مندرجات کا رخ کریں

"غزوہ تبوک" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 33: سطر 33:


==شام سے ملنے والی خبریں==
==شام سے ملنے والی خبریں==
اس زمانے میں [[ایران]] اور [[روم]] دو بڑی طاقتیں تھیں جن کے درمیان طویل جنگیں بھی ہوچکی تھیں لیکن انہیں تیسری بڑی طاقت کا ابھرنا ناقابل برداشت تھا؛ چنانچہ جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں واقع سلطنت روم کے لئے [[فتح مکہ]] اور [[فتح حنین]] کی خبریں اس کے لئے کچھ زيادہ خوش کن نہ تھیں۔ مؤرخین کے بقول سنہ 9 ہجری میں تقریبا پورا [[حجاز]] مسلمانوں کے زیر نگیں آچکا تھا اور بہت سے قبائل چاہتے ہوئے یا حتی نہ چاہتے ہوئے اسلام کا اظہار کرنے لگے تھے؛ لیکن اسلامی حکومت کو اپنی سرحدوں باہر [روم کی جانب سے] خطرات لاحق تھے۔ علاقہ [[شام]] پر روم مسلط ہوچکا تھا اور رومی افواج مسلمانوں کی حدود پر حملہ آور ہونے کی منصوبہ بندی کرنے لگی تھیں۔ آٹا اور گھی فروخت کرنے کی غرض سے [[مدینہ]] آنے والے نبطی [[شام]] کی بعض خبروں سے مسلمانوں کو آگاہ کیا کرتے تھے۔ ایک دن ایک نبطی نے آپؐ کو اطلاع دی کہ رومیوں نے بہت سے لشکر [[شام]] میں فراہم کردیئے ہیں اور ہرقل /  ہراکلیوس عرب کے قبائل "لخم"، "جذام"، "غسان" اور "عاملہ" کو بھی اپنی صفوں میں شامل کرچکا ہے اور وہ خود شام کے شمالی شہر [[حمص]] تک آچکا تھا رومی فوج کے ہراول دستے [[تبوک]] کے شمال میں واقع "بلقاء" میں تعینات کئے گئے ہیں اور رومی اسلامی حکومت کو اپنے لئے خطرناک اور ان کی دشمنی کو خوفناک نہیں سمجھے تھے۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص989ـ990۔</ref>۔<ref>نیز رجوع کریں: ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، قسم1، ص150ـ 151۔</ref>۔</ref>البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص368۔</ref>
اس زمانے میں [[ایران]] اور [[روم]] دو بڑی طاقتیں تھیں جن کے درمیان طویل جنگیں بھی ہوچکی تھیں لیکن انہیں تیسری بڑی طاقت کا ابھرنا ناقابل برداشت تھا؛ چنانچہ جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں واقع سلطنت روم کے لئے [[فتح مکہ]] اور [[فتح حنین]] کی خبریں اس کے لئے کچھ زيادہ خوش کن نہ تھیں۔ مؤرخین کے بقول سنہ 9 ہجری میں تقریبا پورا [[حجاز]] مسلمانوں کے زیر نگیں آچکا تھا اور بہت سے قبائل چاہتے ہوئے یا حتی نہ چاہتے ہوئے اسلام کا اظہار کرنے لگے تھے؛ لیکن اسلامی حکومت کو اپنی سرحدوں باہر [روم کی جانب سے] خطرات لاحق تھے۔ علاقہ [[شام]] پر روم مسلط ہوچکا تھا اور رومی افواج مسلمانوں کی حدود پر حملہ آور ہونے کی منصوبہ بندی کرنے لگی تھیں۔ آٹا اور گھی فروخت کرنے کی غرض سے [[مدینہ]] آنے والے نبطی [[شام]] کی بعض خبروں سے مسلمانوں کو آگاہ کیا کرتے تھے۔ ایک دن ایک نبطی نے آپؐ کو اطلاع دی کہ رومیوں نے بہت سے لشکر [[شام]] میں فراہم کردیئے ہیں اور ہرقل /  ہراکلیوس عرب کے قبائل "لخم"، "جذام"، "غسان" اور "عاملہ" کو بھی اپنی صفوں میں شامل کرچکا ہے اور وہ خود شام کے شمالی شہر [[حمص]] تک آچکا تھا رومی فوج کے ہراول دستے [[تبوک]] کے شمال میں واقع "بلقاء" میں تعینات کئے گئے ہیں اور رومی اسلامی حکومت کو اپنے لئے خطرناک اور ان کی دشمنی کو خوفناک نہیں سمجھے تھے۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص989ـ990۔؛ نیز رجوع کریں: ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، قسم1، ص150ـ 151۔؛البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص368۔</ref>


ایسی روایات بھی منقول ہیں جن میں مذکورہ بالا سبب بیان کئے بغیر کہا گیا ہے کہ '''[[رسول اکرمؐ]] رومیوں سے جنگ کی غرض سے [[مدینہ]] سے عزیمت فرمائی۔<ref>عروة بن زبیر، مغازي رسول اللّه صلی اللّه علیه وآله، ص220۔</ref>۔<ref>الزہري، المغازي النبويۃ، ص106۔</ref>۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص101۔</ref>
ایسی روایات بھی منقول ہیں جن میں مذکورہ بالا سبب بیان کئے بغیر کہا گیا ہے کہ '''[[رسول اکرمؐ]] رومیوں سے جنگ کی غرض سے [[مدینہ]] سے عزیمت فرمائی۔<ref>عروة بن زبیر، مغازي رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہ، ص220۔؛الزہري، المغازي النبويۃ، ص106۔؛الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص101۔</ref>


یعقوبی نے لکھا ہے کہ اس مہم سے [[رسول اللہؐ]] کا مقصود [[جعفر بن ابی طالب]] کے خون کا انتقام لینا تھا۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج2، ص67۔</ref> جو [[جنگ موتہ|جنگ مؤتہ]] میں شہید ہوئے تھے۔ بہر صورت مسلمانوں کے درمیان مشہور یہی تھا کہ یہ جنگ "بنو الاصفر" کے خلاف ہے۔<ref>ابن ابي شيبۃ، المصنف، ج7، ص423۔</ref>
یعقوبی نے لکھا ہے کہ اس مہم سے [[رسول اللہؐ]] کا مقصود [[جعفر بن ابی طالب]] کے خون کا انتقام لینا تھا۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج2، ص67۔</ref> جو [[جنگ موتہ|جنگ مؤتہ]] میں شہید ہوئے تھے۔ بہر صورت مسلمانوں کے درمیان مشہور یہی تھا کہ یہ جنگ "بنو الاصفر" کے خلاف ہے۔<ref>ابن ابي شيبۃ، المصنف، ج7، ص423۔</ref>
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,096

ترامیم