گمنام صارف
"عصمت" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←عصمتِ انبیا پر دلیل
imported>Mabbassi م (←عصمت انبیا) |
imported>Mabbassi |
||
سطر 58: | سطر 58: | ||
===عصمتِ انبیا پر دلیل=== | ===عصمتِ انبیا پر دلیل=== | ||
انبیا کی عصمت کے اثبات میں مسلم دانشورں کا اختلاف ہے۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ انبیا کی عصمت کے مراتب میں سے ہر مرتبہ جداگانہ دلیل کا تقاضا کرتا ہے۔ بعض مراتب عقلی دلائل کے ذریعے ثابت کئے جاتے ہیں لیکن بعض مراتب صرف اور صرف آیات و روایات کے ذریعے ہی قابل اثبات ہیں ۔ بنابراین ہر مرتبے کیلئے جداگانہ دلیل کا ذکر کرتے ہیں: | انبیا کی عصمت کے اثبات میں مسلم دانشورں کا اختلاف ہے۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ انبیا کی عصمت کے مراتب میں سے ہر مرتبہ جداگانہ دلیل کا تقاضا کرتا ہے۔ بعض مراتب عقلی دلائل کے ذریعے ثابت کئے جاتے ہیں لیکن بعض مراتب صرف اور صرف آیات و روایات کے ذریعے ہی قابل اثبات ہیں ۔ بنابراین ہر مرتبے کیلئے جداگانہ دلیل کا ذکر کرتے ہیں: | ||
* '''کفر اور شرکت سے عصمت حتی نبوت سے پہلے''': اس مرتبے پر یہ دلیل یہ ہے کہ انبیا کی باتوں پر یقین اور اطمینان صرف اور صرف اس صورت میں پیدا ہو سکتی ہی جب یہ حضرات حتی مقام نبوت اور رسالت پر فائز ہونے سے پہلے بھی کسی قسم یک کفر اور شرک میں مبتلا نہ ہوئے ہوں۔<ref> | * '''کفر اور شرکت سے عصمت حتی نبوت سے پہلے''': اس مرتبے پر یہ دلیل یہ ہے کہ انبیا کی باتوں پر یقین اور اطمینان صرف اور صرف اس صورت میں پیدا ہو سکتی ہی جب یہ حضرات حتی مقام نبوت اور رسالت پر فائز ہونے سے پہلے بھی کسی قسم یک کفر اور شرک میں مبتلا نہ ہوئے ہوں۔<ref>طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۲، ص۱۳۸؛ شریف مرتضی، تنزیہ الانبیاء کے، ص۵</ref> | ||
* '''وحی کی دریافت اور ابلاغ میں عصمت''': اس مرتبے پر عقلی دلیل قائم کی جا سکتی ہے کیونکہ اگر اس حوالے سے کسی غلطی یا خطا اور اشتباہ کا احتمال موجود ہو تو انبیا کے بھیجنے کا ہدف اور مقصد ختم ہو جاتا ہے جو کہ ایک محال چیز ہے۔<ref>مصباح یزدی، راه و | * '''وحی کی دریافت اور ابلاغ میں عصمت''': اس مرتبے پر عقلی دلیل قائم کی جا سکتی ہے کیونکہ اگر اس حوالے سے کسی غلطی یا خطا اور اشتباہ کا احتمال موجود ہو تو انبیا کے بھیجنے کا ہدف اور مقصد ختم ہو جاتا ہے جو کہ ایک محال چیز ہے۔<ref>مصباح یزدی، راه و راہنما شناسی، ص۱۵۳و۱۵۴</ref> اس حوالے سے قرآن کریم میں یوں ارشاد ہے: | ||
<font color=green>{{حدیث|'''وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَینَا بَعْضَ الْأَقَاوِیلِ* لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیمِینِ* ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِینَ.الحاقه}}</font> | <font color=green>{{حدیث|'''وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَینَا بَعْضَ الْأَقَاوِیلِ* لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیمِینِ* ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِینَ.الحاقه}}</font> | ||
(ترجمہ :اور اگر یہ ہماری طرف کسی بات کی نسبت دیتا تو ہم اسکے سیدھے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامتے پھر اسکے شہ رگ کو کاٹ دیتے)۔ | (ترجمہ :اور اگر یہ ہماری طرف کسی بات کی نسبت دیتا تو ہم اسکے سیدھے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامتے پھر اسکے شہ رگ کو کاٹ دیتے)۔ | ||
سطر 66: | سطر 66: | ||
* '''احکام شرعی پر عمل کرنے میں عصمت''': انبیاء کے اقوال اور گفتار پر اطمینان حاصل ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ خود یہ حضرات ان فرامین پر جنہیں وہ خدا کی طرف نسبت دیتے ہیں کس حد تک عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اگر اس حوالے سے نبی عصمت کا حامل نہ ہو تو حتی غلطی اور بھول چوک میں بھی کسی حکم پر عمل پیرا نہ ہو تو لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے جس سے ہدف حاصل نیہں ہوگا۔<ref>حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص۳۹۴</ref> | * '''احکام شرعی پر عمل کرنے میں عصمت''': انبیاء کے اقوال اور گفتار پر اطمینان حاصل ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ خود یہ حضرات ان فرامین پر جنہیں وہ خدا کی طرف نسبت دیتے ہیں کس حد تک عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اگر اس حوالے سے نبی عصمت کا حامل نہ ہو تو حتی غلطی اور بھول چوک میں بھی کسی حکم پر عمل پیرا نہ ہو تو لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے جس سے ہدف حاصل نیہں ہوگا۔<ref>حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص۳۹۴</ref> | ||
*'''احکام کے موضوعات کی تشخیص میں عصمت''': اس پر دلیل یہ ہے کہ عاقل لوگ حتی اس آدمی پر اعتماد نہیں کرتا جو بھول چوک اور غلطی سے کسی خطا کا مرتکب ہو چہ | *'''احکام کے موضوعات کی تشخیص میں عصمت''': اس پر دلیل یہ ہے کہ عاقل لوگ حتی اس آدمی پر اعتماد نہیں کرتا جو بھول چوک اور غلطی سے کسی خطا کا مرتکب ہو چہ جائیکہ عمدا غلطی کا شکار ہو اور جان بوجھ کر کسی چیز کی تشخیص میں غلطی کرے۔<ref>مفید، عدم سہو النبی، ص۲۹و۳۰</ref> | ||
* '''روزمرہ زندگی کے امور میں عصمت''':اس مرتبے میں اگر غلطی اور اشتباہ اس قدر زیادہ نہ ہو جس سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے، تو اس پر نہ کوئی عقلی دلیل قائم کی جاسکتی ہے اور نہ کسی آیت اور روایت اس بارے میں موجود ہے۔ لیکن اگر اس قدر زیادہ ہو کہ لوگوں کا اعتماد اٹھ جانے کا خطرہ ہو اور لوگ دینی امور میں بھی ان پر اعتماد نہ کرے تو اس صورت میں درج بالا دلائل اس حوالے سے بھی کفایت کرتی ہے۔ | * '''روزمرہ زندگی کے امور میں عصمت''':اس مرتبے میں اگر غلطی اور اشتباہ اس قدر زیادہ نہ ہو جس سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے، تو اس پر نہ کوئی عقلی دلیل قائم کی جاسکتی ہے اور نہ کسی آیت اور روایت اس بارے میں موجود ہے۔ لیکن اگر اس قدر زیادہ ہو کہ لوگوں کا اعتماد اٹھ جانے کا خطرہ ہو اور لوگ دینی امور میں بھی ان پر اعتماد نہ کرے تو اس صورت میں درج بالا دلائل اس حوالے سے بھی کفایت کرتی ہے۔ |