مندرجات کا رخ کریں

"محمد بن حنفیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 109: سطر 109:
[[ملف:شریفی نیا در نقش محمد حنفیه در سریال مختارنامه.jpg|تصغیر| [[مختارنامہ (ٹی وی سیریل)| مختارنامہ ٹی وی سیریل]] میں محمدرضا شریفی نیا، محمد بن حنفیہ کے کردار میں]]
[[ملف:شریفی نیا در نقش محمد حنفیه در سریال مختارنامه.jpg|تصغیر| [[مختارنامہ (ٹی وی سیریل)| مختارنامہ ٹی وی سیریل]] میں محمدرضا شریفی نیا، محمد بن حنفیہ کے کردار میں]]


==برجستہ کارنامے ==
==برجستہ واقعات ==


===جنگوں میں شرکت===
===جنگوں میں شرکت===
سطر 118: سطر 118:
*امام علیہ السلام کا [[مدینہ]] اور [[مکہ]] سے نکلتے ہو‎ے محمد ابن حنفیہ کی بیماری۔
*امام علیہ السلام کا [[مدینہ]] اور [[مکہ]] سے نکلتے ہو‎ے محمد ابن حنفیہ کی بیماری۔


[[علامہ حلی]] نےمہنا ابن سنان کے جواب میں محمد ابن حنفیہ کی شرکت نہ کرنے کی دلیل امام علیہ السلام کے مدینے سے نکلتے ہو‎ئے محمد ابن حنفیہ کی بیماری پیش کیا ہے۔<ref>بحارالانوار، ج۴۲،ص۱۱۰</ref>.بعض نے آنکھوں کا درد بیان کیا ہے۔ <ref>المقرم، ص۱۳۵</ref>
[[علامہ حلی]] نے مہنا ابن سنان کے جواب میں محمد ابن حنفیہ کی شرکت نہ کرنے کی دلیل امام علیہ السلام کے مدینے سے نکلتے ہو‎ئے محمد ابن حنفیہ کی بیماری پیش کیا ہے۔<ref>بحارالانوار، ج۴۲،ص۱۱۰</ref>.بعض نے آنکھوں کا درد بیان کیا ہے۔ <ref>المقرم، ص۱۳۵</ref>
* محمد ابن حنفیہ امام علیہ السلام کی طرف سے مدینہ میں رہنے پر مامور ہونا۔  
* محمد ابن حنفیہ امام علیہ السلام کی طرف سے مدینہ میں رہنے پر مامور ہونا۔  
ابن اعثم کوفی نقل کرتے ہیں کہ: جب امام علیہ السلام مدینہ چھوڑ رہے تھے اور محمد ابن حنفیہ امام علیہ السلام کو مدینہ میں رہنے پر قانع نہ کر سکے اس وقت امام نے محمد ابن حنفیہ سے کہا:
ابن اعثم کوفی نقل کرتے ہیں کہ: جب امام علیہ السلام مدینہ چھوڑ رہے تھے اور محمد ابن حنفیہ امام علیہ السلام کو مدینہ میں رہنے پر قانع نہ کر سکے اس وقت امام نے محمد ابن حنفیہ سے کہا:
سطر 130: سطر 130:
[[حسین بن علیؑ]] کو[[یزید بن معاویہ|یزید]] کی [[بیعت]] پر مجبور کرنے اور امام کے انکار کے بعد محمد حنفیہ نے اپنے بھایی کی جان بچانے کی خاطر آپ کو [[مکہ]] جانے اور وہاں پر بھی خطرہ ہوا تو وہاں سے [[یمن|یمَن]] اور یمن میں بھی خطرہ کا احساس کیا تو صحراوں اور کوہستانوں میں پناہ لینے کی تجویز پیش کی۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ کی تجویز کی تعریف کی اور فرمایا: « بھا‎ئی جان، آپ کو اجازت ہے کہ [[مدینہ النبی|مدینہ]] میں میرے جاسوس کی حیثیت سے رہو اور دشمنوں کے امور سے مجھے باخبر رکھو»<ref>قمی، ص۹۸.</ref>
[[حسین بن علیؑ]] کو[[یزید بن معاویہ|یزید]] کی [[بیعت]] پر مجبور کرنے اور امام کے انکار کے بعد محمد حنفیہ نے اپنے بھایی کی جان بچانے کی خاطر آپ کو [[مکہ]] جانے اور وہاں پر بھی خطرہ ہوا تو وہاں سے [[یمن|یمَن]] اور یمن میں بھی خطرہ کا احساس کیا تو صحراوں اور کوہستانوں میں پناہ لینے کی تجویز پیش کی۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ کی تجویز کی تعریف کی اور فرمایا: « بھا‎ئی جان، آپ کو اجازت ہے کہ [[مدینہ النبی|مدینہ]] میں میرے جاسوس کی حیثیت سے رہو اور دشمنوں کے امور سے مجھے باخبر رکھو»<ref>قمی، ص۹۸.</ref>


===کیسانیہ اور مختار سے رابطہ===
===امام سجادؑ سے بحث ===
[[کیسانیوں]] کے مطابق، محمد بن حنفیہ نے حسین ابن علی کی شہادت کے بعد [[مختار ثقفی|مختار]] کو عراقیوں (<small>[[کوفہ]] و [[بصرہ]]</small>) کا حاکم بنادیا اور ان سے امام حسین کے قاتلوں سے خونخواہی کا مطالبہ کیا۔ [[امام حسین علیہ السلام]] کی شہادت کے کچھ مدت بعد کیسانیہ نے قیام کیا اور محمد ابن حنفیہ کی امامت کے قا‎ئل ہوگئے۔ انکا عقیدہ تھا کہ انہوں نے دین کے اسرار، علم تاویل اور باطنی علوم کو [[امام حسن]] اور [[امام حسین]] سے کسب کیا ہے۔ بعض لوگ ان کو شریعت کے ارکان جیسے [[نماز]] اور [[روزہ]] سے تاویل کرتے ہو‎ئے حلول اور [[تناسخ]] کے قا‎ئل تھے، کیسانیہ کے تمام فرقے محمد ابن حنفیہ کی امامت اور اللہ تعالی کے لئے [[بداء]] صحیح ہونے میں متفق تھے۔ اس فرقے کو مختاریہ بھی کہا گیا ہے۔<ref>نوبختی، ص۸۷.</ref>
محمد بن حنفیہ، اپنے بھا‎ئی [[امام حسن]]ؑ اور [[امام حسین]]ؑ کو خود سے افضل سمجھتے تھے لیکن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد [[امام سجاد علیہ السلام]] کو ایک خط لکھا اور اس میں اپنی امامت قبول کرنے کی درخواست کی۔ اور محمد حنفیہ کی دلیل یہ تھی کہ امام حسین علیہ السلام نے پہلے دو اماموں کے برخلاف اپنے بعد کسی کو امام معرفی نہیں کیا ہے اور محمد حنفیہ [[علی علیہ السلام]] کے بلافصل فرزند ہیں اور عمر اور زیادہ احادیث نقل کرنے کے اعتبار سے زین العابدین علیہ السلام پر برتری حاصل ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے اپنے چچا کے جواب میں ان کو جہالت سے دوری اور اللہ تعالی سے ڈرنے کی نصیحت کی اور انہیں لکھا:
محمد ابن حنفیہ اور مختار کے باہمی رابطے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے؛ بعض کا کہنا ہے کہ ان کو مختار پر کو‎ئی اعتقاد نہیں تھا اور انکو اپنی نمایندگی نہیں دیا ہے، بعض لوگ مختار کو ان کا نمایندہ سمجھتے ہیں اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ، مختار ان کی طرف سے مامور تو نہیں تھا لیکن مختار کے کاموں پر محمد حنفیہ ضمنی طور پر راضی تھے۔<ref>دیکھئے: تاریخ سیاسی صدر اسلام، ص ۲۱۴ و ۲۱۵؛ نوبختی، ج۲، ص ۵۲ و ۵۳.</ref>
::<small>«میرے والد گرامی نے [[عراق]] کے سفر کی نیت سے پہلے میری امامت کا بتا دیا تھا اور اپنی [[شہادت|شہادت]] سے کچھ لمحے پہلے مجھ سے عہد لیا۔»</small>
امام سجادؑ نے محمد حنفیہ کو دعوت دی کہ [[حجر الاسود]] جاکر وہاں اپنا مسئلہ حل کرینگے۔ حجر اسود ہم میں سے جس کی [[امامت]] کی گواہی دے وہی [[امام]] ہے۔ وہاں جا کر پہلے محمد نے اللہ کے حضور گریہ و زاری کے بعد دعا کی اور حجر اسود سے اپنی امامت کی گواہی کی درخواست کی لیکن کو‎ئی جواب نہیں ملا۔ پھر امام سجاد علیہ السلام نے دعا کی اور حجر اسود سے اپنی امامت کی گواہی کا مطالبہ کیا تو حجر اسود سے آواز آ‎ئی اور علی ابن الحسین کی امامت کی گواہی دی اور محمد حنفیہ نے بھی آپ کی امامت کو قبول کیا<ref>دیکھیے: صفار، ص۵۰۲؛ ابن بابویہ، ص۶۲-۶۰؛ کلینی، ج۱، ص۳۴۸</ref> بعضی از علماء احتمال صوری بودن این منازعہ را دادہ‌اند کہ ضعفای شیعہ بہ وی متمایل نشوند.<ref>الخرائج و الجرائج، ج۱، ص۲۵۸ و بحارالانوار، ج۴۶، ص ۳۰</ref>
 
===حضرت سجاد علیہ السلام کی امامت پر عقیدہ===
[[امام صادق علیہ السلام]] سے ایک [[روایت|حدیث]] میں نقل ہوا ہے کہ محمد حنفیہ امام سجاد علیہ السلام کی امامت پر عقیدہ رکھتے تھے۔<ref>الإمامۃ و التبصرۃ من الحیرۃ، ص۶۰.</ref> اور [[قطب الدین راوندی]] نےابن حنفیہ کے خادم [[ابوخالد کابلی]] سے نقل کیا ہے جس میں اس نے ابن حنفیہ سے امام سجاد علیہ السلام کی امامت کے بارے میں سوال کرتا ہے تو محمد جواب میں کہتا ہے:«<small>میں اور تمہارا اور تمام مسلمانوں کا امام  [[امام سجاد|علی بن الحسین علیہ السلام]] ہیں۔</small>»<ref>قطب راوندی، ج۱، ص۲۶۲-۲۶۱.</ref>
 


===عبداللہ بن زبیر کی مخالفت===
===عبداللہ بن زبیر کی مخالفت===
سطر 138: سطر 143:
وہ لوگ ہاتھوں میں پرچم لئے [[مسجد الحرام]] میں داخل ہو‎ئے اور اونچی آواز میں [[حسین ابن علی علیہ السلام]] کے قاتلوں سے انتقام کے نعرے لگاتے ہو‎ئے زمزم تک پہنچ گئے۔ ابن زبیر نے ان لوگوں پر آگ لگانے کی نیت سے بہت ساری لکڑیاں جمع کیا۔ وہ لوگ مسجد الحرام کا دروازہ توڑ کر ابن حنفیہ تک پہنچ گئے اور ان سے کہا ہم اور عبد اللہ ابن زبیر میں سے کسی ایک کو انتخاب کریں۔ محمد ابن حنفیہ نے کہا: اللہ کے گھر میں جنگ اور خونریزی ہونا مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔ ابن زبیر ان لوگوں تک پہنچا اور غصے سے بولا «ان ‎ڈنڈے برداروں سے تعجب ہے» (<small>جب مختار کے لوگ حرم میں داخل ہو‎ئے تو ان کے ہاتھوں میں تلوار کے بدلے ڈنڈے تھے کیونکہ حرم میں تلوار ساتھ رکھنا جا‎ئز نہیں ہے۔</small>)کیا تم لوگ یہ سوچتے ہو کہ محمد کو میری بیعت کئے بغیر جانے دونگا؟ اس وقت مسجد الحرام کے باہر موجود مختار کے لوگ مسجد میں داخل ہو‎ئے اور [[امام حسینؑ|حسینؑ]] کی انتقام کا نعرہ بلند کیا۔ ابن زبیر ان سے ڈر گیا اور محمد حنفیہ کو جانے سے نہیں روکا۔ محمد چار ہزار لوگوں کے ساتھ «[[علی کی گھاٹی|شعب ابی طالب]]» چلے گئے اور مختار کے قتل ہونے تک وہیں پر رہے۔<ref>نوبختی، ص۸۵ و ۸۶.</ref>
وہ لوگ ہاتھوں میں پرچم لئے [[مسجد الحرام]] میں داخل ہو‎ئے اور اونچی آواز میں [[حسین ابن علی علیہ السلام]] کے قاتلوں سے انتقام کے نعرے لگاتے ہو‎ئے زمزم تک پہنچ گئے۔ ابن زبیر نے ان لوگوں پر آگ لگانے کی نیت سے بہت ساری لکڑیاں جمع کیا۔ وہ لوگ مسجد الحرام کا دروازہ توڑ کر ابن حنفیہ تک پہنچ گئے اور ان سے کہا ہم اور عبد اللہ ابن زبیر میں سے کسی ایک کو انتخاب کریں۔ محمد ابن حنفیہ نے کہا: اللہ کے گھر میں جنگ اور خونریزی ہونا مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔ ابن زبیر ان لوگوں تک پہنچا اور غصے سے بولا «ان ‎ڈنڈے برداروں سے تعجب ہے» (<small>جب مختار کے لوگ حرم میں داخل ہو‎ئے تو ان کے ہاتھوں میں تلوار کے بدلے ڈنڈے تھے کیونکہ حرم میں تلوار ساتھ رکھنا جا‎ئز نہیں ہے۔</small>)کیا تم لوگ یہ سوچتے ہو کہ محمد کو میری بیعت کئے بغیر جانے دونگا؟ اس وقت مسجد الحرام کے باہر موجود مختار کے لوگ مسجد میں داخل ہو‎ئے اور [[امام حسینؑ|حسینؑ]] کی انتقام کا نعرہ بلند کیا۔ ابن زبیر ان سے ڈر گیا اور محمد حنفیہ کو جانے سے نہیں روکا۔ محمد چار ہزار لوگوں کے ساتھ «[[علی کی گھاٹی|شعب ابی طالب]]» چلے گئے اور مختار کے قتل ہونے تک وہیں پر رہے۔<ref>نوبختی، ص۸۵ و ۸۶.</ref>


===بعض کیسانیوں کا ان کی مہدویت کا عقیدہ===
اسلامی مذاہب اور فرقوں کے بعض محققوں کا کہنا ہے کہ محمد حنفیہ اسلام میں پہلا وہ شخص ہے جس کو [[مہدی]] کا نام دیا گیا۔<ref>صابری، ج۲، ص۵۵.</ref>ان کی مہدویت کا عقیدہ رکھنے والوں کا دعوا ہے کہ آپ [[کوہ رضوی]] میں سکونت پذیر ہیں اور اللہ تعالی کی طرف سے ان کے فرج کا حکم آنے تک دودھ اور شہد کی دو نہروں سے کھاتے اور سیراب ہوتے ہیں۔<ref>اشعری، مقالات الاسلامیین، تحقیق: محمد محیی‎الدین عبدالحمید، ج۱، ص۹۰ و ۹۱؛ بغدادی، الفرق بین الفرق،  قاہرہ، مکتبۃ محمد صبیح و اولادہ، ص۳۹، ۴۱ و ۴۳.</ref> [[سید ابوالقاسم خویی|آیت اللہ خویی]] نے محمد بن حنفیہ کو کیسانیہ سے مبرا سمجھا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ کیسانیہ محمد حنفیہ کے بعد وجود میں آ‎ئے ہیں۔<ref>معجم الرجال، ج ۱۸، ص ۱۰۳-۱۰۲.</ref>


==کیسانیہ==
==کیسانیہ==
===امام سجادؑ سے بحث ===
محمد بن حنفیہ، اپنے بھا‎ئی [[امام حسن]]ؑ اور [[امام حسین]]ؑ کو خود سے افضل سمجھتے تھے لیکن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد [[امام سجاد علیہ السلام]] کو ایک خط لکھا اور اس میں اپنی امامت قبول کرنے کی درخواست کی۔ اور محمد حنفیہ کی دلیل یہ تھی کہ امام حسین علیہ السلام نے پہلے دو اماموں کے برخلاف اپنے بعد کسی کو امام معرفی نہیں کیا ہے اور محمد حنفیہ [[علی علیہ السلام]] کے بلافصل فرزند ہیں اور عمر اور زیادہ احادیث نقل کرنے کے اعتبار سے زین العابدین علیہ السلام پر برتری حاصل ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے اپنے چچا کے جواب میں ان کو جہالت سے دوری اور اللہ تعالی سے ڈرنے کی نصیحت کی اور انہیں لکھا:
::<small>«میرے والد گرامی نے [[عراق]] کے سفر کی نیت سے پہلے میری امامت کا بتا دیا تھا اور اپنی [[شہادت|شہادت]] سے کچھ لمحے پہلے مجھ سے عہد لیا۔»</small>
امام سجادؑ نے محمد حنفیہ کو دعوت دی کہ [[حجر الاسود]] جاکر وہاں اپنا مسئلہ حل کرینگے۔ حجر اسود ہم میں سے جس کی [[امامت]] کی گواہی دے وہی [[امام]] ہے۔ وہاں جا کر پہلے محمد نے اللہ کے حضور گریہ و زاری کے بعد دعا کی اور حجر اسود سے اپنی امامت کی گواہی کی درخواست کی لیکن کو‎ئی جواب نہیں ملا۔ پھر امام سجاد علیہ السلام نے دعا کی اور حجر اسود سے اپنی امامت کی گواہی کا مطالبہ کیا تو حجر اسود سے آواز آ‎ئی اور علی ابن الحسین کی امامت کی گواہی دی اور محمد حنفیہ نے بھی آپ کی امامت کو قبول کیا<ref>دیکھیے: صفار، ص۵۰۲؛ ابن بابویہ، ص۶۲-۶۰؛ کلینی، ج۱، ص۳۴۸</ref> بعضی از علماء احتمال صوری بودن این منازعہ را دادہ‌اند کہ ضعفای شیعہ بہ وی متمایل نشوند.<ref>الخرائج و الجرائج، ج۱، ص۲۵۸ و بحارالانوار، ج۴۶، ص ۳۰</ref>


===حضرت سجاد علیہ السلام کی امامت پر عقیدہ===
===کیسانیہ اور مختار سے رابطہ===
[[امام صادق علیہ السلام]] سے ایک [[روایت|حدیث]] میں نقل ہوا ہے کہ محمد حنفیہ امام سجاد علیہ السلام کی امامت پر عقیدہ رکھتے تھے۔<ref>الإمامۃ و التبصرۃ من الحیرۃ، ص۶۰.</ref> اور [[قطب الدین راوندی]] نےابن حنفیہ کے خادم [[ابوخالد کابلی]] سے نقل کیا ہے جس میں اس نے ابن حنفیہ سے امام سجاد علیہ السلام کی امامت کے بارے میں سوال کرتا ہے تو محمد جواب میں کہتا ہے<small>میں اور تمہارا اور تمام مسلمانوں کا امام [[امام سجاد|علی بن الحسین علیہ السلام]] ہیں۔</small>»<ref>قطب راوندی، ج۱، ص۲۶۲-۲۶۱.</ref>
[[کیسانیوں]] کے مطابق، محمد بن حنفیہ نے حسین ابن علی کی شہادت کے بعد [[مختار ثقفی|مختار]] کو عراقیوں (<small>[[کوفہ]] و [[بصرہ]]</small>) کا حاکم بنادیا اور ان سے امام حسین کے قاتلوں سے خونخواہی کا مطالبہ کیا۔ [[امام حسین علیہ السلام]] کی شہادت کے کچھ مدت بعد کیسانیہ نے قیام کیا اور محمد ابن حنفیہ کی امامت کے قا‎ئل ہوگئے۔ انکا عقیدہ تھا کہ انہوں نے دین کے اسرار، علم تاویل اور باطنی علوم کو [[امام حسن]] اور [[امام حسین]] سے کسب کیا ہے۔ بعض لوگ ان کو شریعت کے ارکان جیسے [[نماز]] اور [[روزہ]] سے تاویل کرتے ہو‎ئے حلول اور [[تناسخ]] کے قا‎ئل تھے، کیسانیہ کے تمام فرقے محمد ابن حنفیہ کی امامت اور اللہ تعالی کے لئے [[بداء]] صحیح ہونے میں متفق تھے۔ اس فرقے کو مختاریہ بھی کہا گیا ہے۔<ref> نوبختی، ص۸۷.</ref>
محمد ابن حنفیہ اور مختار کے باہمی رابطے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے؛ بعض کا کہنا ہے کہ ان کو مختار پر کو‎ئی اعتقاد نہیں تھا اور انکو اپنی نمایندگی نہیں دیا ہے، بعض لوگ مختار کو ان کا نمایندہ سمجھتے ہیں اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ، مختار ان کی طرف سے مامور تو نہیں تھا لیکن مختار کے کاموں پر محمد حنفیہ ضمنی طور پر راضی تھے۔<ref> دیکھئے: تاریخ سیاسی صدر اسلام، ص ۲۱۴ و ۲۱۵؛ نوبختی، ج۲، ص ۵۲ و ۵۳.</ref>
 
===بعض کیسانیوں کا ان کی مہدویت کا عقیدہ===
اسلامی مذاہب اور فرقوں کے بعض محققوں کا کہنا ہے کہ محمد حنفیہ اسلام میں پہلا وہ شخص ہے جس کو [[مہدی]] کا نام دیا گیا۔<ref>صابری، ج۲، ص۵۵.</ref>ان کی مہدویت کا عقیدہ رکھنے والوں کا دعوا ہے کہ آپ [[کوہ رضوی]] میں سکونت پذیر ہیں اور اللہ تعالی کی طرف سے ان کے فرج کا حکم آنے تک دودھ اور شہد کی دو نہروں سے کھاتے اور سیراب ہوتے ہیں۔<ref> اشعری، مقالات الاسلامیین، تحقیق: محمد محیی‎ الدین عبد الحمید، ج۱، ص۹۰ و ۹۱؛ بغدادی، الفرق بین الفرق، قاہرہ، مکتبۃ محمد صبیح و اولادہ، ص۳۹، ۴۱ و ۴۳.</ref> [[سید ابوالقاسم خویی|آیت اللہ خویی]] نے محمد بن حنفیہ کو کیسانیہ سے مبرا سمجھا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ کیسانیہ محمد حنفیہ کے بعد وجود میں آ‎ئے ہیں۔<ref> معجم الرجال، ج ۱۸، ص ۱۰۳-۱۰۲.</ref>


==وفات اور محل دفن==
==وفات اور محل دفن==
[[امام باقر علیہ السلام]] سے ایک روایت میں آیا ہے کہ:
[[امام باقر علیہ السلام]] سے ایک روایت میں آیا ہے کہ:
:«محمد ابن حنفیہ کی بیماری کے دوران میں اس کے پاس تھا میں نے خود ان کی آنکھیں بند کیں، غسل دیا، غسل دیا اور میں نے ہی ان پر نماز پڑھی اور دفن کیا۔»<ref>رجال کشی، ص۳۱۵.</ref> البتہ غیر شیعہ منابع میں ذکر ہوا ہے کہ ([[تیسرے خلیفہ]] کا بیٹا) ابان ابن عثمان نے ان پر نماز پڑھی ہے۔.<ref>تہذیب الکمال، ج۱۰، ص ۲۸۵.</ref>
:«محمد ابن حنفیہ کی بیماری کے دوران میں اس کے پاس تھا میں نے خود ان کی آنکھیں بند کیں، غسل دیا، غسل دیا اور میں نے ہی ان پر نماز پڑھی اور دفن کیا۔»<ref>رجال کشی، ص۳۱۵.</ref> البتہ غیر شیعہ منابع میں ذکر ہوا ہے کہ ([[تیسرے خلیفہ]] کا بیٹا) ابان ابن عثمان نے ان پر نماز پڑھی ہے۔.<ref> تہذیب الکمال، ج۱۰، ص ۲۸۵.</ref>
محمد ابن حنفیہ کہاں دفن ہو‎ئے ان کے محل دفن میں اختلاف ہے؛ سید محسن امین نے تین جگہوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایلہ، طا‌‎ئف اور [[مدینہ]] میں [[بقیع کا قبرستان]]<ref>اعیان الشیعہ، ج۱۴، ص ۲۷۰.</ref> لیکن قوی احتمال یہ ہے آپ نے مدینہ میں وفات پایا ہے۔<ref>تہذیب‌الکمال، ج۱۰ص ۲۸۵؛ ریحانۃ‌الادب، ج۷، ص۴۸۴.</ref>
محمد ابن حنفیہ کہاں دفن ہو‎ئے ان کے محل دفن میں اختلاف ہے؛ سید محسن امین نے تین جگہوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایلہ، طا‌‎ئف اور [[مدینہ]] میں [[بقیع کا قبرستان]]<ref> اعیان الشیعہ، ج۱۴، ص ۲۷۰.</ref> لیکن قوی احتمال یہ ہے آپ نے مدینہ میں وفات پایا ہے۔<ref> تہذیب‌الکمال، ج۱۰ص ۲۸۵؛ ریحانۃ‌الادب، ج۷، ص۴۸۴.</ref>


==متعلقہ صفحات==
==متعلقہ صفحات==
گمنام صارف