مندرجات کا رخ کریں

"قیام امام حسینؑ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 28: سطر 28:
آپ یمن کی طرف جائیں جہاں آپ کے والد کے شیعوں کی کثیر تعداد موجود ہے اور وہ اہک وسیع و عریض جگہ ہے ۔ جب ابن عباس کو آپ کے قطعی ارادے کا علم ہو گیا تو کہا اپنے ساتھ عورتوں اور بچوں کو مت لے جائیں ۔ مبادا تمہیں حضرت عثمان بن عفان کی طرح بچوں کی موجودگی میں قتل کر دیں۔<ref>ملخص :دینوری ، الاخبار الطوال 244۔ طبری ،تاریخ الامم و الملوک۔ ذیل سنۃ ستین۔ابن اثیر ،الکامل فی التاریخ ج 4 ص 39۔</ref>
آپ یمن کی طرف جائیں جہاں آپ کے والد کے شیعوں کی کثیر تعداد موجود ہے اور وہ اہک وسیع و عریض جگہ ہے ۔ جب ابن عباس کو آپ کے قطعی ارادے کا علم ہو گیا تو کہا اپنے ساتھ عورتوں اور بچوں کو مت لے جائیں ۔ مبادا تمہیں حضرت عثمان بن عفان کی طرح بچوں کی موجودگی میں قتل کر دیں۔<ref>ملخص :دینوری ، الاخبار الطوال 244۔ طبری ،تاریخ الامم و الملوک۔ ذیل سنۃ ستین۔ابن اثیر ،الکامل فی التاریخ ج 4 ص 39۔</ref>


 
==قیام کے متعلق  مختلف نظریات ==
نظریہ ابن تیمیہ (متوفیٰ 728) نے اپنی کتاب منہاج السنہ میں پیش کیا ہے:۔
نظریہ ابن تیمیہ (متوفیٰ 728) نے اپنی کتاب منہاج السنہ میں پیش کیا ہے:۔


فَتَبَيَّنَ أَنَّ الْأَمْرَ عَلَى مَا قَالَهُ أُولَئِكَ، وَلَمْ يَكُنْ فِي الْخُرُوجِ لَا مَصْلَحَةُ دِينٍ وَلَا مَصْلَحَةُ دُنْيَا ، بَلْ تَمَكَّنَ أُولَئِكَ الظَّلَمَةُ الطُّغَاةُ مِنْ سِبْطِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حَتَّى قَتَلُوهُ مَظْلُومًا شَهِيدًا، وَكَانَ فِي خُرُوجِهِ وَقَتْلِهِ مِنَ الْفَسَادِ مَا لَمْ يَكُنْ حَصَلَ لَوْ قَعَدَ فِي بَلَدِهِ، فَإِنَّ مَا قَصَدَهُ مِنْ تَحْصِيلِ الْخَيْرِ وَدَفْعِ الشَّرِّ لَمْ يَحْصُلْ مِنْهُ شَيْءٌ، بَلْ زَادَ الشَّرُّ بِخُرُوجِهِ وَقَتْلِهِ، وَنَقَصَ الْخَيْرُ بِذَلِكَ، وَصَارَ ذَلِكَ سَبَبًا لِشَرٍّ عَظِيمٍ[7]ترجمہ:واضح ہو گیا کہ حقیقت امر وہی تھی جو اصحاب نے کہا تھا[8] اور اس (یزید) کے خلاف خروج میں نہ توکوئی دنیاوی مصلحت تھی اور نہ کوئی اخروی مصلحت ہی موجود تھی بلکہ ممکن ہے سبط رسول اللہ کی جانب سے یہ ظلمت اور بغاوت ہو یہانتک کہ انہوں نے اسے مظلوم شہید کیا اس کے قتل اور خروج کے فساد سے کچھ حاصل نہیں ہوا ۔اگر وہ اپنے شہر میں رہتا (تو اچھا تھا) کیونکہ جس خیر اور دفع شر کا اس نے ارادہ اور قصد کیا تھا ان میں سے اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کے خروج اور قتل سے شر میں اضافہ ہوا اور خیر میں کمی ہوئی اور یہ شر عظیم کا سبب بن گیا۔
فَتَبَيَّنَ أَنَّ الْأَمْرَ عَلَى مَا قَالَهُ أُولَئِكَ، وَلَمْ يَكُنْ فِي الْخُرُوجِ لَا مَصْلَحَةُ دِينٍ وَلَا مَصْلَحَةُ دُنْيَا ، بَلْ تَمَكَّنَ أُولَئِكَ الظَّلَمَةُ الطُّغَاةُ مِنْ سِبْطِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حَتَّى قَتَلُوهُ مَظْلُومًا شَهِيدًا، وَكَانَ فِي خُرُوجِهِ وَقَتْلِهِ مِنَ الْفَسَادِ مَا لَمْ يَكُنْ حَصَلَ لَوْ قَعَدَ فِي بَلَدِهِ، فَإِنَّ مَا قَصَدَهُ مِنْ تَحْصِيلِ الْخَيْرِ وَدَفْعِ الشَّرِّ لَمْ يَحْصُلْ مِنْهُ شَيْءٌ، بَلْ زَادَ الشَّرُّ بِخُرُوجِهِ وَقَتْلِهِ، وَنَقَصَ الْخَيْرُ بِذَلِكَ، وَصَارَ ذَلِكَ سَبَبًا لِشَرٍّ عَظِيمٍ[7]ترجمہ:واضح ہو گیا کہ حقیقت امر وہی تھی جو اصحاب نے کہا تھا[8] اور اس (یزید) کے خلاف خروج میں نہ توکوئی دنیاوی مصلحت تھی اور نہ کوئی اخروی مصلحت ہی موجود تھی بلکہ ممکن ہے سبط رسول اللہ کی جانب سے یہ ظلمت اور بغاوت ہو یہانتک کہ انہوں نے اسے مظلوم شہید کیا اس کے قتل اور خروج کے فساد سے کچھ حاصل نہیں ہوا ۔اگر وہ اپنے شہر میں رہتا (تو اچھا تھا) کیونکہ جس خیر اور دفع شر کا اس نے ارادہ اور قصد کیا تھا ان میں سے اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کے خروج اور قتل سے شر میں اضافہ ہوا اور خیر میں کمی ہوئی اور یہ شر عظیم کا سبب بن گیا۔
گمنام صارف