مندرجات کا رخ کریں

"محمد بن حنفیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 78: سطر 78:
}}<noinclude>
}}<noinclude>
</noinclude>
</noinclude>
'''محمد بن حَنَفیہ''' (16-81 ھ) [[حضرت علی علیہ السلام]] اور [[خولہ حنفیہ]] (بنت جعفر بن قیس) کا بیٹے اور طبقہ اول کے [[تابعین]] میں سے تھے۔ [[عمر بن خطاب]] کے دور حکومت میں 16 ھ ق کو متولد ہو‎ئے اور[[عبد الملک بن مروان]] کی [[خلافت]] کے دور میں 81 ھ میں 65 سال کی عمر میں ایلہ یا [[طائف]] یا [[مدینہ]] میں وفات پا‎ئی۔ ان کا نام محمد بن علی بھی ذکر ہوا ہے۔ اسی طرح انہیں محمد اکبر بھی کہا گیا ہے۔ آپ کی کنیت ابو القاسم ہے۔ آپ [[جنگ صفین|صفین]]، [[جنگ جمل|جمل]] و [[جنگ نہروان]] میں شریک ہو‎ئے اور جنگ جمل میں امام علی کی فوج کے علمدار تھے۔ [[واقعہ کربلا]] کے وقت آپ [[مدینہ]] میں تھے اور بعض نقل کے مطابق [[امام حسین علیہ السلام]] کی [[شہادت]] کے بعد آپ نے [[امامت]] کا دعوا کیا لیکن [[امام سجاد علیہ السلام]] کی امامت پر [[حجر الاسود]] کی گواہی کے بعد اپنے دعوی سے دستبردار ہو‎ئے اور اپنے بھتیجے کی امامت کے معتقد ہو‎ئے۔
'''محمد بن حَنَفیہ''' (16-81 ھ)، [[حضرت علی علیہ السلام]] اور [[خولہ حنفیہ]] (بنت جعفر بن قیس) کا بیٹے اور طبقہ اول کے [[تابعین]] میں سے تھے۔ [[عمر بن خطاب]] کے دور حکومت میں 16 ھ ق کو متولد ہو‎ئے اور[[عبد الملک بن مروان]] کی [[خلافت]] کے دور میں 81 ھ میں 65 سال کی عمر میں ایلہ یا [[طائف]] یا [[مدینہ]] میں وفات پا‎ئی۔ ان کا نام محمد بن علی بھی ذکر ہوا ہے۔ اسی طرح انہیں محمد اکبر بھی کہا گیا ہے۔ آپ کی کنیت ابو القاسم ہے۔ آپ [[جنگ صفین|صفین]]، [[جنگ جمل|جمل]] و [[جنگ نہروان]] میں شریک ہو‎ئے اور جنگ جمل میں امام علی کی فوج کے علمدار تھے۔ [[واقعہ کربلا]] کے وقت آپ [[مدینہ]] میں تھے اور بعض نقل کے مطابق [[امام حسین علیہ السلام]] کی [[شہادت]] کے بعد آپ نے [[امامت]] کا دعوا کیا لیکن [[امام سجاد علیہ السلام]] کی امامت پر [[حجر الاسود]] کی گواہی کے بعد اپنے دعوی سے دستبردار ہو‎ئے اور اپنے بھتیجے کی امامت کے معتقد ہو‎ئے۔


[[کوفہ]] پر [[مختار]] کے تسلط کے بعد انہوں نے مختار کو خط لکھا تو مختار نے ایک گروہ کو [[مکہ]] بھیج کر انہیں [[عبد اللہ بن زبیر]] سے نجات دلائی۔  
[[کوفہ]] پر [[مختار]] کے تسلط کے بعد انہوں نے مختار کو خط لکھا تو مختار نے ایک گروہ کو [[مکہ]] بھیج کر انہیں [[عبد اللہ بن زبیر]] سے نجات دلائی۔  
سطر 104: سطر 104:
محمد ابن حنفیہ سیاسی اعتبار سے باہمی مسالمت آمیز رو‎ئے کو اختیار کرتا تھا۔ اسی موقف کی وجہ سے [[علی علیہ السلام|امیر المؤمنین علیہ السلام]] کی شہادت کے بعد [[مدینہ]] میں اپنے بھا‎ئی [[امام حسن علیہ السلام]] کے ساتھ رہے اور [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] کا ولی عہد [[یزید بن معاویہ|یزید]] کی بھی بیعت کی۔ اور یزید خلیفہ بننے کے بعد بھی اس کی خلافت کی مخالفت نہیں کیا۔
محمد ابن حنفیہ سیاسی اعتبار سے باہمی مسالمت آمیز رو‎ئے کو اختیار کرتا تھا۔ اسی موقف کی وجہ سے [[علی علیہ السلام|امیر المؤمنین علیہ السلام]] کی شہادت کے بعد [[مدینہ]] میں اپنے بھا‎ئی [[امام حسن علیہ السلام]] کے ساتھ رہے اور [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] کا ولی عہد [[یزید بن معاویہ|یزید]] کی بھی بیعت کی۔ اور یزید خلیفہ بننے کے بعد بھی اس کی خلافت کی مخالفت نہیں کیا۔


اپ نے بعد میں بھی یہ مسالمت آمیز روابط خلافت کے سیسٹم کے ساتھ جاری رکھا۔ 76 ھ ق کو [[عبدالملک بن مروان]] سے ملنے [[دمشق]] چلے گئے۔ بعض نے عبد الملک سے رابطے کی وجہ ابن زبیر کی طرف سے بدسلوکی قرار دیا ہے۔ [[عبداللہ بن زبیر]] نے اسے زمزم کے چھوٹے سے کمرے میں بند کیا اور [[مختار ثقفی]] کے یار دوستوں نے اس سے نجات دلایا۔<ref>صابری، ج۲، ص۵۲ و ۵۳.</ref>
اپ نے بعد میں بھی یہ مسالمت آمیز روابط خلافت کے سیسٹم کے ساتھ جاری رکھا۔ 76 ھ کو [[عبدالملک بن مروان]] سے ملنے [[دمشق]] چلے گئے۔ بعض نے عبد الملک سے رابطے کی وجہ ابن زبیر کی طرف سے بدسلوکی قرار دیا ہے۔ [[عبداللہ بن زبیر]] نے اسے زمزم کے چھوٹے سے کمرے میں بند کیا اور [[مختار ثقفی]] کے یار دوستوں نے اس سے نجات دلایا۔<ref>صابری، ج۲، ص۵۲ و ۵۳.</ref>
مختار کو قتل کرنے کے بعد ابن زبیر نے محمد حنفیہ سے دوبارہ [[بیعت]] مانگا اور چاہتا تھا ان پر اور انکے دوست احباب پر حملہ کرے۔ اس وقت [[عبد الملک ابن مروان]] جو ابھی مسند [[خلافت]] پر بیٹھ گیا تھا اس کی طرف سے محمد ابن حنفیہ کو ایک خط موصول ہوا جس میں محمد اور اس کے چاہنے والوں کو [[شام]] آنے کی وعوت تھی۔ محمد اور اس کے دوست احباب شام کی طرف چلے گئے۔ لیکن [[مدین|مَدین]] پہنچے تو ان کو خبر ملی کہ عبد الملک ابن مروان نے عمرو ابن سعید سے <small>(جو کہ ابن حنفیہ کے دوستوں میں سے تھا</small>) بے وفا‎ئی کی ہے۔ اس وجہ سے سفر سے پشیمان ہو‎ئے اور «[[ایلہ|أیلہ]]» میں رک گئے جو کہ [[بحیرہ احمر]] کے کنارے، [[حجاز]] کے آخر میں شام کے بارڈر پر ایک شہر ہے۔ وہاں سے واپس [[مکہ]] لوٹے اور [[ابوطالب کی گھاٹی|شعب ابوطالب]] میں سکونت اختیار کیا۔ اور وہاں سے [[طا‎ئف]] چلے گئے۔ جب تک حجاج نے ابن زبیر کو مکہ میں محاصرے میں رکھا محمد حنفیہ طا‌‎ئف میں رہے۔ اس کے بعد پھر شعب ابو طالب واپس آ‎ئے۔ حجاج نے ان سے عبد الملک کی بیعت مانگی لیکن انہوں نے بیعت کرنے سے انکار کیا۔ ابن زبیر مرنے کے بعد محمد ابن حنفیہ نے عبد الملک کو ایک خط لکھا اور اس سے امان مانگی اور عبد الملک نے اسے امان دیا۔<ref>دیکھ‎ئے: نوبختی، ص ۸۶-۸۷.</ref>
مختار کو قتل کرنے کے بعد ابن زبیر نے محمد حنفیہ سے دوبارہ [[بیعت]] مانگا اور چاہتا تھا ان پر اور انکے دوست احباب پر حملہ کرے۔ اس وقت [[عبد الملک ابن مروان]] جو ابھی مسند [[خلافت]] پر بیٹھ گیا تھا اس کی طرف سے محمد ابن حنفیہ کو ایک خط موصول ہوا جس میں محمد اور اس کے چاہنے والوں کو [[شام]] آنے کی وعوت تھی۔ محمد اور اس کے دوست احباب شام کی طرف چلے گئے۔ لیکن [[مدین|مَدین]] پہنچے تو ان کو خبر ملی کہ عبد الملک ابن مروان نے عمرو ابن سعید سے <small>(جو کہ ابن حنفیہ کے دوستوں میں سے تھا</small>) بے وفا‎ئی کی ہے۔ اس وجہ سے سفر سے پشیمان ہو‎ئے اور «[[ایلہ|أیلہ]]» میں رک گئے جو کہ [[بحیرہ احمر]] کے کنارے، [[حجاز]] کے آخر میں شام کے بارڈر پر ایک شہر ہے۔ وہاں سے واپس [[مکہ]] لوٹے اور [[ابوطالب کی گھاٹی|شعب ابوطالب]] میں سکونت اختیار کیا۔ اور وہاں سے [[طا‎ئف]] چلے گئے۔ جب تک حجاج نے ابن زبیر کو مکہ میں محاصرے میں رکھا محمد حنفیہ طا‌‎ئف میں رہے۔ اس کے بعد پھر شعب ابو طالب واپس آ‎ئے۔ حجاج نے ان سے عبد الملک کی بیعت مانگی لیکن انہوں نے بیعت کرنے سے انکار کیا۔ ابن زبیر مرنے کے بعد محمد ابن حنفیہ نے عبد الملک کو ایک خط لکھا اور اس سے امان مانگی اور عبد الملک نے اسے امان دیا۔<ref>دیکھ‎ئے: نوبختی، ص ۸۶-۸۷.</ref>


سطر 141: سطر 141:
اسلامی مذاہب اور فرقوں کے بعض محققوں کا کہنا ہے کہ محمد حنفیہ اسلام میں پہلا وہ شخص ہے جس کو [[مہدی]] کا نام دیا گیا۔<ref>صابری، ج۲، ص۵۵.</ref>ان کی مہدویت کا عقیدہ رکھنے والوں کا دعوا ہے کہ آپ [[کوہ رضوی]] میں سکونت پذیر ہیں اور اللہ تعالی کی طرف سے ان کے فرج کا حکم آنے تک دودھ اور شہد کی دو نہروں سے کھاتے اور سیراب ہوتے ہیں۔<ref>اشعری، مقالات الاسلامیین، تحقیق: محمد محیی‎الدین عبدالحمید، ج۱، ص۹۰ و ۹۱؛ بغدادی، الفرق بین الفرق،  قاہرہ، مکتبۃ محمد صبیح و اولادہ، ص۳۹، ۴۱ و ۴۳.</ref> [[سید ابوالقاسم خویی|آیت اللہ خویی]] نے محمد بن حنفیہ کو کیسانیہ سے مبرا سمجھا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ کیسانیہ محمد حنفیہ کے بعد وجود میں آ‎ئے ہیں۔<ref>معجم الرجال، ج ۱۸، ص ۱۰۳-۱۰۲.</ref>
اسلامی مذاہب اور فرقوں کے بعض محققوں کا کہنا ہے کہ محمد حنفیہ اسلام میں پہلا وہ شخص ہے جس کو [[مہدی]] کا نام دیا گیا۔<ref>صابری، ج۲، ص۵۵.</ref>ان کی مہدویت کا عقیدہ رکھنے والوں کا دعوا ہے کہ آپ [[کوہ رضوی]] میں سکونت پذیر ہیں اور اللہ تعالی کی طرف سے ان کے فرج کا حکم آنے تک دودھ اور شہد کی دو نہروں سے کھاتے اور سیراب ہوتے ہیں۔<ref>اشعری، مقالات الاسلامیین، تحقیق: محمد محیی‎الدین عبدالحمید، ج۱، ص۹۰ و ۹۱؛ بغدادی، الفرق بین الفرق،  قاہرہ، مکتبۃ محمد صبیح و اولادہ، ص۳۹، ۴۱ و ۴۳.</ref> [[سید ابوالقاسم خویی|آیت اللہ خویی]] نے محمد بن حنفیہ کو کیسانیہ سے مبرا سمجھا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ کیسانیہ محمد حنفیہ کے بعد وجود میں آ‎ئے ہیں۔<ref>معجم الرجال، ج ۱۸، ص ۱۰۳-۱۰۲.</ref>


==امامت کا دعوی==
==کیسانیہ==
===امام سجادؑ سے بحث ===
===امام سجادؑ سے بحث ===
محمد بن حنفیہ، اپنے بھا‎ئی [[امام حسن]]ؑ اور [[امام حسین]]ؑ کو خود سے افضل سمجھتے تھے لیکن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد [[امام سجاد علیہ السلام]] کو ایک خط لکھا اور اس میں اپنی امامت قبول کرنے کی درخواست کی۔ اور محمد حنفیہ کی دلیل یہ تھی کہ امام حسین علیہ السلام نے پہلے دو اماموں کے برخلاف اپنے بعد کسی کو امام معرفی نہیں کیا ہے اور محمد حنفیہ [[علی علیہ السلام]] کے بلافصل فرزند ہیں اور عمر اور زیادہ احادیث نقل کرنے کے اعتبار سے زین العابدین علیہ السلام پر برتری حاصل ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے اپنے چچا کے جواب میں ان کو جہالت سے دوری اور اللہ تعالی سے ڈرنے کی نصیحت کی اور انہیں لکھا:
محمد بن حنفیہ، اپنے بھا‎ئی [[امام حسن]]ؑ اور [[امام حسین]]ؑ کو خود سے افضل سمجھتے تھے لیکن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد [[امام سجاد علیہ السلام]] کو ایک خط لکھا اور اس میں اپنی امامت قبول کرنے کی درخواست کی۔ اور محمد حنفیہ کی دلیل یہ تھی کہ امام حسین علیہ السلام نے پہلے دو اماموں کے برخلاف اپنے بعد کسی کو امام معرفی نہیں کیا ہے اور محمد حنفیہ [[علی علیہ السلام]] کے بلافصل فرزند ہیں اور عمر اور زیادہ احادیث نقل کرنے کے اعتبار سے زین العابدین علیہ السلام پر برتری حاصل ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے اپنے چچا کے جواب میں ان کو جہالت سے دوری اور اللہ تعالی سے ڈرنے کی نصیحت کی اور انہیں لکھا:
گمنام صارف