گمنام صارف
"عصمت" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mabbassi م (←عصمت کا سرچشمہ) |
imported>Mabbassi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 19: | سطر 19: | ||
عصمت کی تعریف میں اکثر مفکرین کا خیال ہے کہ معصوم شخص اپنے ارادے اور اختیار سے گناہ سے کنارہ گیری کرتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسا عامل یا عوامل ہیں جس کی وجہ سے قدرت رکھنے کے باوجود بھی یہ معصوم ہستیاں نہ فقط گناہ اور معصیت کا شکار نہیں ہوتیں بلکہ اس کے بارے میں سوچتے بھی نہیں اور بھول چوک میں بھی غلطی کا ارتکاب نہیں کرتے؟ اس سوال کے جواب میں مختلف نظریات موجود ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں: | عصمت کی تعریف میں اکثر مفکرین کا خیال ہے کہ معصوم شخص اپنے ارادے اور اختیار سے گناہ سے کنارہ گیری کرتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسا عامل یا عوامل ہیں جس کی وجہ سے قدرت رکھنے کے باوجود بھی یہ معصوم ہستیاں نہ فقط گناہ اور معصیت کا شکار نہیں ہوتیں بلکہ اس کے بارے میں سوچتے بھی نہیں اور بھول چوک میں بھی غلطی کا ارتکاب نہیں کرتے؟ اس سوال کے جواب میں مختلف نظریات موجود ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں: | ||
* '''قاعدہ لطف کے چار اسباب''': وہ علماء جو عصمت کو خدا کا لطف قرار دیتے ہیں چار اسباب اور عوامل کو اس لطف کا منشا قرار دیتے ہیں جو جس کے سبب معصوم | * '''قاعدہ لطف کے چار اسباب''': وہ علماء جو عصمت کو خدا کا لطف قرار دیتے ہیں چار اسباب اور عوامل کو اس لطف کا منشا قرار دیتے ہیں جو جس کے سبب معصوم شخص میں عصمت کا ملکہ پیدا ہوتا ہے: | ||
# معصوم | # معصوم شخص جسمانی یا روحانی اعتبار سے کچھ ایسی خصوصیات کا حامل ہے جو باعث بنتا ہے کہ اس میں عصمت کا ملکہ پیدا ہو۔ | ||
# معصوم | # معصوم شخص کیلئے گناہوں کے برے اثرات اور خداوند متعال کی اطاعت اور بندگی کی قدروقیمت سے مکمل آگاہی حاصل ہونے کی وجہ سے اس میں عصمت کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔ | ||
# وحی یا الہام کے پے در پے نازل ہونے کے ذریعے اس آگاہی میں مزید وسعت اور گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ | # وحی یا الہام کے پے در پے نازل ہونے کے ذریعے اس آگاہی میں مزید وسعت اور گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ | ||
# معصوم | # معصوم شخص نہ فقط [[واجب|واجبات]] بلکہ ترک اولی پر بھی مورد مؤاخذہ قرار پاتا ہے اس طرح کہ احساس کرنے لگتا ہے کہ ان کے حق میں کسی قسم کی کوئی تخفیف کی گنجائش موجود نہیں ہے۔<ref>حلی، کشف المراد، ص۴۹۴</ref> | ||
* '''گناہ کے انجام سے مکمل آگاہی''': بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ عصمت کا سرچشمہ یہ ہے کہ معصوم | * '''گناہ کے انجام سے مکمل آگاہی''': بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ عصمت کا سرچشمہ یہ ہے کہ معصوم شخص گناہ کی حقیقت اور باطن اور اس کے برے انجام سے مکمل آگاہی ہے اور اس کے برے اثرات سے اس طرح مکمل واقفیت رکھتا ہے کہ گویا علم حضوری کے ذریعے گناہ کے برے انجام کو دیکھ رہا ہوتا ہے اسی بنا پر کبھی بھی گناہ اور معصیت کا ارادہ بھی نہیں کرتا ہے۔<ref>ری شہری، ص۲۱۰</ref> | ||
* '''ارادہ اور اختیار''': اس حوالے سے ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ عصمت کا سرچشمہ تقوا ہے جو بار بار نیک اور اچھے اعمال کی انجام دہی اور گناہوں سے پرہیز کرنے کی وجہ سے ملکہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ ملکہ اگرچہ تقوا میں بھی موجود ہوتا ہے لیکن عصمت میں زیادہ شدت اختیار کرتا ہے۔ نیک اعمال کا مکرر انجام دینا اور گناہوں سے پرہیز کرنا ارادہ اور اختیار کا محتاج ہے لہذا عصمت کا اصل عامل معصوم | * '''ارادہ اور اختیار''': اس حوالے سے ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ عصمت کا سرچشمہ تقوا ہے جو بار بار نیک اور اچھے اعمال کی انجام دہی اور گناہوں سے پرہیز کرنے کی وجہ سے ملکہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ ملکہ اگرچہ تقوا میں بھی موجود ہوتا ہے لیکن عصمت میں زیادہ شدت اختیار کرتا ہے۔ نیک اعمال کا مکرر انجام دینا اور گناہوں سے پرہیز کرنا ارادہ اور اختیار کا محتاج ہے لہذا عصمت کا اصل عامل معصوم شخص کا ارادہ اور اختیار ہے۔ یہ نظریہ گناہوں کی حقیقت اور باطن سے معصومین کی آگاہی کے اصل محرک کو معصوم شخص کا ارادہ اور اختیار قرار دیتا ہے۔<ref>ری شہری، ص۲۱۵</ref> | ||
* '''علم اور ارادہ''': بعض اسلامی مفکرین معصومین کی عصمت کے راز کو دو چیز قراار دیتے ہیں جن میں سے ایک کمالات اور حقایق سے آگاہی اور دوسرا اس تک پہنچنے کا پکا اور مستحکم ارادہ ہے۔ کیونکہ انسان جہالت کی صورت میں حقیقی اور واقعی کمال کو نہیں پہچان سکتا اور ایک خیالی اور ذہنی کمال کو حقیقی اور واقعی کمال قرار دیتا ہے اسی طرح اگر مستحکم ارادہ کا مالک نہ ہو تو نفسانی خواہشات کے ہاتھوں اسیر ہو کر مطلوبہ ہدف تک پہچنے میں ناکام رہتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، ص۱۱۹</ref> | * '''علم اور ارادہ''': بعض اسلامی مفکرین معصومین کی عصمت کے راز کو دو چیز قراار دیتے ہیں جن میں سے ایک کمالات اور حقایق سے آگاہی اور دوسرا اس تک پہنچنے کا پکا اور مستحکم ارادہ ہے۔ کیونکہ انسان جہالت کی صورت میں حقیقی اور واقعی کمال کو نہیں پہچان سکتا اور ایک خیالی اور ذہنی کمال کو حقیقی اور واقعی کمال قرار دیتا ہے اسی طرح اگر مستحکم ارادہ کا مالک نہ ہو تو نفسانی خواہشات کے ہاتھوں اسیر ہو کر مطلوبہ ہدف تک پہچنے میں ناکام رہتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، ص۱۱۹</ref> | ||
سطر 129: | سطر 129: | ||
:پہلی صورت: | :پہلی صورت: | ||
:جب بھی خدا کسی شرط و شروط کے بغیر کسی کی اطاعت کرنے کا حکم دے تو وہ معصوم | :جب بھی خدا کسی شرط و شروط کے بغیر کسی کی اطاعت کرنے کا حکم دے تو وہ معصوم شخص ہو گا ۔چونکہ اگر کوئی معصوم نہ ہو اور وہ دوسروں کو اطاعت کا حکم دے تو اسکی اطاعت کرنی چاہئے (چونکہ اللہ نے اسکی اطاعت کا حکم دیا ہے) اور اطاعت نہیں کرنا چاہئے (کیونکہ کیونکہ مخلوق خدا کی اس وقت تک اطاعت کی جا سکتی جب تک خدا کی نا فرمانی نہ ہوتی ہو ) ۔پس اس صورت میں اجتماع نقیضین لازم آتا ہے کہ جو محال ہے ۔<ref>مظفر، ج۲، ص۱۷</ref> | ||
:'''دوسری صورت''' : | :'''دوسری صورت''' : |