مندرجات کا رخ کریں

"قاسم بن حسن" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 47: سطر 47:


==شہادت==
==شہادت==
حمید ابن مسلم ازدی (مؤرخ کربلا) کا بیان ہے کہ میں نے ایک ایسے نوجوان کو میدان کارزار کی طرف آتے دیکھا کہ جس کا پیراہن اور لباس کچھ پھٹا ہوا ہے اور عربی نعلین پہنے ہوئے ہے کہ جس کا بایاں تسمہ ٹوٹا ہوا ہے۔


عمر بن سعید بن نفیل ازدی نے مجھے کہا: میں اس پر حملہ آور ہونگا۔ حمید نے کہا: سبحان اللہ ! تمہارا اس سے کیا ارادہ ہے؟ لشکر اس کیلئے کافی ہے۔ لیکن اس نے کہا خدا کی قسم میں اس پر حملہ کروں گا۔ پس اس نے حملہ کیا اور تلوار سے اس کے سر پر وار کیا جس سے اس کے سر میں شگاف پڑ گیا۔ لڑکا چہرے کے بل زمین پر گرا۔ تو اس نے آوازدی: اے میرے چچا ! [[امام حسین|حسین]] ایک باز کی مانند جو بڑی تیزی سے شکار کو دیکھ کر آسمان کی بلندیوں کو چھوڑ کر نیچے جھپٹتا ہے، اس کی طرف لپکے اور آپ نے ایک بپھرے ہوئے شیر کی مانند حملہ کیا۔ عمر نے اپنے آپ کو بچانے کیلئے اپنا بازو آگے کیا تو وہ کہنی سے جدا ہو گیا اور اس نے خود کو حسین سے دور ہٹایا۔ وہ بلند آواز میں چلایا تو لشکر نے اس کی آواز سنی اور اہل کوفہ اسے نجات دینے کیلئے آگے بڑھے تو وہ گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روندا گیا اور مر گیا۔ اللہ اس پر لعنت کرے۔ جب گرد و غبار چھٹا تو میں (حمید بن مسلم) نے دیکھا کہ [[امام حسین|حسین]] اس کے سرہانے کھڑے کہہ رہے ہیں: خدا اس قوم پر لعنت کرے جس نے تمہیں قتل کیا [[قیامت]] کے روز تمہارے جد اس خونخواہی کا بدلہ لیں۔ تمہارے چچا کو اس بات پر افسوس ہے کہ تم نے اسے پکارا تو اس نے جواب نہ دیا یا جواب دیا لیکن وہ تمہارے لئے فائدہ مند نہیں ہے۔ یہ اس شخص کی آواز ہے جس کے خون کے خواہان زیادہ اور مدگار بہت کم ہیں۔ یہ کہہ کر آپ نے قاسم بن حسن کا لاشہ سینے سے لگا کر اٹھایا۔ گویا میں (حمید بن مسلم) دیکھ رہا ہوں کہ اس جوان کے پاؤں زمین پر خط کھینچتے جا رہے ہیں۔ امام نے اس کے لاشے کو [[علی اکبر]]، اہل بیت اور دوسرے شہدا کے ساتھ لٹا دیا۔ میں ( حمید بن مسلم) نے اس لڑکے کے نام کے بارے میں سوال کیا تو مجھے بتایا گیا کہ [[قاسم بن حسن]] بن علی بن ابی طالب ہے۔<ref> معمولی سے اختلاف کے ساتھ: شیخ مفید، الارشاد ج 2 ص 107؛ طبرسی، اعلام الوریٰ  باعلام الہدیٰ ج 1 ص 465؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک ج 5 ص 447 و 448</ref>
[[ابو الفرج اصفہانی]] نے قاسم بن حسن کے قاتل کا نام [[عمرو بن سعید نفیل ازدی]] نقل کیا ہے۔
[[ابو مخنف]] کی [[روایت]] کے مطابق جو انہوں نے [[حمید بن مسلم]] سے نقل کی ہے: حمید ابن مسلم ازدی (مؤرخ کربلا) کا بیان ہے کہ میں نے ایک ایسے نوجوان کو میدان کارزار کی طرف آتے دیکھا جس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی مانند چمک رہا تھا، اس کے ہاتھ میں تلوار تھی، اس نے ایک بلند پیراہن پہنا ہوا تھا، وہ میدان میں داخل ہوا اور اپنے نعلین کا تسمہ باندھنے کے لئے رک گیا۔ اسے بہت سے لوگوں نے گھیرا ہوا تھا مگر اسے پرواہ نہیں تھی۔ اسی وقت عمر بن سعید بن نفیل ازدی نے حمید سے کہا: میں اس پر سخت حملہ کروں گا۔ حمید کہتا ہے: میں اس سے کہا جو لوگ اسے گھیرے ہوئے ہیں وہ اس کے لئے کافی ہیں۔ حمید کہتا ہے کہ خدا کی قسم اگر وہ میرے اوپر حملہ کرے تو میں اس کی طرف ہاتھ نہیں اٹھاوں گا۔ ابن نفیل ازدی کہتا ہے: لیکن میں اس نوجوان پر سخت حملہ کروں گا۔ قاسم جنگ میں مشغول ہوگئے اور ابن نفیل ازدی نے کمین سے ان کے سر پر حملہ کیا اور قاسم کا سر شکافتہ ہوگیا۔ 
 
===شہادت اور امام حسین (ع) کا رد عمل===
 
[[سید بن طاووس]] نے اپنی [[کتاب اللہوف]] میں قاسم بن حسن کی [[شہادت]] اس طرح نقل کی ہے: جس وقت ابن فضیل ازدی نے قاسم کے سر پر تلوار سے حملہ کیا اور ان کا سر شکافتہ ہوگیا۔ قاسم منھ کے بل زمین پر گر گئے اور آواز دی: یا عمّاه! (اے میرے چچا) [[امام حسین|حسین]] ایک باز کی مانند جو بڑی تیزی سے شکار کو دیکھ کر آسمان کی بلندیوں کو چھوڑ کر نیچے جھپٹتا ہے، اس کی طرف لپکے اور آپ نے ایک بپھرے ہوئے غضبناک شیر کی مانند حملہ کیا۔ ابن فضیل ازدی نے اپنے آپ کو بچانے کیلئے اپنا بازو آگے کیا تو وہ کہنی سے جدا ہوگیا۔ وہ بلند آواز میں چلایا تو لشکر نے اس کی آواز سنی اور اہل کوفہ اسے نجات دینے کیلئے آگے بڑھے تو وہ گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روندا گیا اور ہلاک ہوگیا۔ راوی کہتا ہے جب گرد و غبار چھٹا تو میں (حمید بن مسلم) نے دیکھا کہ [[امام حسین|حسین]] اس کے سرہانے کھڑے ہیں۔
 
اور کہہ رہے ہیں: خدا اس قوم پر لعنت کرے جس نے تمہیں قتل کیا [[قیامت]] کے روز تمہارے بابا اور تمہارے جد اس خونخواہی کا بدلہ لیں گے۔ اس کے بعد فرمایا: خدا کی قسم تمہارے چچا کے لئے سخت ہے کہ تم نے اسے پکارا مگر وہ مدد نہیں کر سکا یا مدد کی لیکن وہ تمہارے لئے فائدہ مند نہیں ہے۔ خدا کی قسم آج وہ دن ہے جب تہمارے چچا کے دشمن بہت زیادہ ہیں اور مدگار بہت کم۔
 
یہ کہہ کر آپ نے قاسم بن حسن کا لاشہ سینے سے لگا کر اٹھایا۔ امام نے اس کے لاشے کو اپنے بیٹے [[علی اکبر]] اور [[بنی ہاشم]] کے دوسرے شہدا کے ساتھ لٹا دیا۔ اس کے بعد امام (ع) نے آسمان کی طرف رخ کرکے فرمایا: خدایا، ان سب کو نابود کر دے یہاں تک کہ ان میں ایک بھی باقی نہ رہے۔ اپنی بخشش اور مغفرت کو ہمیشہ کے لئے ان سے دور کر دے۔ اے میرے چچا کے بیٹوں، اے میرے عزیزوں صبر کرو۔ خدا کی قسم، آج کے بعد ہرگز تمہیں ناگواری و پریشانی دیکھنے کو نہیں ملے گی۔


==قاسم کی شادی==
==قاسم کی شادی==
گمنام صارف