں پر حملہ کرے۔ اس وقت مسند [[خلافت]] پر براجمان [[عبد الملک ابن مروان]] کی طرف سے محمد ابن حنفیہ کو ایک خط موصول ہوا جس میں محمد اور اس کے چاہنے والوں کو [[شام]] آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ محمد اور اس کے دوست احباب شام کی طرف چلے گئے لیکن [[مدین|مَدین]] پہنچے تو ان کو خبر ملی کہ عبد الملک ابن مروان نے عمرو بن سعید سے <small>(جو کہ ابن حنفیہ کے دوستوں میں سے تھا</small>) بے وفا‎ئی کی ہے اس وجہ سے وہ لوگ سفر سے پشیمان ہو‎ئے اور «[[ایلہ|أیلہ]]» میں رک گئے جو کہ [[بحیرہ احمر]] کے کنارے، [[حجاز]] کے آخر میں شام کے بارڈر پر ایک شہر ہے۔ وہاں سے واپس [[مکہ]] لوٹے اور [[ابوطالب کی گھاٹی|شعب ابوطالب]] میں سکونت اختیار کی پھر وہاں سے [[طا‎ئف]] چلے گئے۔ جب تک حجاج نے ابن زبیر کو مکہ میں محاصرے میں رکھا محمد حنفیہ طا‌‎ئف میں رہے۔ اس کے بعد پھر شعب ابو طالب واپس آ‎ئے۔ حجاج نے ان سے عبد الملک کے لئے بیعت طلب کی لیکن انہوں نے بیعت کرنے سے انکار کیا۔ ابن زبیر مرنے کے بعد محمد بن حنفیہ نے عبد الملک کو ایک خط لکھا اور اس سے امان مانگا اور عبد الملک نے اسے امان دیا۔<ref> دیکھ‎ئے: نوبختی، ص ۸۶-۸۷.</ref>


==برجستہ واقعات ==
==نمایاں کاکردگی ==


===جنگوں میں شرکت===
===جنگوں میں شرکت===
* [[سنہ 36 ہجری]] میں [[جنگ جمل]] واقع ہو‎ئی۔ اس دن محمد حملہ کرنے سے رک گئے اور پرچم کو خود امام علی علیہ السلام نے سنبھالا اور جمل والوں کی فوج کو پسپا کرنے کے بعد پھر پرچم محمد کے حوالے کیا اور ان سے کہا: «دوبارہ حملہ کرکے اپنی گزشتہ کوتاہی کی اصلاح کرو» اور آپ نے [[خزیمہ بن ثابت]] (<small>ذو الشّہادتین</small>) اور بعض دوسرے [[انصار]]، جن میں سے بہت سارے [[جنگ بدر|بدر]] کے جنگجو تھے، ان کی مدد سے دشمن پر یکے پس از دیگرے حملہ کیا اور دشمن کو شکست سے دوچار کیا۔<ref> مدرس وحید، ج۲، ص۳۵۷؛ نک: ری ‌شہری، ج۱، ص۱۸۳.</ref>
* [[سنہ 36 ہجری]] میں [[جنگ جمل]] واقع ہو‎ئی۔ اس دن محمد حملہ کرنے سے رک گئے اور پرچم کو خود امام علی علیہ السلام نے سنبھالا اور جمل والوں کی فوج کو پسپا کرنے کے بعد پھر پرچم محمد کے حوالے کیا اور ان سے کہا: «دوبارہ حملہ کرکے اپنی گزشتہ کوتاہی کی اصلاح کرو» اور آپ نے [[خزیمہ بن ثابت]] (<small>ذو الشّہادتین</small>) اور بعض دوسرے [[انصار]]، جن میں سے بہت سارے [[جنگ بدر|بدر]] کے جنگجو تھے، ان کی مدد سے دشمن پر پے درپے حملہ کیا اور دشمن کو شکست سے دوچار کیا۔<ref> مدرس وحید، ج۲، ص۳۵۷؛ نک: ری ‌شہری، ج۱، ص۱۸۳.</ref>


* [[جنگ صفین]] میں محمد لشکر کے سرداروں میں سے تھے۔<ref> ابن شهر آشوب، مناقب آل أبی طالب علیهم السلام، ۱۳۷۹ق، ج۳، ص۱۶۸.</ref> [[علامہ مجلسی]] نے جنگ صفین میں ان کی موجودگی کا ایک واقعہ ذکر کیا ہے۔<ref> مجلسی،‌ بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۳۴۹.</ref> محمد بن جنفیہ نے اپنے بابا سے اپنے اور حسنین کے درمیان تبعیض کی شکایت کی۔  حضرت علی (ع) نے ان کے سر کا بوسہ لیا اور فرمایا: میرے عزیز بیٹے، تم میرے بیٹے ہو اور وہ دونوں [[حسنین]] [[رسول خدا (ص)]] کی فرزند ہیں۔ کیا مجھے ان کی حفاظت نہیں کرنی چاہئے؟ محمد نے جواب دیا: بیشک بابا، میری جان آپ پر اور ان دونوں پر فدا ہو۔<ref> مجلسی،‌ بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۳۴۹.</ref>  
* [[جنگ صفین]] میں محمد لشکر کے سرداروں میں سے تھے۔<ref> ابن شهر آشوب، مناقب آل أبی طالب علیهم السلام، ۱۳۷۹ق، ج۳، ص۱۶۸.</ref> [[علامہ مجلسی]] نے جنگ صفین میں ان کی موجودگی کا ایک واقعہ ذکر کیا ہے۔<ref> مجلسی،‌ بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۳۴۹.</ref> محمد بن جنفیہ نے اپنے بابا سے اپنے اور حسنین کے درمیان امتیازی سلوک کی شکایت کی۔  حضرت علی (ع) نے ان کو چوما اور فرمایا: میرے عزیز بیٹے، تم میرے بیٹے ہو اور وہ دونوں [[حسنین]] [[رسول خدا (ص)]] کے فرزند ہیں۔ کیا مجھے ان کا خیال نہیں رکھنا چاہیے؟ محمد نے جواب دیا: بے شک بابا، میری جان آپ پر اور ان دونوں پر فدا ہو۔<ref> مجلسی،‌ بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۳۴۹.</ref>  


* [[جنگ نہروان]]، محمد جنگ نہروان میں بھی شریک رہے اور بعض اوقات لشکر کے پرچم دار بھی رہے۔<ref> حمیری، قرب الإسناد، ۱۴۱۳ق، ص۲۷.</ref>
* [[جنگ نہروان]]، محمد جنگ نہروان میں بھی شریک رہے اور بعض اوقات لشکر کے پرچم دار بھی رہے۔<ref> حمیری، قرب الإسناد، ۱۴۱۳ق، ص۲۷.</ref>


===کربلا میں غیر حاضری===
===کربلا میں غیر موجودگی===
شیعہ علما اور [[علم رجال|رجال‌]]  کے ماہرین نے محمد بن حنفیہ کی [[واقعہ کربلا]] میں غیر حاضری کے دفاع میں کچھ دلایل پیش کئے ہیں۔ ان کے بقول محمد حنفیہ کا شرکت نہ کرنا [[امام حسین علیہ السلام]] کی نافرمانی یا مخالفت کی وجہ سے نہیں تھا اور امام کے ساتھ نہ آنے میں ان کی کچھ جا‎ئز وجوہات تھیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:
شیعہ علما اور [[علم رجال|رجال‌]]  کے ماہرین نے محمد بن حنفیہ کی [[واقعہ کربلا]] میں غیر موجودگی کے دفاع میں کچھ دلایل پیش کیے ہیں۔ ان کے بقول محمد حنفیہ کا شرکت نہ کرنا [[امام حسین علیہ السلام]] کی نافرمانی یا مخالفت کی وجہ سے نہیں تھا اور امام کے ساتھ نہ آنے میں ان کی کچھ جا‎ئز وجوہات تھیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:


* امام علیہ السلام کے [[مدینہ]] اور [[مکہ]] سے نکلتے وقت ان کی بیماری۔
* امام علیہ السلام کے [[مدینہ]] اور [[مکہ]] سے نکلتے وقت ان کی بیماری
ان دلائل میں سے ایک جسے [[علامہ مجلسی]] نے [[علامہ حلی]] کے مہنا بن سنان کے جواب سے نقل کیا ہے۔ وہ دلیل امام علیہ السلام کے مدینے سے نکلتے ہو‎ئے وقت محمد حنفیہ کی بیماری پیش کیا ہے۔<ref> بحار الانوار، ج۴۲،ص۱۱۰</ref> مقرم نے ابن نما حلی کے حوالے سے  ان کی بیماری آنکھوں کا درد بیان کیا ہے۔<ref> المقرم، ص۱۳۵</ref>
ان دلائل میں سے ایک جسے [[علامہ مجلسی]] نے [[علامہ حلی]] کے مہنا بن سنان کے جواب سے نقل کیا ہے۔ وہ دلیل امام علیہ السلام کے مدینے سے نکلتے ہو‎ئے وقت محمد حنفیہ کی بیماری پیش کیا ہے۔<ref> بحار الانوار، ج۴۲،ص۱۱۰</ref> مقرم نے ابن نما حلی کے حوالے سے  ان کی بیماری آنکھوں کا درد بیان کیا ہے۔<ref> المقرم، ص۱۳۵</ref>
* امام علیہ السلام کی طرف سے مدینہ میں رہنے پر مامور ہونا۔
* امام علیہ السلام کی طرف سے مدینہ میں رہنے پر مامور ہونا
ابن اعثم کوفی نقل کرتے ہیں: جب امام علیہ السلام مدینہ چھوڑ رہے تھے اور محمد بن حنفیہ امام (ع) کو مدینہ میں رہنے پر قانع نہ کر سکے تو اس وقت امام نے محمد بن حنفیہ سے فرمایا:
ابن اعثم کوفی نقل کرتے ہیں: جب امام علیہ السلام مدینہ چھوڑ رہے تھے اور محمد بن حنفیہ امام (ع) کو مدینہ میں رہنے پر قانع نہ کر سکے تو اس وقت امام نے محمد بن حنفیہ سے فرمایا:
::تمہارے مدینہ میں رکنے میں کو‎ئی حرج نہیں ہے۔ آپ ان لوگوں کے درمیان میرے مامور ہوں گے اور تمام حالات سے مجھے باخبر کریں۔<ref> ابن ‌اعثم،‌ ہمان،‌ ص۲۳</ref>
::تمہارے مدینہ میں رکنے میں کو‎ئی حرج نہیں ہے۔ آپ ان لوگوں کے درمیان میرے مامور ہوں گے اور تمام حالات سے مجھے باخبر کریں۔<ref> ابن ‌اعثم،‌ ہمان،‌ ص۲۳</ref>
confirmed، movedable
4,996

ترامیم