"اسلامی تقویم" کے نسخوں کے درمیان فرق
←اسلامی تاریخ کا مبدأ
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 14: | سطر 14: | ||
تاریخی منابع کے مطابق قمری تقویم کا مبدأ پیغمبر اسلامؐ کی مکہ سے مدینہ ہجرت ہے۔ لیکن اس بات میں اختلاف ہے کہ یہ کام کس دور میں انجام پایا تھا؛ بعض تاریخی نقل کے مطابق ہجرت کو تاریخ اسلام کا مبداء قرار دینے کا کام [[عمر بن خطاب]] کے دور خلافت میں انجام پایا ہے۔<ref>مسکویہ، تجارب الامم، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۴۱۳۔</ref> بعض تاریخی شواہد کے مطابق [[ابوموسی اشعری]] نے عمر کو ایک خط لکھااور ایک معین تاریخ نہ ہونے کی شکایت کی کیونکہ [[خلافت|خلیفہ]] کی طرف سے آنے والے خطوط میں کوئی تاریخ ذکر نہیں ہوتی تھی اسی لئے کونسا خط پہلے اور کونسا بعد میں لکھا گیا ہے اس کا پتہ نہیں چلتا تھا۔<ref>مسکویہ، تجارب الامم، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۴۱۳؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۸۸۔</ref> اسی سلسلے میں حضرت عمر نے اسلامی تاریخ کی تعیین کے لئے ایک شوری تشکیل دیا<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۸۸؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۲۰۷۔</ref> اس کمیٹی میں [[مبعث]]، ہجرت اور رحلت پیغمبر اکرمؐ کو اسلامی تاریخ کا مبداء قرار دینے کی تجویز ہوئی<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۸۹۔</ref> اور حضرت علیؑ کی تجویز پر پیغمبر اکرمؐ کی [[مکہ]] سے [[مدینہ]] [[ہجرت]] کو تاریخ اسلام کا مبداء قرار دیا گیا۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۱۴۵؛ مسعودی، مروجالذہب، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۰۰۔</ref> | تاریخی منابع کے مطابق قمری تقویم کا مبدأ پیغمبر اسلامؐ کی مکہ سے مدینہ ہجرت ہے۔ لیکن اس بات میں اختلاف ہے کہ یہ کام کس دور میں انجام پایا تھا؛ بعض تاریخی نقل کے مطابق ہجرت کو تاریخ اسلام کا مبداء قرار دینے کا کام [[عمر بن خطاب]] کے دور خلافت میں انجام پایا ہے۔<ref>مسکویہ، تجارب الامم، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۴۱۳۔</ref> بعض تاریخی شواہد کے مطابق [[ابوموسی اشعری]] نے عمر کو ایک خط لکھااور ایک معین تاریخ نہ ہونے کی شکایت کی کیونکہ [[خلافت|خلیفہ]] کی طرف سے آنے والے خطوط میں کوئی تاریخ ذکر نہیں ہوتی تھی اسی لئے کونسا خط پہلے اور کونسا بعد میں لکھا گیا ہے اس کا پتہ نہیں چلتا تھا۔<ref>مسکویہ، تجارب الامم، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۴۱۳؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۸۸۔</ref> اسی سلسلے میں حضرت عمر نے اسلامی تاریخ کی تعیین کے لئے ایک شوری تشکیل دیا<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۸۸؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۲۰۷۔</ref> اس کمیٹی میں [[مبعث]]، ہجرت اور رحلت پیغمبر اکرمؐ کو اسلامی تاریخ کا مبداء قرار دینے کی تجویز ہوئی<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۸۹۔</ref> اور حضرت علیؑ کی تجویز پر پیغمبر اکرمؐ کی [[مکہ]] سے [[مدینہ]] [[ہجرت]] کو تاریخ اسلام کا مبداء قرار دیا گیا۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۱۴۵؛ مسعودی، مروجالذہب، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۰۰۔</ref> | ||
اس کے مقابلے میں دوسرے اقوال بھی ہیں جن کے مطابق خود پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں آپؐ کے حکم سے [[ہجرت مدینہ|ہجرت]] کو اسلامی تاریخ کا مبداء قرار دیا گیا تھا۔<ref>ملاحظہ کریں: طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۸۸۔</ref> شیعہ فقیہ، متکلم اور مورخ [[آیت اللہ جعفر سبحانی]] کے مطابق خود [[پیغمبر اکرمؐ]] کے زمانے کی بعض مکاتبات قمری تاریخ کے ساتھ موجود ہیں؛ من جملہ ان میں پیغمبر اکرمؐ اور [[نجران]] کے عیسائیوں کے درمیان ہونے والا صلح | اس کے مقابلے میں دوسرے اقوال بھی ہیں جن کے مطابق خود پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں آپؐ کے حکم سے [[ہجرت مدینہ|ہجرت]] کو اسلامی تاریخ کا مبداء قرار دیا گیا تھا۔<ref>ملاحظہ کریں: طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۸۸۔</ref> شیعہ فقیہ، متکلم اور مورخ [[آیت اللہ جعفر سبحانی]] کے مطابق خود [[پیغمبر اکرمؐ]] کے زمانے کی بعض مکاتبات قمری تاریخ کے ساتھ موجود ہیں؛ من جملہ ان میں [[پانچویں ہجری قمری]] میں پیغمبر اکرمؐ اور [[نجران]] کے عیسائیوں کے درمیان ہونے والا صلح<ref>سبحانی، سید المرسلین، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۱، ص۶۱۰۔</ref> اور [[نویں ہجری قمری]] میں [[سلمان فارسی]] کو آپؐ کی وصیت جسے حضرت علیؑ نے تحریر فرمایا۔<ref>سبحانی، سید المرسلین، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۱، ص۶۰۹۔</ref> | ||
==قمری مہینے== | ==قمری مہینے== |