مندرجات کا رخ کریں

"عصمت" کے نسخوں کے درمیان فرق

301 بائٹ کا ازالہ ،  21 اپريل 2017ء
م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 37: سطر 37:
پیغمبروں کی عصمت مختلف مراتب کی حامل ہے جس کا دائرہ نہایت ہی وسیع و عریض  ہے جو کفر و شرک سے لے کر بھول چول تک سے پرہیز کرنے کو شامل  ہے۔ ان مراتب میں سے ہر مرتبہ کے متعلق دانشوروں اور متکلمین کے درمیان گرماگرم بحث ہوئی ہے۔
پیغمبروں کی عصمت مختلف مراتب کی حامل ہے جس کا دائرہ نہایت ہی وسیع و عریض  ہے جو کفر و شرک سے لے کر بھول چول تک سے پرہیز کرنے کو شامل  ہے۔ ان مراتب میں سے ہر مرتبہ کے متعلق دانشوروں اور متکلمین کے درمیان گرماگرم بحث ہوئی ہے۔


*''' کفر و شرک سے پاک ہونا''': [[نبوت|انبیا]] کے کا [[شرک]] اور [[کفر]] سے منزہ ہونا تمام اسلامی مذاہب کے علماء کے درمیان متفق علیہ ہے اور اس حوالے سے کوئی اختلاف نہیں ہے اور سب اس بات کے معتقد ہیں کہ تمام [[نبوت|انبیا]] نبوت سے پہلے اور بعد دونوں زمانوں میں کسی طرح بھی کفر اور شرک کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں۔<ref>تفتازانی، شرح المقاصد،ج۵، ص۵۰</ref>
*''' کفر و شرک سے پاک ہونا''': انبیا کے کا [[شرک]] اور [[کفر]] سے منزہ ہونا تمام اسلامی مذاہب کے علماء کے درمیان متفق علیہ ہے اور اس حوالے سے کوئی اختلاف نہیں ہے اور سب اس بات کے معتقد ہیں کہ تمام انبیا  نبوت سے پہلے اور بعد دونوں زمانوں میں کسی طرح بھی کفر اور شرک کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں۔<ref>تفتازانی، شرح المقاصد،ج۵، ص۵۰</ref>


*''' وحی کے دریافت اور ابلاغ میں عصمت''': شیعہ اور سنی مشہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ [[نبوت|انبیا]] وحی کی دریافت، حفظ اور ابلاغ میں کسی قسم کے گناہ یا خطا کا عمدی<ref>جرجانی، شرح المواقف، ص۲۶۳</ref> اور سہوی <ref>تفتازانی، شرح المقاصد، ج۵، ص۵۰</ref> ارتکاب نہیں کرتے ہیں۔ عصمت کے اس درجے میں [[نبوت|انبیا]] کے جو چیز خداوند متعال سے وحی کی شکل میں دریافت کرتے ہیں بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور خدا کی حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خدا اپنی رسالت کیلئے ایسے فرد کا انتخاب کرے جس کے بارے میں یقین ہو کہ وہ کسی قسم کے خیانت کا ارتکاب نہیں کریں گے۔<ref>مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، ص۱۵۳و۱۵۴</ref>
*''' وحی کے دریافت اور ابلاغ میں عصمت''': شیعہ اور سنی مشہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ انبیا وحی کی دریافت، حفظ اور ابلاغ میں کسی قسم کے گناہ یا خطا کا عمدی<ref>جرجانی، شرح المواقف، ص۲۶۳</ref> اور سہوی <ref>تفتازانی، شرح المقاصد، ج۵، ص۵۰</ref> ارتکاب نہیں کرتے ہیں۔ عصمت کے اس درجے میں [[نبوت|انبیا]] کے جو چیز خداوند متعال سے وحی کی شکل میں دریافت کرتے ہیں بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور خدا کی حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خدا اپنی رسالت کیلئے ایسے فرد کا انتخاب کرے جس کے بارے میں یقین ہو کہ وہ کسی قسم کے خیانت کا ارتکاب نہیں کریں گے۔<ref>مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، ص۱۵۳و۱۵۴</ref>


*'''احکام شرعی پر عمل کرنے میں عصمت''': مشہور شیعہ متکلمین کے مطابق [[نبوت|انبیا]] کے کرام [[واجب|واجبات]] کو انجام دینے اور [[حرام|محرمات]] کو ترک کرنے کے حوالے سے کسی قسم کی خطا اور نافرمانی کا مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔<ref>مفید، النکت الاعتقادیہ، ص۳۵؛ حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص۳۹۴</ref>
*'''احکام شرعی پر عمل کرنے میں عصمت''': مشہور شیعہ متکلمین کے مطابق انبیا کے کرام [[واجب|واجبات]] کو انجام دینے اور [[حرام|محرمات]] کو ترک کرنے کے حوالے سے کسی قسم کی خطا اور نافرمانی کا مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔<ref>مفید، النکت الاعتقادیہ، ص۳۵؛ حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص۳۹۴</ref>


*'''احکام شرعی کے مصادیق کی تشخیص میں عصمت''': احکام شرعی کے موضوعات ایسے اعمال اور رفتار کو کہا جاتا ہے جس کے بارے میں کوئی نہ کوئی حکم خدا کی جانب سے صادر ہوا ہو۔ جیسے [[نماز]] جو کہ واجب ہے اور [[غیبت]] جو کہ [[حرام]] ہے۔ عصمت کے اس درجے مراد یہ ہے کہ [[نبوت|انبیا]] کے احکام کے موضوعات کی تشخیص اگرچہ عمدا کسی گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا لیکن آیا بھول چوک میں بھی کسی گناہ یا خطا کا مرتکب نہیں ہوتا ہے یا نہیں؟
*'''احکام شرعی کے مصادیق کی تشخیص میں عصمت''': احکام شرعی کے موضوعات ایسے اعمال اور رفتار کو کہا جاتا ہے جس کے بارے میں کوئی نہ کوئی حکم خدا کی جانب سے صادر ہوا ہو۔ جیسے [[نماز]] جو کہ واجب ہے اور [[غیبت]] جو کہ [[حرام]] ہے۔ عصمت کے اس درجے مراد یہ ہے کہ [[نبوت|انبیا]] کے احکام کے موضوعات کی تشخیص اگرچہ عمدا کسی گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا لیکن آیا بھول چوک میں بھی کسی گناہ یا خطا کا مرتکب نہیں ہوتا ہے یا نہیں؟


عصمت کے اس مرتبے میں اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے [[اشاعرہ]] اور [[معتزلہ]] معتقد ہیں کہ [[نبوت|انبیا]] کے احکام کے موضوعات کی تشخیص اور الہی قوانین کو ان کے خارجی مصادیق پر تطبیق کرنے میں ممکن ہے غلطی کا شکار ہو۔ شیعہ علماء میں سے [[کلام امامیہ|شیخ صدوق]] عصمت کے اس درجے میں عصمت عمدی کے قائل ہیں لیکن بھول چوک اور غلطی سے بھی پاک ہونے کو معصومین کے بارے میں غلو سے تعبیر کرتے ہیں جو غالیوں اور مفوضہ سے مخصوص ہے۔<ref>صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ،ج۱، ص۳۶۰</ref> لیکن شیعہ مشہور علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ اس درجے میں بھی [[نبوت|انبیا]] کے حتی بھول چوک اور غلطی سے بھی کسی گناہ یا خطا کا مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔<ref>مفید، عدم سہو النبی، ص۲۹و۳۰</ref>
عصمت کے اس مرتبے میں اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے [[اشاعرہ]] اور [[معتزلہ]] معتقد ہیں کہ [[نبوت|انبیا]] کے احکام کے موضوعات کی تشخیص اور الہی قوانین کو ان کے خارجی مصادیق پر تطبیق کرنے میں ممکن ہے غلطی کا شکار ہو۔ شیعہ علماء میں سے [[کلام امامیہ|شیخ صدوق]] عصمت کے اس درجے میں عصمت عمدی کے قائل ہیں لیکن بھول چوک اور غلطی سے بھی پاک ہونے کو معصومین کے بارے میں غلو سے تعبیر کرتے ہیں جو غالیوں اور مفوضہ سے مخصوص ہے۔<ref>صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ،ج۱، ص۳۶۰</ref> لیکن شیعہ مشہور علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ اس درجے میں بھی انبیا کے حتی بھول چوک اور غلطی سے بھی کسی گناہ یا خطا کا مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔<ref>مفید، عدم سہو النبی، ص۲۹و۳۰</ref>


*'''روزمرہ زندگی میں عصمت''': اس سے مراد وہ مباح اعمال ہیں جو دین کے ساتھ کوئی ربط نہیں رکھتا اور ان کے بارے میں دین میں کوئی الزامی حکم نہیں پایا جاتا۔ روزمرہ زندگی کے امور میں غلطی اور اشتباہ کا شکار ہونا اس قدر نہ ہو کہ جس سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے اور لوگ اس نبی یا رسول کے بارے میں بے اعتمادی کا شکار ہوجائے، تو نہ فقط ایسے غلطیوں اور اشتباہات سے منزہ ہونے کے بارے میں کوئی عقلی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ دینی مآخذ میں ایسے غلطیوں اور اشتباہات کا [[نبوت|انبیا]] کے سے سرزد ہونے پر روایات بھی موجود ہیں۔<ref>کلینی، اصول کافی،ج۱، ص۲۵-۳۱</ref>
*'''روزمرہ زندگی میں عصمت''': اس سے مراد وہ مباح اعمال ہیں جو دین کے ساتھ کوئی ربط نہیں رکھتا اور ان کے بارے میں دین میں کوئی الزامی حکم نہیں پایا جاتا۔ روزمرہ زندگی کے امور میں غلطی اور اشتباہ کا شکار ہونا اس قدر نہ ہو کہ جس سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے اور لوگ اس نبی یا رسول کے بارے میں بے اعتمادی کا شکار ہوجائے، تو نہ فقط ایسے غلطیوں اور اشتباہات سے منزہ ہونے کے بارے میں کوئی عقلی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ دینی مآخذ میں ایسے غلطیوں اور اشتباہات کا [[نبوت|انبیا]] کے سے سرزد ہونے پر روایات بھی موجود ہیں۔<ref>کلینی، اصول کافی،ج۱، ص۲۵-۳۱</ref>


===عصمت [[نبوت|انبیا]] کے کی ضرورت===
===عصمت انبیا کے کی ضرورت===
[[نبوت|انبیا]] کے کی عصمت کے مختلف درجات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر درجے کے حوالے سے ان کی عصمت کی ضرورت کو بیان کیا جا سکتا ہے:
[[نبوت|انبیا]] کے کی عصمت کے مختلف درجات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر درجے کے حوالے سے ان کی عصمت کی ضرورت کو بیان کیا جا سکتا ہے:


وحی کے دریافت اور ابلاغ کے حوالے سے [[نبوت|انبیا]] کے کو عصمت کا حامل ہونا چاہئے کہ اگر [[نبوت|انبیا]] کے اس حوالے سے گناہ اور غلطی سے محفوظ نہ ہوں تو کیا ضمانت  ہے کہ جو پیغام [[نبوت|انبیا]] کے خدا کی طرف سے لوگوں تک پہنجاتے ہیں اس میں بھی غلطی اور خطا یا خیانت نہ کی ہو۔ پس وحی کی اہمیت اور اس کی افادیت صرف اس صورت میں ہی ہے کہ اس کے صادر ہونے سے لے کر لوگوں تک پہنچنے تک ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہو ورنہ لوگوں کا اعتماد اس پر باقی نہیں رہتا یوں خداوندعالم کا پیامبروں کو بھیجنے کا ہدف پورا نہیں ہوگا۔<ref>مصباح یزدی، آموزش عقائد، ص۱۹۳-۱۹۴</ref>
وحی کے دریافت اور ابلاغ کے حوالے سے انبیا کے کو عصمت کا حامل ہونا چاہئے کہ اگر انبیا کے اس حوالے سے گناہ اور غلطی سے محفوظ نہ ہوں تو کیا ضمانت  ہے کہ جو پیغام انبیا کے خدا کی طرف سے لوگوں تک پہنجاتے ہیں اس میں بھی غلطی اور خطا یا خیانت نہ کی ہو۔ پس وحی کی اہمیت اور اس کی افادیت صرف اس صورت میں ہی ہے کہ اس کے صادر ہونے سے لے کر لوگوں تک پہنچنے تک ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہو ورنہ لوگوں کا اعتماد اس پر باقی نہیں رہتا یوں خداوندعالم کا پیامبروں کو بھیجنے کا ہدف پورا نہیں ہوگا۔<ref>مصباح یزدی، آموزش عقائد، ص۱۹۳-۱۹۴</ref>


باقی مرتبوں میں [[نبوت|انبیا]] کے کی عصمت اس لئے ضروری ہے ہے اگر ان موارد میں انیباء ہر قسم کی عمدی اور سہوی گناہ اور غلطی سے منزہ نہ ہوں تو لوگوں کا اعتماد ان سے اٹھ جاتا ہے یوں ان کے بھیجنے کا ہدف پورا نہیں ہوتا ہے۔
باقی مرتبوں میں [[نبوت|انبیا]] کے کی عصمت اس لئے ضروری ہے ہے اگر ان موارد میں انیباء ہر قسم کی عمدی اور سہوی گناہ اور غلطی سے منزہ نہ ہوں تو لوگوں کا اعتماد ان سے اٹھ جاتا ہے یوں ان کے بھیجنے کا ہدف پورا نہیں ہوتا ہے۔


===عصمتِ [[نبوت|انبیا]] کے پر دلیل===
===عصمتِ انبیا پر دلیل===
[[نبوت|انبیا]] کے کی عصمت کے اثبات میں مسلم دانشورں کا اختلاف ہے۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ [[نبوت|انبیا]] کے کی عصمت کے مراتب میں سے ہر مرتبہ جداگانہ دلیل کا تقاضا کرتا ہے۔ بعض مراتب عقلی دلائل کے ذریعے ثابت کئے جاتے ہیں  لیکن بعض مراتب صرف اور صرف آیات و روایات کے ذریعے ہی قابل اثبات ہیں ۔ بنابراین ہر مرتبے کیلئے جداگانہ دلیل کا ذکر کرتے ہیں:
انبیا کی عصمت کے اثبات میں مسلم دانشورں کا اختلاف ہے۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ انبیا کی عصمت کے مراتب میں سے ہر مرتبہ جداگانہ دلیل کا تقاضا کرتا ہے۔ بعض مراتب عقلی دلائل کے ذریعے ثابت کئے جاتے ہیں  لیکن بعض مراتب صرف اور صرف آیات و روایات کے ذریعے ہی قابل اثبات ہیں ۔ بنابراین ہر مرتبے کیلئے جداگانہ دلیل کا ذکر کرتے ہیں:
* '''کفر اور شرکت سے عصمت حتی نبوت سے پہلے''': اس مرتبے پر یہ دلیل یہ ہے کہ [[نبوت|انبیا]] کے کی باتوں پر یقین اور اطمینان صرف اور صرف اس صورت میں پیدا ہو سکتی ہی جب یہ حضرات حتی مقام نبوت اور رسالت پر فائز ہونے سے پہلے بھی کسی قسم یک کفر اور شرک میں مبتلا نہ ہوئے ہوں۔<ref>طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۲، ص۱۳۸؛ شریف مرتضی، تنزیه ال[[نبوت|انبیا]] کے، ص۵</ref>
* '''کفر اور شرکت سے عصمت حتی نبوت سے پہلے''': اس مرتبے پر یہ دلیل یہ ہے کہ انبیا کی باتوں پر یقین اور اطمینان صرف اور صرف اس صورت میں پیدا ہو سکتی ہی جب یہ حضرات حتی مقام نبوت اور رسالت پر فائز ہونے سے پہلے بھی کسی قسم یک کفر اور شرک میں مبتلا نہ ہوئے ہوں۔<ref>طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۲، ص۱۳۸؛ شریف مرتضی، تنزیه ال[[نبوت|انبیا]] کے، ص۵</ref>


* '''وحی کی دریافت اور ابلاغ میں عصمت''': اس مرتبے پر عقلی دلیل قائم کی جا سکتی ہے کیونکہ اگر اس حوالے سے کسی غلطی یا خطا اور اشتباہ کا احتمال موجود ہو تو [[نبوت|انبیا]] کے کے بھیجنے کا ہدف اور مقصد ختم ہو جاتا ہے جو کہ ایک محال چیز ہے۔<ref>مصباح یزدی، راه و راهنما شناسی، ص۱۵۳و۱۵۴</ref> اس حوالے سے قرآن کریم میں یوں ارشاد ہے:
* '''وحی کی دریافت اور ابلاغ میں عصمت''': اس مرتبے پر عقلی دلیل قائم کی جا سکتی ہے کیونکہ اگر اس حوالے سے کسی غلطی یا خطا اور اشتباہ کا احتمال موجود ہو تو انبیا کے بھیجنے کا ہدف اور مقصد ختم ہو جاتا ہے جو کہ ایک محال چیز ہے۔<ref>مصباح یزدی، راه و راهنما شناسی، ص۱۵۳و۱۵۴</ref> اس حوالے سے قرآن کریم میں یوں ارشاد ہے:
<font color=green>{{حدیث|'''وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَینَا بَعْضَ الْأَقَاوِیلِ* لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیمِینِ* ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِینَ'''}}</font>
<font color=green>{{حدیث|'''وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَینَا بَعْضَ الْأَقَاوِیلِ* لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیمِینِ* ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِینَ.الحاقه}}</font>
(ترجمہ :اور اگر یہ ہماری طرف کسی بات کی نسبت دیتا تو ہم اسکے سیدے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامتے پھر اسکے شہ رگ کو کاٹ دیتے)۔<ref>سوره=[[سورہ حاقہ|سوره حاقه]]|آیه=۴۴-۴۷</ref>
(ترجمہ :اور اگر یہ ہماری طرف کسی بات کی نسبت دیتا تو ہم اسکے سیدھے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامتے پھر اسکے شہ رگ کو کاٹ دیتے)۔


* '''احکام شرعی پر عمل کرنے میں عصمت''': [[نبوت|انبیا]] کے کے اقوال اور گفتار پر اطمینان حاصل ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ خود یہ حضرات ان فرامین پر جنہیں وہ خدا کی طرف نسبت دیتے ہیں کس حد تک عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اگر اس حوالے سے [[نبوت|انبیا]] کے عصمت کا حامل نہ ہو تو حتی غلطی اور بھول چوک میں بھی کسی حکم پر عمل پیرا نہ ہو تو لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے جس سے ہدف حاصل نیہں ہوگا۔<ref>حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص۳۹۴</ref>
* '''احکام شرعی پر عمل کرنے میں عصمت''': انبیاء کے اقوال اور گفتار پر اطمینان حاصل ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ خود یہ حضرات ان فرامین پر جنہیں وہ خدا کی طرف نسبت دیتے ہیں کس حد تک عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اگر اس حوالے سے نبی عصمت کا حامل نہ ہو تو حتی غلطی اور بھول چوک میں بھی کسی حکم پر عمل پیرا نہ ہو تو لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے جس سے ہدف حاصل نیہں ہوگا۔<ref>حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص۳۹۴</ref>


*'''احکام کے موضوعات کی تشخیص میں عصمت''': اس پر دلیل یہ ہے کہ عاقل لوگ حتی اس آدمی پر اعتماد نہیں کرتا جو بھول چوک اور غلطی سے کسی خطا کا مرتکب ہو چہ حائیکہ عمدا غلطی کا شکار ہو اور جان بوجھ کر کسی چیز کی تشخیص میں غلطی کرے۔<ref>مفید، عدم سهو النبی، ص۲۹و۳۰</ref>
*'''احکام کے موضوعات کی تشخیص میں عصمت''': اس پر دلیل یہ ہے کہ عاقل لوگ حتی اس آدمی پر اعتماد نہیں کرتا جو بھول چوک اور غلطی سے کسی خطا کا مرتکب ہو چہ حائیکہ عمدا غلطی کا شکار ہو اور جان بوجھ کر کسی چیز کی تشخیص میں غلطی کرے۔<ref>مفید، عدم سہو النبی، ص۲۹و۳۰</ref>


* '''روزمرہ زندگی کے امور میں عصمت''':اس مرتبے میں اگر غلطی اور اشتباہ اس قدر زیادہ نہ ہو جس سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے، تو اس پر نہ کوئی عقلی دلیل قائم کی جاسکتی ہے اور نہ کسی آیت اور روایت اس بارے میں موجود ہے۔ لیکن اگر اس قدر زیادہ ہو کہ لوگوں کا اعتماد اٹھ جانے کا خطرہ ہو اور لوگ دینی امور میں بھی ان پر اعتماد نہ کرے تو اس صورت میں درج بالا دلائل اس حوالے سے بھی کفایت کرتی ہے۔
* '''روزمرہ زندگی کے امور میں عصمت''':اس مرتبے میں اگر غلطی اور اشتباہ اس قدر زیادہ نہ ہو جس سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے، تو اس پر نہ کوئی عقلی دلیل قائم کی جاسکتی ہے اور نہ کسی آیت اور روایت اس بارے میں موجود ہے۔ لیکن اگر اس قدر زیادہ ہو کہ لوگوں کا اعتماد اٹھ جانے کا خطرہ ہو اور لوگ دینی امور میں بھی ان پر اعتماد نہ کرے تو اس صورت میں درج بالا دلائل اس حوالے سے بھی کفایت کرتی ہے۔
گمنام صارف