مندرجات کا رخ کریں

"اسلامی تقویم" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 11: سطر 11:
ہجری قمری تقویم پہلی جنگ عظیم(1914-1918ء) تک اسلامی ممالک کے سرکاری تاریخ کا مبنا رہا ہے اور تمام مناسبات ہجری قمری تقویم کے حساب سے منائے جاتے تھے۔<ref>[https://www.porseman.com/article/%D8%AA%D8%A7%D8%B1%D9%8A%D8%AE-%D8%B1%D8%B3%D9%85%D9%8A-%D9%83%D8%B4%D9%88%D8%B1%D9%87%D8%A7%D9%8A-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%D9%8A/13076 «تاریخ رسمی کشورہای اسلامی»]</ref> ایران میں شمسی تاریخ کو سرکاری تاریخ قرار دینے کا قانون  مارچ 1925ء کو پہلوی دور حکومت میں پاس ہوا یوں ایران کا سرکاری تقویم قمری تاریخ سے شمسی تاریخ میں تبدیل ہوا۔<ref>حائری، روزشمار شمسی، ۱۳۸۶ش، ص۷، پانویس۱۔</ref> اسی طرح [[افغانستان]] میں سنہ 1922ء کو قمری تاریخ شمسی تاریخ میں تبدیل ہوا۔<ref>قاسملو، «مقایسہ روش‌ہا و معادلات مختلف برای اعمال کبیسہ ہای گاہشماری ہجری خورشیدی در منابع مختلف»، ص۹۸۔</ref> سعودی عرب میں سنہ 2017ء سے قمری تاریخ عیسوی تاریخ میں تبدیل ہوا۔<ref>[http://hajj.ir/fa/63730 «تغییر تقویم قمری بہ میلادی در عربستان»]</ref>
ہجری قمری تقویم پہلی جنگ عظیم(1914-1918ء) تک اسلامی ممالک کے سرکاری تاریخ کا مبنا رہا ہے اور تمام مناسبات ہجری قمری تقویم کے حساب سے منائے جاتے تھے۔<ref>[https://www.porseman.com/article/%D8%AA%D8%A7%D8%B1%D9%8A%D8%AE-%D8%B1%D8%B3%D9%85%D9%8A-%D9%83%D8%B4%D9%88%D8%B1%D9%87%D8%A7%D9%8A-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%D9%8A/13076 «تاریخ رسمی کشورہای اسلامی»]</ref> ایران میں شمسی تاریخ کو سرکاری تاریخ قرار دینے کا قانون  مارچ 1925ء کو پہلوی دور حکومت میں پاس ہوا یوں ایران کا سرکاری تقویم قمری تاریخ سے شمسی تاریخ میں تبدیل ہوا۔<ref>حائری، روزشمار شمسی، ۱۳۸۶ش، ص۷، پانویس۱۔</ref> اسی طرح [[افغانستان]] میں سنہ 1922ء کو قمری تاریخ شمسی تاریخ میں تبدیل ہوا۔<ref>قاسملو، «مقایسہ روش‌ہا و معادلات مختلف برای اعمال کبیسہ ہای گاہشماری ہجری خورشیدی در منابع مختلف»، ص۹۸۔</ref> سعودی عرب میں سنہ 2017ء سے قمری تاریخ عیسوی تاریخ میں تبدیل ہوا۔<ref>[http://hajj.ir/fa/63730 «تغییر تقویم قمری بہ میلادی در عربستان»]</ref>


== ہجری تقویم کا تعین ==
== اسلامی تاریخ کا مبدأ==
مشہور قول کے مطابق ہجری کیلنڈر کے آغاز کو [[امام علی علیہ السلام|حضرت علیؑ]] کی تجویز سے [[عمر بن خطاب]] نے پیغمبر اکرمؐ کی [[ہجرت مدینہ|ہجرت]] قرار دیا ہے۔ اس قول کے مطابق [[ابوموسی اشعری]] نے عمر کو ایک خط لکھااور ایک معین تاریخ نہ ہونے کی شکایت کی کیونکہ [[خلافت|خلیفہ]] کی طرف سے آنے والے خطوط میں کوئی تاریخ ذکر نہیں ہوتی تھی اسی لئے کونسا خط پہلے اور کونسا بعد میں لکھا گیا ہے اس کا پتہ نہیں چلتا تھا۔<ref>مسکویہ، تجارب الأمم، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۴۱۳۔</ref> دوسرے خلیفہ نے ایک شورا تشکیل دیا تاکہ تاریخ اسلام کا آغاز معین کیا جائے۔<ref>ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ،‌ ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۲۰۷۔</ref> اس شورا میں مختلف نظریات پیش ہوئے لیکن کسی ایک پر بھی اتفاق نہیں ہوا۔ آخرکار حضرت علیؑ نے پیغمبر اکرمؐ کی [[مکہ مکرمہ|مکہ]] سے [[مدینہ منورہ|مدینہ]] ہجرت کو تاریخ اسلام کا آغاز قرار دینے کو کہا اور عمر کو بھی وہی بات پسند آئی اور تمام شہروں میں اسی کو اعلان کیا گیا۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۱۴۵؛ مسعودی، مروج الذہب،‌ ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۰۰۔</ref>
تاریخی منابع کے مطابق قمری تقویم کا مبدأ پیغمبر اسلامؐ کی مکہ سے مدینہ ہجرت ہے۔ لیکن اس بات میں اختلاف ہے کہ یہ کام کس دور میں انجام پایا  تھا؛ بعض تاریخی نقل کے مطابق ہجرت کو تاریخ اسلام کا مبداء قرار دینے کا کام [[عمر بن خطاب]] کے دور خلافت میں انجام پایا ہے۔<ref>مسکویہ، تجارب الامم، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۴۱۳۔</ref> بعض تاریخی شواہد کے مطابق [[ابوموسی اشعری]] نے عمر کو ایک خط لکھااور ایک معین تاریخ نہ ہونے کی شکایت کی کیونکہ [[خلافت|خلیفہ]] کی طرف سے آنے والے خطوط میں کوئی تاریخ ذکر نہیں ہوتی تھی اسی لئے کونسا خط پہلے اور کونسا بعد میں لکھا گیا ہے اس کا پتہ نہیں چلتا تھا۔<ref>مسکویہ، تجارب الامم، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۴۱۳؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۸۸۔</ref> اسی سلسلے میں حضرت عمر نے اسلامی تاریخ کی تعیین کے لئے ایک شوری تشکیل دیا<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۸۸؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ،‌ ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۲۰۷۔</ref> اس کمیٹی میں [[مبعث]]، ہجرت اور رحلت پیغمبر اکرمؐ کو اسلامی تاریخ کا مبداء قرار دینے کی تجویز ہوئی<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۸۹۔</ref> اور حضرت علیؑ کی تجویز پر پیغمبر اکرمؐ کی [[مکہ]] سے [[مدینہ]] [[ہجرت]] کو تاریخ اسلام کا مبداء قرار دیا گیا۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۱۴۵؛ مسعودی، مروج‌الذہب،‌ ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۰۰۔</ref>  
اس نظرئے کے مقابلے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ [[پیغمبر اکرمؐ]] کے دور میں آپؐ کے حکم سے ہی ہجرت کو تاریخ کا آغا قرار دیا گیا ہے۔<ref>عاملی، تحقیقی دربارہ تاریخ ہجری، تہران، ص۲۳۔</ref>آپؐ نے مدینہ پہنچتے ہی اس کا حکم دیا تھا<ref>طبری، تاریخ، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۳۸۸۔</ref> دوسری طرف پیغمبر اکرمؐ کے دور کے مکاتبات میں بھی ہجری سال کی تاریخ درج ہوئی ہے۔ جیسے؛
 
* پیغمبر اکرمؐ اور نجران کے نصاری کے درمیان طے پانے والے صلح نامہ میں پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے [[سنہ 5 ہجری|سنہ پانچ ہجری]] قمری درج ہے۔<ref>سبحانی، سید المرسلین، جامعہ مدرسین، ج۱، ص۶۱۰۔</ref>
اس کے مقابلے میں دوسرے اقوال بھی ہیں جن کے مطابق خود پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں آپؐ کے حکم سے [[ہجرت مدینہ|ہجرت]] کو اسلامی تاریخ کا مبداء قرار دیا گیا تھا۔<ref>ملاحظہ کریں:‌ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۸۸۔</ref> شیعہ فقیہ، متکلم اور مورخ [[آیت اللہ جعفر سبحانی]] کے مطابق خود [[پیغمبر اکرمؐ]] کے زمانے کی بعض مکاتبات قمری تاریخ کے ساتھ موجود ہیں؛ من جملہ ان میں پیغمبر اکرمؐ اور [[نجران]] کے عیسائیوں کے درمیان ہونے والا صلح [[پانچویں ہجری قمری]]<ref>سبحانی، سید المرسلین، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۱، ص۶۱۰۔</ref> اور [[سلمان فارسی]] کو آپؐ کی وصیت جو حضرت علیؑ کے املاء کے سانھ [[نویں ہجری]] وغیرہ<ref>سبحانی، سید المرسلین، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۱، ص۶۰۹۔</ref>
* پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے [[سلمان فارسی]] کو کی جانے والی وصیت جسے حضرت علیؑ نے تحریر کیا، جس میں پیغمبر اکرمؐ نے حکم دیا کہ خط کے آخر میں درج کیا جائے: یہ خط علی کے ہاتھوں پیغمبر کے حکم سے [[رجب]]، [[سنہ 9 ہجری]] کو لکھا گیا ہے۔<ref>سبحانی، سید المرسلین، جامعہ مدرسین، ج۱، ص۶۰۹۔{{عربی|«کتَبَ عَلی بْنُ اَبیطالِبٍ بِاَمْرِ رَسُولِ اللّہْ فِی شَہْرِ رَجَبِ سِنَۃَ تِسْعٍ مِنَ الْہِجْرَۃْ»}}۔</ref>


==قمری مہینے==
==قمری مہینے==
confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم