مندرجات کا رخ کریں

"نماز جمعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 177: سطر 177:
:[[محقق کرکی]] نے سنہ 921ھ ق میں ـ [[غیبت امام زمانہ(عج)|غیبتِ]] [[ائمہ|امام معصوم]] کے زمانے میں نماز جمعہ کے جواز کے اثبات کے سلسلے میں ایک کتاب تصنیف کی جو در حقیقت [[ولایت فقیہ]] کے موضوع کے سلسلے میں ایک رسالہ، سمجھی جاتی ہے۔ محقق کرکی کے بعض ہم عصر علماء اور ان کے بعض شاگردوں نے ان کے نظریئے پر تنقید کرتے ہوئے نماز جمعہ کی حرمت کے اثبات یا اس کے وجوب عینی کی تردید میں رسائل تحریر کئے۔<ref>جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص37ـ 38۔</ref><ref>جعفریان، صفویہ در عرصہ دین، ج3، ص251۔</ref>
:[[محقق کرکی]] نے سنہ 921ھ ق میں ـ [[غیبت امام زمانہ(عج)|غیبتِ]] [[ائمہ|امام معصوم]] کے زمانے میں نماز جمعہ کے جواز کے اثبات کے سلسلے میں ایک کتاب تصنیف کی جو در حقیقت [[ولایت فقیہ]] کے موضوع کے سلسلے میں ایک رسالہ، سمجھی جاتی ہے۔ محقق کرکی کے بعض ہم عصر علماء اور ان کے بعض شاگردوں نے ان کے نظریئے پر تنقید کرتے ہوئے نماز جمعہ کی حرمت کے اثبات یا اس کے وجوب عینی کی تردید میں رسائل تحریر کئے۔<ref>جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص37ـ 38۔</ref><ref>جعفریان، صفویہ در عرصہ دین، ج3، ص251۔</ref>


'''پاک و ہند'''
:'''پاک و ہند'''
سید دلدار علی کے عتبات عالیہ کے سفر سے واپسی کے بعد لکھنؤ کی عوام نے  آپ سے اس شہر میں نماز جمعہ کے اقامہ کی درخواست کی جسے آپ نے اصرار کے بعد قبول کیا ۔اس سے پہلے آپ امام زمانہ کی غیبت میں نماز جمعہ کے اثبات کو آئمہ طاہرین کی تعلیمات کی روشنی میں تحریری صورت میں لکھ چکے تھے ۔اس کار خیر کے موجب نواب شجاع الدولہ کے فرزند نواب آصف الدولہ،نواب مرزا حسن رضا خان،ملا محمد علی فیض آبادی اور علی اکبر صوفی بنے۔1200 ھ ق کے ماہ رجب کی تیرھویں (13) تاریخ کو وزیر اعظم حسن رضا خان کے محل میں پہلی نماز جماعت ظہرین پڑھی گئی اور رجب کی  ستائیسویں(27) تاریخ کو لکھنؤ میں مذہب شیعہ کی پہلی نماز جمعہ آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کی اقتدا میں پڑھی گئی ۔<ref>نماز جمعہ کی تفصیل کیلئے دیکھیں ورثۃ الانبیاء صص252و253...</ref>
 
:سید دلدار علی کے عتبات عالیہ کے سفر سے واپسی کے بعد لکھنؤ کی عوام نے  آپ سے اس شہر میں نماز جمعہ کے اقامہ کی درخواست کی جسے آپ نے اصرار کے بعد قبول کیا ۔اس سے پہلے آپ امام زمانہ کی غیبت میں نماز جمعہ کے اثبات کو آئمہ طاہرین کی تعلیمات کی روشنی میں تحریری صورت میں لکھ چکے تھے ۔اس کار خیر کے موجب نواب شجاع الدولہ کے فرزند نواب آصف الدولہ،نواب مرزا حسن رضا خان،ملا محمد علی فیض آبادی اور علی اکبر صوفی بنے۔1200 ھ ق کے ماہ رجب کی تیرھویں (13) تاریخ کو وزیر اعظم حسن رضا خان کے محل میں پہلی نماز جماعت ظہرین پڑھی گئی اور رجب کی  ستائیسویں(27) تاریخ کو لکھنؤ میں مذہب شیعہ کی پہلی نماز جمعہ آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کی اقتدا میں پڑھی گئی ۔<ref>نماز جمعہ کی تفصیل کیلئے دیکھیں ورثۃ الانبیاء صص252و253...</ref>


:'''عہد قاجار'''
:'''عہد قاجار'''
[[ملف:آیت اللہ محمد تقی خوانساری.jpg|راست|thumbnail|120px|<center>آیت اللہ غضنفری خوانساری]]</center>[[ملف:آیت الله اراکی.jpg|راست|thumbnail|120px|<center>آیت اللہ اراکی]]</center>
:[[ملف:آیت اللہ محمد تقی خوانساری.jpg|راست|thumbnail|120px|<center>آیت اللہ غضنفری خوانساری]]</center>[[ملف:آیت الله اراکی.jpg|راست|thumbnail|120px|<center>آیت اللہ اراکی]]</center>
:امامت جمعہ، عہد قاجار (سلسلۂ حکومت از سنہ 1210 تا 1344ھ ق) میں بھی عہد صفوی کی طرح ایک حکومتی اور سرکاری منصب سمجھی جاتی تھی۔<ref>منتظری، البدر الزاہر، ص7۔</ref> اس دور میں مذہبی مناصب کی حیثیت و اعتبار گھٹ جانے کے تناسب سے، امامت جمعہ اپنی دینی اور سیاسی حیثیت کھو گئی۔ عہد قاجار کے اواخر میں، بعض ائمۂ جمعہ، آئینی انقلاب کے حامی اور استبدادی حکومت کے مخالف علماء کے مد مقابل آکھڑے ہوئے۔<ref>جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص32۔</ref> افشاریہ دور حکومت (1148 تا 1210ھ ق) اور عہد قاجار میں بڑے شہروں کے بہت سے ائمہ جمعہ کے اسماء کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ادوار میں امامت جمعہ کا منصب موروثی بن چکا تھا اور بعض خاندان نسل اندر نسل اس منصب کے عہدیدار ہوتے تھے؛ جن میں ـ [[تہران]] میں [[خاندان خاتون آبادی]]، [[اصفہان]] میں [[خاندان مجلسی]] اور [[یزد]] میں خاندان [[محمد مقیم یزدی]] ـ شامل ہیں۔ <ref>اولین امام جمعه یزد متوفی 1084۔</ref><ref>محمدمقیم یزدی، الحجۃ في وجوب صلاۃ الجمعۃ، ص50۔</ref> دوسرے شہروں میں یہی سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔<ref>آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ، ج2، ص76 88۔</ref><ref>آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج3، ص252، 301، 370ـ371۔</ref><ref>آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج4، ص322۔</ref><ref>آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج6، ص5-6، 100۔</ref><ref>آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج9، ص785، 1087ـ 1088۔</ref><ref>رضا نژاد، صلاۃ الجمعہ، ص123ـ 145۔</ref>
:امامت جمعہ، عہد قاجار (سلسلۂ حکومت از سنہ 1210 تا 1344ھ ق) میں بھی عہد صفوی کی طرح ایک حکومتی اور سرکاری منصب سمجھی جاتی تھی۔<ref>منتظری، البدر الزاہر، ص7۔</ref> اس دور میں مذہبی مناصب کی حیثیت و اعتبار گھٹ جانے کے تناسب سے، امامت جمعہ اپنی دینی اور سیاسی حیثیت کھو گئی۔ عہد قاجار کے اواخر میں، بعض ائمۂ جمعہ، آئینی انقلاب کے حامی اور استبدادی حکومت کے مخالف علماء کے مد مقابل آکھڑے ہوئے۔<ref>جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، ص32۔</ref> افشاریہ دور حکومت (1148 تا 1210ھ ق) اور عہد قاجار میں بڑے شہروں کے بہت سے ائمہ جمعہ کے اسماء کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ادوار میں امامت جمعہ کا منصب موروثی بن چکا تھا اور بعض خاندان نسل اندر نسل اس منصب کے عہدیدار ہوتے تھے؛ جن میں ـ [[تہران]] میں [[خاندان خاتون آبادی]]، [[اصفہان]] میں [[خاندان مجلسی]] اور [[یزد]] میں خاندان [[محمد مقیم یزدی]] ـ شامل ہیں۔ <ref>اولین امام جمعه یزد متوفی 1084۔</ref><ref>محمدمقیم یزدی، الحجۃ في وجوب صلاۃ الجمعۃ، ص50۔</ref> دوسرے شہروں میں یہی سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔<ref>آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ، ج2، ص76 88۔</ref><ref>آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج3، ص252، 301، 370ـ371۔</ref><ref>آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج4، ص322۔</ref><ref>آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج6، ص5-6، 100۔</ref><ref>آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج9، ص785، 1087ـ 1088۔</ref><ref>رضا نژاد، صلاۃ الجمعہ، ص123ـ 145۔</ref>


گمنام صارف